جن مسائل کا تعلق امور ماورائے طبیعت سے ہے ان کے بارے میں اسلام کی صحیح تعلیم یہ ہے کہ جس چیز کا جاننا اور جس حد تک جاننا ضروری تھا۔ وہ اللہ اور اس کے رسول نے بتا دی ہے، اس سے زیادہ کا کھوج لگانا اور ایسی باتوں میں خوض کرنا، جن کے متعلق یقینی معلومات حاصل کرنے یا جن کی کنہ کو پہنچنے کے ذرائع ہمارے پاس نہیں ہیں اور جن کے نہ جاننے سے ہم کو کسی قسم کا نقصان بھی نہیں ہے، لاحاصل بھی ہے اور خطرناک بھی۔ اسی لیے قرآنِ مجید میں فرمایا گیا ہے:
لَا تَسْــــَٔـلُوْا عَنْ اَشْـيَاۗءَ اِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ۰ۚ المائدہ5:101
ایسی باتوں کے متعلق سوال نہ کرو جن کو اگر تم پر ظاہر کیا جائے تو تم کو برا معلوم ہو۔
اور اسی لیے فرمایا گیا ہے کہ:
مَآ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ۰ۤ وَمَا نَہٰىكُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوْا۰ۚ الحشر59:7
جو کچھ رسول نے تم کو دے دیا ہے وہ لے لو اور جس سے منع کیا ہے اس سے باز آئو۔
اور اسی لیے حدیث نبویؐ میں کثرتِ سوال اور فضول باتوں میں تکلف کرنے کو ناپسند قرار دیا گیا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اِنَّ مِنْ حُسْنِ اِسْلَامِ الْمَرْئِ تَرْکُہٗ مَا لَا یَعْنِیْہِ ( یہ حدیث امام زہری نے امام زین العابدین کے واسطے سے روایت کی ہے۔(ترمذی) ’’آدمی کے اسلام کی بہتری اس میں ہے کہ وہ بے فائدہ باتوں کو چھوڑ دے۔‘‘
یہ تقدیر کا مسئلہ بھی من جملہ انھی مسائل کے ہے۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بار بار تاکید فرمائی ہے کہ اس مسئلے پر بحث کرنے سے پرہیز کیا جائے۔ ایک مرتبہ صحابہؓ آپس میں اس مسئلے میں بحث کر رہے تھے، اتنے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے اور یہ باتیں سن کر آپؐ کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا۔ آپؐ نے فرمایا: ’’کیا انھی باتوں کا تم کو حکم دیا گیا ہے؟ کیا اسی لیے میں تم میں بھیجا گیا ہوں؟ ایسی ہی باتوں سے پچھلی قومیں ہلاک ہوئی ہیں۔ میرا فیصلہ یہ ہے کہ تم اس معاملے میں جھگڑا نہ کرو۔‘‘(یہ حدیث مختلف طریقوں سے حضرت عمر، حضرت عائشہ، حضرت انس، حضرت ابوہریرہ اور حضرت عبداللہ بن عمر بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے مروی ہے۔ (دیکھو ترمذی، ابن ماجہ)
) ایک دوسرے موقع پر آپؐ نے فرمایا: ’’جو شخص تقدیر کے بارے میں گفتگو کرے گا۔ اس سے تو قیامت کے دن سوال کیا جائے گا۔ مگر جو خاموش رہے گا اس سے سوال نہ ہو گا۔‘‘ ( یہ حدیث حضرت عائشہ سے مروی ہے۔
) مطلب یہ کہ یہ مسئلہ ان معاملات میں سے نہیں ہے جن کے بارے میں کوئی نہ کوئی رائے قائم کرنا شرعاً تمھارے لیے ضروری ہو لہٰذا اگر تم اس معاملے پر کوئی گفتگو نہ کرو تو قیامت میں تم سے کوئی سوال نہ ہو گا، لیکن اگر تم نے کلام کیا تو لامحالہ یا وہ غلط ہو گا یا صحیح اور غلط ہونے کی صورت میں تم ایک ایسی بات میں پکڑے جائو گے جس سے بحث کرنے کی تم کو کوئی ضرورت نہ تھی۔ پس بولنے میں نقصان کا احتمال ہے اور نہ بولنے میں کوئی نقصان نہیں۔ ایک اور موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رات کے وقت حضرت علی اور حضرت فاطمہ علیہما السلام کے مکان پر تشریف لے گئے اور پوچھا تم لوگ نماز تہجد کیوں نہیں پڑھتے؟ حضرت علی نے جواب دیا ’’یا رسول اللہؐ! ہمارے نفس اللہ کے ہاتھ میں ہیں، وہ چاہے گا کہ ہم اٹھیں تو اٹھ جائیں گے۔‘‘ یہ سن کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم فوراً واپس ہو گئے اور اپنی ران پر ہاتھ مار کر فرمایا:
وَکَانَ الْاِنْسَانُ اَکْثَرَ شیءٍ جَدَلًا۔ ( اس حدیث کو زہری نے امام زین العابدین سے اور انھوں نے حسین ابن علی رضی اللہ عنہما سے روایت کیاہے (بخاری و نسائی) محدثین نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے واپس پلٹ جانے اور آیت پڑھنے کی مختلف توجیہیں کی ہیں مگر میں اس کے صاف معنی یہ سمجھتاہوں کہ عملی زندگی کے مسائل میں تقدیر کے مسئلے سے استدلال کرنے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پسند نہیں فرمایا۔
)
انسان سب سے زیادہ جھگڑالو واقع ہوا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ محدثین اور فقہا کے گروہ نے صرف وَالْقَدْرِ خَیْرِہٖ وَ شَرِّہٖ مِنَ اللّٰہِ ’’تقدیر اچھی اور بری اللہ کی طرف سے ہے‘‘ کے مجمل اعتقاد پر اکتفا کیا ہے اور اس باب میں زیادہ کھوج لگانے اور جبر یا قدر کا قطعی حکم لگانے والوں کی سخت مذمت کرتے رہے، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور بزرگانِ سلف کی ممانعت کے باوجود دوسری قوموں کے مسائل فلسفہ و طبیعیات کا مطالعہ کرنے کی وجہ سے یہ مسئلہ مسلمانوں میں بھی پیدا ہوا اور اس کثرت سے اس پر بحث کی گئی کہ آخر کار یہ اسلامی علم کلام کے مہمات مسائل میں داخل ہو گیا۔