Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

عرض ناشر
دیباچہ طبع اوّل
دیباچہ طبع پنجم
اِسلام اور جاہلیّت کی اُصولی و تاریخی کش مکش
زِندگی کے چار نظریے
۱۔ جاہلیّت خالصہ
۲۔ جاہلیّتِ مشرکانہ
۳۔ جاہلیّت ِراہبانہ
۴۔ اِسلام
انبیا علیہم السلام کا مشن
نبی کے کام کی نوعیت
خلافتِ راشدہ
جاہلیّت کا حملہ
مجددین کی ضرورت
شرحِ حدیث ’’مَنْ یُّجَدِّدُ لَھَا دِیْنَھَا‘‘
کارِ تجدید کی نوعیت
مجدد کی تعریف
مجدد اور نبی کا فرق
الامام المہدی
امت کے چند بڑے بڑے مجددین اَور اُن کے کارنامے
عمربن عبدالعزیز ؒ
ائمہ اربعہ
امام غزالی ؒ
ابنِ تیمیہؒ
شیخ احمد سرہندیؒ
شاہ ولی اللّٰہ دہلویؒ کا کارنامہ
تنقیدی کام
تعمیری کام
نتائج
سید احمد بریلویؒ اور شاہ اسمٰعیل شہید
اسبابِ نکامی
ضمیمہ
منصب تجدید اور امام مہدی کے متعلق چند تصریحات
کشف و الہام کی حقیقت اور چند مجدد ین کے دعاوی
تصوف اور تصور شیخ
ایک بے بنیاد تہمت اور اس کا جواب
المہدی کی علامات اور نظامِ دین میں اس کی حیثیت
مسئلہ مہدی

تجدید واحیائے دین

”اسلام کی اصطلاحی زبان کے جو الفاظ کثرت سے زبان پر آتے ہیں ان میں سے ایک لفظ ”مجدد“بھی ہے۔ اس لفظ کا ایک مجمل مفہوم تو قریب قریب ہر شخص سمجھتا ہے، یعنی یہ کہ جو شخص دین کو از سر نو زندہ اور تازہ کرے وہ مجدد ہے لیکن اس کے تفصیلی مفہوم کی طرف بہت کم ذہن منتقل ہوتے ہیں۔ کم لوگ جانتے ہیں کہ تجدید دین کی حقیقت کیا ہے، کس نوعیت کے کام کو تجدید سے تعبیر کیا جا سکتا ہے ، اس کام کے کتنے شعبے ہیں، مکمل تجدید کا اطلاق کس کارنامے پر ہو سکتا ہے اور جزوی تجدید کیا ہوتی ہے؟ اسی ناواقفیت کا نتیجہ ہے کہ لوگ ان مختلف بزرگوں کے کارناموں کی پوری طرح تشخیص نہیں کر سکتے جن کو تاریخ اسلام میں مجدد قرار دیا گیا ہے۔ وہ بس اتنا جانتے ہیں کہ عمر ابن عبد العزیز بھی مجدد، امام غزالی بھی مجدد، ابن تیمیہ بھی مجدد، شیخ احمد سرہندی بھی مجدد اور شاہ ولی اللہ بھی مجدد، مگر ان کو یہ معلوم نہیں کہ کون کس حیثیت سے مجدد ہے اور اس کا تجدیدی کارنامہ کس نوعیت اور کس مرتبہ کا ہے۔ اس ذ ہول اور غفلت کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ جن ناموں کے ساتھ ”حضرت“، ”امام“، ”حجت الاسلام “، ”قطب العارفین“، ”زبدة السالکین“اور اسی قسم کے الفاظ لگ جاتے ہیں ان کی عقیدت مند ی کا اتنا بو جھ دماغوں پر پڑ جاتا ہے کہ پھر کسی میں یہ طاقت نہیں رہتی کہ آزادی کے ساتھ ان کے کارناموں کا جائزہ لے کر ٹھیک ٹھیک مشخص کر سکے کہ کس نے اس تحریک کے لیے کتنا اور کیسا کام کیا ہے اور اس خدمت میں اس کا حصہ کس قدر ہے۔ عموماً تحقیق کی نپی تلی زبان کے بجاے ان بزرگوں کے کارنامے عقیدت کی شاعرانہ زبان میں بیان کیے جاتے ہیں جن سے پڑھنے والے پر یہ اثر پڑتا ہے اور شاید لکھنے والے کے ذہن میں بھی یہی ہوتا ہے کہ جس کا ذکر کیا جا رہا ہے وہ فرد کامل تھا اور اس نے جو کچھ بھی کیا وہ ہر حیثیت سے کمال کے آخری مرتبے پر پہنچا ہوا تھا۔ حالانکہ اگر اب ہم کو تحریک اسلامی کی تجدید و احیا کے لیے کوئی کوشش کرنی ہے تو اس قسم کی عقیدت مندی اور اس ابہام و اجمال سے کچھ کام نہ چلے گا۔ ہم کو پوری طرح اس تجدید کے کام کو سمجھنا پڑے گا۔ اور اپنی پچھلی تاریخ کی طرف پلٹ کر دیکھنا ہوگا کہ ان بہت سی صدیوں میں ہمارے مختلف لیڈروں نے کتنا کتنا کام کس کس طرح کیا ہے ، ان کے کارناموں سے ہم کس حد تک فائدہ اٹھا سکتے ہیں، اور ان سے کیا کچھ چھوٹ گیا ہے جس کی تلافی پر اب ہمیں متوجہ ہو نا چاہیے۔ “ مولانا مودودیؒ نے اس کتاب کے مندرجہ بالا دیباچے ہی میں اس کتاب کی غرض وغایت بتادی ہے۔ سید مودودیؒ مزید لکھتے ہیں: ”یہ مضمون ایک مستقل کتاب چاہتا ہے۔ مگر کتاب لکھنے کی فرصت کہاں۔ یہی غنیمت ہے کہ شاہ ولی اللہ صاحب کا ذکر خیر چھڑ گیا جس کی وجہ سے اس مضمون کی طرف چند اشارے کرنے کا موقع نکل آیا۔ شاید کہ اِنھیں اشاروں سے کسی اللہ کے بندے کو تاریخ تجدید و احیاے دین کی تدوین کا راستہ مل جائے۔ یہ مقالہ جو اس وقت کتابی شکل میں شائع کیا جا رہا ہے، ابتدا جر یدہ”الفرقان“بریلی کے شاہ ولی اللہ نمبر کے لیے لکھا گیا تھا۔ اس لیے اس میں شاہ صاحب کے تجدیدی کارناموں پر نسبت زیادہ مفصل نگاہ ڈالی گئی ہے اور دوسرے مجد دین کے کام کا ذکر ضمنی طور پر کیا گیا ہے۔ اس مقالہ کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ ملحوظ خاطر رہنا چاہیے کہ اس میں تمام مجد دین کے کارناموں کا احاطہ مقصود نہیں ہے بلکہ صرف ان بڑے بڑے مجددین کا ذکر کیا گیا ہے جو اسلام کی تاریخ پر اپنا ایک مستقل نشان چھوڑ گئے ہیں۔ نیز یہ بھی پیش نظر رہنا چاہیے کہ تجدید کا کام بہت لوگوں نے کیا اور ہر زمانہ میں بہت لوگ کرتے ہیں مگر ”مجدد“کا لقب پانے کے مستحق کم ہی ہوتے ہیں۔ “

پی ڈی ایف ڈاؤنلوڈ کریں

شیخ احمد سرہندیؒ

ساتویں صدی میں فتنہ تاتار نے ہندوکش سے اُس پار کی دُنیا کو تو بالکل تاخت و تاراج کر دیا، مگر ہندوستان اس کی دست بُرد سے بچ گیا تھا۔ اس ڈھیل نے یہاں کے مترفین کو اسی غلط فہمی میں ڈال دیا جو ہمیشہ فریفتگانِ زینت دُنیا کو لاحق ہوتی ہے۔ یہاں وہ تمام خرابیاں پرورش پاتی رہیں جو خراسان و عراق میں تھیں۔ وہی پادشاہوں کی خداوندی، وہی امرا و اہل دولت کی عیش پسندی، وہی باطل طریقوں سے مال لینا اور باطل راستوں میں خرچ کرنا، وہی جبر و ظلم کی حکومت، وہی خدا سے غفلت اور دین کی صراط مستقیم سے بعد۔ رفتہ رفتہ نوبت اکبر بادشاہ کے دور حکومت تک پہنچی جس میں گم راہیاں اپنی حد کو پہنچ گئیں۔
