تعمیر سیرت کے ساتھ ساتھ نماز انسان میں ضبط نفس (control)کی طاقت بھی پیدا کرتی ہے جس کے بغیر سیرت کا مدعا حاصل نہیں ہوسکتا۔ تعمیر سیرت کاکام بجائے خود اتنا ہے کہ یہ انسانی خودی (human ego)کو تربیت دے کر مہذب بنا دیتی ہے۔ لیکن اس تربیت یافتہ خودی کو ان جسمانی اور نفسانی قوتوں پر، جو اس کے لیے آلہ کی حیثیت رکھتی ہیں، عملاً پورا قابو حاصل نہ ہو تو اس کی تربیت و تہذیب کا مقصود، یعنی صحیح برتائو اور ٹھیک چلن (right conduct)حاصل نہیں ہوسکتا۔ ایک مثال کے پیرایہ میں اسے یوں سمجھیے کہ انسان ایک موٹر اور ایک ڈرائیور کے مجموعہ کا نام ہے۔ یہ مجموعہ ٹھیک کام اسی حالت میں کرسکتا ہے جب کہ موٹر کے تمام آلات اور اس کی تمام طاقتیں ڈرائیور کے قابو میں ہوں، اور ڈرائیور مہذب، تربیت یافتہ اور واقف راہ ہو۔ اگر آپ نے ڈرائیور کو تربیت دے کر تیار کر دیا، مگر اسٹیرنگ، بریک اور ایکسلریٹر پوری طرح اس کے قابو میں نہ آئے، یا آئے تو سہی مگر ڈھیلے رہے تو اس صورت میں ڈرائیور موٹر کو نہ چلائے گا بلکہ موٹر ڈرائیور کو چلائے گی، اور چونکہ موٹر صرف چلنا جانتی ہے، بینائی، تمیز اور راستہ کی واقفیت نہیں رکھتی، اس لیے جب وہ ڈرائیور کو لے کر چلے گی تو اوندھے سیدھے راستوں پر جدھر چاہے گی اسے کھینچے کھینچے پھرے گی۔اس مثال کے مطابق انسان کی جسمانی طاقتیں، اس کی نفسانی خواہشات اور ذہنی قوتیں موٹر کے حکم میں ہیں، اور اس کی خودی ڈرائیور کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ موٹر ویسی ہی جاہل ہے جیسی لوہے والی موٹر ہوتی ہے، مگر وہ بے جان ہے اور یہ جان دار۔ یہ خواہشات، جذبات اور داعیات بھی رکھتی ہے اور ہر وقت کوشش کرتی رہتی ہے کہ ڈرائیور اسے نہ چلائے، یہ ڈرائیور کو چلائے۔ تمام انبیاء علیہم السلام کی تعلیم کا مقصود ڈرائیور کو اس طرح تیار کرنا ہے کہ وہ اس موٹر کو اپنے اوپر سوار نہ ہونے دے بلکہ خود اس پر سوار ہو اور اسے اپنے اختیار سے چلا کر اس سیدھی شاہ راہ پر سفر کرے جو منزل مقصود کی طرف جاتی ہے۔ اس غرض کے لیے صرف یہی بات کافی نہیں ہے کہ ڈرائیور کو راستہ کا علم، موٹر کا طریق استعمال، مقصد استعمال، اور فی الجملہ ڈرائیوری کے آداب سکھا کر ایک مہذب اور تربیت یافتہ ڈرائیور بنا دیا جائے، بلکہ اس کی بھی ضرورت ہے کہ اسٹیرنگ، بریک اور ایکسلریٹر ہر وقت مضبوطی کے ساتھ کسے ہوئے رکھے جائیں اور ڈرائیور کی گرفت ان پر ڈھیلی نہ ہونے پائے، کیوں کہ یہ منہ زور موٹر ہر وقت بے راہ روی کے لیے زور لگا رہی ہے۔
