معروف اور منکر کے متعلق یہ احکام ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگی کے تمام گوشوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔ مذہبی عبادات، شخصی کردار، اخلاق اور عادات، کھانا پینا، پہننا، اوڑھنا، نشست و برخاست، بات چیت، خاندانی زندگی، معاشرتی تعلقات، معاشی معاملات، ملکی انتظام، شہریت کے حقوق و واجبات، قیام عدل کا نظام، حکومت کے طریقے، صلح و جنگ اور دوسری قوموں کے ساتھ تعلقات، غرض زندگی کا کوئی شعبہ اور پہلو ایسا نہیں رہ گیا ہے جس کے متعلق شریعت نے ہم پر نیکی اور بدی کے طریقے، بھلائی اور بُرائی کے راستے اور پاک و ناپاک کے امتیازات واضح نہ کر دیے ہوں۔ وہ ہمیں ایک صالح نظام زندگی کا پورا نقشہ دیتی ہے جس میں صاف صاف بتا دیا گیا ہے کہ کیا بھلائیاں ہیں جنہیں ہم کو قائم کرنا، بڑھانا اور نشوونما دینا ہے، کیا برائیاں ہیں جن کو دبانا اور مٹانا ہے، کن حدود کے اندر ہماری آزادی عمل کو محدود رہنا چاہیے اور عملاً ہمیں کون سے طریقے اختیار کرنے چاہئیں جن سے ہماری زندگی میں مطلوبہ بھلائیاں پروان چڑھیں اور برائیوں کا استیصال ہو۔