Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

دیباچۂ طبع اوّل
عرض ناشر
حقیقت عبادت
نماز
فرض شناسی
تعمیر سیرت
ضبط ِ نفس
افراد کی تیاری کا پروگرام
تنظیمِ جماعت
نماز باجماعت
مسجد میں اجتماع
صف بندی
اجتماعی دُعائیں
امامت
روزہ
روزے کے اثرات
اِحساس بندگی
اِطاعت امر
تعمیر سیرت
ضبط نفس
انفرادی تربیت کا اجمالی نقشہ
روزے کا اجتماعی پہلو
تقوٰی کی فضا
جماعتی احساس:
امداد باہمی کی روح

اسلامی عبادات پر تحقیقی نظر

ریڈ مودودی ؒ کی اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

ضبط نفس

اس تربیت کے ضابطہ میں کسنے کے لیے صرف دو خواہشوں کو منتخب کیا گیا ہے یعنی شہوت شکم اور شہوتِ فرج۔ اور ان کے ساتھ ایک تیسری خواہش… آرام لینے کی خواہش بھی زد میںآگئی ہے کیوں کہ تراویح کے قیام اور سحری کے لیے آخر شب میں مزے کی نیند توڑ کر اٹھنے کی وجہ سے اس پر بھی اچھی خاصی ضرب پڑتی ہے۔
حیوانی زندگی کے مطالبات میں یہ تین مطالبے اصل و بنیاد کا حکم رکھتے ہیں:
بقائے نفس کے لیے غذا کا مطالبہ۔
بقائے نوع کے لیے صنف مقابل سے اتصال کا مطالبہ۔
اپنی کھوئی ہوئی طاقتوں کو بحال کرنے کے لیے آرام کا مطالبہ۔
انھی تین ضرورتوں کا تقاضا تمام حیوانی خواہشات کا مبدا اور تمام حیوانی اعمال کا محرک ہے اور یہ تقاضا اتنا طاقت وَر ہے کہ حیوان جو کچھ کرتا ہے اسی کے زور سے مجبور ہو کر کرتا ہے۔
انسان کو خدمت گار اور آلۂ کار کی حیثیت سے جو بہترین ساخت کا حیوان (جسم) دیا گیا ہے، اس کے بنیادی مطالبات بھی یہی تین ہیں اور چونکہ وہ تمام حیوانات سے اونچی قسم کا حیوان ہے اس لیے اس کے مطالبات بھی ان سب سے بڑھے ہوئے ہیں۔ وہ صرف زندہ رہنے کے لیے غذا ہی نہیں مانگتا بلکہ اچھی غذا مانگتا ہے۔ طرح طرح کی مزے دار غذائیں مانگتا ہے، غذائی مواد کی ترکیبوں کا مطالبہ کرتا ہے اور اس کے اس مطالبہ میں سے اتنی شاخیں نکلتی چلی جاتی ہیں کہ اسے پورا کرنے کے لیے ایک دنیا کی دنیا درکار ہوتی ہے۔ وہ صرف بقائے نوع کے لیے صنف مقابل سے اتصال ہی کا مطالبہ نہیں کرتا، بلکہ اس مطالبہ میں ہزار نزاکتیں اور ہزار باریکیاں پیدا کرتا ہے۔ تنوع چاہتا ہے، حسن چاہتا ہے، آرائش کے بے شمار سامان چاہتا ہے، طرب انگیز سماں اور لذت انگیز ماحول چاہتا ہے، غرض اس سلسلہ میں بھی اس کے مطالبات اتنی شاخیں نکالتے ہیں کہ کہیں جاکر ان کا سلسلہ رکتا ہی نہیں۔ اسی طرح اس کی آرام طلبی بھی عام حیوانات کے مثل صرف کھوئی ہوئی قوتوں کو بحال کرنے کی حد تک نہیں رہتی، بلکہ وہ بھی بے شمار شاخیں نکالتی ہے جن کا سلسلہ ختم نہیں ہوتا۔ وہ صرف کھوئی ہوئی طاقتوں کو بحال ہی نہیں کرنا چاہتا بلکہ چاہتا ہے کہ حتی الامکان قوتیں کھونے کی نوبت ہی نہ آنے پائے، مشقت سے جی چراتا ہے، محنت کے بغیر کام نکالنے کی کوشش کرتا ہے، طرح طرح کی تدبیریں اس غرض کے لیے نکالتا ہے کہ بِلامحنت یا کم از کم محنت سے مقصد برآری ہو جائے، اور خصوصًاایسے مقاصد کے لیے محنت کرنے میں تو اس کی جان پر بنتی ہے جو اس کے حیوانی مقاصد سے بالاتر ہوں۔
