Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

عرضِ ناشر
توحید ورسالت اور زندگی بعد موت کا عقلی ثبوت
سلامتی کا راستہ
اِسلام اور جاہلیت
دینِ حق
اِسلام کا اَخلاقی نقطۂ نظر
تحریکِ اِسلامی کی اَخلاقی بُنیادیں
بنائو اور بگاڑ
جہاد فی سبیل اللہ
شہادتِ حق
مسلمانوں کا ماضی وحال اور مستقبل کے لیے لائحہ عمل
اِسلام کا نظامِ حیات

اسلامی نظامِ زندگی اور اس کے بنیادی تصورات

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

شہادتِ حق

(یہ تقریر ۳۰ دسمبر ۱۹۴۶ء کو جماعت اسلامی لاہور کمشنری کے اجتماع میں بمقام مراد پور متصل سیال کوٹ کی گئی)
امتِ مسلمہ کا فرض اور مقصدِ وجود
ساری تعریف اس خدا کے لیے ہے جو کائنات کا تنہا خالق، مالک اور حاکم ہے۔ جو کمال درجے کی حکمت، قدرت اور رحمت کے ساتھ اس میں فرماں روائی کر رہا ہے جس نے انسان کو پیدا کیا، اس کو علم وعقل کی قوتیں بخشیں، اسے زمین میں اپنی خلافت سے سرفراز کیا اور اس کی راہ نمائی کے لیے کتابیں اتاریں اور پیغمبر بھیجے۔ پھر خدا کی رحمتیں ہوں اس کے ان نیک اور برگزیدہ بندوں پر جو انسان کو انسانیت سکھانے آئے جنھوں نے آدمی کو ان کے مقصدِ زندگی سے خبردار کیا اور اسے دنیا میں جینے کا صحیح طریقہ بتایا۔ آج دنیا میں ہدایت کی روشنی، اخلاق کی پاکیزگی، اور نیکی وپرہیز گاری جو کچھ بھی پائی جاتی ہے وہ سب خدا کے انھی برگزیدہ بندوں کی راہ نمائی کی بدولت ہے اور انسان کبھی ان کے بارِ احسان سے سبک دوش نہیں ہو سکتا۔
عزیزو اور دوستو! ہم اپنے اجتماعات کودو حصوں میں تقسیم کیا کرتے ہیں: ایک حصہ اس غرض کے لیے ہوتا ہے کہ ہم خود آپس میں بیٹھ کر اپنے کام کا جائزہ لیں اور اسے آگے بڑھانے کے لیے باہم مشورہ کریں۔ دوسرا حصہ اس مقصد کے لیے خاص ہوتا ہے، کہ جس مقام پر ہمارا اجتماع ہو، وہاں کے عام باشندوں کے لیے ہم اپنی دعوت کو پیش کریں۔ اس وقت کا یہ اجتماع اسی دوسری غرض کے لیے ہے۔ ہم نے آپ کو اس لیے تکلیف دی ہے کہ آپ کو بتائیں کہ ہماری دعوت کیا ہے اور کس چیز کی طرف ہم بلاتے ہیں۔
ہماری دعوت کا خطاب ایک تو ان لوگوں سے ہے جو پہلے سے مسلمان ہیں دوسرے ان عام بندگانِ خدا سے جو مسلمان نہیں ہیں۔ ان میں سے ہر ایک کے لیے ہمارے پاس ایک پیغام ہے۔ مگر افسوس ہے کہ یہاں دوسرے گروہ کے لوگ مجھے نظر نہیں آتے۔ یہ ہماری پچھلی غلطیوں اور آج کی بے تدبیریوں کا نتیجہ ہے کہ خدا کے بندوں کا ایک بہت بڑا حصہ ہم سے دُور ہو گیا ہے اور مشکل ہی سے کبھی ہم یہ موقع پاتے ہیں کہ ان کو اپنے پاس بلا کر یا خود ان کے قریب جا کر وہ پیغام اُن کو سنائیں جو اُن کے اور ہمارے خدا نے ہم سب کی راہ نمائی کے لیے اپنے پیغمبروں کے ذریعے سے بھیجا ہے۔ بہرحال اب کہ وہ موجود نہیں ہیں۔ میں دعوت کے صرف اس حصے کو پیش کروں گا جو مسلمانوں کے لیے خاص ہے۔
مسلمانوں کو ہم جس چیز کی طرف بلاتے ہیں، وہ یہ ہے کہ وہ ان ذمہ داریوں کو سمجھیں اور ادا کریں جو مسلمان ہونے کی حیثیت سے ان پر عائد ہوتی ہیں۔ آپ صرف اتنا کہہ کر نہیں چھوٹ سکتے کہ ہم مسلمان ہیں اور ہم نے خدا کو اور اس کے دین کو مان لیا۔ بلکہ جب آپ نے خدا کو اپنا خدا اور اس کے دین کو اپنا دین مانا ہے تو اس کے ساتھ آپ پر کچھ ذمہ داریاں بھی عائد ہوتی ہیں جن کا آپ کو شعور ہونا چاہیے۔ جن کے ادا کرنے کی آپ کو فکر ہونی چاہیے۔ اگر آپ انہیں ادا نہ کریںگے تو اس کے وبال سے نہ دنیا میں چھوٹ سکیں گے نہ آخرت میں۔
وہ ذمہ داریاں کیا ہیں؟ وہ صرف یہی نہیں ہیں کہ آپ خدا پر، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر، اس کے رسولوں پر اور یومِ آخرت پر ایمان لائیں۔ وہ صر ف اتنی بھی نہیں ہیں کہ آپ نکاح، طلاق، وراثت وغیرہ معاملات میں اسلام کے مقرر کیے ہوئے ضابطے پر عمل کریں، بلکہ ان سب کے علاوہ ایک بڑی اور بہت بھاری ذمہ داری آپ پر یہ عائد ہوتی ہے کہ آپ تمام دنیا کے سامنے اس حق کے گواہ بن کر کھڑے ہوں، جس پر ایمان لائے ہیں۔ ’’مسلمان‘‘ کے نام سے آپ کو ایک مستقل امت بنانے کی واحد غرض جو قرآن میں بیان کی گئی ہے، وہ یہی ہے کہ آپ تمام بندگانِ خدا پر شہادتِ حق کی حجت پوری کریں۔
وَكَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُہَدَاۗءَ عَلَي النَّاسِ وَيَكُـوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَيْكُمْ شَہِيْدًا۝۰ۭ البقرہ 143:2
’’جس طرح ہم نے تمہیں ایک بیچ کی امت بنایا ہے تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ رہو اور رسولؐ تم پرگواہ ہو۔‘‘
یہ آپ کی امت کا عین مقصد وجود ہے جسے آپ نے پورا نہ کیا تو گویا اپنی زندگی ہی اکارت گنوا دی۔ یہ آپ پر خدا کا عائد کیا ہوا فرض ہے کیوں کہ خدا کا حکم ہے کہ:
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُوْنُوْا قَوّٰمِيْنَ لِلہِ شُہَدَاۗءَ بِالْقِسْطِ۝۰ۡ المائدہ 8:5
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، خدا کی خاطر اٹھنے والے اور ٹھیک ٹھیک راستی کی گواہی دینے والے بنو۔‘‘
اور یہ نرا حکم ہی نہیں بلکہ تاکیدی حکم ہے کیوں کہ اللّٰہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ كَتَمَ شَہَادَۃً عِنْدَہٗ مِنَ اللہِ۝۰ۭ البقرہ 140:2
’’اس شخص سے بڑھ کر ظالم اور کون ہو گا جس کے پاس اللّٰہ کی طرف سے ایک گواہی ہو اور وہ اُسے چھپائے۔ ‘‘
پھر اللّٰہ تعالیٰ نے آپ کو یہ بھی بتا دیا ہے کہ اس فرض کو انجام نہ دینے کا نتیجہ کیا ہے۔ آپ سے پہلے اس گواہی کے کٹہرے میں یہودی کھڑے کیے گئے تھے مگر انھوں نے کچھ تو حق کو چھپایا اور کچھ حق کے خلاف گواہی دی اور فی الجملہ حق کے نہیں بلکہ باطل کے گواہ بن کے رہ گئے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ نے انھیں دھتکار دیا اور ان پر وہ پھٹکار پڑی کہ:
وَضُرِبَتْ عَلَيْہِمُ الذِّلَّۃُ وَالْمَسْكَنَۃُ۝۰ۤ وَبَاۗءُوْ بِغَضَبٍ مِّنَ اللہِ۝۰ۭ البقرہ 61:2
’’ذلت وخواری اور پستی وبدحالی اُن پر مسلط ہو گئی اور وہ اللّٰہ کے غضب میں گھِر گئے‘‘۔
یہ شہادت جس کی ذمہ داری آپ پر ڈالی گئی ہے، اس سے مراد یہ ہے کہ جو حق آپ کے پاس آیا ہے، جو صداقت آپ پر منکشف کی گئی ہے، آپ دنیا کے سامنے اس کے حق اورصداقت ہونے پر اور اس کے راہِ راست ہونے پر گواہی دیں۔ ایسی گواہی جو اس کے حق اور راستی ہونے کو مبرہن کر دے اور دنیا کے لوگوں پر دین کی حجت پوری کر دے۔ اسی شہادت کے لیے انبیا علیہم السلام دنیا میں بھیجے گئے تھے اور اس کا ادا کرنا اُن پر فرض تھا۔ پھر یہی شہادت تمام انبیا کے بعد ان کی امتوں پر فرض ہوتی رہی۔ اور اب خاتم النبیین صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے بعد یہ فرض امتِ مسلّمہ پر بحیثیت مجموعی اسی طرح عائد ہوتا ہے جس طرح حضورؐ پر آپؐ کی زندگی میں شخصی حیثیت سے عائد تھا۔
اس گواہی کی اہمیت کا اندازہ اس سے کیجیے کہ نوع انسانی کے لیے اللّٰہ تعالیٰ نے باز پُرس اور جزا وسزا کا جو قانون مقرر کیا ہے اس کی ساری بنیاد اس گواہی پر ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ حکیم ورحیم اور قائم بالقسط ہے۔ اس کی حکمت ورحمت اور اس کے انصاف سے یہ بعید ہے کہ لوگوں کو اس کی مرضی نہ معلوم ہو اور وہ انھیں اس بات پر پکڑے کہ وہ اس کی مرضی کے خلاف چلے۔ لوگ نہ جانتے ہوں کہ راہِ راست کیا ہے اور وہ ان کی کج روی پر ان سے مواخذہ کرے۔ لوگ اس سے بے خبر ہوں کہ ان سے کس چیز کی باز پرس ہوتی ہے اور وہ انجانی چیز کی ان سے باز پرس کرے۔ اس لیے اللّٰہ تعالیٰ نے آفرینش کی ابتدا ہی ایک پیغمبر سے کی اورپھر وقتاً فوقتاً بے شمار پیغمبر بھیجے تاکہ وہ نوعِ انسانی کو خبردار کریں کہ تمہارے معاملے میں تمہارے خالق کی مرضی یہ ہے، تمہارے لیے دنیا میں زندگی بسر کرنے کا صحیح طریقہ یہ ہے، یہ رویہ ہے جس سے تم اپنے مالک کی رضا کو پہنچ سکتے ہو، یہ کام ہیں جن سے تم کو بچنا چاہیے۔ اور یہ امور ہیں جن کی تم سے باز پُرس کی جائے گی۔
یہ شہادت جو اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبروں سے دلوائی، اس کی غرض قرآن مجید میں صاف صاف یہی بتائی گئی ہے کہ لوگوں کو اللّٰہ پر یہ حجت قائم کرنے کا موقع باقی نہ رہے کہ ہم بے خبر تھے۔ اورآپ ہمیں اس چیز پر پکڑتے ہیں، جس سے ہم کو خبردار نہ کیا گیا تھا۔
رُسُلًا مُّبَشِّرِيْنَ وَمُنْذِرِيْنَ لِئَلَّا يَكُوْنَ لِلنَّاسِ عَلَي اللہِ حُجَّــۃٌۢ بَعْدَ الرُّسُلِ۝۰ۭ وَكَانَ اللہُ عَزِيْزًا حَكِــيْمًاo النسائ 165:4
