یہ صرف مسجد میں جمع ہونے کی برکتیں ہیں۔ اب دیکھیے کہ جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے میں کتنی برکات پوشیدہ ہیں۔
سب مسلمان مسجد میں مساوی الحیثیت ہیں۔ ایک چمار اگر پہلے آیا ہو تو وہ اگلی صف میں ہوگا، اور ایک رئیس اگر بعد میں آئے تو وہ پچھلی صفوں میں رہے گا، کوئی بڑے سے بڑا آدمی مسجد میں اپنی سیٹ ریزرو نہیں کرا سکتا۔ کسی شخص کو یہ حق نہیں کہ دوسرے مسلمان کو مسجد میں کسی جگہ کھڑے ہونے سے روک دے یا جہاں وہ پہلے سے موجود ہو وہاں سے اسے ہٹا دے۔ کوئی اس کا مجاز نہیں کہ آدمیوں پر سے پھاند کر یا صفوں کو چیر کر آگے پہنچنے کی کوشش کرے۔ سب مسلمان ایک صف میں ایک دوسرے کے برابر کھڑے ہوں گے، وہاں نہ کوئی بڑا ہے نہ چھوٹا، نہ کوئی اونچ ہے نہ نیچ۔ نہ کسی کے چھو جانے سے کوئی ناپاک ہو جاتا ہے، نہ کسی کے برابر کھڑا ہونے سے کسی کی عزت کو بٹّا لگتا ہے۔ بازار کا جارُوب کش آئے گا اور گورنر کے برابر کھڑا ہو جائے گا۔ یہ وہ اجتماعی جمہوریت (social democracy)ہے۔ جسے قائم کرنے میں اسلام کے سوا کوئی کام یاب نہیں ہوسکا۔ یہاں روزانہ پانچ وقت سوسائٹی کے افراد کی اونچ نیچ برابر کی جاتی ہے، بڑوں کے دماغ سے کبریائی کا غرور نکالا جاتا ہے۔ چھوٹوں کے ذہن سے پستی کا احساس دور کیا جاتا ہے اور سب کو یہ یاد دلایا جاتا ہے کہ خدا کی نگاہ میں تم سب انسان یکساں ہو۔
یہ صف بندی جس طرح طبقاتی امتیازات کو مٹاتی ہے اسی طرح نسل، قبیلہ، وطن اور رنگ وغیرہ کی عصبیتوں کو بھی مٹاتی ہے۔ مسجد میں کسی امتیازی نشان کے لحاظ سے مختلف انسانی گروہوں کے بلاک الگ نہیں ہوتے۔ تمام مسلمان جو مسجد میں آئیں، خواہ وہ کالے ہوں یا گورے، ایشیائی ہوں یا فرنگی، سامی ہوں یا آرین اور ان کے قبیلوں اور ان کی زبانوں میں خواہ کتنے ہی اختلافات ہوں، بہرحال سب کے سب ایک صف میں کھڑے ہو کر نماز ادا کرتے ہیں۔ روزانہ پانچ وقت اس نوع کا اجتماع ان تعصبات کی بیخ کنی کرتا رہتا ہے جو انسانی جماعت میں خارجی اختلافات کی وجہ سے پیدا ہوگئے ہیں۔ یہ انسانی وحدت قائم کرتا ہے، بین الاقوامیت کی جڑیں مضبوط کرتا ہے اور اس خیال کو دماغوں میں پیوست کر دیتا ہے کہ حسب وعدہ نسب اور برادریوں کی ساری عصبیتیںجھوٹی ہیں، تمام انسان خدا کے بندے ہیں، اور اگر خدا کی بندگی و عبادت پر وہ سب متفق ہو جائیں تو پھر وہ سب ایک اُمت ہیں۔
پھر جب یہ ایک صف میں کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہوتے ہیں اور ایک ساتھ رکوع و سجدہ کرتے ہیں تو ان کے اندر منظم اجتماعی حرکت کرنے کی وہ صلاحیتیں پرورش پاتی ہیں جنھیں پیدا کرنے کے لیے فوج کو پریڈ کرائی جاتی ہے، اس کا مدعا ہی یہ ہے کہ مسلمانوں میں یک جہتی اور وحدت فی العمل پیدا ہو اور خدا کی بندگی میں ایک دوسرے کے ساتھ جڑ کر تن واحد کی طرح ہو جائیں۔