میں سمجھتا ہوں اور مجھے امید ہے کہ ہر معقول آدمی اس معاملہ میں مجھ سے اتفاق کرے گا کہ جب پاکستان اسلام کے نام سے اور اسلام کے لیے مانگا گیا ہے اور اسی بنا پر ہماری یہ مستقل ریاست قائم ہوئی ہے تو ہماری اس ریاست ہی کو وہ معمار طاقت بننا چاہیے جو اسلامی زندگی کی تعمیر کرے اور جب کہ یہ ریاست ہماری اپنی ریاست ہے اور ہم اپنے تمام قومی ذرائع و وسائل اس کے سپرد کر رہے ہیں، تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم اس تعمیر کے لیے کہیں اور سے معمار فراہم کریں۔
یہ بات اگر صحیح ہے تو پھر اس تعمیر کی راہ میں پہلا قدم یہ ہونا چاہیے کہ ہم اپنی اس ریاست کو، جو ابھی تک انگریز کی چھوڑی ہوئی کافرانہ بنیادوں پر قائم ہے، مسلمان بنائیں۔ اور اسے مسلمان بنانے کی آئینی صورت یہ ہے کہ ہماری دستور ساز اسمبلی باقاعدہ اس امر کا اعلان کرے کہ:
۱۔ پاکستان میں حاکمیت خدا کی ہے اور ریاست اس کے نائب کی حیثیت سے ملک کا انتظام کرے گی۔
۲۔ ریاست کا اساسی قانون شریعت خداوندی ہے جو محمدؐ کے ذریعہ سے ہمیں پہنچی ہے۔
۳۔ تمام پچھلے قوانین جو شریعت سے متصادم ہوتے ہیں بتدریج بدل دیے جائیں گے اور آئندہ کوئی ایسا قانون نہ بنایا جاسکے گا جو شریعت سے متصادم ہوتا ہو۔
۴۔ ریاست اپنے اختیارات کے استعمال میں اسلامی حدود سے تجاوز کرنے کی مجاز نہ ہوگی۔
یہ وہ کلمۂ شہادت ہے جسے اپنی آئینی زبان … یعنی دستور ساز اسمبلی… کے ذریعہ سے ادا کرکے ہماری ریاست ’’مسلمان‘‘ ہو جائے گی۔
اس اعلان کے بعد ہی صحیح طور پر ہمارے رائے دہندوں کو یہ معلوم ہوگا کہ اب انہیں کس مقصد اور کس کام کے لیے اپنے نمائندے منتخب کرنے ہیں۔ عوام میں علم و دانش کی لاکھ کمی سہی، مگر وہ اتنی سمجھ بوجھ ضرور رکھتے ہیں کہ انہیں کس کام کے لیے کس طرف رجوع کرنا چاہیے اور ان کے درمیان کون لوگ کس مطلب کے لیے موزوں ہیں۔ آخر وہ اتنے نادان تو نہیں ہیں کہ علاج کے لیے وکیل اور مقدمہ لڑنے کے لیے ڈاکٹر کو تلاش کریں۔ وہ اس کو بھی کسی نہ کسی حد تک جانتے ہی ہیں کہ ان بستیوں میں ایمان دار اور خدا ترس کون ہیں، چالاک اور دنیا پرست کون اور شریر و مفسد کون۔ جیسا مقصد ان کے سامنے ہوتا ہے ویسے ہی آدمی وہ ان کے لیے اپنے اندر سے ڈھونڈ نکالتے ہیں۔ اب تک ان کے سامنے یہ مقصد آیا ہی نہ تھا کہ انہیں ایک دینی نظام چلانے کے لیے آدمی درکار ہیں۔ پھر وہ اس کے چلانے والے آخر تلاش کرتے کیوں؟ جیسا بے دین اور غیر اخلاقی نظام ملک میں قائم تھا اور اس کا مزاج جس قسم کے آدمی چاہتا تھا، اس کے لیے ویسے ہی آدمیوں پر لوگوں کی نگاہِ انتخاب پڑی اور انہی کو رائے دہندوں نے چن کر بھیج دیا۔ اب اگر ہم ایک اسلامی ریاست کا دستور بنائیں اور لوگوں کے سامنے سوال یہ آجائے کہ اس نظام کو چلانے کے لیے انہیں موزوں آدمی منتخب کرنے ہیں، تو چاہے ان کا انتخاب کمال درجہ کا معیاری نہ ہو، مگر بہرحال اس کام کے لیے ان کی نگاہیں فساق و فجار اور دین مغربی کے مومنین پر نہیں پڑی گی۔ وہ اس کے لیے انہی لوگوں کو تلاش کریں گے جو اخلاقی، ذہنی اور علمی حیثیت سے اس کے اہل ہوں گے۔
پس ریاست کو مسلمان بنانے کے بعد تعمیر حیات اسلامی کی راہ میں دوسرا قدم یہ ہے کہ جمہوری انتخاب کے ذریعہ سے اس ریاست کی زمام کار ایسے لوگوں کے ہاتھ میں منتقل ہو جو اسلام کو جانتے ہوں اور اس کے مطابق ملک کے نظام زندگی کو ڈھالنا چاہتے بھی ہوں۔
اس کے بعد تیسرا قدم یہ ہے کہ اجتماعی زندگی کے مختلف پہلوئوں کی ہمہ گیر اصلاح کا ایک منصوبہ Planبنایا جائے اور اسے عمل میں لانے کے لیے ریاست کے تمام ذرائع و وسائل استعمال کیے جائیں۔ تعلیم کا نظام بدلا جائے۔ ریڈیو، پریس، سنیما اور خطابت کی ساری طاقتیں لوگوں کے خیالات کی اصلاح اور ایک نئی اسلامی ذہنیت کی تخلیق میں صرف کی جائیں۔ معاشرت اور تمدن کو نئے سانچوں میں ڈھالنے کے لیے پیہم اور باقاعدہ کوشش کی جائے۔ سول سروس، پولیس، جیل، عدالت اور فوج سے بتدریج ان لوگوں کو خارج کیا جائے جو پرانے فاسقانہ و کافرانہ نظام کی عادات و خصائل میں ڈھل کر سوکھ چکے ہیںاور ان نئے عناصر کو کام کرنے کا موقع دیا جائے جو اس اصلاح کے کام میں مددگار بن سکتے ہیں۔ معاشی نظام میں بنیادی تبدیلیاں کی جائیں اور اس کا پورا ڈھانچہ جو پرانی ہندوانہ اور جدید فرنگیانہ بنیادوں پر چل رہا ہے، ادھیڑ ڈالا جائے۔ میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر ایک صالح اور مدبر گروہ اقتدار کے منصب پر فائز ہو اور ملک کے سارے وسائل اور حکومت کے پورے نظم و نسق کی طاقت سے کام لے کر باقاعدگی کے ساتھ اصلاح کے ایک سوچے سمجھے منصوبے پر عمل شروع کر دے تو دس سال کے اندر اس ملک کی اجتماعی زندگی کا نقشہ بالکل بدلا جا سکتا ہے اور جیسے جیسے یہ تبدیلی واقع ہوتی جائے ایک صحیح توازن کے ساتھ سابق قوانین کی ترمیم و تنسیخ اور اسلامی قوانین کے نفاذ کا سلسلہ جاری ہوسکتا ہے، یہاں تک کہ بالآخر جاہلیت کا کوئی قانون ہمارے ملک میں باقی نہ رہے اور اسلام کا کوئی حکم نافذ ہونے سے نہ رہ جائے۔