اکبر کے دربار میں یہ رائے عام تھی کہ ملتِ اِسلام جاہل بدوئوں میں پیدا ہوئی تھی۔ کسی مہذب و شائستہ قوم کے لیے وہ موزوں نہیں۔ نبوت، وحی، حشر و نشر، دوزخ و جنت، ہر چیز کا مذاق اڑایا جانے لگا۔ قرآن کا کلام الٰہی ہونا مشتبہ، وحی کا نزول عقلاً مستبعد، مرنے کے بعد ثواب و عذاب غیر یقینی، البتہ تناسخ ہر آئینہ ممکن و اقرب الی الصواب۔ معراج کو علانیہ محال قرار دیا جاتا۔ ذاتِ نبوی پر اعتراضات کیے جاتے۔ خصوصاً آپ کی ازواج کے تعدد اور آپ کے غزوات و سرایا پر کھلم کھلا حرف گیریاں کی جاتیں۔ یہاں تک کہ لفظ احمد اور محمد سے بھی بے زاری ہو گئی اور جن کے ناموں میں یہ لفظ شامل تھا ان کے نام بدلے جانے لگے۔ دُنیا پرست علما نے اپنی کتابوں کے خطبوں میں نعت لکھنا چھوڑ دی۔ بعض ظالم اس حد تک بڑھے کہ دجّال کی نشانیاں ہادیٔ اعظم صلی اللّٰہ علیہ وسلم پر چسپاں کرنے لگے العیاذ باللّٰہ، العیاذ باللّٰہ ۔ دیوان خانہ شاہی میں کسی کی مجال نہ تھی کہ نماز ادا کر سکے۔ ابو الفضل نے نماز، روزہ، حج اور دوسرے شعائر دینی پر سخت اعتراضات کیے اور ان کا مذاق اڑایا۔ شعرا نے ان شعائر کی ہجو لکھی جو عوام کی زبانوں تک بھی پہنچی۔
بہائی نظریہ کی بِنا بھی دراصل اکبری عہد ہی میں پڑی تھی۔ اس وقت یہ نظریہ قائم کیا گیا کہ محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی بعثت پر ایک ہزار سال گزر چکے ہیں اور اس دین کی مدت ایک ہزار سال ہی تھی، اس لیے اب وہ منسوخ ہو گیا اور اس کی جگہ نئے دین کی ضرورت ہے۔ اس نظریہ کو سکوں کے ذریعہ سے پھیلایا گیا کیوں کہ اس زمانہ میں نشر و اشاعت کا سب سے زیادہ قوی ذریعہ یہی تھا۔ اس کے بعد ایک نئے دین اور نئی شریعت کی طرح ڈالی گئی جس کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ ہندوئوں اور مسلمانوں کے مذہب کو ملا کر ایک مخلوط مذہب بنایا جائے تاکہ شاہی حکومت مستحکم ہو۔ دربار کے خوشامدی ہندوئوں نے اپنے بزرگوں کی طرف سے پیشین گوئیاں سنانا شروع کر دیں کہ فلاں زمانہ میں ایک گئور کھشک مہاتما بادشاہ پیدا ہو گا۔ اور اسی طرح بندئہ زر علما نے بھی اکبر کو مہدی اور صاحب زماں اور امامِ مجتہد وغیرہ ثابت کرنے کی کوشش کی۔ ایک ’’تاج العارفین‘‘ صاحب یہاں تک بڑھے کہ اکبر کو انسانِ کامل اور خلیفۃ الزمان ہونے کی حیثیت سے خدا کا عکس ہی ٹھہرا دیا۔ عوام کو سمجھانے کے لیے کہا گیا کہ حق اور صدق (عالم گیر سچائیاں) تمام مذاہب میں موجود ہیں، کوئی ایک ہی دین حق کا اجارہ دار نہیں ہے، لہٰذا سب مذہبوں میں جو جو باتیں حق ہیں انھیں لے کر ایک جامع طریقہ بنانا چاہیے اور اس کی طرف لوگوں کو دعوتِ عام دینی چاہیے تاکہ ملتوں کے سب اختلافات مٹ جائیں۔ اسی طریق جامع کا نام ’’دین الٰہی‘‘ ہے، اس نئے دین کا کلمہ لا الہ الا اللّٰہ اکبر خلیفۃ اللّٰہ تجویز کیا گیا۔ جو لوگ اس دین میں داخل ہوتے انھیں ’’دین اِسلام مجازی و تقلیدی کہ از پدراں دیدہ و شنیدہ ام‘‘ سے توبہ کرکے ’’دینِ الٰہی اکبر شاہی‘‘ میں داخل ہونا پڑتا تھا اور داخل ہونے کے بعد انھیں لفظ ’’چیلا‘‘ سے تعبیر کیا جاتا تھا۔ سلام کا طریقہ بدل کر یوں کر دیا گیا کہ سلام کرنے والا ’’اللّٰہ اکبر‘‘ اور جواب دینے والا ’’جل جلالہ‘‘ کہتا۔ یاد رہے کہ بادشاہ کا نام جلال الدین اور لقب اکبر تھا۔ چیلوں کو بادشاہ کی تصویر دی جاتی اور وہ اسے پگڑی میں لگاتے۔ بادشاہ پرستی اس دین کے ارکان میں سے ایک رکن تھی۔ ہر روز صبح کو بادشاہ کا درشن کیا جاتا اور بادشاہ کے سامنے جب حاضری کا شرف عطا ہوتا تو اس کے سامنے سجدہ بجا لایا جاتا۔ علما کرام اور صوفیائے باصفا دونوں اپنے اس قبلۂ حاجات اور کعبہ مرادات کو بے تکلف سجدہ فرماتے تھے اور صریح شرک کو ’’سجدئہ تحیہ‘‘ اور ’’زمیں بوسی‘‘ جیسے الفاظ کے پردے میں چھپاتے تھے۔ یہ وہی ملعون حیلہ بازی تھی جس کی پیشین گوئی نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمائی تھی کہ ایک زمانہ ایسا آئے گا جب لوگ حرام چیز کا نام بدل کر اسے حلال کر لیا کریں گے۔
اس نئے دین کی بِنا تو یہ کَہ کر رکھی گئی تھی کہ اس میں بلا کسی تعصب کے ہر مذہب کی اچھی باتیں لی جائیں گی، مگر دراصل اس میں اِسلام کے سِواہر مذہب کی پذیرائی تھی اور نفرت و عداوت کے لیے صرف اِسلام اور اس کے احکام و قوانین ہی کو مختص کر لیا گیا تھا۔ پارسیوں سے آتش پرستی لی گئی، اکبری محل میں دائمی آگ کا الائو روشن کیا گیا اور چراغ روشن کرنے کے وقت قیامِ تعظیمی کیا جانے لگا۔ عیسائیوں سے ’’ناقوس نوازی‘‘ اور تماشائے صورتِ ’’ثالثِ ثلٰثہ‘‘ اور اسی قسم کی چند چیزیں لی گئیں۔ سب سے زیادہ نظرِ عنایت ہندویت پر تھی، کیوں کہ یہ ملک کی اکثریت کا مذہب تھا اور پادشاہی کی جڑیں مضبوط کرنے کے لیے اس کی استمالت ضروری تھی۔ چنانچہ گائے کا گوشت حرام کیا گیا۔ ہندو تہوار، دیوالی، دسہرہ، راکھی، پونم، شیوراتری وغیرہ پوری ہندوانہ رسوم کے ساتھ منائے جانے لگے۔ شاہی محل میں ہَوَن کی رسم ادا کی جانے لگی۔ دن میں چار وقت آفتاب کی عبادت کی جاتی۔ اور آفتاب کے ایک ہزار ناموں کا جاپ کیا جاتا۔ آفتاب کا نام جب زبان پر آتا ’’جلت قدرتہ‘‘ کے الفاظ کہے جاتے، پیشانی پر قشقہ لگایا جاتا۔ دوش و کمر پر جنیو ڈالا جاتا اور گائے کی تعظیم کی جاتی۔ معاد کے متعلق عقیدئہ تناسخ تسلیم کر لیا گیا اور برہمنوں سے ان کے دوسرے بہت سے اعتقادات سیکھے گئے۔ یہ سارا معاملہ تو تھا دوسرے مذاہب کے ساتھ۔ رہا اِسلام تو اس کے معاملہ میں بادشاہ اور درباریوں کی ایک ایک حرکت سے ظاہر ہوتا تھا کہ انھیں اس سے ضد اور چڑ ہو گئی ہے۔ اسلامی تعلیمات کے خلاف دوسرے مذاہب والوں کی طرف سے جو بات دربار کا رنگ دیکھ کر فلسفیانہ و صوفیانہ انداز میں پیش کر دی جاتی اسے وحی آسمانی سمجھ لیا جاتا اور اس کے مقابلہ میں اسلامی تعلیم رد کر دی جاتی۔ علما اِسلام اگر اِسلام کی طرف سے کوئی بات کہتے، یا کسی گم راہی کی مخالفت کرتے تو انھیں ’’فقیہ‘‘ کے نام سے موسوم کیا جاتا جس کے معنی ان کی اصطلاح خاص میں احمق اور ناقابل التفات آدمی کے ہو گئے تھے۔ چالیس آدمیوں کی ایک کمیٹی مذاہب کی تحقیق کے لیے مقرر کی گئی تھی جس میں تمام مذاہب کا مطالعہ بڑی رواداری بلکہ عقیدت مندی کے ساتھ کیا جاتا تھا، مگر اِسلام کا نام آتے ہی اس کا مذاق اڑایا جانے لگتا تھا اور اگر اِسلام کا کوئی حامی جواب دینا چاہتا تو اس کی زبان بند کر دی جاتی تھی۔ یہ برتائو اسی حد تک نہ رہا بلکہ عملاً اِسلام کے احکام کی دل کھول کر ترمیم و تنسیخ کی گئی۔ سود، جوئے اور شراب کو حلال کیا گیا۔ شاہی مجلس میں نو روز کے موقع پر شراب کا استعمال ضروری تھا۔ حتّٰی کہ قاضی و مفتی تک پی جاتے تھے۔ ڈاڑھی منڈوانے کا فیشن عام کیا گیا اور اس کے جواز پر دلائل قائم کیے گئے۔ چچا زاد اور ماموں زاد بہن سے نکاح کو ممنوع قرار دیا گیا۔ لڑکے کے لیے ۱۶ سال اور لڑکی کے لیے ۱۴ سال عمر نکاح مقرر کی گئی۔ ایک بیوی سے زیادہ بیویاں رکھنے کی ممانعت کی گئی۔ ریشم اور سونے کے استعمال کو حلال کیا گیا۔ شیر اور بھیڑیے کو حلال کیا گیا۔ سور کو اِسلام کی ضد میں نہ صرف پاک بلکہ ایک مقدس جانور قرار دیا گیا۔ حتّٰی کہ صبح آنکھ کھولتے ہی اسے دیکھنا مبارک خیال کیا جاتا تھا۔ مُردوں کو دفن کرنے کے بجائے جلانا یا پانی میں بہانا احسن ٹھہرایا گیا اور اگر کوئی دفن ہی کرنا چاہے تو سفارش کی گئی کہ پائوں قبلہ کی طرف رکھے جائیں۔ اکبر خود اِسلام کی ضد میں قبلہ ہی کی طرف پائوں کرکے سونے کا التزام کرتا تھا۔ حکومت کی تعلیمی پالیسی بھی سراسر اِسلام کی مخالف تھی۔ عربی زبان کی تعلیم اور فقہ و حدیث کے درس کو ناپسندیدہ سمجھا جاتا اور جو لوگ ان علوم کو حاصل کرتے وہ حقیر خیال کیے جاتے۔ علومِ دینی کی بجائے حکمت و فلسفہ، ریاضی و تاریخ اور اس نوع کے علوم کو سرکاری سرپرستی حاصل تھی۔ زبان میں ہندیت پیدا کرنے کی طرف خاص میلان تھا اور عربی حروف کو زبان سے خارج کرنے کی بھی تجویزیں تھیں۔ ان حالات کی وجہ سے دینی مدرسے ویران ہونے لگے اور اکثر اہلِ علم ملک چھوڑ چھوڑ کر نکلنے لگے۔
