Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

دیباچہ
موجودہ عمرانی مسائل کا تاریخی پس منظر
دور متوسط کا کالبرلزم
صنعتی انقلاب
جدید لبرلزم
جدید نظام سرمایہ داری
1۔ شخصی ملکیت کا حق
2 ۔آزادیِ سعی کا حق
3۔ ذاتی نفع کا محرکِ عمل ہونا
4۔ مقابلہ اور مسابقت
5۔اجیر اورمستاجر کے حقوق کا فرق
6۔ ارتقاء کے فطری اسباب پر اعتماد
7 ۔ریاست کی عدم مداخلت
خرابی کے اسباب
سوشلزم اور کمیونزم
سوشلزم اور اس کے اصول
کمیونزم اور اس کا میزانیہ ٔ نفع و نقصان
ردعمل
فاشزم اور نازی ازم
صحیح اور مفید کام
حماقتیں اور نقصانات
نظام سرمایہ داری کی اندرونی اصلاحات
وہ خرابیاں جو اَب تک نظام سرمایہ داری میں باقی ہیں
تاریخ کا سبق
اصلی اُلجھن
اسلامی نظم معیشت کے بنیادی ارکان
جدید معاشی پیچیدگیوں کا اسلامی حل
شخیصِ مرض
اسلامی علاج
1۔ زمین کی ملکیت
2۔ دوسرے ذرائع پیداوار
3۔ مالیات
4۔ زکوٰۃ
5۔حکومت کی محدود مداخلت
متوازن معیشت کے چار بنیادی اصول

اسلام اور جدید معاشی نظریات

یہ کتاب مولانا کی کتاب ’سود‘ کا ایک حصہ ہے۔ جسے بعد میں مولانا مودودیؒ خود ہی الگ کتابی شکل دے دی تھی۔ اس کتاب میں وہ حصہ شامل ہے جس کا براہِ راست تعلق سود سے نہیں ہے۔
اس کتاب میں عمرانی مسائل کا تاریخی پس منظر سمیت صنعتی انقلاب کے بعد دنیا میں ہونے والے تغیرات کا جائزہ لیا گیا ہے۔
سوشلزم اور کمیونزم نے جس طرح انسانیت کو تباہی سے دوچار کیا اور کررہی ہے اس کے نقصانات کا جائزہ لیا گیا۔
اسلامی نظام معیشت کے بنیادی ارکان
اکتساب مال کے ذرائع میں جائز ناجائز کی تفریق
مال جمع کرنے کی ممانعت
خرچ کرنے کا حکم
زکوٰة
قانونِ وراثت
کا ناصرف تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے وہیں قرآن وحدیث کی روشنی میں جدید معاشی پیچیدگیوں کا اسلامی حل بھی بتایا گیا ہے۔
سر مایہ دارانہ نظام کے ہمہ گیر اثرات کے پیش نظر مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی ؒ نے جن کی زندگی کا مشن ہی غیر اسلامی نظریہ و نظام کو اُکھاڑ پھینکنا ہے اس موضوع پر قلم اٹھایا اور اس کے ہر پہلو پر اس تفصیل کے ساتھ ایسی مدلل بحث کی ہے کہ کسی معقول آدمی کو اس کی خرابیوں کے بارے میں شبہ باقی نہ رہے۔ اس کتاب میں معاشی نقطہ نظر سے یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ مغرب کا دیا گیا معاشی نظام ہر پہلو سے انسانی معاشرے کے لیے مضرت رساں اور تباہ کن ہے۔ معاشیات کے طالب علموں سمیت کاروباری افراد کے لیے یہ کتاب نہایت اہم ہے اور انھیں اس کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے۔

