Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

عرضِ ناشر
قرار داد
ضمیمہ
تقریر
نکتۂ اوّل
نکتۂ دوم
نکتۂ سوم
نکتۂ چہارم
نکتۂ پنجم
نکتۂششم
نکتۂ ہفتم
نکتۂ ہشتم
نکتۂ نہم ودہم

تحریک اسلامی کا آئندہ لائحہ عمل

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

ضمیمہ

وہ پروگرام جس کا ذکر اس قرار داد کے پیرا گراف نمبر ۳ میں کیا گیا ہے حسب ذیل ہے:
۱۔ جماعت کی اندرونی اصلاح کا پروگرام
۱۔ تمام مقامی جماعتیں اس امر کا خاص اہتمام کریں کہ اگر ان کے ارکان اور رفقائے جماعت کے درمیان کوئی نزاع پیدا ہو جائے تو اسے ہرگز پرورش پانے نہ دیا جائے بلکہ علم میں آتے ہیں فورًااسے دور کرنے کی کوشش کی جائے۔
۲۔ جس حلقہ کی کسی ماتحت جماعت میں کوئی خرابی رونما ہو، اس کے نظم کو جلدی سے جلدی خود اس کی اصلاح کی کوشش کرنی چاہیے اور اس کو کسی بیرونی مدد کی ضرورت ہو تو ضلع اور حلقے کے نظم سے مدد طلب کرنی چاہیے۔
۳۔ ہر حلقہ کی جماعت اپنے حلقہ کے عمدہ کارکنوں کی ایک ٹیم مقرر کر لے جس سے بوقت ضرورت اصلاحِ حال اور کم زور علاقوں میں کام کو آگے بڑھانے کے لیے کام لیا جائے۔
۴۔ جہاں کسی حلقے کے نظم کی حالت خود قابل اصلاح ہو، وہاں مرکز کی ہدایات کے تحت اصلاحِ حال کے لیے باہر سے کارکن بھیجے جائیں جو حالات کا مطالعہ کرکے خرابی کے اسباب متعین اور اصلاح کی تدابیر تجویز کریں اور انھیں عملی جامہ پہنانے کی صورتیں اختیار کریں۔ اس غرض کے لیے ایک مرکزی ٹیم بھی مقرر کی جائے جس کے ارکان جہاں بھی اس طرح کی کوئی ضرورت پیش آئے، بروقت بھیج دئیے جائیں اور انھیں اصلاحِ حال کے لیے تمام مناسب اقدام کرنے کا پورا اختیار ہو۔
۵۔ جماعت کے اندر خرابیوں کے در آنے کی ایک بڑی وجہ محاسبہ کی کمی ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ مقامی، ضلعی اور حلقوں کے ہفتہ وار، سہ ماہی اور شش ماہی اجتماعات پابندی کے ساتھ منعقد کیے جائیں اور ان میں ارکان کی اَخلاقی ودینی حالت، ان کے معاملات اور جماعت کے نظم میں ان کے طرزِ عمل کا اچھی طرح محاسبہ کیا جاتا رہے۔ اور اگر کوئی کارکن اصلاح کی تمام کوششوں کے باوجود درست نہ ہو تو جماعت سے اس کے اخراج کی کارروائی میں بے جا تساہل سے کام نہ لیا جائے۔
۶۔ کارکنوں کی تربیت کے لیے تربیت گاہیں خاص اہتمام کے ساتھ برابر قائم کی جاتی رہیں اور تربیت گاہوں کے اختتام کے بعد بھی اس امر کا اہتمام کیا جائے کہ کارکنانِ جماعت قرآن وحدیث اور دینی لٹریچر کا برابر مطالعہ کرتے رہیں۔ تربیت کے طریقے میں اب تک کے تجربات کو ملحوظ رکھ کر جن اصلاحات کی ضرورت محسوس کی جائے وہ مختلف حلقوں کی مجالسِ شُورٰی کی طرف ۱۵، اپریل ۵۷ء تک مرکز میں بھیج دی جائیں تاکہ مرکزی مجلسِ شُورٰی ان پر غور کرکے تربیت کا ایک بہتر نظام تجویز کر سکے۔
۷۔ مشرقی پاکستان کے کارکنوں کی تربیت کی طرف خاص توجہ کی جائے اور اس حد تک انھیں تیار کر دیا جائے کہ وہ اپنے حلقے میں تربیت کا کام خود سنبھال سکیں۔
۲۔ علمی وفکری میدان میں کام کا پروگرام
۱۔ جماعت کا تمام ضروری لٹریچر ۱۹۵۸ء کے اختتام تک انگریزی میں منتقل کر دیا جائے۔