’’رسولؐ خوشخبری دینے والے اور ڈرانے والے بنا کر بھیجے گئے تاکہ ان کو مبعوث کر دینے کے بعد لوگوں کے پاس اللّٰہ کے مقابلے میں کوئی حجت نہ رہے۔‘‘
اس طرح اللّٰہ تعالیٰ نے لوگوں کی حجت اپنے اوپر سے اتار کر پیغمبروں پر ڈال دی اور پیغمبرؐ اس اہم ذمہ داری کے منصب پر کھڑے کر دیے گئے کہ اگر وہ شہادتِ حق کا حق ٹھیک ٹھیک ادا کر دیں تو لوگ اپنے اعمال پر خود باز پُرس کے مستحق ہوں، اورا گر ان کی طرف سے ادائے شہادت میں کوتاہی ہو تو لوگوں کی گمراہی وکج روی کا مواخذہ پیغمبروں سے کیا جائے۔ دوسرے الفاظ میں پیغمبروں کے منصب کی نزاکت یہ تھی کہ یا تو وہ حق کی شہادت ٹھیک ٹھیک ادا کرکے لوگوں پر حجت قائم کریں ورنہ لوگوں کی حجت الٹی اُن پر قائم ہوئی جاتی تھی کہ خدا نے حقیقت کا جو علم آپ حضرات کو دیا تھا وہ آپ نے ہمیں نہ پہنچایا۔ اور جو صحیح طریقِ زندگی اس نے آپ کو بتایا تھا وہ آپ نے ہمیں نہ بتایا۔ یہی وجہ ہے کہ انبیا علیہم السلام اپنے اوپر اس ذمہ داری کے بار کو شدت کے ساتھ محسوس کرتے تھے اور اسی بنا پر انھوں نے اپنی طرف سے حق کی شہادت ادا کرنے اور لوگوں پر حجت تمام کر دینے کی جان توڑ کوششیں کیں۔
پھر انبیا کے ذریعے سے جن لوگوں نے حق کا علم اور ہدایت کا راستہ پایا وہ ایک امت بنائے گئے اور وہی منصبِ شہادت کی ذمہ داری، جس کا بار انبیا پر ڈالا گیا تھا، اب اس امت کے حصہ میں آئی۔ انبیا کی قائم مقام ہونے کی حیثیت سے اس کا یہ مقام قرارپایا کہ اگر یہ امت شہادت کا حق ادا کر دے اور لوگ درست نہ ہوں تو یہ اجر پائے گی اور لوگ پکڑے جائیں گے۔ اور یہ حق کی شہادت دینے میں کوتاہی کرے، یا حق کے بجائے الٹی باطل کی شہادت دینے لگے تو لوگوں سے پہلے یہ پکڑی جائے گی۔ اس سے خود اس کے اعمال کی بازپرس بھی ہو گی اور ان لوگوں کے اعمال کی بھی جو اس کے صحیح شہادت نہ دینے یا غلط شہادت دینے کی وجہ سے گمراہ اور مفسد اور غلط کار رہے۔
حضرات! یہ ہے شہادتِ حق کی وہ نازک ذمہ داری جو مجھ پر، آپ پر اور ان سب لوگوں پر عائد ہوتی ہے جو اپنے کوامتِ مسلمہ کہتے ہیں اور جن کے پاس خدا کی کتاب اور ان کے انبیا کی ہدایت پہنچ چکی ہے۔ اب دیکھیے کہ اس شہادت کے ادا کرنے کا طریقہ کیا ہے۔
شہادتیں دو طرح کی ہوتی ہیں ایک قولی شہادت، دوسرے عملی شہادت۔
قولی شہادت کی صورت یہ ہے کہ ہم زبان اور قلم سے دنیا پر اس حق کو واضح کریں، جو انبیا کے ذریعے سے ہمیں پہنچا ہے۔ سمجھانے اور دل نشیں کرنے کے جتنے طریقے ممکن ہیں ان سب سے کام لے کر تبلیغ ودعوت اور نشرواشاعت کے جتنے ذرائع ممکن ہیں ان سب کو استعمال کرکے، علوم وفنون نے جس قدر مواد فراہم کیا ہے وہ سب اپنے ہاتھ میں لے کر ہم دنیا کو اس دین کی تعلیم سے روشناس کریں جو خدا نے انسان کے لیے مقرر کیا ہے۔ فکر واعتقاد میں، اخلاق وسیرت میں ، تمدن ومعاشرت میں، کسب معاش اور لین دین میں، قانون اور نظمِ عدالت میں، سیاست اور تدبیر مملکت میں بین الانسانی معاملات کے تمام دوسرے پہلوئوں میں، اس دین نے انسان کی راہ نمائی کے لیے جو کچھ پیش کیا ہے اسے ہم خوب کھول کھول کر بیان کریں۔ دلائل اور شواہد سے اس کا حق ہونا ثابت کریں اور جو کچھ اس کے خلاف ہے اس پر معقول تنقیدکرکے بتائیں کہ اس میں کیا خرابی ہے۔ اس قولی شہادت کا حق ادا نہیں ہو سکتا جب تک کہ امت مجموعی طور پر ہدایتِ خلق کے لیے اسی طرح فکر مند نہ ہو جس طرح انبیا علیہم السلام انفرادی طور اس کے لیے فکر مند رہا کرتے تھے۔ یہ حق ادا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ یہ کام ہماری تمام اجتماعی کوششوں اور قومی سعی وجہد کا مرکزی نقطہ ہو۔ ہم اپنے دل ودماغ کی ساری قوتیں ، اور اپنے سارے وسائل وذرائع اس پر لگا دیں۔ ہمارے تمام کاموں میں یہ مقصد لازماً ملحوظ رہے اور اپنے درمیان سے کسی ایسی آواز کے اٹھنے کو تو کسی حال میں ہم برداشت ہی نہ کریں جو حق کے خلاف شہادت دینے والی ہو۔