صحیح اور مفید کام

فاشی اور نازی حضرات اشتراکیوں کے اس خیال کو رد کر دینے میں بالکل حق بجانب تھے کہ ایک معاشرے اور ایک قوم کے زمیندار و سرمایہ دار طبقات اور محنت پیشہ طبقات کے درمیان صحیح اور فطری تعلق صرف نفرت، عناد اور جنگ ہی کا تعلق ہے۔ ان کا یہ خیال بالکل صحیح تھا کہ اصل چیز طبقہ نہیں بلکہ معاشرہ اور قوم ہے جس کے مختلف اجزاء و اعضاء اپنے مجموعہ کے لیے مختلف خدمات انجام دیتے ہیں۔ ان کے درمیان حقیقی تعلق دشمنی اور جنگ اور پیکار کانہیں بلکہ موافقت اور تعاون اور تعامل کا ہے۔ ان کا کام یہ ہے کہ سب مل کر سب کے لیے اشیاء ضرورت پیدا کریں اور اجتماعی پیداوار کو بڑھا کر قومی دولت اور طاقت میں اضافہ کریں۔ اس موافقت اور تعاون میں اگر کوئی کمی یا خلل ہو تو اسے دور ہونا چاہیے۔ نزاع و اختلاف ہو تو اسے رفع ہونا چاہیے۔ نہ یہ کہ وہ بڑھے اور ایک ہی معاشرے کے اجزاء ایک دوسرے کو فنا کر دینے پر تل جائیں۔
انہوں نے اشتراکیت کے اس نظریے کو بھی بجا طور پر رد کر دیا کہ اجتماعی مفاد کے لیے انفرادی ملکیت اور ذاتی نفع طلبی بجائے خود کوئی نقصان دہ چیز ہے جسے ختم ہوجانا چاہیے۔ ان کا یہ خیال بالکل صحیح تھا کہ یہ دونوں چیزیں خود اجتماعی مفاد ہی کے لیے مفید اور ضروری ہیں۔ بشرطیکہ یہ بے قید معیشت کی طرح غیر محدود نہ ہوں بلکہ کچھ حدود کے ساتھ محدود کر دی جائیں۔ انہوں نے کہا کہ افراد کو اپنے نفع کے لیے جدوجہد کرنے کا حق تو ضرور ہے مگر اس حق کا استعمال اجتماعی مفاد کے تحت اور اس کے مطابق ہونا چاہیے نہ کہ اس کے خلاف مرکزی مالیات (High Finance) معدنیات، جہاز سازی و جہاز رانی، سامان جنگ کی صنعت اور ایسے ہی دوسرے بڑے کاروبار (Big Business) انفرادی ملکیت میں نہ رہنے چاہییں۔ ایسے اجاروں کو بھی ختم ہونا چاہیے جن میں اجتماعی مفاد کو شخصی مفاد پر قربان کیا گیا ہو۔ تجارت میں سے سٹے کو قطعی بند ہونا چاہیے۔ قرض و استقراض کے نظام میں سے سود کو بالکل ساقط ہوجانا چاہیے(۱) اور کاروبار کو ایسے قواعد و ضوابط کا پابند ہونا چاہیے جو اس سے تعلق رکھنے والے سب لوگوں کے مفاد سے مطابقت رکھتے ہوں نہ کہ صرف ایک گروہ کے مفاد سے۔ اس کے بعد اگر ایک کارخانہ دار قیمتیں مناسب رکھتا ہے، مال اچھا تیار کرتا ہے، اپنے مزدوروں کو خوشحال اور خوشدل رکھتا ہے، اپنی صنعت کو ترقی دینے کی کوشش کرتا رہتا ہے اور اپنی ان خدمات کے معاوضے میں جائز حدود کے اندر رہ کر منافع لیتا ہے تو وہ آخر کس جرم کا مرتکب ہے کہ خواہ مخواہ اسے دشمنِ جماعت قرار دیا جائے؟
انہوں نے اپنی وسیع المشربی کے اس نظریے کو بھی بالکل بجا طور پر رد کر دیا کہ حکومت صرف پولیس اور عدالت کے فرائض انجام دے اور معاشی زندگی کے کاروبار سے کچھ غرض نہ رکھے۔ انہوں نے کہا کہ قومی معیشت کے مختلف عناصر کے درمیان ہم آہنگی اور توافق اور تعاون پیدا کرنا اور نزاع و کشمکش کے اسباب کو دور کرنا قومی ریاست کے فرائض میں سے ہے۔ انہوں نے ایک طرف ہڑتال کو اور دوسری طرف کارخانے بند کرنے کو ازروئے قانون ممنوع ٹھیرایا۔ اجیروں اور مستاجروں کی مشترک کونسلیں بنائیں، ان کے درمیان حقوق و فرائض انصاف کے ساتھ مقرر کرنے کی کوشش کی اور ان کے جھگڑوں کو چکانے کے لیے باہمی گفت و شنید، پھر پنچایت اور بالآخر عدالتی فیصلے کا ایک باقاعدہ نظام مقرر کردیا۔
انہوں نے سرمایہ داری نظام کی اس خرابی کو دور کرنے کی کوشش کی کہ جو لوگ بیکار ہوتے ہیں یا ناکارہ ہو جاتے ہیں ان کی خبرگیری کا کوئی ذمہ دار نہیں ہوتا۔ اس طرح بے وسیلہ لوگوں کو بے سہارا چھوڑ دینے کے جو نقصانات ہوسکتے ہیں نازیوں اور فاشیوں نے ان کو محسوس کیا اور بہت وسیع پیمانے پر سوشل انشورنس کااہتمام کیا جس کے ذریعے سے بیماری، بڑھاپے، بیکاری اور حادثات کی صورت میں کارکنوں کو مدد دی جاتی تھی۔ نیز انہوں نے مائوں اور بچوں کی نگہداشت، فلاح اطفال، اپاہجوں اور معذروں کی خبرگیری، جنگ میں ناکارہ ہوجانے والوں کی امداد، لاوارث بوڑھوں کی دیکھ بھال اور ایسے ہی دوسرے امور خیریہ کے لیے عظیم الشان ادارے قائم کئے۔ جنگ سے پہلے جرمنی میں اس طرح کا جو ادارہ قائم تھا اس نے تقریباً 50 لاکھ افراد کو سنبھال رکھا تھا۔
انہوں نے بے قید معیشت کے اس عیب کو دور کرنے کی طرف بھی توجہ کی کہ سارا معاشی کاروبار بغیر کسی نقشے اور منصوبے اور ہم آہنگی کے چلتا رہتا ہے اور اس کی وجہ سے معاشی و سائل پوری طرح سے استعمال نہیں ہوتے اور جتنے کچھ استعمال ہوتے ہیں ان میں توازن نہیں ہوتا۔ اس خرابی کو دور کرنے کے لیے انہوں نے قومی معیشت کی رہنمائی اورتنظیم و توفیق (Co-ordination) کا کام ریاست کے ہاتھ میں لے لیا، معاشی زندگی کے تمام شعبوں کی کونسلیں بنائیں، اور ایک منضبط اور منظم طریقے سے پیداوار کے وسائل اور قوتوں کو استعمال کرنے کی کوشش کی۔ اس طرح انہوں نے بے روزگاری کا خاتمہ کردیا۔(۱) پیداوار میں حیرت انگیز اضافہ کیا اور مختلف شعبوں میں ہموار ترقی کی۔

شیئر کریں