نماز میں دعائوں اور تسبیحوں کے ساتھ اوقات کی پابندی، طہارت وغیرہ کی شرائط اورجسمانی حرکات کا جوڑ اسی لیے لگایا گیا ہے کہ ڈرائیور اپنی موٹر پر پوری طرح قابو یافتہ رہے اور اسے اپنے ارادے کے تحت چلانے میں مشاق ہو جائے۔ اس طریقہ سے موٹر کی منہ زوری روزانہ پانچ وقت توڑی جاتی ہے، بریک کسے جاتے ہیں، ایکسلریٹر اور اسٹیرنگ مضبوط کیے جاتے ہیں، اور ڈرائیور کی گرفت مستحکم کی جاتی ہے، صبح کا وقت ہے، نیند مزے سے آرہی ہے، آرام طلب نفس کہتا ہے پڑے رہو، اب کہاں اٹھ کر جائو گے۔ نماز کہتی ہے کہ وقت آچکا ہے، سیدھی طرح اٹھو، غسل کی حاجت ہے تو نہائو، ورنہ وضو کرو، جاڑے کا موسم ہے تو ہوا کرے، پانی گرم نہیں ہے، نہ سہی، ٹھنڈے پانی ہی سے طہارت حاصل کرو، اور چلو مسجد کی طرف۔ ان دو متضاد مطالبوں میں سے اگر آپ نے نفس کے مطالبے کو پورا کر دیا تو موٹر آپ پر سوار ہوگئی۔ اگر نماز کے مطالبہ کو پورا کیا تو آپ موٹر پر سوار ہوگئے۔ اسی طرح ظہر، عصر، مغرب، عشا ہر وقت نفس کسی نہ کسی مشغولیت، فائدے، نقصان، لطف، لذت، مشکلات وغیرہ کے بہانے نکالتا ہے، موقع ڈھونڈتا رہتا ہے کہ ذرا آپ کے اندر کم زوری پیدا ہو اور یہ آپ پر سوار ہو جائے۔ مگر نماز ہر موقع پر آپ کے لیے تازیانہ بن کر آتی ہے، آپ کی اونگھتی ہوئی قوت ارادی کو جگاتی ہے، اور آپ سے مطالبہ کرتی ہے کہ اپنی موٹر کو اپنے حکم کا تابع بنائو، اس کے غلام بن کر نہ رہ جائو۔ یہ معرکہ روز پیش آتا ہے۔ مختلف اوقات، مختلف حالتوں اور مختلف صورتوں میں پیش آتا ہے۔ کبھی سفر میں اور کبھی حضر میں، کبھی گرمی میں اور کبھی جاڑے میں۔ کبھی آرام کے وقت اور کبھی کاروبار کے وقت۔ کبھی تفریح کے موقع پر اور کبھی رنج و غم اور مصیبت کے موقع پر۔ ان بے شمار مختلف النوع حالتوں میں نفس کی طلب اور نماز کی پکار کے مابین کش مکش ہوتی ہے، اور آپ آزمایش میں ڈالے جاتے ہیں۔ نفس کی بات آپ نے مانی تو شکست کھا گئے۔ خادم آپ کا آقا بن گیا۔ اندھی، جاہل موٹر کے قابو میں آپ نے اپنے آپ کو دے دیا۔ اب یہ ٹیڑھے بینگے راستوں پر آپ کو لیے لیے پھرے گی اور آپ بے بسی کے عالم میں اس کے ساتھ ساتھ پھرتے رہیں گے۔ بخلاف اس کے اگر آپ نماز کا مطالبہ پورا کرتے رہے تو آپ اس موٹر کا باغیانہ زور توڑ دیں گے۔ اس پر حکم ران بن جائیں گے اور آپ میں یہ طاقت پیدا ہو جائے گی کہ اپنے علم و اذعان اور اپنے ارادے کے مطابق اس کے کل پرزوں اور اس کی قوتوں سے کام لیں۔
اسی بنا پر قرآن نے نماز کے ضائع کرنے کا فوری اور لازمی نتیجہ یہ بیان کیا ہے کہ آدمی شہوات اور خواہشات کا تابع بن جاتا ہے اور سیدھے راستے سے ہٹ کر ٹیڑھے راستوں میں بھٹکتا چلا جاتا ہے۔
فَخَــلَفَ مِنْۢ بَعْدِہِمْ خَلْفٌ اَضَاعُوا الصَّلٰوۃَ وَاتَّـبَعُوا الشَّہَوٰتِ فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّاo مریم 59:19
پھر ان کے بعد ایسے ناخلف لوگ آئے جنھوں نے نماز کو ضائع کیا اور خواہشات کے پیچھے پڑ گئے۔ لہٰذا عنقریب وہ کج راہی میں مبتلا ہوں گے۔