رہی عملی شہادت تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنی زندگی میں ان اصولوں کا عملاً مظاہرہ کریں جن کو ہم حق کہتے ہیں۔ دنیا صرف ہماری زبان ہی سے ان کی صداقت کا ذکر نہ سنے بلکہ خود اپنی آنکھوں سے ہماری زندگی میں ان کی خوبیوں اور برکتوں کا مشاہدہ کر لے۔ وہ ہمارے برتائو میں اس شیرینی کا ذائقہ چکھ لے جو ایمان کی حلاوت سے انسان کے اخلاق ومعاملات میں پیدا ہوتی ہے۔ وہ خود دیکھ لے کہ اس دین کی راہ نمائی کے لیے کیسے اچھے انسان بنتے ہیں۔ کیسی عادل سوسائٹی تیار ہوتی ہے۔ کیسی صالح معاشرت وجود میں آتی ہے۔ کس قدر ستھرا اور پاکیزہ تمدن پیدا ہوتا ہے۔ کیسے صالح معاشرت وجود میں آتی ہے۔ کس قدر ستھرا اور پاکیزہ تمدن پیدا ہوتا ہے۔ کیسے صحیح خطوط پر علوم وآداب اور فنون کا نشوونما ہوتا ہے۔ کیسا منصفانہ ، ہمدردانہ اور بے نزاع معاشی تعاون رونما ہوتا ہے۔ انفرادی واجتماعی زندگی کا ہر پہلو کس طرح سدھر جاتا ہے، سنور جاتا ہے اور بھلائیوں سے مالا مال ہو جاتا ہے۔ اس شہادت کا حق صرف اس طرح ادا ہو سکتا ہے کہ ہم فردًا فردًا بھی اور قومی حیثیت سے بھی اپنے دین کی حقانیت پر مجسم شہادت بن جائیں، ہمارے افراد کا کردار اس کی صداقت کا ثبوت دے۔ ہمارے گھر اس کی خوشبو سے مہکیں۔ ہماری دکانیں اور ہمارے کارخانے اس کی روشنی سے جگمگائیں۔ ہمارے ادارے اور ہمارے مدرسے اس کے نور سے منور ہوں۔ ہمارا لٹریچر اور ہماری صحافت اس کی خوبیوں کی سند پیش کرے۔ ہماری قومی پالیسی اور اجتماعی سعی وجہد اس کے برحق ہونے کی روشن دلیل ہو۔
غرض ہم سے جہاں اور جس حیثیت میں بھی کسی شخص یا قوم کو سابقہ پیش آئے۔ وہ ہمارے شخصی اور قومی کردار میں اس بات کا ثبوت پا لے کہ جن اصولوں کو ہم کہتے ہیں وہ واقعی حق ہیں اور ان سے فی الواقع انسانی زندگی اصلح اور اعلیٰ وارفع ہو جاتی ہے۔ پھر یہ بھی عرض کروں کہ اس شہادت کی تکمیل اگر ہو سکتی ہے تو صرف اُس وقت جبکہ ایک اسٹیٹ انھی اصولوں پر قائم ہو جائے اور وہ پورے دین کو عمل میں لا کر اپنے عدل وانصاف سے، اپنے اصلاحی پروگرام سے، اپنے حسنِ انتظام سے، اپنے امن سے، اپنے باشندوں کی فلاح وبہبود سے، اپنے حکم رانوں کی نیک سیرت سے، اپنی صالح داخلی سیاست سے، اپنی راستبازانہ خارجی پالیسی سے، اپنی شریفانہ جنگ سے اور اپنی وفادارانہ صلح سے ساری دنیا کے سامنے اس بات کی شہادت دے کہ جس دین نے اس اسٹیٹ کو جنم دیا ہے وہ درحقیقت انسانی فلاح کا ضامن ہے اور اس کی پیروی میں نوعِ انسانی کی بھلائی ہے۔ یہ شہادت جب قولی شہادت کے ساتھ مل جائے تب وہ ذمہ داری پوری طرح ادا ہو جاتی ہے جو امت مسلمہ پر ڈالی گئی ہے۔ تب نوعِ انسانی پر بالکل اتمامِ حجت ہو جاتا ہے۔ تب ہی ہماری امت اس قابل ہو سکتی ہے کہ آخرت کی عدالت میں نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے بعد کھڑی ہو کر شہادت دے سکے کہ جو کچھ حضورؐ نے ہم کو پہنچایا تھا، وہ ہم نے لوگوں تک پہنچا دیا اور اس پر بھی جو لوگ راہ راست پر نہ آئے وہ اپنی کج روی کے خود ذمہ دار ہیں۔
حضرات! یہ تو وہ شہادت ہے جو مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمیں قول وعمل میں دینی چاہیے تھی۔ مگر اب دیکھیے کہ آج ہم فی الواقع شہادت دے کیا رہے ہیں۔
پہلے قولی شہادت کا جائزہ لیجئے۔ ہمارے اندر ایک بہت ہی قلیل گروہ ایسا ہے جو کہیں انفرادی طور پر زبان وقلم سے اسلام کی شہادت دیتا ہے، اور اس میں بھی ایسے لوگ شاید انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں جو اس شہادت کو اس طرح ادا کر رہے ہیں، جیسا اس کے ادا کرنے کا حق ہے۔ اس قلیل گروہ کو اگر آپ الگ کر لیں تو آپ دیکھیں گے کہ مسلمانوں کی عام شہادت اسلام کے حق میں نہیں بلکہ اس کے خلاف جا رہی ہے۔ ہمارے زمیندار شہادت دے رہے ہیں کہ اسلام کا قانون وراثت غلط ہے اور جاہلیت کے رواج صحیح ہیں۔ ہمارے وکیل اور جج اور مجسٹریٹ شہادت دے رہے ہیں کہ اسلام کے سارے ہی قوانین غلط ہیں بلکہ اسلامی قانون کا بنیادی نظریہ ہی قابل قبول نہیں ہے۔ صحیح صرف وہ قوانین ہیں جو انسانوں نے وضع کیے ہیں اور انگریزوں کی معرفت ہمیں پہنچے ہیں۔ ہمارے معلم اور پروفیسر اور تعلیمی ادارے شہادت دے رہے ہیں کہ ان کے پاس بھی ادب کا وہی پیغام ہے جو امریکہ، انگلستان، فرانس اور روس کے دہری ادیبوں کے پاس ہے۔ مسلمان ہونے کی حیثیت سے ان کے ادب کی سرے سے کوئی مستقل روح ہی نہیں ہے۔ ہمارا پریس شہادت دے رہا ہے کہ اس کے پاس بھی وہی مباحث اور مسائل اور پروپیگنڈا کے وہی انداز ہیں جو غیر مسلموں کے پاس ہیں۔ ہمارے تاجر اور اہل صنعت شہادت دے رہے ہیں کہ اسلام نے لین دین پر جو حدود قائم کیے ہیں وہ ناقابلِ عمل ہیں اور کاروبار صرف انھی طریقوں پر ہو سکتا ہے جن پر کفار عامل ہیں۔ ہمارے لیڈر شہادت دے رہے ہیں کہ ان کے پاس بھی قومیت اور وطنیت کے وہی نعرے ہیں، وہی قومی مقاصد ہیں، قومی مسائل کو حل کرنے کے وہی ڈھنگ ہیں، سیاست اور دستور کے وہی اصول ہیں جو کفار کے پاس ہیں۔ اسلام نے اس بارے میں کوئی راہ نمائی نہیں کی ہے جس کی طرف رجوع کیا جائے۔ ہمارے عوام شہادت دے رہے ہیں کہ ان کے پاس زبان کا کوئی مصرف دنیا اور اس کے معاملات کے سوا نہیں ہے اور وہ کوئی ایسا دین رکھتے ہی نہیں، جس کا وہ چرچا کریں یا جس کی باتوں میں وہ اپنا کچھ وقت صرف کریں۔ یہ ہے وہ قولی شہادت جو مجموعی طور پر ہماری پوری امت اس ملک ہی میں نہیں، ساری دنیا میں دے رہی ہے۔
اب عملی شہادت کی طرف آئیے، اس کا حال قولی شہادت سے بدتر ہے، بلاشبہ کہیں کہیں کچھ صالح افراد ہمارے اندر ایسے پائے جاتے ہیں جو اپنی زندگی میں اسلام کا مظاہرہ کر رہے ہیں مگر سوادِ اعظم کا حال کیا ہے؟ انفرادی طور پر عام مسلمان اپنے عمل میں اسلام کی جو نمائندگی کر رہے ہیں وہ یہ ہے کہ اسلام کے زیرِ اثر پرورش پانے والے افراد کسی حیثیت سے بھی کفر کے تیار کیے ہوئے افراد سے بلند یا مختلف نہیں ہیں۔ بلکہ بہت سی حیثیتوں سے ان کی بہ نسبت فروتر ہیں۔ وہ جھوٹ بول سکتے ہیں، وہ خیانت کر سکتے ہیں۔ وہ ظلم کر سکتے ہیں، وہ دھوکا دے سکتے ہیں۔ وہ قول وقرار سے پھر سکتے ہیں۔ وہ چوری اور ڈاکہ زنی کر سکتے ہیں۔ وہ دنگا فساد کر سکتے ہیں وہ بے غیرتی اور بے حیائی کے سارے کام کر سکتے ہیں۔ ان سب بداخلاقیوں میں ان کا اوسط کسی کافر قوم سے کم نہیں ہے۔
پھر ہماری معاشرت، ہمارا رہن سہن، ہمارے رسم ورواج،ہماری تقریبات، ہمارے میلے اور عرس، ہمارے جلسے اور جلوس، غرض ہماری اجتماعی زندگی کا کوئی پہلو ایسا نہیں ہے جس میں ہم اسلام کی کسی حد تک بھی صحیح نمائندگی کرتے ہوں۔ یہ چیز گویا اس بات کی زندہ شہادت ہے کہ اسلام کے پیروخود ہی اپنے لیے اسلام کے بجائے جاہلیت کو زیادہ قابلِ ترجیح سمجھتے ہیں۔
ہم مدرسے بناتے ہیں تو علم اور نظامِ تعلیم اور روحِ تعلیم سب کچھ کفار سے لیتے ہیں۔ ہم انجمنیں قائم کرتے ہیں تو مقصد، نظام اور طریقِ کار سب کچھ وہی رکھتے ہیں جو کفار کی کسی انجمن کا ہو سکتا ہے۔ ہماری پوری قوم بحیثیت مجموعی کوئی جدوجہد کرنے اٹھتی ہے تو اس کا مطالبہ، اس کی جدوجہد کا طریقہ، اس کی جمعیت کا دستور ونظام، اس کی تجویزیں، تقریریں اور بیانات سب کچھ ہو بہو کافر قوموں کی جدوجہد کا چربہ ہوتا ہے۔ حد یہ ہے کہ جہاں ہماری آزاد یا نیم آزاد حکومتیں موجود ہیں وہاں بھی ہم نے اساسِ حکومت، نظامِ حکومت اور مجموعۂ قوانین کفار سے لے لیا ہے۔ اسلام کا قانون بعض حکومتوں میں صرف پرسنل لا کی حد تک رہ گیا ہے اور بعض نے اس کو بھی ترمیم کیے بغیر نہیں چھوڑا۔ حال میں ایک انگریز مصنف lawrence bron نے اپنی کتاب (the prospects of islam) میں طعنہ دیا ہے کہ:
’’ہم نے جب ہندوستان میں اسلام کے دیوانی اور فوجداری قوانین کو دقیانوسی اور ناقابلِ عمل سمجھ کر منسوخ کیا تھا اور مسلمانوں کے لیے صرف ان کے پرسنل لا کو رہنے دیا تھا تو مسلمانوں کو یہ سخت ناگوار ہوا تھا کیوں کہ اس طرح ان کی پوزیشن وہی ہوئی جاتی تھی جو کبھی اسلام کی حکومت میں ذمّیوں کی تھی۔ لیکن اب صرف یہی نہیں کہ ہندوستان کے مسلمانوں نے اسے پسند کر لیا ہے بلکہ خود مسلمان حکومتوں نے بھی اس معاملے میں ہماری تقلید کی ہے۔ ترکی اورالبانیہ نے تواس سے تجاوز کرکے قوانین نکاح وطلاق ووراثت تک میں بھی ہمارے معیارات کے مطابق ’’اصلاحات‘‘ کر دی ہیں۔ اب یہ بات کھل گئی ہے کہ مسلمانوں کا یہ تصور کہ قانون کا ماخذ ارادۂ الٰہی ہے ایک مقدس افسانے (pious fiction) سے زیادہ کچھ نہ تھا۔‘‘
یہ ہے وہ عملی شہادت جو تمام دنیا کے مسلمان تقریباً متفق ہو کر اسلام کے خلاف دے رہے ہیں۔ ہم زبان سے خواہ کچھ کہیں مگر ہمارا اجتماعی عمل گواہی دے رہا ہے کہ اس دین کا کوئی طریقہ ہمیں پسند نہیں اور اس کے کسی قانون میں ہم اپنی فلاح ونجات نہیں پاتے۔