۱۔ اجرا قانون اسلامی کے لیے تعمیری کام
اب میں خاص طور پر اس تعمیری کام کی کچھ تفصیل آپ سے بیان کروں گا جو ملک کے قانونی نظام کو بدلنے اور اسلام کے قوانین کو جاری کرنے کے لیے ہمیں کرنا ہوگا۔ جس اصلاحی پروگرام کی طرف ابھی میں اشارہ کر چکا ہوں اس کے سلسلے میں ہم کو قریب قریب ہر شعبۂ زندگی میں بہت سے تعمیری کام کرنے پڑیں گے، کیونکہ مدت ہائے دراز کے تعطل، انحطاط اور غلامی نے ہمارے تمدن کی عمارت کے ہر گوشے کو خراب کرکے چھوڑا ہے۔ لیکن اس وقت میری تقریر ایک خاص موضوع سے تعلق رکھتی ہے اس لیے دوسرے گوشوں کے تعمیری کام سے قطع نظر کرکے یہاں میں صرف اس کام کے متعلق کچھ عرض کروں گا جو ہمیں قانون اور نظم عدالت کے سلسلہ میں کرنا ہے۔
۲۔ ایک قانونی اکیڈیمی کا قیام
اس پہلو میں اوّلین کام جو ہمیں کرنا چاہیے، یہ ہے کہ ایک قانونی اکیڈیمی قائم کی جائے جو اس پورے کام کا جائزہ لے جو علم قانون میں ہمارے اسلاف اس سے پہلے کر چکے ہیں اور ان ضروری کتابوں کو جو فقہ اسلامی کی واقفیت کے لیے ناگزیر ہیں، اُردو زبان میں صرف منتقل ہی نہ کرے بلکہ ان کے مواد کو زمانۂ حال کے طرز ترتیب کے مطابق مرتب بھی کر دے تاکہ ان سے پورا فائدہ اٹھایا جاسکے۔ جیسا کہ آپ کو معلوم ہے، ہماری فقہ کا اصل ذخیرہ عربی زبان میں ہے اور ہمارا تعلیم یافتہ طبقہ بالعموم اس زبان سے ناواقف ہے۔ اس ناواقفیت کی وجہ سے اور کچھ سنی سنئای باتوں کی بنا پر ہمارے پڑھے لکھے لوگ عموماً اس فقہی ذخیرے کے متعلق طرح طرح کی بدگمانیاں رکھتے ہیں۔ حتیٰ کہ ان میں سے بہت سے لوگ تو یہاں تک کہہ بیٹھتے ہیں کہ دوراز کار، لاطائل اختلافی بحثوں کے اس دفتر بے معنی کو دریا بُرد کر دیا جائے اور نئے سرے سے اجتہاد کرکے کام چلایا جائے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ اس قسم کے مہمل خیالات ظاہر کرتے ہیں وہ محض اپنے لم ہی کی کمی کا نہیں، فکر و تدبر کے فقدان کا بھی راز فاش کرتے ہیں۔ اگر وہ اپنے بزرگوں کے فقہی کارناموں کا واقعی مطالعہ کریں تو مجھے یقین ہے کہ انہیں اپنی ان باتوں پر خود ہی شرم آنے لگے گی۔ انہیں معلوم ہوگا کہ پچھلی بارہ تیرہ صدیوںمیں ہمارے اسلاف محض فضول بحثوں میں وقت ضائع نہیں کرتے رہے ہیں بلکہ انہوں نے اپنے بعد آنے والی نسلوں کے لیے بڑی قیمتی میراث چھوڑی ہے۔ وہ بہت سی ابتدائی منزلیں ہمارے لیے تعمیر کر گئے ہیں اور ہم سے بڑھ کر زیاں کار کوئی نہ ہوگا اگر محض جہالت کی بنا پر بنی ہوئی عمارت کو خواہ مخواہ ڈھاکہ نئے سرے سے ہی میر کی ابتدا کرنے پر اصرار کریں۔ ہمارے لیے عقلمندی یہی ہے کہ جو اگلے بنا گئے ہیں اسے اپنی آج کی ضرورتوں کے لیے کار آمد بنائیں اور آگے جن چیزوں کی ضرورت پیش آئے اس کے لیے مزید تعمیر کرتے رہیں۔ ورنہ ہر نسل اگر یونہی اپنے سے پہلی نسلوں کے کام پر پانی پھیرتی رہے اور نئے سرے سے سب کچھ بنانے کی کوشش کرے تو یقینا ترقی کی طرف قدم آگے بڑھ ہی نہیں سکتا۔
میں اس سلسلہ کی پہلی تقریر میں عرض کر چکا ہوں کہ پچھلی صدیوں میں دنیا کے ایک بہت بڑے حصے پر مسلمانوں کی جس قدر سلطنتیں قائم ہوئی تھیں ان سب کا قانون فقہ اسلامی ہی تھی۔ اس زمانے میں مسلمان نری گھاس نہیں کھودتے تھے بلکہ ایک اعلیٰ درجہ کا تمدن ان کے اندر موجود تھا۔ ان کے وسیع تمدن کی ساری ہی ضروریات پر ان کے فقہا نے اسلامی قوانین کو منطبق کیا تھا۔ یہی فقہا ان حکومتوں کے جج، مجسٹریٹ اور چیف جسٹس ہوتے تھے اور ان کے فیصلوں سے نظار کا ایک وسیع ذخیرہ فراہم ہوگیا تھا۔ انہوں نے قریب قریب ہر شعبہ قانون سے بحث کی ہے۔ محض دیوانی و فوجداری قوانین ہی نہیں، ڈدستوری اور بین الاقوامی قوانین کے متعلق بھی ان کے قلم سے ایسی ایسی لطیف بحثیں نکلی ہیں کہ ان کا مطالعہ کرکے ایک قانون داں آدمی ان کی ژرف نگاہی کی داددیئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ ضرورت ہے کہ ہم اہل علم کے ایک گروہ کو ان بزرگوں کے چھوڑے ہوئے ذخیرہ کا جائزہ لینے پر مامور کریں اور وہ موجودہ زمانے کی قانونی کتابوں کے طرز پر اس تمام کار آمد مواد کو مرتب کر ڈالے جو اس ذخیرے (لفٹ مٹا ہوا ہے) سکتا ہو۔