۲۔ علمی تحقیقات کی تربیت کا ایک ادارہ قائم کیا جائے اور جب تک ایسا ادارہ قائم نہ ہو سکے، اس وقت تک جماعت کے ان کارکنوں سے جو اچھی علمی صلاحیتیں رکھتے ہوں، مختلف شعبوں میں کام لینے کی کوشش کی جائے اور ایسے کارکنوں پر جماعت کی دوسری سرگرمیوں کا بار نہ ڈالا جائے۔
۳۔ ایک ایسے ادارے کا قیام عمل میں لایا جائے جو اِسلام سے متعلق ضروری کتابیں اردو میں منتقل کرے۔
۴۔ خواتین کے لیے ایک ایسے ادارے کا قیام عمل میں لایا جائے جو تعلیم وتربیت کا کام بھی کرے اور اسی کا ایک شعبہ خواتین کے لیے لٹریچر بھی تیار کرے۔
۵۔ مسئلہِ قومیت، پردہ، تنقیحات، دعوت دین اور اس کا طریقِ کار، سود حصہ اوّل ودوم، اِسلامی تہذیب اور اس کے اصول ومبادی اور تفہیم القرآن جلد اوّل ودوم کو ۱۹۵۸ء کے آخر تک لازماً بنگلہ میں منتقل کرکے شائع کر دیا جائے (ان میں سے بعض کتابیں زیرِ تکمیل ہیں اور تفہیم القرآن کا ترجمہ بالاقساط ہفتہ وار توحید کھلنا میں شائع ہو رہا ہے)۔
۶۔ ترجمان القرآن کا بنگلہ ایڈیشن ڈھاکہ سے شائع کیا جائے۔ (سردست ’’جہانِ نو‘‘ کے نام سے ایک ہفتہ وار اخبار ڈھاکہ سے جاری کر دیا گیا ہے)
۷۔ ایک ایسا دارالعلوم قائم کیا جائے جس میں ضروری ترمیم اور علوم جدیدہ کے ضروری اضافے کے ساتھ درس نظامی کی تعلیم اور اَخلاقی تربیت کا انتظام ہو۔ (اس دارالعلوم کا افتتاح ۱۶ شوال ۱۳۷۵ھ مطابق ۲۷ مئی ۱۹۵۶ء کو ڈیپر ضلع حیدر آباد میں کر دیا گیا ہے)۔
۸۔ جہاں جہاں حالات ساز گار ہوں ایسے پرائمری اسکول قائم کیے جائیں جن میں محکمہ تعلیم کے مقرر کردہ نصاب کے ساتھ دینی تعلیم اور اَخلاقی تربیت کا عمدہ انتظام ہو۔ (اس طرح کے مدارس لاہور، لائل پور اور کوئٹہ میں اس وقت چل رہے ہیں)۔
۹۔ تعلیمِ بالغاں کے لیے جگہ جگہ مراکز قائم کیے جائیں۔ تعلیم یافتہ ارکان اور متفقین سے اس کام کے لیے وقت لیا جائے اور ۱۹۵۸ء کے اختتام تک کم از کم ۲۵ ہزار ناخواندہ آدمیوں کو خواندہ بنایا جائے۔ خواندگی کا کم از کم معیار یہ ہونا چاہیے کہ آدمی اردو لکھ پڑھ سکے، قرآن مجید ناظرہ پڑھنے کے قابل ہو جائے اور قرآن مجید کی کم از کم ان سورتوں کا ترجمہ سیکھ لے جو بالعموم نمازوں میں پڑھی جاتی ہیں۔ اس کے ساتھ یہ کوشش بھی کی جائے کہ ان بالغ طالب علموں کی دینی واَخلاقی حالت عملاً درست ہو اور ان میں اپنے گَرد وپیش کے معاشرے کی اصلاح کے لیے کام کرنے کا جذبہ پیدا ہوجائے۔ (تعلیمِ بالغاں کے سلسلے میں راہ نُمائی اور مفصل طریق کار تجویز کرنے کے لیے جوکمیٹی بنائی گئی تھی اس کی رپورٹ تمام جماعتوں کو آغاز کار کے لیے بھیجی جا چکی ہے۔ کئی مقامات پر تعلیم بالغاں کے مراکز قائم بھی ہو چکے ہیں)۔
۱۰۔ ۱۹۵۸ء کے آخر تک مغربی پاکستان میں دارالمطالعوں کی تعداد پانچ سو تک بڑھا دی جائے۔
۳۔ توسیعِ جماعت کا پروگرام
۱۹۵۸ء کے آخر تک مغربی پاکستان میں جماعتِ اِسلامی کے متفقین کی تعداد چالیس ہزار تک اور مشرقی پاکستان میں دس ہزار تک پہنچا دی جائے۔
۴۔ عوامی اصلاح وتربیت کا پروگرام
تمام جماعتوں، حلقہ ہائے متفقین اور دوسرے کارکنان جماعت کا فرض ہے کہ وہ اپنے حالات اور وسائل کے مطابق حسبِ ذیل قسم کے کاموں کو اپنے ہاں زیادہ سے زیادہ کرنے کی کوشش کریں۔