یہ کتمانِ حق اور یہ شہادتِ زُور جس کا ارتکاب ہم کر رہے ہیں، اس کا انجام بھی ہمیں وہی کچھ دیکھنا پڑا ہے جو ایسے سخت جرم کے لیے قانونِ الٰہی میں مقرر ہے۔ جب کوئی قوم خدا کی نعمت کو ٹھکراتی ہے اور اپنے خالق سے غدّاری کرتی ہے تو خدا دنیا میں اس کو عذاب دیتا ہے اور آخرت میں بھی۔ یہودیوں کے معاملے میں خدا کی یہ سُنّت پوری ہو چکی ہے اور اب ہم مجرموں کے کٹہرے میں کھڑے ہیں۔ خدا کو یہود سے کوئی ذاتی پرخاش تھی کہ وہ صرف انھی کو اس جرم کی سزا دیتا اور ہمارے ساتھ اس کی کوئی رشتے داری نہیں کہ ہم اسی جرم کا ارتکاب کریں اور سزا سے بچ جائیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم حق کی شہادت دینے میں جتنی جتنی کوتاہی کرتے گئے ہیں اور باطل کی شہادت ادا کرنے میں ہمارا قدم جس رفتار سے آگے بڑھا ہے ٹھیک اسی رفتار سے ہم گرتے چلے گئے ہیں۔ پچھلی ایک ہی صدی کے اندر مراکش سے لے کر شرق الہند تک ملک کے ملک ہمارے ہاتھ سے نکل گئے۔ مسلمان قومیں ایک ایک کرکے مغلوب اور محکوم ہوتی چلی گئیں۔ مسلمان کا نام فخر وعزت کا نام نہ رہا بلکہ ذلت ومسکنت اور پسماندگی کا نشان بن گیا۔ دنیا میں ہماری کوئی آبرو باقی نہ رہی۔ کہیں ہمارا قتلِ عام ہوا، کہیں ہم گھر سے بے گھر کیے گئے۔ کہیں ہم کو سُوء العذاب کا مزہ چکھایا گیا اورکہیں ہم کو چاکری اور خدمت گاری کے لیے زندہ رکھا گیا۔ جہاں مسلمانوں کی اپنی حکومتیں باقی رہ گئیں وہاں بھی انھوں نے شکستوں پر شکستیں کھائیں اور آج اُن کا حال یہ ہے کہ بیرونی طاقتوں کے خوف سے لرز رہے ہیں۔ حالانکہ اگر وہ اسلام کی قولی وعملی شہادت دینے والے ہوتے تو کفر کے علم بردار اُن کے خوف سے کانپ رہے ہوتے۔
دُور کیوں جائیے، خود ہندوستان میں اپنی حالت دیکھ لیجئے۔ ادائے شہادت میں جو کوتاہی آپ نے کی بلکہ الٹی خلافِ حق شہادت جو آپ اپنے قول وعمل سے دیتے رہے اسی کا تو نتیجہ یہ ہوا کہ ملک کا ملک آپ کے ہاتھ سے نکل گیا۔ پہلے مرہٹوں اور سکھوں کے ہاتھوں آپ پامال ہوئے۔ پھر انگریز کی غلامی آپ کو نصیب ہوئی اوراب پچھلی پامالیوں سے بڑھ کر پامالیاں آپ کے سامنے آ رہی ہیں۔ آج آپ کے سامنے سب سے بڑا سوال اکثریت واقلیت کا ہے اور آپ اس اندیشے سے کانپ رہے ہیں کہ ہندو اکثریت آپ کو اپنا محکوم نہ بنا لے اور آپ وہ انجام نہ دیکھیں جو شودر قومیں دیکھ چکی ہیں۔ مگر خدارا بتائیے کہ اگر آپ اسلام کے سچے گواہ ہوتے تو یہاں کوئی اکثریت ایسی ہو سکتی تھی جس سے آپ کو کوئی خطرہ ہوتا؟ یا آج بھی اگر آپ قول وعمل سے اسلام کی گواہی دینے والے بن جائیں تو کیا یہ اقلیت واکثریت کا سوال چند سال کے اندر ہی ختم نہ ہو جائے؟ عرب میں ایک فی لاکھ کی اقلیت کو نہایت متعصّب اور ظالم اکثریت نے دنیا سے نیست ونابود کر دینے کی ٹھانی تھی مگر اسلام کی سچی گواہی نے دس سال کے اندر اُسی اقلیت کو سو فی صدی اکثریت میں تبدیل کر دیا۔ پھر جب یہ اسلام کے گواہ عرب سے باہر نکلے تو پچیس سال کے اندر ترکستان سے لے کر مراکش تک قومیں کی قومیں ان کی شہادت پر ایمان لاتی چلی گئیں۔ جہاں سو فی صدی مجوسی، بُت پرست، اور عیسائی رہتے تھے، وہاں سو فی صدی مسلمان بسنے لگے۔ کوئی ہٹ دھرمی، قومی عصبیت، اور کوئی مذہبی تنگ نظری اتنی سخت ثابت نہ ہوئی کہ حق کی زندہ اور سچی شہادت کے آگے قدم جما سکتی۔ اب آپ اگر پامال ہو رہے ہیں اور اپنے آپ کو اس سے شدید پامالی کے خطرے میں مبتلا پاتے ہیں تو یہ کتمانِ حق اور شہادتِ زُور کی سزا کے سوا اور کیا ہے؟
یہ تو اس جرم کی وہ سزا ہے جو آپ کو دنیا میں مل رہی ہے۔ آخرت میں اس سے سخت تر سزا کا اندیشہ ہے۔ جب تک آپ حق کے گواہ ہونے کی حیثیت سے اپنا فرض انجام نہیں دیتے اس وقت تک دنیا میں جو گمراہی پھیلے گی، جو ظلم وفساد اور طغیان بھی برپا ہو گا، جو بداخلاقیاں اور بدکرداریاں بھی رواج پائیں گی ان کی ذمہ داری سے آپ بری نہیں ہو سکتے۔ آپ اگر ان برائیوں کے پیدا کرنے کے ذمہ دار نہیں ہیں تو ان کی پیدائش کے اسباب باقی رکھنے اور انہیں پھیلنے کی اجازت دینے کے ذمہ دار ضرور ہیں۔