خصوصیت کے ساتھ چند کتابیں تو ایسی ہیں جن کو اردو زبان میں منتقل کر لینا نہایت ضروری ہے۔
۱۔ احکام القرآن پر تین کتابیں، حصاص، ابن العربی اور قرطبی۔
ان کتابوں کا مطالعہ ہمارے قانونی طلبا کو قرآن مجید سے احکام مستنبط کرنے کی بہترین تربیت دے گا۔ ان میں قرآن کی تمام احکامی آیات کی تفسیر کی گئی ہے، احادیث اور آثار صحابہ ہیں ان کی جو تشریح ملتی ہے اسے نقل کیا گیا ہے اور مختلف آئمہ مجتہدین نے ان سے جو احکام نکالے ہیں انہیں ا ن کے دلائل سمیت مفصل بیان کر دیا گیا ہے۔
۲۔دوسرا قیمتی ذخیرہ کتب حدیث کی شرحوں کا ہے جن میں احکام کے علاوہ نظائر اور تشریحی بیان کا بھی بہترین مواد ملتا ہے۔ ان میں خاص طور پر یہ کتابیں اُردو میں منتقل ہونی چاہئیں۔
بخاری پر فتح الباری اور عینی
مسلم پر نووی اور مولانا شبیر احمد صاحبؒ عثمانی کی فتح اللہم۔
ابودائود پر عون المعبود اور بذل المجہود
موطا پر شاہ ولی اللہ صاحب کی مسوی اور مصفّٰی اور موجودہ دور کے
ایک ہندوستانی عالم کی اَوَجَزُ المسالک
منتقی الاخبار پر شوکانی کی نیل الاوطار
مشکوٰۃ پر مولانا محمد ادریس کانھلوی کی التعلیق الصبیح۔
علم الاثار میں امام طحاوی کی شرح معانی الآثار
۳۔ اس کے بعد ہمیں فقہ کی ان بڑی بڑی کتابوں کو لینا چاہیے جو اس علم میں امہات کتب کا درجہ رکھتی ہیں۔ ان میں خصوصیت کے ساتھ یہ کتابیں منتقل ہونی چاہئیں۔
فقہ حنفی پر امام سرخسی کی البسوط اور شرح السیر الکبیر۔کاسانی کی بدائع
الصنائع۔ ابن ہمام کی فتح القدیر۔ مع ہدایہ اور فتاویٰ عالمگیری
فقہ شافعی پر کتاب الاُم۔ شرح المہذب اور مغنی المحتاج المدونہ
فقہ مالکی پر المدونہ اور کوئی اہم کتاب جس کا اہل علم انتخاب کریں
فقہ حنبلی پر ابن قدامہ کی المغنی
فقہ ظاہری پر ابن حزم کی المحلی
مذاہب اربعہ پر ابن رشد کی ہدایۃ المجتہد۔ اور علما مصر کی مرتب کردہ الفقہ فی
المذہب الاربعہ۔ نیز ابن القیم کی زاد المعاد میں سے وہ حصے
جو قانونی مسائل سے متعلق ہیں۔
مخصوص مسائل پر امام ابو یوسف کی کتاب الخراج یحییٰ بن آدم کی الخراج۔ ابو
عبید القاسم کی کتاب الاموال۔ ہلال بن یحییٰ کی احکام الوقف۔ ومیاطی کی احکام المواریث
۴۔ پھر ہمیں اصول قانون اور حکمتِ تشریع کی بھی چند اہم کتابوں کو ابردو کا جامہ پہنا لینا چاہیے تاکہ ان کی مدد سے ہمارے اہلِ قانون میں اسلامی فقہ کا صحیح فہم اور اس کی روح سے گہری واقفیت پیدا ہو۔ میرے خیال میں اس موضوع پر یہ کتابیں قابل انتخاب ہیں۔
ابنِ حزم کی اصول الاحکام۔ علامہ آمدی کی الاحکام لاصولِ الاحکام۔ خضری کی اصول الفقہ، شاطبی کی الموافقات۔ ابن القیم کی اعلام الموقعین اور شاہ ولی اللہ صاحب کی حجۃ اللہ البالغہ
ان کتابوں کے متعلق ہمیں صرف اتنا ہی نہیں کرنا ہے کہ محض ان کے ترجمے اُردو زبان میں کر ڈالے جائیں، بلکہ ان کے مضامین کو موجودہ زمانہ کی قانونی کتابوں کے طرز پر از سرِ نو مرتب بھی کرنا ہوگا، نئے عنوانات قائم کرنے ہوں گے، منتشر مسائل کو ایک ایک عنوان کے تحت جمع کرنا ہوگا، فہرستیں بنانی پڑیں گی اور انڈکس تیار کرنے ہوں گے۔ اس محنت کے بغیر یہ کتابیں آجکل کی ضروریات کے لیے پوری طرح کار آمد نہ ہوسکیں گی۔ قدیم زمانے کا طریق تدوین کچھ اور تھا اور اس زمانے میں قانونی مسائل کے لیے اتنے مختلف عنوانات بھی پیدا نہیں ہوئے تھے جتنے آج پیدا ہوگئے ہیں۔ مثال کے طور پر وہ لوگ دستوری قانون اور بین الاقوامی قانون کے لیے کوئی الگ نام نہیں رکھتے تھے بلکہ ان کے مسائل کو وہ نکاح، خراج، جہاد اور میراث کے ابواب میں بیان کرتے تھے۔ فوجداری قانون ان کے ہاں کوئی الگ عنوان نہ تھا، بلکہ اس کے مسائل حدود، جنایات اور دیات کے مختلف عنوانوں میں تقسیم کر دیے جاتے تھے۔ دیوانی قانون کو بھی انہوں نے الگ مرتب نہیں کیا تھا بلکہ ایک ہی مجموعۂ قوانین میں بہت سے عنوانات کے تحت اس کو جمع کر دیا تھا۔ مالیات اور معاشیات وغیرہ نام ان کے ہاں نہ تھے۔ اس سلسلہ کے مسائل کو وہ کتاب البیوع، کتاب الصرف، کتاب المضاربہ اور کتاب المزارعہ وغیرہ عنوانات کے تحت بیان کرتے تھے۔ اسی طرح قانون شہادت، ضابطہ دیوانی ضابطہ فوجداری اور ضابطہ عدالت وغیرہ جدید اصطلاحیں ان کے ہاں نہیں بنی تھیں۔ ان قوانین کے مسائل ان کی کتابوں میں آداب القاضی، کتاب الدعویٰ کتاب الاکراہ، کتاب الشہادت اور کتاب الاقرار وغیرہ عنوانات کے تحت ملتے ہیں۔ اب اگر یہ کتابیں جُوں کی تُوں اُردو میں منتقل کرلی جائیں تو ان سے کماحقہ، فائدہ اٹھانا مشکل ہے۔ ضرورت ہے کہ کچھ قانونی نظر رکھنے والے اہل علم ان پر کام کریں اور ان کی ترتیب بدل کر ان کے مواد کو جدید طرز پر مرتب کر ڈالیں اور بالفرض اگر یہ بہت زیادہ محنت طلب کام نظر آئے تو کم از کم اتنا تو ضرور ہی ہونا چاہیے کہ ان کی فہرستیں پوری باریک بینی کے ساتھ بنائی جائیں اور مختلف قسم کے انڈکس بنا دیے جائیں جن کے ذریعہ سے ان میں مسائل کا تلاش کرنا آسان ہو جائے۔
۳۔ تدوین احکام
اس سلسلہ کادوسرا اہم کام یہ ہے کہ ذمہ دار علما اور ماہرین قانون کی ایک ایسی مجلس مقرر کی جائے جو اسلام کے قانونی احکام کو جدید دَور کی کتب قانون کے طرز پر دفعہ وار مدون Codifyکرے۔
میں اپنی پہلی تقریر میں وضاحت کے ساتھ یہ بات آپ سے عرض کر چکا ہوں کہ اسلامی نقطۂ نظر سے قانون کا اطلاق ہر اس قول پر نہیں ہوتا جو کسی فقیہ یا امام مجتہد کی زبان سے نکلا ہو یا کسی فقہی کتاب میں لکھا ہوا ہو۔ قانون صرف چار چیزوں کا نام ہے۔
۱۔ کوئی حکم جو قرآن میں اللہ تعالیٰ نے دیا ہو۔
۲۔ کسی قرآنی حکم کی تشریح و تفصیل، یا کوئی مستقل حکم جو نبی a سے ثابت ہو۔
۳۔ کوئی استنباط، قیاس، اجتہاد یا استحسان جس پر اُمت کا اجماع ہو، یا جمہور علما کا ایسا فتوےٰ ہو جسے ہمارے ملک کے مسلمانوں کی عظیم اکثریت تسلیم کرتی رہی ہے۔
۴۔ اسی قبیل کا کوئی ایسا امرجس پر ہمارے ملک کے اہل حل و عقد کا اب اجماع یا جمہوری فیصلہ ہو جائے۔
میری تجویز یہ ہے کہ پہلی تین قسموں کے احکام کو ماہرین کی ایک جماعت ایک مجلہ احکام Code کی شکل میں مرتب کر دے۔ پھر جو جو قوانین آئندہ اجماعی یا جمہوری فیصلوں سے بنتے جائیں ان کا اضافہ ہماری کتاب آئین میں کیا جاتا رہے۔ اگر اس قسم کا ایک مجلہ احکام بن جائے تو اصل قانون کی کتاب وہ ہوگی، اور باقی تمام فقہی کتابیں اس کے لیے شرح Commenty کا کام دیں گی۔ نیز اس طرح عدالتوں میں قانون اسلامی کی تنفیذ اور لا کالجوں میں اس قانون کی تعلیم بھی آسان ہو جائے گی۔
۴۔ قانونی تعلیم کی اصلاح
چوتھا ضروری کام یہ ہے کہ ہم اپنے ہاں قانون کی تعلیم کا سابق طریقہ بدل دیں اور اپنے لاکالجوں کے نصاب اور طریق تربیت میں ایسی اصلاحات کریں جن سے طلبہ اسلامی قانون کی تنفیذ کے لیے علمی اور اخلاقی دونوں حیثیتوں سے تیار ہوسکیں۔
اس وقت تک جو تعلیم ہماری قانونی درسگاہوں میں دی جارہی ہے وہ ہمارے نقطہ نظر سے بالکل ناکارہ ہے۔ اس سے فارغ ہو کر نکلنے والے طالب علم صرف یہی نہیں کہ اسلامی قانون کے علم سے بے بہرہ ہوتے ہیں بلکہ ان کی ذہنیت بھی غیر اسامی افکار کے سانچے میں ڈھل جاتی ہے اور ان کے اندر اخلاقی صفات بھی ویسی ہی پیدا ہو جاتی ہیں جو مغربی قوانین کے اجرا کے لیے موزوں ترین ، مگر قانون اسلامی نافذ کرنے کے لیے قطعاً غیر موزوں ہیں۔ اس صورتِ حال کو جب تک ہم بدل نہ دیں گے اور ان درسگاہوں میں اپنے معیار کے فقیہ پیدا کرنے کا انتظام نہ کریں گے، ہمارے ہاں وہ آدمی فراہم ہی نہ ہوسکیں گے جو ہماری عدالتوں میں قاضی اورمفتی کے فرائض انجام دینے کے لائق ہوں۔
اس مقصد کے لیے جو تجاویز میرے ذہن میں ہیں وہ میں آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں۔ دوسرے اہل علم بھی ان پر غور کریں اور ان میں اصلاح و اضافہ فرمائیں تاکہ ایک اچھی قابل عمل اسکیم بن سکے۔
۱۔ سب سے مقدم اصلاح یہ ہونی چاہیے کہ آئندہ سے لا کالجوں میں داخلہ کے لیے عربی زبان کی واقفیت… اتنی واقفیت جو قرآن، حدیث اور فقہ کا مطالعہ کرنے کے لیے کافی ہو… لازم قرار دی جائے۔ اگرچہ ہم اسلامی قانون کی پوری تعلیم اُردو میں دینا چاہتے ہیں اور اس فن کی تمام ضروری کتابوں کو بھی ابردو میں منتقل کرلینا چاہتے ہیں، لیکن اس کے باوجود عربی زبان کے علم کی ضرورت پھر بھی باقی رہے گی۔ اس لیے کہ اسلامی فقہ میں بصیرت بہرحال اس وقت تک پیدا نہیں ہوسکتی جب تک آدمی اس زبان سے واقف نہ ہو جس میں قرآن نازل ہوا ہے اور جس میں رسول اللہ a نے کلام فرمایا ہے۔ بتداً ہمیں لا کالجوں کے لیے عربی دان امیدوار فراہم کرنے میں دشواری ضرور پیش آئے گی۔ ممکن ہے اس غرض کے لیے ہم کو چند سال تک ہر لا کالج میں ایک مستقل کلاس اس عربی تعلیم کے لیے کھولنی پڑیے اور شاید تعلیم قانون کی مدت میں ایک سال کا اضافہ بھی کر دینا پڑے۔ لیکن آگے چل کر جب ہمارے پورے نظام تعلیم میں عربی بطور ایک لازمی زبان کے شامل ہو جائے گی تو لا کالج میں داخلہ کے لیے جو گریجویٹ بھی آئیں گے وہ پہلے ہی عربی زبان سے بخوبی واقف ہوں گے۔