اس طرح ان تین ابتدائی خواہشوں سے خواہشات کا ایک لامتناہی جال بن جاتا ہے جو انسان کی پوری زندگی کو اپنی لپیٹ میں لے لینا چاہتا ہے۔ پس دراصل انسان کے اس خادم، اس منہ زور حیوان کے پاس یہی تین ہتھیار وہ سب سے بڑے ہتھیار ہیں جن کی طاقت سے وہ انسان کا خادم بننے کے بجائے خود انسان کو اپنا خادم بنانے کی کوشش کرتا ہے اور ہمیشہ زور لگاتا رہتا ہے کہ اس کے اور انسان کے تعلق کی نوعیت صحیح فطری نوعیت کے برعکس ہو جائے یعنی بجائے اس کے کہ انسان اس پر سوار ہو، الٹا وہ انسان پر سوار ہو کر اسے اپنی خواہشات کے مطابق کھینچے کھینچے پھرے۔ اگر انسان پوری قوت سے اس پر اپنا اقتدار مسلط نہ کرے اور تمیز دار ارادہ کی باگیں ڈھیلی چھوڑ دے تو بالآخر وہ اس پر غالب آجاتا ہے۔ پھر وہ اپنے خدمت گار کا غلام اور اس کا خدمت گار اس کا آقا ہوتا ہے۔ علم اسما کی جو نعمت اللہ نے اسے دی ہے فکر و استدلال اور تسخیر و ایجاد کی جو قابلیتیں اسے عطا کی ہیں وہ سب کی سب اس اندھے جاہل، نادان جانور کی خدمت میں لگ جاتی ہیں، بلندیوں پر اڑنے کے بجائے پستیوں پر اترنے کے کام آتی ہیں، اعلیٰ درجہ کے انسانی مقاصد کی جگہ ذلیل حیوانی مقاصد حاصل کرنے کا آلہ بن جاتی ہیں، ان کا کوئی مصرف اس کے سوا باقی نہیں رہتا کہ رات دن بس اسی حیوان کی خواہشات پوری کرنے کے لیے نئے نئے وسائل تلاش کرتی رہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ یہ حیوان شر الدواب……تمام حیوانات سے بدتر قسم کا حیوان… بن کر رہ جاتا ہے۔ بھلا جس حیوان کو اپنی خواہشات پوری کرنے کے لیے انسان جیسا خادم مل جائے اس کے شر کی بھی کوئی حد ہو سکتی ہے! جس بیل کو بحری بیڑا بنانے کی قابلیت میسر آجائے، زمین کی کس چراگاہ میں اتنا بل بوتا ہوتا ہے کہ اس کے معاشی مفاد کی لپیٹ میں آجانے سے بچ جائے؟ جس کتے کی حرص کو ٹینک اور ہوائی جہاز بنانے کی قوت مل جائے، کس بوٹی اور کس ہڈی کا یارا ہے کہ اس کی کُچلیوں کی گرفت میں آنے سے انکار کر دے؟ جس بھیڑیے کو اپنے جنگل کے بھیڑیوں کی قومیت بنانے کا سلیقہ ہو اور جو پریس اور پروپیگنڈے سے لے کر لمبی مار کی توپوں تک سے کام لے سکتا ہو، زمین میں کہاں اتنی گنجائش ہے کہ اس کے لیے کافی شکار (lebensraum) فراہم کرسکے؟ جس بکرے کی شہوت ناول، ڈراما، تصویر، موسیقی، رقص، ایکٹنگ اور حسن افزائی کے وسائل ایجاد کرسکتی ہو، جس میں بکریوں کی تربیت کے لیے کالج، کلب اور فلمستان تک پیدا کرنے کی لیاقت ہو، اس کی داد عیش کے لیے کون حد و انتہا مقرر کرنے کا ذمہ لے سکتا ہے؟