حضرات! یہ جو کچھ میں نے عرض کیا ہے اس سے آپ کو معلوم ہو گیا ہو گا کہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمیں کرنا کیا چاہیے تھا اور ہم کیا کر رہے ہیں۔ اور جو کچھ ہم کر رہے ہیں اس کا خمیازہ ہم کیا بھگت رہے ہیں۔ اس پہلو سے اگر آپ حقیقت ِمعاملہ پر نگاہ ڈالیں گے تو یہ بات خود ہی آپ پر کھل جائے گی کہ مسلمانوں نے اس ملک میں اور دنیا کے دوسرے ملکوں میں جن مسائل کو اپنی قومی زندگی کے اصل مسائل سمجھ رکھا ہے اور جنھیں حل کرنے کے لیے وہ کچھ اپنے ذہن سے گھڑی ہوئی اور زیادہ تر دوسروں سے سیکھی ہوئی تدبیروں پر اپنا ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں، فی الواقع ان میں سے کوئی بھی ان کا اصل مسئلہ نہیں ہے اور اس کے حل کی تدبیر میں وقت، قوت اور مال کا یہ سارا صرفہ محض ایک زیاں کاری ہے۔ یہ سوالات کہ کوئی اقلیت ایک غالب اکثریت کے درمیان رہتے ہوئے اپنے وجود اورمفاد اور حقوق کو کیسے محفوظ رکھے، اور کوئی اکثریت اپنے حدود میں وہ اقتدار کیسے حاصل کرے جو اکثریت میں ہونے کی بنا پر اُسے ملنا چاہیے اور ایک محکوم قوم کسی غالب قوم کے تسلط سے کس طرح آزاد ہو، اور ایک کم زور قوم کسی طاقتور قوم کی دست برد سے اپنے آپ کو کس طرح بچائے اور ایک پسماندہ قوم وہ ترقی وخوش حالی، اور طاقت کیسے حاصل کرے جو دنیا کی زور آور قوموں کو حاصل ہے، یہ اور ایسے ہی دوسرے مسائل غیر مسلموں کے لیے تو ضرور اہم ترین اور مقدم ترین مسائل ہو سکتے ہیں مگر ہم مسلمانوں کے لیے یہ بجائے خود مستقل مسائل نہیں ہیں بلکہ محض اس غفلت کے شاخسانے ہیں جو ہم اپنے اصل کام سے برتتے رہے ہیں اور آج تک برتے جا رہے ہیں۔ اگر ہم نے وہ کام کیا ہوتا تو آج اتنے بہت سے پیچیدہ اور پریشان کن مسائل کا یہ جنگل ہمارے لیے پیدا ہی نہ ہوتا۔ اور اگر اب بھی اس جنگل کو کاٹنے میں اپنی قوتیں صرف کرنے کے بجائے ہم اس کام پر اپنی ساری توجہ اور سعی مبذول کر دیں تو دیکھتے ہی دیکھتے نہ صرف ہمارے لیے بلکہ ساری دنیا کے لیے پریشان کن مسائل کا یہ جنگل خود بخود صاف ہو جائے۔ کیوں کہ دنیا کی صفائی واصلاح کے ذمہ دار ہم تھے۔ ہم نے اپنا فرض منصبی ادا کرنا چھوڑا تو دنیا خاردار جنگلوں سے بھر گئی اور ان کا سب سے زیادہ پُرخار حصہ ہمارے نصیب میں لکھا گیا۔
افسوس ہے کہ مسلمانوں کے مذہبی پیشوا اور سیاسی راہ نما اس معاملے کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے اور ہر جگہ ان کو یہی باور کرائے جا رہے ہیں کہ تمہارے اصل مسائل وہی اقلیت واکثریت اور آزادیِ وطن اور تحفظ قوم اور مادی ترقی کے مسائل ہیں۔ نیز یہ حضرات ان مسائل کے حل کی تدبیریں بھی مسلمانوں کو وہی کچھ بتا رہے ہیں جو انھوں نے غیر مسلموں سے سیکھی ہیں۔ لیکن میں جتنا خدا کی ہستی پر یقین رکھتا ہوں، اتنا ہی مجھے اس بات پر بھی یقین ہے کہ یہ آپ کی بالکل غلط راہ نمائی کی جا رہی ہے اور ان راہوں پر چل کر آپ کبھی اپنی فلاح کی منزل کو نہ پہنچ سکیں گے۔ میں آپ کا سخت بدخواہ ہوں گا اگر لاگ لپیٹ کے بغیر آپ کو صاف صاف نہ بتا دوں کہ آپ کی زندگی کا اصل مسئلہ کیا ہے۔ میرے علم میں آپ کا حال اور آپ کا مستقبل معلق ہے اس سوال پر کہ آپ اس ہدایت کے ساتھ کیا معاملہ کرتے ہیں جو آپ کو خدا کے رسول کی معرفت پہنچی ہے جس کی نسبت سے آپ کو مسلمان کہا جاتا ہے اور جس کے تعلق سے آپ … خواہ چاہیں یا نہ چاہیں بہرحال دنیا میں اسلام کے نمائندے قرار پائے ہیں۔
اگر آپ اُس کی صحیح پیروی کریں اور اپنے قول اور عمل سے اس کی سچی شہادت دیں اور آپ کے اجتماعی کردار میں پورے اسلام کا ٹھیک ٹھیک مظاہرہ ہونے لگے تو آپ دنیا میں سربلند اور آخرت میں سرخ رُو ہو کر رہیں گے۔ خوف اور حُزن، ذلت اور مسکنت، مغلوبی اور محکومی کے یہ سیاہ بادل جوآپ پر چھائے ہوئے ہیں، چند سال کے اندر چھٹ جائیں گے ۔ آپ کی دعوتِ حق اور سیرتِ صالحہ دلوں کو اور دماغوں کو متاثر کرتی چلی جائے گی۔ آپ کی ساکھ اور دھاک دنیا پر بیٹھتی جائے گی۔ انصاف کی امیدیں آپ سے وابستہ کی جائیں گی۔ بھروسا آپ کی امانت ودیانت پر کیا جائے گا۔ سند آپ کے قول کی لائی جائے گی۔ بھلائی کی توقعات آپ سے باندھی جائیں گی۔ ائمہ کفر کی کوئی ساکھ آپ کے مقابلے میں باقی نہ رہ جائے گی۔ ان کے تمام فلسفے اور سیاسی و معاشی نظرئیے آپ کی سچائی اور راست روی کے مقابلے میں جھوٹے ملمع ثابت ہوں گے۔ جو طاقتیں آج ان کے کیمپ میں نظر آ رہی ہیں ٹوٹ ٹوٹ کر اسلام کے کیمپ میں آتی چلی جائیں گی حتیٰ کہ ایک وقت وہ آئے گا جب کمیونزم خود ماسکو میں اپنے بچائو کے لیے پریشان ہو گا۔ سرمایہ دارانہ ڈیموکریسی خود واشنگٹن اور نیو یارک میں اپنے تحفظ کے لیے لرزہ براندام ہو گی۔ مادہ پرستانہ الحاد خود لندن اور پیرس کی یونیورسٹیوں میں جگہ پانے سے عاجز ہو گا۔ نسل پرستی اور قوم پرستی خود برہمنوں اور جرمنوں میں اپنے معتقد نہ پا سکے گی۔ اور یہ آج کا دَور صرف تاریخ میں ایک داستانِ عبرت کی حیثیت سے باقی رہ جائے گا کہ اسلام جیسی عالمگیر وجہاں کشا طاقت کے نام لیوا کبھی اتنے بیوقوف ہو گئے تھے کہ عصائے موسیٰ بغل میں تھا اورلاٹھیوں اور رسیوں کو دیکھ دیکھ کرکانپ رہے تھے۔ یہ مستقبل تو آپ کا اس صورت میں ہے جبکہ آپ اسلام کے مخلص پیرو اور سچے گواہ ہوں لیکن اس کے برعکس اگر آپ کا رویہ یہی رہا کہ خدا کی بھیجی ہوئی ہدایت پر بار بنے بیٹھے ہیں، نہ خود اس سے مستفید ہوتے ہیں نہ دوسروں کو اس کا فائدہ پہنچنے دیتے ہیں۔ اپنے آپ کو مسلمان کہہ کر نمائندے تو اسلام کے بنے ہوئے ہیں مگر اپنے مجموعی قول وعمل سے شہادت زیادہ تر جاہلیت، شرک، دنیا پرستی اور اخلاقی بے قیدی کی دے رہے ہیں۔ خدا کی کتاب طاق پر رکھی ہے اور راہ نمائی کے لیے ہر امام کفر اور ہر منبع ضلالت کی طرف رجوع کیا جا رہا ہے۔ دعویٰ خدا کی بندگی کا ہے اور بندگی ہر شیطان اور طاغوت کی کی جا رہی ہے۔ دوستی اور دشمنی نفس کے لیے ہے اور فریق دونوں صورتوں میں اسلام کو بنایا جا رہا ہے اور اسی طرح اپنی زندگی کو بھی اسلام کی برکتوں سے محروم کر رکھا ہے اور دنیا کو بھی اس کی طرف راغب کرنے کے بجائے الٹا متنفر کر رہے ہیں اور بعید نہیں کہ مستقبل اس حال سے بھی بدتر ہو۔ اسلام کا لیبل اتار کر کھلم کھلا کفر اختیار کر لیجیے تو کم از کم آپ کی دنیا تو ویسی ہی بن جائے گی جیسی امریکہ، روس اور برطانیہ کی ہے۔ لیکن مسلمان ہو کر نامسلمان بنے رہنا اور خدا کے دین کی جھوٹی نمائندگی کرکے دنیا کے لیے بھی ہدایت کا دروازہ بند کردینا وہ جرم ہے جو آپ کو دنیا میں بھی پنپنے نہ دے گا۔ اس جرم کی سزا جو قرآن میں لکھی ہوئی ہے جس کا زندہ ثبوت یہودی قوم آپ کے سامنے موجود ہے اس کو آپ ٹال نہیں سکتے خواہ متحدہ قومیت کے ’’اہون البلیتین‘‘ کو اختیار کریں یا اپنی الگ قومیت منوا کر وہ سب کچھ حاصل کر لیں جو مسلم قوم پرستی حاصل کرنا چاہتی ہے۔ اس کے ٹلنے کی صورت صرف یہی ہے کہ اس جرم سے باز آ جائیے۔
اب میں چند الفاظ میں آپ کو بتائے دیتا ہوں کہ ہم کس غرض کے لیے اٹھے ہیں۔ ہم سب ان لوگوں کو جو اسلام کو اپنا دین مانتے ہیں یہ دعوت دیتے ہیں کہ وہ اس دین کو واقعی اپنا دین بنائیں۔ اس کو انفرادی طور پر ہر ہر مسلمان اپنی ذاتی زندگی میں بھی قائم کرے اور اجتماعی طور پر پوری قوم اپنی قومی زندگی میں بھی نافذ کرنے کے لیے تیار ہو جائے۔ ہم ان سے کہتے ہیں کہ آپ اپنے گھروں میں، اپنے خاندان میں، اپنی سوسائٹی میں، اپنی تعلیم گاہوں میں، اپنے ادب اور صحافت میں، اپنے کاروبار اور معاشی معاملات میں، اپنی انجمنوں اور قومی اداروں میں اور بحیثیت مجموعی اپنی قومی پالیسی میں عملاً اسے قائم کریں اور اپنے قول وعمل سے دنیا کے سامنے اس کی سچی گواہی دیں۔ ہم ان سے کہتے ہیں کہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے تمہاری زندگی کا اصل مقصد اقامتِ دین اور شہادتِ حق ہے۔ اس لیے تمہاری تمام سعی وعمل کا مرکز ومحور اسی چیز کو ہونا چاہیے۔ ہر اس بات اورکام سے دست کش ہو جائو جو اس کی ضد ہو اور جس سے اسلام کی غلط نمائندگی ہوتی ہو۔ اسلام کو سامنے رکھ کر اپنے پورے قولی اور عملی رویے پرنظر ثانی کرو اور اپنی تمام کوششیں اس راہ میں لگا دو کہ دین پورا کا پورا عملاً قائم ہو جائے۔ اس کی شہادت تمام ممکن طریقوں سے ٹھیک ٹھیک ادا کر دی جائے، اور اس کی طرف دنیا کو ایسی دعوت دی جائے جواتمامِ حجت کے لیے کافی ہو۔
٭…٭…٭…٭…٭

شیئر کریں