۲۔ عربی زبان کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ قانون کی تعلیم شروع کرنے سے پہلے طلبہ کو قرآن اور حدیث کے براہِ راست مطالعہ سے دین کا مزاج اور اس کا پورانظام اچھی طرح سمجھا دیا جائے۔ ہماری عربی درس گاہوں میں بھی ایک مدت وراز سے یہ غلط طریقہ چلا آرہا ہے کہ تعلیم کی ابتدا فقہ سے کی جاتی ہے، پھر ہر مذہب و اسکول کے لوگ اپنے مخصوص فقہی نقطہ نظر سے حدیث پڑھاتے ہیں اور قرآن کی صرف ایک یا دو بڑی سورتیں محض تبرکاً داخل درس کر دی جاتی ہیں بلکہ ان میں بھی کلام الٰہی کی ادبی خوبیوں کے سوا کسی اور چیز کی طرف توجہ نہیں کی جاتی۔ اس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہجو فضلا ان درسگاہوں سے نکلتے ہیں وہ قانون کے جزئیات و فروع سے تو خوب واقف ہوتے ہیں مگر جس دین کو قائم کرنے کے لیے یہ قانون بنایا گیا ہے اس کے مجموعی نظام، اس کے مقاصد اس کے مزاج اور اس کی روح سے بڑی حد تک نابلند رہتے ہیں۔ ان کو یہ تک معلوم نہیں ہوتا کہ دین سے شریعت کا اور شریعت سے فقہی مذاہب کا تعلق کیا ہے۔ وہ قانونی جزئیات اور اپنے مذاہب خاص کے فروعی مسائل ہی کو اصل دین سمجھ بیٹھتے ہیں۔ اسی چیز نے ہمارے ہاں فرقہ بندی کے جھگڑے اور تعصبات پیدا کیے ہیں۔ اسی چیز کا نتیجہ یہ ہے کہ مسائل زندگی پر فقہی احکام کا انطباق کرنے میں بار بار شریعت کے اہم ترین مقاصد تک نظر انداز کر دیے جاتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ اب اس غلطی کی اصلاح ہو اور کسی طالب علم کو اس وقت تک قانون نہ پڑھایا جائے جب تک وہ پہلے قرآن اور پھر حدیث سے دین کو اچھی طرح نہ سمجھ لے۔
اس معاملہ میں بھی ہمیں ابتداً چند سال تک کچھ مشکلات کا سامنا کرنا ہوگا کیونکہ قرآن و حدیث سے واقف ریجویٹ نہ مل سکیں گے اور اس کے لیے شاید ہمیں لا کالجوں ہی میں اس تعلیم کا بھی انتظام کرنا پڑے گا۔ لیکن آگے چل کر جب ہماری عام تعلیمی اصلاحات بار آور ہو جائیں گی تو آسانی کے ساتھ یہ ضابطہ بنایا جاسکے گا کہ لا کالجوں میں صرف وہی طلا داخلہ لے سکتے ہیں جو تفسیر اور حدیث کو مخصوص مضامین کی حیثیت سے لے کر بی اے کر چکے ہوں، ورنہ دوسرے مضامین کے طلبہ کو ایک سال زائد ان مضامین پر صرف کرنا ہوگا۔
۳۔ تعیم قانون کے نصاب میں تین مضامین ضرور شامل ہونے چاہئیں۔ ایک جدید زمانے کے اصولِ قانون Jurisprudence کے ساتھ ساتھ اصولِ فقہ کا مطالعہ۔ دوسرے اسلامی فقہ کی تاریخ کامطالعہ۔ تیسرے فقہ کے تمام بڑے بڑے مذاہب و اسکولوں کا غیر متعصبانہ مطالعہ۔ ان تینوں چیزوں کے بغیر طلبا میں نہ تو فقہ کا پورا فہم پیدا ہوسکتا ہے نہ ان کے اندر وہ اجتہادی صلاحیتیں اُبھر سکتی ہیں جو اعلیٰ درجہ کے قاضی اور مفتی بننے کے لیے ناگزیر ہیں اور نہ ان کے اندر سے ایسے ماہرین نکل سکتے ہیں جو ہماری ترقی پذیر ریاست کی روز افزوں ضروریات کے لیے تعبیر و قیاس اور اجتہاد و استحسان کے صحیح طریقے استعمال کرکے قوانین بنا سکیں۔ اپنے قانون کے اصولوں کو پوری طرح سمجھے بغیر آخر وہ روز نت نئے پیش آنے والے مسائل پر ان کا انطباق کیسے کرسکیں گے۔ اپنی فقہ کی تاریخ کو جانے بغیر انہیں کیونکہ معلوم ہوگا کہ اسلامی قانون کا ارتقا کس طریقہ پر ہوا ہے اور آئندہ کس طریقہ پر ہوسکتا ہے۔ فقہا اسلام کے جمع کیے ہوئے پورے ذخیرے پر وسیع نظر رکھے بغیر وہ کیونکر اس قابل ہوسکیں گے کہ جب کسی مسئلے میں ایک فقہی مذہب سے رہنمائی نہ ملتی ہو تو نیا جتہاد کرنے سے پہلے دوسرے مذاہب فقہ سے استفادہ کرلیں۔ انہی وجوہ سے میں ضروری سمجھتا ہوں کہ ہماری تعلیم قانون کے نصاب میں یہ تینوں مضامین داخل ہوں۔
