حقوق ذمّہ
(مولانا مودودیؒ کی تصانیف سے جناب نعیم صدیقی صاحب نے اپنے کتابچے ’’دو دستوری خاکے‘‘۱؎ میں دفعہ وار مرتب کیے ہیں)
دفعہ(۱۵) جو شخص اس ریاست کے اصولِ حاکمیت وخلافت اور اس کے قاصد سے کلّی اتفاق نہ رکھتا ہو، وہ ریاست کے حدود میں ذمّی کی حیثیت سے رہ سکے گا جب کہ وہ اس ریاست کی وفاداری اور اس کے قانونِ ملکی کی اطاعت کا اقرار کرے۔
دفعہ(۱۶) ریاست ذمّیوں کی بنیادی انسانی حقوق اور حقوقِ عامہ کے علاوہ وہ تمام حقوق دے گی، جو شریعت نے اُن کے لیے مقرر کیے ہیں، ان حقوق کو سلب کرنے یا ان میں کمی کرنے کا اختیار کسی کو نہ ہو گا۔ البتہ ریاست کو اختیار ہو گا کہ اگر وہ مناسب سمجھے تو ان حقوق کے علاوہ کچھ مزید حقوق بھی انہیں دے۔ بشرطیکہ یہ اضافہ اسلامی اصولوں سے متصادم نہ ہو۔
دفعہ(۱۷) جب کسی ذمّی کو ازروئے دستور حقوقِ ذمّہ حاصل ہو چکے ہوں یا دئیے جا چکے ہوں تو اُسے ذمّہ سے خارج نہ کیا جا سکے گا۔ اِلّا یہ کہ یا تو وہ خود ہی اپنے خروج کا اعلان کرے یا عملاً کسی صریح غداری کا ارتکاب کرکے اپنے اقرارِ وفاداری کی نفی کر دے۔
دفعہ(۱۸) بنیادی انسانی حقوق اور حقوقِ عامّہ میں ذمّیوں اور مسلمانوں کے درمیان مساوات ملحوظ رکھی جائے گی۔
(ب) فوجداری اور دیوانی قوانین میں بھی مسلم اور ذمّی کے درمیان کامل مساوات ہو گی۔
(ج) ذمّیوں کے امصار ۲؎ مسلمین کے سوا ہر جگہ اپنی مذہبی عمارات تعمیر کرنے اور اپنے مذہبی مراسم اظہار و اعلان کے ساتھ ادا کرنے کے حقوق حاصل رہیں گے۔
(د) مذبیوں کو حق ہو گا کہ اپنے ہم مذہبوں کو اپنے بچوں کو اپنے اپنے مذہب کی تعلیم دیں‘ وہ غیر مسلم آبادی میں اپنے مذہب کی تبلیغ بھی کر سکیں گے اور انہیں یہ حق بھی ہو گا کہ قانون کے حدود میں اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کریں یا اسلام پر تنقید کریں۔
(ہ) ذمّیوں کے تمام شخصی اور نجی معاملات ان کے پرسنل لاء کے تحت تصفیہ پذیر ہونگے۔ اسلامی قانون اُن پر نافذ نہیں کیا جائے گا اِلّا یہ کہ وہ خود اس کا مطالبہ کریں۔ البتہ جہاں مسلم و ذمّی کے درمیان تنازع ہو گا وہاں فیصلہ ملکی قانون کے تحت ہو گا۔
(و) ذمّیوں پراصولاً دفاعِ ملک کی ذمّہ داری نہ ہو گی، اِلّا یہ کہ ان میں سے کوئی بطورِ خود فوجی خدمت کے لیے اپنے آپ کو پیش کرے۔ اس ذمّہ داری کے عوض ان سے مصارفِ دفاع کے لیے حسبِ حیثیت ٹیکس وصول کیا جائے گا۔ مگر یہ ٹیکس صرف قابلِ جنگ مردوں ہی پر لگایا جائے گا۔ عورتیں، بچے، بوڑھے، اپاہج اور تارک الدنیا وغیرہ اس سے مستثنیٰ ہوں گے اور وہ لوگ بھی مستثنیٰ ہوں گے جو قومی خدمت انجام دیں۔
(۸) ذمّیوں کی تہذیبی خود اختیاری
(نوٹ) یہ حق اگرچہ ان حقوق میں سے نہیں ہے، جو شریعت کی رُو سے ہر اسلامی دستور میں شامل ہونے چاہئیں۔ مگر اصول اسلام کے مطابق یہ حق ذمّیوں کودیا جا سکتا ہے۔
دفعہ(۱۹) ذمّیوں کو دستور کی حدود کے اندر تہذیبی خود اختیاری (Cultural Autonomy) حاصل ہو گی۔ اس مقصد کے لیے وہ اپنے منتخب نمائندوں کی ایک ایسی اسمبلی مرتب کر سکیں گے جس کے فرائض حسبِ ذیل ہوں۔
(ا) ذمّیوں کے تہذیبی اور مذہبی ادارات کی نگرانی۔
(ب) ذمّیوں کے مطالبات اور شکایات کو حکومت کے سامنے پیش کرنا۔
(ج) حکومت کے نظم و نسق پر تنقید اور عام ملکی مسائل کے بارے میں اپنے خیالات اور تجاویز کا اظہار۔
(د) ذمّیوں کے مجلسی و تہذیبی مسائل اورپرسنل لا کے بارے میں قوانین کے لیے سفارشات مرتب کرنا جو مجلسِ شوریٰ کے غور اور منظوری کے بعد قانون کی شکل اختیار کر سکیں گی۔