۱۔ جماعت کی بنیادی دعوت کو وسیع پیمانے پر پھیلانا۔
(اس سلسلے میں تمام کارکنوں کو یہ بات پیش نظر رکھنی چاہیے کہ جماعتِ اِسلامی کا اصل کام جس پر تمام دوسری سرگرمیوں کی بِنا قائم ہوتی ہے، عوام الناس کو اطاعتِ خدا اور رسول کی طرف بلانا، آخرت کی باز پرس کا احساس دلانا، خیر وصلاح اور تقوٰی کی تلقین کرنااور اِسلام کی حقیقت سمجھانا ہے۔ یہ کام لٹریچر، تقریر، تعلیم، زبانی گفتگو اور تمام ممکنہ ذرائع سے وسیع پیمانے پر ہونا چاہیے)
۲۔ مساجد کی اصلاح حال
(اس میں مسجدوں کی تعمیر، ان کی مرمت، ان کے لیے فرش، پانی اور دوسری ضروریات اور آسائشوں کی فراہمی نیز اذان، نماز باجماعت، امام، درس وتدریس اور خطبات جمعہ وغیرہ جملہ امور کا اطمینان بخش انتظام شامل ہے۔ اگر لوگ مسجد کی اہمیت اور اس کے مقام کو سمجھنے لگیں تو بستی اور محلہ میں مسجد سے زیادہ دل کش جگہ اور کوئی نہ ہو۔)
۳۔ عوام میں علم دین پھیلانا۔
(ظاہر ہے کہ دین کے علم کے بغیر آدمی دین کی راہ پر نہیں چل سکتا۔ اگر اتفاق سے چل رہا ہے تو اس کے ہر آن بھٹک جانے کا اندیشہ ہے۔ اگر لوگ نہ دین کو جانیں اور نہ اس پر چلیں تو اِسلامی نظام کا خواب کبھی حقیقت کی شکل اختیار نہیں کر سکتا۔ اس لیے دین خود بھی سیکھئے اور دوسروں کو بھی سکھانے کا انتظام کیجئے۔ دوسروں تک اسے پہنچانے کے لیے گفتگو، مذاکرات، تقاریر، خطبات، درس، اجتماعی مطالعہ، تعلیم بالغاں، دارالمطالعوں اور اِسلامی لٹریچر کی عام اشاعت اور تقسیم کو ذریعہ بنائیے۔ یاد رکھیے کہ دین کا علم پھیلانا ان کاموں میں میں سے ہے جو صدقہ جاریہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔)
۴۔ غنڈہ گردی کے مقابلے میں لوگوں کی جان ومال اور آبرو کی حفاظت کرنا، عام طور پر لوگوں کو ظلم وستم سے بچانا، شہریوں کے اندر اَخلاقی فرائض اور ذمّہ داریوں کے احساس کو بیدارکرکے ان کی ادائیگی پر انھیں آمادہ کرنا اور شہروں اور دیہات کی اَخلاقی حالت کو درست کرنا۔
(صدیوں کے انحطاط کے نتیجے میں ہمارے معاشرے میں اب بدی اور برائی منظم، بے باک، جری اور ایک دوسرے کی پشت پناہ بن چکی ہے اور نیکی اور شرافت اب انتشار، پست ہمتی، بزدلی اور کم زوری کے ہم معنی ہو کر رہ گئی ہے۔ اس صورتِ حال کو پھر سے بدلنا ہے اورنیکی اور شرافت کو منظم، بے باک اور نڈر بنا کر اسے معاشرے کے ہر گوشے میں حکمراں طاقت کی حیثیت دینا ہے)۔
۵۔ سرکاری محکموں اور اداروں سے عام لوگوں کی شکایات رفع کرانے میں ان کی امداد کرنا اور داد رسی حاصل کرنے میں ان کی راہ نُمائی کرنا۔
۶۔ بستی کے یتیموں، بیوائوں، معذوروں اورغریب طالب علموں کی فہرستیں تیار کرنا اور جن جن طریقوں سے ممکن ہو ان کی مدد کرنا۔ اس غرض کے لیے زکوٰۃ، عشر اور صدقات کی رقوم کی تنظیم اور بیت المال کے ذریعے ان کی تحصیل اور تقسیم کا انتظام کرنا چاہیے۔
۷۔ دیہات اور محلو ں میں تعلیم بالغاں کے مراکز اور دارالمطالعوں کا قیام اور عام لوگوں میں ان سے استفادہ کا شوق پیدا کرنا۔
۸۔ فواحش کی روک تھام اور ان کے خلاف عوامی ضمیر اور احساسِ شرافت کو بیدارکرنا۔