ان پستیوں میں گرنے سے انسان کو بچانے کے لیے صرف یہی کافی نہیں ہے کہ اس کے سامنے انسانی زندگی کا نصب العین پیش کیا جائے، اور اسے انسانی قوتوں کا صحیح مصرف بتایا جائے، بلکہ اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ اس حیوان کے ساتھ اس کے تعلق کی جو فطری نوعیت ہے اسے عملاً قائم کیا جائے اور مشق و تمرین کے ذریعہ سے سوار کو اتنا چست کر دیا جائے کہ وہ اپنی سواری پر جم کر بیٹھے، اور ارادے کی باگیں مضبوطی کے ساتھ تھامے، اور اس پر اتنا قابو یافتہ ہو کہ اس کی خواہشات کے پیچھے خود نہ چلے بلکہ اپنے ارادے کے مطابق اسے سیدھا سیدھا چلائے۔ اس حیوان کو خدا نے اس لیے ہمارے سپرد کیا ہے کہ ہم اس سے کام لیں اور اسے اپنی زندگی کے مقصد تک پہنچنے کا ذریعہ بنائیں۔ اس کا دماغ ہمارے لیے فکر کرنے کا وسیلہ ہے، اس کے آلات حواس ہمارے لیے علم حاصل کرنے کا ذریعہ ہیں۔ اس کے ہاتھ اور پائوں ہمارے لیے سعی و عمل کرنے کے آلات ہیں۔ جتنی چیزیں خدا نے اس دنیا میں ہمارے لیے مسخر کی ہیں ان میں سب سے زیادہ کار آمد چیز یہی حیوانی جسم ہے۔ اس کے اندر جتنی فطری خواہشات ہیں وہ سب اس کی حقیقی ضرورتوں سے تعلق رکھتی ہیں۔ جنھیں پورا کرنا ہمارا فرض ہے۔ ہم پر اس کا حق ہے کہ اسے آرام سے رکھیں۔ اسے قوت بخش غذا دیں، بقائے نوع کے لیے اس کی طلب کو پورا کریں، اور اسے خواہ مخواہ ضائع نہ کر دیں۔ لیکن بہرحال یہ ہماری اور ہمارے مقصد زندگی کی خدمت کے لیے ہے نہ کہ ہم اس کی اور اس کے مقصد زندگی کی خدمت کے لیے۔ اسے ہمارے ارادے کا تابع ہونا چاہیے، نہ کہ ہمیں اس کی خواہشات کا تابع۔ اس کا یہ مرتبہ نہیں ہے کہ ایک فرماں روا کی طرح اپنی خواہشات ہم سے پوری کرائے بلکہ اس کا صحیح مرتبہ یہ ہے کہ ایک غلام کی طرح ہمارے سامنے اپنی خواہشات پیش کرے اور یہ ہماری تمیز اور تربیت یافتہ خودی کاکام ہے کہ اس کی جس درخواست کو جب اور جس طرح مناسب سمجھیں، پورا کریں یا رَد کردیں۔
روزے کے مقاصد میں سے ایک اہم مقصد انسان کو اس کے حیوانی جسم پر یہی اقتدار بخشتا ہے۔ جو تین خواہشیں تمام حیوانی خواہشات کا مبدا ہیں، جو تین ہتھیار اس حیوان کے پاس ایسے طاقت وَر ہیں کہ ان کے زور سے یہ ہمیں اپنا مطیع بنانے کے لیے اٹھتا ہے، روزہ انھی تینوں کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے اور اس کے منہ میں مضبوط لگام دے کر اس کی راسیں ہماری اس خودی کے ہاتھ میں دے دیتا ہے جو خدا پر ایمان لائی ہے اور اس کے بتائے ہوئے راستہ پر چلنے کا عزم کر چکی ہے۔ اس وقت اس جانور کی بے بسی دیکھنے کے قابل ہوتی ہے۔ صبح سے شام تک یہ دانہ پانی مانگتا رہتا ہے اور ہم اسے کچھ نہیں دیتے۔ یہ پانی کی طرف لپکنا چاہتا ہے مگر ہم باگیں کھینچ لیتے ہیں۔ یہ کھانا دیکھ کر اس پر منہ مارنا چاہتا ہے مگر ہم اسے جنبش نہیں کرنے دیتے۔ یہ کہتا ہے کہ اچھا سگریٹ، حقہ، پان کسی چیز سے تو مجھے اپنی آگ بجھا لینے دو مگر ہم اس کی درخواست کو رد کر دیتے ہیں۔ یہ اپنے جوڑے کو دیکھ کر اس کی طرف دوڑتا ہے اور ملاعبت شروع کر دیتا ہے۔ مگر جہاں تسکین نفس کا سوال بیچ میں آیا اور ہم نے لگام کھینچ لی۔ اس طرح دن بھر اس کی خواہشوں کو ٹھکرانے کے بعد ہم اپنے مالک کے مقرر کیے ہوئے وقت پر اسے چارا پانی دیتے ہیں۔ اب یہ تھکا ہارا چاہتا ہے کہ ذرا آرام لے مگر عشا کی اذان سنتے ہی ہم کان پکڑ کر اسے سیدھا اٹھا کھڑا کرتے ہیں اور مسجد کی طرف کھینچ لے جاتے ہیں۔ دوسرے دنوں میں تو اسے عشا کے وقت تھوڑا ہی قیام کرنا پڑتا تھا۔ رمضان میں معمولی نماز کے علاوہ تراویح کی غیر معمولی رکعتوں کے لیے بھی ہم اسے کھڑا رکھتے ہیں۔ اس رگید سے نکل کر بے چارہ سونے کے لیے دوڑتا ہے اور چاہتا ہے کہ بس صبح کی خبر لائے۔ مگر رات کے پچھلے پہر میں جب کہ اس کا روآں روآں میٹھی نیند میں سرشار ہوتا ہے۔ ہم ایک ایسا چابک رسید کرتے ہیں کہ سارا نشہ ہرن ہو جاتا ہے، پھر ہم کہتے ہیں کہ ہمارے مالک کا حکم دن کی بجائے اس وقت دانہ پانی دینے کا ہے لہٰذا جو کچھ کھانا چاہتا ہے اب کھالے۔
یہ مشق ہے جو ہمیں ہر سال تیس دن تک کرائی جاتی ہے تاکہ اپنے اس خادم پر ہمیں پورا اقتدار حاصل ہو جائے، اس سے ہم اپنے جسم اور جسمانی قوتوں کے بااختیار حاکم بن جاتے ہیں۔ حیوانی خواہشات کی جابرانہ قہرمانی ختم ہو جاتی ہے۔ ہم میں اتنی طاقت پیدا ہو جاتی ہے کہ اپنی جس خواہش کو جس حد پر چاہیں روک دیں، اور اپنی جس قوت سے جس طرح چاہیں کام لے سکیں۔ وہ شخص جسے اپنی خواہشات کا مقابلہ کرنے کی کبھی عادت ہی نہ رہی ہو، جو نفس کے ہر مطالبہ پر بے چون و چرا سر جھکا دینے کاخوگر رہا ہو، اور جس کے لیے حیوانی جبلت کا داعیہ ایک فرمان واجب الاذعان کا حکم رکھتا ہو، دنیا میں کوئی بڑا کام نہیں کرسکتا۔ بڑے درجہ کے کام انجام دینے کے لیے بہرحال آدمی کی خودی میں اتنا بل بوتا ہونا چاہیے کہ وہ نفس کی خواہشات کو اپنے قابو میں رکھ سکے اور ان قوتوں کو جو اللہ نے اس کے نفس و جسم کو ودیعت کی ہیں اپنے ارادے کے مطابق استعمال کرسکے۔ اسی لیے رمضان کے فرض روزوں کے علاوہ سال کے دوران میں کبھی کبھی نفل روزے بھی رکھنے کو پسندیدہ قرار دیا گیا ہے تاکہ اس اقتدار کی گرفت مضبوط ہوتی رہے۔
لیکن بہت فرق … اصولی اور جوہری فرق…… ہے اس اقتدار میں جو اسلامی روزہ انسان کی خودی کو اس کے نفس و جسم پر دیتا ہے، اور اس اقتدار میں جو غیراسلامی طور پر نفس کشی کی مشقتوں یا قوت ارادی کو نشو ونما دینے کی ورزشوں سے حاصل کیا جاتا ہے، یا جو فطری طورپر بڑے آدمیوںکو خود بخود حاصل ہوتا ہے۔ یہ دوسری قسم کا اقتدار تو دراصل ایک ایسی جاہل، مطلق العنان خودی کا استبداد ہے جو اپنے سے بالاتر کسی حاکم کی مطیع، کسی ضابطہ و قانون کی پابند اور کسی علم صحیح کی متبع نہیں ہے۔ اسے اپنی جسمانی اور نفسانی قوتوں پر جو فرماں روائی حاصل ہوتی ہے، لازم نہیں، بلکہ ممکن نہیں کہ وہ اسے صحیح مقصد کے لیے اور صحیح طریقہ پر استعمال کرے۔ دنیا میں سنیاس، رہبانیت اور ترک لذات کی بیماریاں اسی نوعیت کے اقتدار سے پیدا ہوئی ہیں۔ اسی اقتدار کی بدولت نفس اور جسم کے جائز حقوق چھینے گئے ہیں۔ اسی اقتدار کے بل پر انسان خود اپنی فطرت سے لڑا ہے۔ اسی اقتدار کی بدولت انسان نے اپنی قابلیتوں کو تہذیب و تمدن کے ارتقا میں صرف کرنے کے بجائے تنزل و انحطاط کی کوششوں میں صرف کیا ہے۔ اسی اقتدار کی بدولت دنیا کے بہت سے بڑے آدمیوں نے خدا کے بندوں پر اپنی خدائی مسلط کرنے کی کوشش کی ہے اور اپنی طاقتوں کو حق کے بجائے ظلم کی راہ استعمال کیا ہے، برعکس اس کے اسلامی روزہ جس خودی کو نفس و جسم پر اقتدار دیتا ہے وہ مطلق العنان خودی نہیں ہے۔ بلکہ خدا اور اس کے قانون کی اطاعت کرنے والی خودی ہے۔ وہ جاہل خودی نہیں ہے، ایسی خودی نہیں ہے جو آپ اپنی راہ نُما ہو‘ بلکہ ایسی خودی ہے جو خدا کی طرف سے آئی ہوئی ہدایت، العلم، کتاب منیر کی راہ نُمائی میں چلنے والی ہے۔ وہ خدا کے دئیے ہوئے نفس و جسم کو اپنی ملکیت نہیں سمجھتی کہ اس پر قابو پاکر اپنی صوابدید کے مطابق جس طرح چاہے حکم رانی کرے، بلکہ وہ اسے خدا کی امانت سمجھتی ہے اور اس امانت پر خدا کے منشا کے مطابق حکومت کرتی ہے۔ ایک مومن و متقی انسان، جس کی خودی اللہ تعالیٰ کی رضا کے آگے سپر ڈال چکی ہو، دنیا کی کسی چیز پر بھی ظلم نہیں کرسکتا، کجا کہ خود اپنے جسم حیوانی کا حق مارے اور اپنے اس رفیق پر ظلم کرے جسے اللہ نے مدۃ العمر کے لیے اس کا بہترین مدد گار بنایا ہے۔ وہ اسے اچھے سے اچھا کھلائے گا، اچھے سے اچھا پہنائے گا، بہتر سے بہتر مکان میں رکھے گا، زیادہ سے زیادہ آرام دے گا۔ اس کے ہر فطری جذبہ کی تسکین کا سامان فراہم کرے گا، نہ اس لیے کہ اس کا نفس یہ چاہتا ہے کہ ایسا کیا جائے، بلکہ اس لیے کہ خدا نے اس کا حق مقرر کیا ہے اور اس حق کو ادا کرنا خدا کی خوشنودی کا موجب({ FR 671 }) ہے۔البتہ وہی نفس جب اچھا کھانے کے لیے حرام غذا یا حرام کی کمائی کا تقاضا کرے گا، جب اچھے لباس، اچھی سواری، اچھے مکان کے لیے ایسی تدبیریں اختیار کرنے کا مطالبہ کرے گا۔ جنھیں اللہ نے پسند نہیں کیا ہے، جب وہ اپنے جذبات شہوانی کی تسکین کے لیے ایسے دروازے کھولنا چاہے گا جنھیں اللہ نے بند کیا ہے، جب وہ اپنی آرام طلبی کے لیے ان فریضوں اور ان خدمتوں کو ادا کرنے سے جی چرائے گا جو اللہ نے اس پر عائد کیے ہیں، اور جب وہ اس جگہ اپنی خواہشات اور خود اپنی قربانی دینے سے رکنا چاہے گا، جہاں اللہ کی رضا ہے کہ اسے اور اس کی خواہشوں کو قربان کر دیا جائے، وہاں مومن کی خودی اپنے حاکمانہ اختیارات کو پوری شدت کے ساتھ استعمال کرے گی اور بجز اسے سرکشی و نافرمانی کے راستہ سے ہٹا کر فرماں برداری کے سیدھے راستہ پر لے جائے گی۔ اسی چیز کی مشق مومن سے رمضان میں کرائی جاتی ہے تاکہ دنیا کی اس امتحان گاہ میں نازک مواقع جب پیش آئیں ’’اور وہ روز ہر وقت پیش آتے ہیں‘‘ تو اس کے ارادے کی باگیں اس منہ زور حیوان کو قابو میں رکھنے سے عاجز نہ آجائیں۔

شیئر کریں