Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

اسلامی قانون
قانون اور نظامِ زندگی کا باہمی تعلق
نظامِ زندگی کی فکری اور اخلاقی بنیادیں
اسلامی نظامِ زندگی کا ماخذ
اسلام کا نظریۂ زندگی
حق کا بنیادی تصور
’’اسلام‘‘ اور ’’مسلم‘‘ کے معنی
مسلم سوسائٹی کی حقیقت
شریعت کا مقصد اور اُس کے اُصول
شریعت کی ہمہ گیری
نظامِ شریعت کا ناقابل تقسیم ہونا
شریعت کا قانونی حصہ
اسلامی قانون کے اہم شعبے
اسلامی قانون کا استقلال اور اس کی ترقی پذیری
اعتراضات اور جوابات
پاکستان میں اسلامی قانون کا نفاذ کس طرح ہوسکتا ہے؟
فوری انقلاب نہ ممکن ہے نہ مطلوب
تدریج کا اصول
عہدِ نبوی کی مثال
انگریزی دَور کی مثال
تدریج ناگزیر ہے
ایک غلط بہانہ
صحیح ترتیب کار
خاتمۂ کلام

اسلامی قانون

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

شریعت کا مقصد اور اُس کے اُصول

ان بنیادی اُمور کی توضیح کے بعد اب ہمیں اس سکیم کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے جو انسانی زندگی کے لیے شریعت نے تجویز کی ہے۔ اس غرض کے لیے یہ مناسب ہوگا کہ ہم پہلے اس کے مقصد اور اس کے بڑے بڑے اصولوں کا جائزہ لے لیں۔
اس کا مقصد انسانی زندگی کے نظام کو معروفات پر قائم کرنا اور منکرات سے پاک کرنا ہے۔ معروفات سے مراد وہ نیکیاں، خوبیاں اور بھلاتیاں ہیں جن کو انسانی فطرت ہمیشہ سے بھلائی کی حیثیت سے جانتی ہے۔ اور منکرات سے مراد وہ برائیاں ہیں جن کو ہمیشہ سے انسانیت کا ضمیمہ بُرا جانتا آیا ہے۔ دوسرے الفاظ میں معروف فطرت انسانی سے مناسبت رکھنے والی چیز ہے اور منکرا اس کے خلاف ہے۔
وہ ہمارے لیے انہی چیزوں کو بھلائی قرار دیتی ہے جو خدا کی بنائی ہوئی فطرت کے مطابق ہیں اور انہی چیزوں کو بُرا قرار دیتی ہے جو اس فطرت سے موافقت نہیں رکھتیں۔ وہ ان بھلائیوں کی محض ایک فہرست ہی بنا کر ہمارے حوالہ کر دینے پر اکتفا نہیں کرتی بلکہ زندگی کی پوری اسکیم ایسے نقشے پر بناتی ہے کہ اس کی بنیادیں معروف بھلائیوں پر قائم ہوں اور معروفات اس میں پروان چڑھ سکیں اور منکرات کو اس کی تعمیر میں شامل ہونے سے روکا جائے اور نظامِ زندگی میں اُن کے در آنے اور ان کا زہر پھیلنے کا موقع باقی نہ رہنے دیئے جائیں۔
اس غرض کے لیے وہ معروفات کے ساتھ ان اسباب اور ذرائع کو بھی اپنی اسکیم میں شامل کرتی ہے جن سے وہ قائم ہوسکتے اور پروان چڑھ سکتے ہیں اور ان موانع کو ہٹانے کا انتظام بھی تجویز کرتی ہے جو معروفات کے قیام اور نشوونما میں کسی طور پر سدراہ ہوسکتے ہیں۔ اس طرح اصل معروفات کے ساتھ ان کے وسائل قیام و ترقی بھی معروف شمار ہو جاتے ہیں اور ان کے موانع منکرات کی فہرست میں شامل کر دیے جاتے ہیں۔ یہی معاملہ منکرات کے ساتھ بھی ہے۔ اصل منکرات کے ساتھ وہ چیزیں بھی منکر قرار پاتی ہیں جو کسی منکر کے وقوع، یا ظہور، یا نشوونما کا ذریعہ نہیں۔ سوسائٹی کے پورے نظام کو شریعت اس طرز پر ڈھالتی ہے کہ ایک ایک معروف اپنی پوری صورت میں قائم ہو، زندگی کے تمام متعلق شعبوں میں اس کا ظہور ہو، ہر طرف سے اس کو قائم ہونے اور پروان چڑھنے میں مدد ملے اور ہر وہ رکاوٹ دُور کی جائے جو کسی طرح سے اس کی راہ میں حائل ہوسکتی ہو۔ اسی طرح ایک ایک منکر کو چُن چُن کر زندگی سے نکالا جائے، اس کی پیدائش اور نشوونما کے اسباب روکے جائیں، جدھر جدھر وہ زندگی میں گھس سکتا ہے اس کا راستہ بند کیا جائے اور اگر وہ سر اٹھا ہی لے تو پھر سختی کے ساتھ اُسے دیا جائے۔
معروفات کو شریعت تین قسموں پر تقسیم کرتی ہے۔ ایک واجب یا فرض۔ دوسرے مندوب یعنی مطلوب۔ تیسرے مباح یعنی جائزہ۔
(۱) فرض و واجب وہ معروفات ہیں جو مسلم سوسائٹی پر لاگو کیے گئے ہیں۔ ان کے متعلق شریعت صاف صاف اور قطعی احکام دیتی ہے۔
(۲) مطلوب وہ معروفات ہیں جن کو شریعت چاہتی ہے یا پسند کرتی ہے کہ وہ سوسائٹی میں قائم اور جاری ہوں۔ ان میں سے بعض کو صاف الفاظ میں بیان کیا گیا ہے اور بعض کا اشارہ شارع کے ارشادات سے نکلتا ہے۔ بعض کے قیام و نشوونما کا بندوبست کیا گیا ہے اور بعض کی صرف سفارش کی گئی ہے تاکہ سوسائٹی بحیثیت مجموعی یا اس کے صالح لوگ ان کی طرف خود توجہ کریں۔
(۳) رہے مباح معروفات، تو شریعت کی زبان میں ہر وہ چیز اور فعل مباح ہے جس کی ممانعت نہ کی گئی ہو۔ اس تعریف کی بنا پر مباحات صرف وہی نہیں ہیں جن کی اجازت کی تصریح ہو، یا جن کے معاملہ میں ہمیں صاف طور پر اختیار دیا گیا ہو، بلکہ ان کا دائرہ بہت وسیع ہو جاتا ہے، حتیٰ کہ چند بیان کردہ ممنوعات کو چھوڑ کر دنیا میں سب کچھ مباح ٹھیرتا ہے۔ یہی مباحات کا دائرہ وہ دائرہ ہے جس میں شریعت نے ہم کو آزادی عمل دی ہے اور اسی دائرہ میں ہم کو اپنی ضرورتوں کے مطابق قوانین و ضوابط اور طریق کار خود تجویز کرلینے کے اختیارات حاصل ہیں۔ منکرات کو شریعت میں دو قسموں پر تقسیم کیا گیا ہے۔ ایک حرام یعنی قطعی ممنوع۔ دوسرے مکروہ یعنی ناپسندیدہ۔ حرام وہ ہے جس سے باز رہنا اور اپنی انفرادی و اجتماعی زندگی کو اس سے پاک رکھنا مسلمانوں پر لازم کر دیا گیا ہے اور شریعت میں اس کے متعلق صاف صاف احکام دے دیے گئے ہیں۔ رہا مکروہ تو اس کے متعلق شارع کسی نہ کسی طور پر صراحتاً یا کنایتاً ناپسندیدگی کا اظہار کرتا ہے جس سے بآسانی معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ کس درجہ میں ناپسندیدہ ہے۔ بعض مکروہات حرام کے قریب ہیں اور بعض مباح کی سرحد سے ملے ہوئے ہیں اور بہت سے ان کے درمیانی مراتب پر ہیں۔ بعض کو روکنے اور بند کرنے کا شریعت کے نظام میں بندوبست کیا گیا ہے اور بعض ناپسندیدہ بتا کر چھوڑ دیا گیا ہے تاکہ سوسائٹی خود یا اس کے صالح عناصر ان کا سدباب کریں۔

شیئر کریں