۴۔ تعلیم کی اس اصلاح کے ساتھ ہمیں اپنے لا کالجوں میں طلبہ کی اخلاقی تربیت کا بھی خاص انتظام کرنا ہوگا۔ اسلامی نقطۂ نظر سے لا کالج چالاک وکیل، نفس پرست مجسٹریٹ اور بدکردار جج تایر کرنے کی فیکٹری نہیں ہے بلکہ اس کاکام تو ایسے قاضی اور مفتی پیدا کرنا ہے جو اپنی قوم میں اپنی سیرت و کردار کے لحاظ سے بلند ترین لوگ ہوں، جن کی راست بازی اور عدل و انصاف پر کامل اعتماد کیا جاسکے، جن کی اخلاقی ساکھ ہر شبہ سے بالاتر ہو۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں سب سے بڑھ کر خدا ترسی، پرہیزگاری اور احساس ذمہ داری کا دور دورہ ہونا چاہیے۔ یہاں سے نکلنے والے طلبہ کو اس سند کے لیے تیار ہونا ہے جس پر کبھی قاضی شریح، امام ابوحنیفہ، امام مالک، امام احمد بن حنبل اور قاضی ابو یوسف جیسے لوگ بیٹھ چکے ہیں۔ یہاں ایسے مضبوط کیریکٹر کے آدمی تیار ہونے چاہئیں جو کسی مسئلہ شرعی میں فتویٰ دیتے وقت یا کسی معاملہ کا فیصلہ کرتے وقت خدا کے سوا کسی کی طرف نظر نہ رکھیں۔ کوئی لالچ، کوئی خوف، کوئی ذاتی دلچسپی، کوئی محبت اور کوئی نفرت ان کو اس بات سے نہ ہٹا سکے جسے وہ اپنے علم اور اپنے ضمیر کے لحاظ سے حق اور انصاف کی بات سمجھتے ہوں۔
۵۔ عدالتی نظام کی اصلاح
اسلامی قانون کے اجرا کی خاطر زمین ہموار کرنے کے لیے ہمیں اپنے عدالتی نظام میں بھی بہت کچھ تبدیلیاں کرنی ہوں گی۔ اس سلسلہ کی چھوٹی چھوٹی تفصیلات کو چھوڑ کر میں دو چیزوں کا خاص طور پر ذکر کروں گا جو اسلامی نقطۂ نظر سے بہت اہمیت رکھتی ہیں۔
۶۔پیشۂ وکالت کا انسداد
اولین اصلاح طلب معاملہ پیشہ وکالت کا ہے جو موجودہ عدالتی نظام کی بدترین خرابیوں میں سے ایک بلکہ شاید سب سے بدتر چیز ہے۔ اخلاقی اعتبار سے اس کے جواز میں ایک حرف نہیں کہا جاسکتا۔ عملی حیثیت سے عدالتی کام کی کوئی حقیقی ضرورت ایسی نہیں ہے جو اس کے بجائے کسی دوسرے مناسب طریقہ سے پوری نہ کی جاسکتی ہو۔ اور اسلام کے مزاج سے یہ پیشہ قانون بازی اس قدر بُعد رکھتا ہے کہ جب تک یہ پیشہ جاری ہے ہماری عدالتوں میں اسلامی قانون اپنی صحیح اسپرٹ کے ساتھ جاری ہی نہیں ہوسکتا۔ بلکہ اگر کہیں خدائی قانون کے ساتھ یہاں وہ بازی گری کی گئی جو انسانی قانون کے ساتھ روز کی جارہی ہے تو عجب نہیں کہ ہم انصاف کے ساتھ ایمان بھی کھو بیٹھیں۔ لہٰذا یہ نہایت ضروری ہے کہ اس پیشہ کو بتدریج ختم کر دیا جائے۔
نظری حیثیت سے وکیل کاکام یہ ہے کہ وہ عدالت کو قانون سمجھنے اور مقدمہ زیر سماعت کے حالات پر اسے منطبق کرنے میں مدد دے۔ اصولاً یہ ضرورت اپنی جگہ مسلم ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ ایک مقدمہ میں دو ماہرین قانون کی رائیں مختلف ہوسکتی ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ ایک کی رائے میں ایک فریق کا مقدمہ مضبوط ہو تو دوسرے کی رائے میں دوسرے فریق کا اور عدالت کے لیے صحیح نتیجہ پر پہنچنے میں دونوں طرف کے دلائل سے مطلع ہونا یقینا مفید ہوتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس نظریہ کو عملی جامہ پہنانے کی جو صورت طریقہ وکالت کی شکل میں اختیار کی گئی ہے، کیا فی الواقع اس سے یہ دونوں فائدے حاصل ہوتے ہیں؟ ایک وکیل اپنی قانونی مہارت کو لے کر بازار میں بیٹھ جاتا ہے اور تیار رہتا ہے کہ جس مقدمہ کا جو فریق بھی اس کے دماغ کا کرایہ ادا کرنے کے لیے تیار ہو اس کے حق میں وہ قانونی نکات سوچنا شروع کر دے۔ اس کو اس سے کوئی بحث نہیں ہوتی کہ میرا موکل حق پر ہے یا باطل پر، مجرم ہے یا بے گناہ، اپنا حق لینا چاہتا ہے یا دوسرے کا حق مار کھانا چاہتا ہے۔ اس کو اس سے بھی کوئی دلچسپی نہیں ہوتی کہ قانون کا منشا درحقیقت کیا ہے اور اس کی رو سے اس کے موکل کا مقدمہ صحیح ہے یا غلط۔ وہ صرف یہ دیکھتا ہے کہ اس شخص نے مجھے فیس دی ہے اور میرا کام اس کی حمایت کرنا ہے۔ اس لیے وہ مقدمہ کو چھیل بنا کر قانون کے مطابق ڈھالتا ہے، کمزور پہلوئوں کو چھپاتا ہے، موافق پہلوئوں کو ابھارتا ہے، روداد مقدمہ اور شہادتوں میں سے چُن چُن کر صرف وہ چیزیں نکالتا ہے جو اس کے موکل کی تائید میں ہوں، گواہوں کو توڑنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ مقدمہ کے صحیح واقعات… اگر وہ اس کے موکل کے خلاف پڑتے ہوں… روشنی میں نہ آسکیں یا کم از کم مشتبہ ہو جائیں، اور قانون کی صرف مفید مطلب تعبیریں پیش کرکے اور ان کے حق میں دلائل دے کر جج کو گمراہ کرنا چاہتا ہے تاکہ اس کے قلم سے وہ فیصلہ نکلے جو اس کے موکل کے موافق ہو نہ کہ وہ جو تقاضائے انصاف ہو۔ اب خواہ کوئی حقیقی مجرم چھوٹ جائے یا کوئی واقعی بے گناہ پھنس جائے، کوئی حقدار بے حق ہو جائے یا غیر مستحق دوسرے کا حق مار کھائے، وکیل اس کی کچھ پروا نہیں کرتا۔ وہ حق کی حمایت کرنے اور انصاف کرانے کے لیے وکالت خانے میں نہیں بیٹھتا۔ اس کا مقصد ہوتا ہے روپیہ۔ جو اسے روپیہ دے وہی حق پر ہے خواہ وہ مقدمہ کا ایک فریق ہو یا دوسرا فریق… میں پوچھتا ہوں، کیا کسی اصول اخلاق کے لحاظ سے یہ پیشہ ورانہ قانون بازی جائز ٹھیرائی جاسکتی ہے؟ کیا کوئی صاحب ضمیر، خدا ترس اور ایمان دار آدمی محض فیس کی خاطر اتنی بڑی ذمہ داری اپنے سر لے سکتا ہے کہ مظلوم کو داد سے محروم کرانے اور ظالم کا ظلم برقرار رکھنے کی کوشش کرے؟ اور کیا فی الواقع ایسے ماہرین قانون کا مشورہ ججوں کو انصاف کے کام میں کچھ بھی مدد دے سکتا ہے جو علانیہ اس مقصد کے لیے فیس لیے بیٹھے ہوں کہ قانون کی تعبیر لازماً اپنے موکل ہی کے حق میں کریں گے؟ کیا کسی قانون مسئلہ میں ایک مقدمہ کے دو مخالف وکیلوں کا اختلاف رائے حقیقی ایماندارانہ اخلاف رائے ہوتا ہے، درآنحالیکہ یہی دونوں وکیل اتنے ہی زور کے ساتھ بالکل برعکس رائیں پیش کرتے اگر دونوں کے موکل بدلے ہوئے ہوتے؟
حقیقت یہ ہے کہ اس پیشۂ وکالت نے صرف ہمارے نظام عدل و انصاف کو سخت نقصان ہی نہیں پہنچایا ہے اور صرف اتنا ہی نہیں کیا ہے کہ ہماری سوسائٹی میں قانون کی پیروی کے بجائے اس کی خلاف ورزی کو وسعت و طاقت بخشی ہو، بلکہ اس کا نقصان ہماری پوری اجتماعی زندگی میں پھیل گیا ہے اور ہماری سیاست بھی اسی کی وجہ سے گندی ہو کر رہ گئی ہے۔ زبان اور ضمیر کا تعلق منقطع کرنے کی مشق آپ کے کالجوں کی مجالس مباحثہ سے شروع ہوتی ہے۔ یہاں ایک بولنے والے کی اصل خوبی یہی سمجھی جاتی ہے کہ وہ مسئلہ زیر بحث کے دونوں پہلوئوں کی حمایت میں یکساں زور کے ساتھ بول سکے اور جس جانب سے بھی کھڑا ہو جائے دلائل کے انبار لگا دے خواہ اس کی ذاتی رائے اس کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔ یہ ابتدائی مشق پیشہ وکالت میں داخل ہو کر خوب منجھتی اور پختہ ہوتی ہے۔ پھر جب ایک وکیل سالہا سال تک دل کے خلاف دماغ لڑانے اور ضمیر کے خلاف زبان چلانے میں ماہر کا مل ہوچکتا ہے، تب وہ اپنی اسی سیرت کو لیے ہوتے ہماری قومی زندگی Public Life میں داخل ہوتا ہے اور اپنے اس اخلاقی زہر کو ہمارے علمی، تمدنی اور سیاسی اداروں میں ہر طرف پھیلا دیتا ہے۔
اسلام اس پیشہ کو کسی طرح برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اس کے نظام میں اس کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ یہ اس کے مزاج اور اس کی روح اور اس کی روایات کے بالکل خلاف ہے۔ پچھلی دس بارہ صدیوں میں آدھی سے زیادہ دنیا پر مسلمانوں نے حکومت کی ہے اور کہیں اس کے نظامِ عدالت میں اس قانونی پیشے کا نشان ہمیں نہیں ملتا۔ اس کے بجائے ہماری ہاں مفتی کا منصب تھا اور اب ہمیں اسی کو تازہ کرنا چاہیے۔ قدم زمانے میں مفتی زیادہ تر اپنی روزی کسی آزاد کاروبار سے کماتے تھے اور لوگوں کو فتویٰ بلا معاوضہ دیا کرتے تھے۔ آج کی بڑھی ہوئی ضروریات کے مطابق ایک کافی تعداد میں ماہرین قانون… جن میں مخصوص شعبہائے قانون کے اختصاصی ماہرین بھی شامل ہوں… سرکاری طور پر مقرر کر دیے جائیں اور ان کو پبلک کے خزانے سے معقول تنخواہیں دی جائیں۔ اس کے پاس فریقین کا جانا اور ان کی کچھ ’’خدمت‘‘ کرنا قانوناً ممنوع ہو اور اسی طرح حکومت کو بھی ان کی رائے پر اثر ڈالنے کا کوئی حق نہ ہو جس طرح حاکمانِ عدالت پر دبائو ڈالنے کا اسے حق نہیں ہے۔ عدالتیں خود حسب موقع ان ماہرین کے پاس مقدمات کی رُوداد بھیجا کریں اور ان سے رائے لے لیں۔ اگر ان کے درمیان اختلاف رائے ہو تو وہ عدالت میں آکر اپنے استدلال پیش کری۔ مقدمہ کے واقعات کی تحقیق کے لیے عدالت خود بھی گواہوں پر جرح کرے اور مفتیوں کو بھی موقع دیا جائے کہ وہ گواہوں سے تمام ایسے حالات معلوم کریں جن کا مقدمہ پر اثر پڑتا ہو۔ اس طرح عدالتوں کو قانون سمجھنے اور مقدمات پر اس کو منطبق کرنے میں حقیقی مدد ملے گی، مفتیوں کا سچا اختلاف رائے بہت سے قانونی مسائل کو صاف کرے گا، عدالتوں کا بہت سا وقت، جو بنے ہوئے مقدمات اور مصنوعی شہادتوں کی وجہ سے اب ضائع ہوا کرتا ہے، بچ جائے گا اور مقدمہ بازی، جس کی ساری گرم بازاری اس قانونی پیشے ہی کی بدولت ہے، ہمارے معاشرے سے رخصت ہو جائے گی۔