(فواحش کے سلسلے میں کسی ایک ہی گوشے پر نظر محدود نہیں کر دینی چاہیے۔ بلکہ اس کے تمام سرچشموں پر نگاہ رکھنی چاہیے۔ مثلاً قحبہ خانے، شراب خانے، سینما کی پبلسٹی، دکانوں پر عریاں تصاویر کے سائن بورڈ، ٹورنگ اور تھیٹریکل کمپنیاں، مخلوط تعلیم، اخبارات میں فحش اشتہارات اور فلمی مضامین، ریڈیو پر فحش گانوں کے پروگرام، دکانوں اور مکانوں پر فحش گانوں کی ریکارڈنگ، قمار بازی کے اڈے، رقص کی مجالس، فحش لٹریچر اور عریاں تصاویر، جنسی رسائل، آرٹ اور کلچر کے نام سے بے حیائی پھیلانے والی سرگرمیاں، مینا بازار، عورتوں میں روز افزوں بے پردگی کی وبا۔)
۹۔ رشوت وخیانت اور سفارش کی لعنت کے خلاف رائے عام کو منظم کرنا اور سرکاری حکام اور ماتحت کارکنوں میں خدا ترسی، فرض شناسی اور آخرت کی جواب دہی کا احساس بیدار کرنے کی کوشش کرنا۔
(اس غرض کے لیے ان حلقوں میں ’’اِسلامی ریاست میں کارکنوں کی ذمّہ داریاں اور اوصاف کی عام اشاعت کی جائے اور اس بات کی کوشش کی جائے کہ عدالتوں، تھانوں اور دوسرے سرکاری دفاتر میں قرآن مجید اور حدیث شریف اور اِسلامی لٹریچر میں سے مناسب حال آیات، احادیث اور عبارتیں کتبوں کی شکل میں آویزاں کی جائیں)۔
۱۰۔ مذہبی جھگڑوں اور تفرقہ انگیزی کا انسداد۔
(اس کے لیے مختلف جماعتوں کے مذہبی پیشوائوں سے ملاقاتیں کرکے انھیں اس کے برے نتائج سے باخبر کیا جائے کہ یہ چیز کس طرح اس ملک سے اِسلام کی جڑیں اکھاڑ دینے والی ہے اور اسے کس طرح ملک کے ذہین طبقہ کے اندر علما اور مذہب کے خلاف نفرت پھیلانے کے لیے مخالفِ اِسلام عناصر کی طرف سے استعمال کیا جا رہا ہے۔ نیز عام پبلک کو بھی مناسب مواقع پر اس کے نتائج سے باخبر کیا جائے اور ان سے اپیل کی جائے کہ وہ اس قسم کے فتنوں کی سرپرستی سے بالکل کنارہ کش رہیں)
۱۱۔ بستی کے عام لوگوں کے تعاون سے صفائی اور حفظانِ صحت کی کوشش کرنا۔
(اگر لوگ صحت وصفائی کے سلسلے میں معمولی احتیاط بھی برتنا شروع کر دیں تو وہ بہت سی وبائوں اور بیماریوں سے اپنے آپ کو اور دوسرے شہریوں کو محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ بہت سی احتیاط اور تدابیر ایسی ہیں جن پر یا تو کچھ بھی خرچ نہیں ہوتا یا بہت معمولی خرچ ہوتا ہے۔ جماعت کے کارکنوں کو چاہیے کہ اس سلسلے میں بھی عوام کی اصلاح وتربیت کریں۔ اس بارے میں ضروری راہ نُمائی کے لیے وہ ناظم شعبہِ خدمتِ خلق جماعتِ اِسلامی پاکستان کی معرفت جماعتِ اِسلامی کراچی اور اپنے ضلع کے ہیلتھ افسر کی طرف رجوع کر سکتے ہیں)
اس پروگرام کے مطابق کام کرتے ہوئے جماعت کے کارکنوں کو یہ بات نگاہ میں رکھنی چاہیے کہ ہمیں ہر گوشہِ زندگی میں اِسلام کے مطابق پورے معاشرے کی اصلاح کرنی ہے اور اسی پروگرام کو بتدریج ہمہ گیر اصلاح کا پروگرام بنا دینا ہے۔ کارکنوں کو اس امر کی کوشش بھی کرنی چاہیے کہ وہ اصلاحِ معاشرہ کے اس کام میں اپنے اپنے علاقوں کے تمام اِسلام پسند اور اصلاح پسند عناصر کا تعاون حاصل کریں اور جو کوئی جس حد تک بھی ساتھ دے سکتا ہو اسے اس عام بھلائی کی خدمت میں شریک کریں۔

شیئر کریں