یہ تو تھا حکومت کا حال اور عوام کا حال یہ تھا کہ جو لوگ باہر سے آئے تھے وہ ایران وخراسان کی اخلاقی و اعتقادی بیماریاں ساتھ لائے تھے اور جو لوگ ہندوستان ہی میں مسلمان ہوئے تھے ان کی اسلامی تعلیم و تربیت کا کوئی خاص انتظام نہ تھا، اس لیے وہ پرانی جاہلیّت کی بہت سی باتیں اپنے خیالات اور اپنی عملی زِندگی میں لیے ہوئے تھے۔ ان دونوں قسم کے مسلمانوں نے مل جل کر ایک عجیب مرکب تیار کیا تھا جس کا نام ’’اسلامی تمدن‘‘ تھا۔ اس میں شرک بھی تھا۔ نسلی اور طبقاتی امتیازات بھی تھے، اوہام و خرافات بھی تھے اور نو ایجاد رسموں کی ایک نئی شریعت بھی تھی۔ دُنیا پرست علما و مشائخ نے نہ صرف اس مخلوطہ سے موافقت کرلی تھی بلکہ وہ اس نئے ’’مت‘‘ کے پروہت بن گئے تھے۔ لوگوں کی طرف سے انھیں نذرانے پہنچتے اور ان کی طرف سے لوگوں کو فرقہ بندی کا تحفہ ملتا۔
پیرانِ طریقت کے ہاتھوں سے ایک اور بیماری پھیل رہی تھی۔ اشراقیت، رواقیت (stoicism) مانویت اور وید انتزم کی آمیزش سے ایک عجیب قسم کا فلسفیانہ تصوف پیدا ہو گیا تھا، جسے اِسلام کے نظامِ اعتقادی و اخلاقی میں ٹھونس دیا گیا تھا۔ طریقت و حقیقت، شرعِ اسلامی سے الگ اور اس سے بے نیاز قرار دی گئی تھیں۔ باطن کا کوچہ ظاہر سے جدا بنا لیا گیا تھا اور اس کوچہ کا قانون یہ تھا کہ حدودِ حلال و حرام رخصت، احکامِ دین عملاً منسوخ اور ہوائے نفس کے ہاتھ میں کلی اختیارات۔ جس فرض کو چاہے ساقط کرے اور جس چیز کو چاہے فرض بلکہ فرض الفرض بنا دے۔ جس حلال کو چاہے حرام کر دے اور جس حرام کو چاہے حلال کر دے۔ ان عام پیروں سے بہتر جس کی حالت تھی ان پر کم و بیش فلسفیانہ تصوف کے اثرات پڑے ہوئے تھے اور وحدۃُ الوجود کے ایک غلط تصور نے خصوصیت کے ساتھ تمام قوائے عمل کو بے کار کر دیا تھا۔
یہ حالات تھے جب اکبری سلطنت کے ابتدائی ایام میں شیخ احمد سرہندی({ FR 6720 }) پیدا ہوئے۔ ان کی تعلیم و تربیت ایسے لوگوں میں ہوئی تھی جو اس دور کے صالح ترین لوگ تھے، گو اپنے گرد و پیش کے فساد کا مقابلہ نہ کر سکتے تھے مگر کم از کم اپنے ایمان اور عمل کو بچائے ہوئے تھے اور جہاں تک ہو سکتا تھا دوسروں کی اصلاح بھی کر رہے تھے۔ خصوصیت کے ساتھ شیخ کو سب سے زیادہ فیض حضرت باقی باللّٰہ صاحب سے پہنچا تھا جو اپنے وقت کے ایک بڑے صالح بزرگ تھے۔ مگر خود شیخ کی ذاتی صلاحیتوں کا حال یہ تھا کہ جب حضرتِ موصوف کے ساتھ راہ و رسم کی ابتدا ہوئی تھی اسی وقت انھوں نے شیخ کے متعلق اپنے یہ خیالات ایک دوست کو لکھ کر بھیجے تھے:
’’حال میں سرہند سے ایک شخص شیخ احمد نامی آیا ہے۔ نہایت ذی علم ہے۔ بڑی عملی طاقت رکھتا ہے۔ چند روز فقیر کے ساتھ ہی اس کی نشست و برخاست ہوئی ہے۔ اس دوران میں اس کے حالات کا جو مشاہدہ ہوا اس کی بنا پر توقع ہے کہ آگے چل کر یہ ایک چراغ ہو گا جو دُنیا کو روشن کر دے گا۔‘‘