رہا یہ سوال کہ اگر مقدمات کو ضابطہ کے مطابق تیار کرکے عدالتوں کے سامنے پیش کرنے والے صاحبِ فن لوگ موجود نہ ہوں تو اہل مقدمات کو بڑی پریشانیاں لاحق ہوں گی اور وہ طرح طرح کے بے ضابطہ طریقوں سے اپنے معاملات پیش کرکرکے عدالتوں کو بھی پریشان کریں گے تو اس کا حل یہ ہے کہ ہم اس کے لیے مختاری کے اس پرانے طریقہ کو زندہ کریں جو ہماری عدالتوں میں پہلے رائج تھا۔ ہمارے لا کالجوں کے ساتھ ایسی ضمنی کلاسیں بھی ہونی چاہییں جن میں متوسط درجہ کے تعلیم یافتہ لوگوں کو صرف قانون ضابطہ Procedural Law پڑھایا جائے اور عملاً عدالتی طریق کار سے واقف کرا دیا جائے۔ ان لوگوں کاکام محض یہ ہونا چاہیے کہ ایک مقدمہ کو ضابطہ کی صورت دے کر عدالت کے سامنے پیش کرنے کے قابل بنا دیں اور مختلف مراحل پر اہل مقدمات کو عدالتی طریق کار بتاتے رہیں۔ یہ لوگ اگر فیس لے کر پریکٹس کریں تو اس سے وہ خرابیاں رونما نہیں ہوسکتیں جو پیشہ وکالت سے رونما ہوتی ہیں۔
۷۔ کورٹ فیس کا انسداد
ملک کے نظام عدل و انصاف کو اسلامی معیار پر لانے کے لیے ایک اور ضروری اصلاح یہ ہے کہ ہم اپنے ہاں سے کورٹ فیس بالکل اڑا دیں۔ یہ ایک ایسی گھنائونی بدعت ہے جس سے ہم مسلمان مغربی تسلط سے پہلے کبھی آشنا نہیں ہوئے تھے۔ اسلامی مذاق پر یہ تصور ہی سخت گراں ہے کہ عدالت داد رسی کی خدمت انجام دینے کے بجائے انصاف کی دکان بن کر رہے جہاں سے کوئی شخص پیسہ دیے بغیر جنس عدل حاصل نہ کرسکتا ہو اور جہاں بے زر انسان کے لیے یہی مقدر ہو کہ ظلم سہے اور داد نہ پائے۔ ہم چاہتے ہیں کہ انگریزی دَور کے اتھ اس کی یہ یادگار بھی رخصت ہو اور ہماری عدالتیں پھر سے اس اسلامی معیار پر قائم ہو جائیں جس کی رُو سے انصاف رسانی ایک تجارتی کاروبار نہیں بلکہ ایک عادت اور ایک خدمت بے مزد ہے۔
آپ سوال کرسکتے ہیں کہ اگر کورٹ فیس اڑا دی جائے تو آخر عدالتی نظام کے مصارف کہاں سے پورے ہوں گے؟ میں اس کے جواب میں دو باتیں عرض کروں گا۔
ایک یہ کہ اسلامی نظام میں اتنے لمبے چوڑے عدالتی عملے کی ضرورت باقی نہ رہے گی جسے موجودہ حالات نے ناگزیر بنا رکھا ہے۔ پیشہ وکالت کا انسداد مقدمہ بازی کو بہت کم کر دے گا اور مقدمات کا دوران بھی آ جکل کی بہ نسبت بہت گھٹ جائے گا۔ پھر خلاق، معاشرت اور معیشت کی اصلاح بھی مقدمہ بازی کو گھٹانے میں بہت کچھ مدد گار ہوگی۔ پولیس اور جیل کے کارکنوں کی تربیت اورطریق کار کی اصلاح سے بھی جرائم کی تعداد میں بہت کمی واقع ہو جائے گی۔{ غالباً یہاں یہ ذکر بے محل نہ ہوگا کہ حضرت عمرؓ کے زمانہ میں ایک مرتبہ کوفہ کے چیف جج حضرت سلیمان بن ربیعہ باہلی اپنی عدالت میں مسلسل چالیس دن ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹے رہے، صرف اس لیے کہ ان کے پاس سرے سے کوئی مقدمہ آیا ہی نہیں (الاستیعاب جلد ۲ص۵۸)
اس سے بھی زیادہ عجیب واقعہ یہ ہے کہ حضرت ابوبکرؓ کے زمانۂ خلافت میں جب کہ حضرت عمرؓ مدینہ کے قاضی تھے، پورا ایک سال ایسا گزر گیا کہ ایک مقدمہ بھی ان کے سامنے فیصہل کے لیے پیش نہ ہوا۔ (الصدیق ابوبکر، تالیف محمد حسین ہیکل پاشا ص۲۱۰)
اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اگر صحیح طورپر اسلام کی اصلاح اسکیم کو معاشرے میں جاری کیا جائے تو مقدمہ بازی کس قدر کم ہو جاتی ہے۔} اس طرح ہمیں اپنے نظامِ عدالت کے لیے اتنے ججوں اور مجسریٹوں اور دفتری کارکنوں کی حاجت نہ رہے گی جتنے اب درکار ہوتے ہیں اور اسی نسبت سے عدالتوں کے دوسرے مصارف بھی کم ہو جائیں گے۔ علاوہ بریں اسلامی نظام میں تنخواہوں کا معیار بھی وہ نہ ہوگا جو اَب ہے۔
دوسرے یہ کہ ان تخفیفات کے بعد عدالتی نظام کے مصارف کا جو ہلکا بوجھ ہمارے خزانے پر باقی رہ جائے گا اس کو ہم ہر داد خواہ پر ڈالنے کے بجائے ان لوگوں پر ڈالیں گے جو عدالتوں سے بیجا استفادہ کی کوشش کریں، یا جن کی عدالتوں کی خدمات سے غیر معمولی فائدہ پہنچتا ہو۔ مثلاً جھوٹے مقدمات دائر کرنے والوں، جھوٹی شہادتیں دینے والوں اور عدالت کے سمنوں کی تعمیل سے گریز کرنے والوں پر جرمانے کیے جائیں۔ مجرموں پر جو جرمانے کیے جاتے ہیں وہ بھی اسی مد میں شمار ہوں۔ اور ایک خاص مالیت سے زیادہ کی ڈگری جن لوگوں کوملے ان پر ایک خاص شرح سے ٹیکس لگا دیا جائے۔ اس قسم کی تدابیر کے باوجود اگر محکمہ انصاف کے بجٹ میں کوئی خسارہ ہے تو اسے خزانہ عامرہ سے پورا کیا جانا چاہیے، کیونکہ خلق کے درمیان انصاف کرنا ایک نظامِ حکومت کے بنیادی فرائض میں سے ہے۔