دوسرا اہم ترین قاعدہ اس دستور کا یہ تھا کہ حکومت مشورے سے کی جائے اور مشورہ اُن لوگوں سے کیا جائے جن کے علم، تقوٰی اور اصابتِ رائے پر عام لوگوں کو اعتماد ہو۔ خلفائے راشدینؓ کے عہد میں جو لوگ شورٰی کے رُکن بنائے گئے، اگرچہ اُن کو انتخابِ عام کے ذریعہ سے منتخب نہیں کرایا گیا تھا۔ جدید زمانے کے تصوّر کے لحاظ سے وہ نامزد کردہ لوگ ہی تھے۔ لیکن خلفا نے یہ دیکھ کر اُن کو مشیر نہیں بنایا تھا کہ یہ ہماری ہاں میں ہاں ملانے‘ اور ہمارے مفاد کی خدمت کرنے کے لیے موزوں ترین لوگ ہیں۔ بلکہ انھوں نے پورے خلوص اور بے غرضی کے ساتھ قوم کے بہترین عناصر کو چنا تھا جن سے وہ حق گوئی کے سوا کسی چیز کی توقع نہ رکھتے تھے، جن سے یہ امید تھی کہ وہ ہر معاملے میں اپنے علم وضمیر کے مطابق بالکل صحیح ایمان دارانہ رائے دیں گے، جن سے کوئی شخص بھی یہ اندیشہ نہ رکھتا تھا کہ وہ حکومت کو کسی غلط راہ پر جانے دیں گے۔ اگر اُس وقت ملک میں آج کل کے طریقے کے مطابق انتخابات بھی ہوتے تو عام مسلمان انھی لوگوں کو اپنے اعتماد کا مستحق قرار دیتے۔ لیکن شاہی دور کا آغاز ہوتے ہی شورٰی کا یہ طریقہ بدل گیا۔ اب بادشاہ استبداد اور مطلق العنانی کے ساتھ حکومت کرنے لگے۔ اب شاہ زادے اور خوشامدی اہلِ دربار، اور صوبوں کے گورنر اور فوجوں کے سپہ سالار ان کی کونسل کے ممبر تھے۔ اب وہ لوگ اُن کے مشیر تھے جن کے معاملہ میں اگر قوم کی رائے لی جاتی تو اعتماد کے ایک ووٹ کے مقابلہ میں لعنت کے ہزار ووٹ آتے اور اس کے برعکس وہ حق شناس وحق گو اہلِ علم وتقوٰی جن پر قوم کو اعتماد تھا وہ بادشاہوں کی نگاہ میں کسی اعتماد کے مستحق نہ تھے، بلکہ الٹے معتوب یا کم از کم مشتبہ تھے۔