یہ چاروں خلفاء حکومت کے انتظام اور قانون سازی کے معاملے میں قوم کے اہل الرائے لوگوں سے مشورہ کیے بغیر کام نہیں کرتے تھے ۔ سنن الدارمی میں حضرت میمون بن مہران کی روایت ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا قاعدہ یہ تھا کہ جب ان کے پاس کوئی معاملہ آتا تو پہلے یہ دیکھتے تھے کہ اس معاملے میں کتاب اللہ کیا کہتی ہے ۔ اگر وہاں کوئی حکم نہ ملتا تو یہ معلوم کرنے کی کوشش کرتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس طرح کے معاملے میں کیا فیصلہ فرمایا ہے ۔ اور سنت رسول اللہ ﷺ میں بھی کوئی حکم نہ ملتا تو قوم کے سرکردہ اور نیک لوگوں کو جمع کرکے مشورہ کرتے تھے ، پھر جو رائے بھی سب کے مشورے سے قرار پاتی تھی اس کے مطابق فیصلہ کرتے تھے [11]۔یہی طرز عمل حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا بھی تھا ۔[12] مشورے کے معاملے میں خلفاء راشدین کا تصور یہ تھا کہ اہل شوری کو پوری آزادی کے ساتھ اظہار رائے کرنے کا حق ہے ۔اس معاملے میں خلافت کی پالیسی کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یک مجلس مشاورت کی افتتاحی تقریر میں یوں بیان فرمایا تھا : "”میں نے آپ لوگوں کو جس غرض کے لیے تکلیف دی ہے وہ اس کے سوا کچھ نہیں ہےکہ مجھ پر آپ کے معاملات کی امانت کا جو بار ڈالا گیا ہے اسے اٹھانے میں آپ میرےساتھ شریک ہوں ۔ میں آپ ہی کے افراد میں سے ایک فرد ہوں اور آج آپ ہی لوگ وہ ہیں جو حق کا اقرار کرنے والے ہیں ۔ آپ میں سے جس کا جی چاہے مجھ سے اختلاف کرے اور جس کا جی چاہیے میرے ساتھ اتفاق کرے ۔میں نہیں چاہتا کہ آپ میری خواہش کی پیروی کریں ۔””[13]