یہ پیشین گوئی پوری ہوئی۔ ہندوستان کے گوشوں میں بہت سے حق پرست علما اور سچے صوفیہ بھی اس وقت موجود تھے۔ مگر ان سب کے درمیان وہ ایک اکیلا شخص تھا جو وقت کے ان فتنوں کی اصلاح اور شریعت محمدی کی حمایت کے لیے اُٹھا اور جس نے شاہی قوت کے مقابلہ میں یکہ و تنہا احیائے دین کی جدوجہد کی۔ اس بے سر و سامان فقیر نے علی الاعلان اٹھ کر ان گم راہیوں کی مخالفت کی جنھیں حکومت کی حمایت حاصل تھی اور اس شریعت کی تائید کی جو حکومت کی نگاہ میں مبغوض تھی۔ حکومت نے اسے ہر طرح دبانے کی کوشش کی، حتّٰی کہ جیل بھی بھیجا، مگر بالآخر وہ فتنہ کا منہ پھیرنے میں کام یاب ہو گیا۔ جہاں گیر، جس نے سجدئہ تحیہ نہ کرنے پر شیخ کو گوالیار کے قید خانہ میں بھیج دیا تھا، آخرکار شیخ کا معتقد ہو گیا اور اپنے بیٹے خرم کو، جو بعد میں شاہ جہان کے لقب سے تخت نشین ہوا، ان کے حلقہ بیعت میں داخل کیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اِسلام کے متعلق حکومت کی معاندانہ روش احترام سے بدل گئی۔ ’’دینِ الٰہی اکبر شاہی‘‘ ان تمام بدعتوں کے ساتھ ختم ہوا جو درباری شریعت سازوں نے گھڑی تھیں۔ اسلامی احکام کی جو ترمیم و تنسیخ کی گئی تھی وہ خود منسوخ ہو گئی۔ حکومت اگرچہ شاہی حکومت ہی رہی۔ مگر کم از کم اتنا ہوا کہ علومِ دینی اور احکامِ شرعی کی طرف اس کا رویہ کافرانہ ہونے کے بجائے عقیدت مندانہ ہو گیا۔ شیخ کی وفات کے تین چار سال بعد عالم گیر پیدا ہوا اور غالباً وہ شیخ ہی کے پھیلائے ہوئے اصلاحی اثرات تھے جن کی بدولت تیموری خاندان کے اس شاہ زادے کو وہ علمی اور اخلاقی تربیت مل سکی کہ اکبر جیسے ہادمِ شریعت کا پرپوتا خادمِ شریعت ہوا۔
شیخ کا کارنامہ اتنا ہی نہیں ہے کہ انھوں نے ہندوستان میں حکومت کو بالکل ہی کفر کی گود میں چلے جانے سے روکا اور اس فتنہ عظیم کے سیلاب کا منہ پھیرا جواب سے تین چار سو برس پہلے ہی یہاں اِسلام کا نام و نشان مٹا دیتا۔ اس کے علاوہ انھوں نے دو عظیم الشان کام اور بھی انجام دئیے۔ ایک یہ کہ تصوف کے چشمۂ صافی کو ان آلائشوں سے جو فلسفیانہ اور راہبانہ گم راہیوں سے اس میں سرایت کر گئی تھیں، پاک کرکے اِسلام کا اصلی اور صحیح تصوف پیش کیا۔ دوسرے یہ کہ ان تمام رسومِ جاہلیّت کی شدید مخالفت کی جو اس وقت عوام میں پھیلی ہوئی تھیں اور سلسلہ بیعت و ارشاد کے ذریعہ سے اتباعِ شریعت کی ایک ایسی تحریک پھیلائی جس کے ہزارہا تربیت یافتہ کارکنوں نے نہ صرف ہندوستان کے مختلف گوشوں میں بلکہ وسط ایشیا تک پہنچ کر عوام کے اخلاق و عقائد کی اصلاح کی کوشش کی۔ یہی کام ہے جس کی وجہ سے شیخ سرہندی کا شمار مجددین ملت میں ہوتا ہے۔
٭…٭…٭…٭…٭

شیئر کریں