اس بحث سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ جدید اصطلاح کے مطابق شریعت کے جس حصے کو ہم قانون کے لفظ سے تعبیر کرتے ہیں وہ زندگی کی ایک مکمل اور جامع اسکیم کا جز ہے۔ یہ جز بجائے خود کوئی مستقل چیز نہیں ہے کہ کُل سے الگ کرکے اسے سمجھایا جاسکے یا جاری کیا جاسکے۔ اگر ایسا کیا بھی جائے تو یہ اسلامی قانون کا اجرا نہ ہوگا، نہ اس سے وہ نتائج حاصل ہوسکیں گے جو اسلام کے پیش نظر ہیں اور نہ یہ حرکت خود شارع کے منشا کے مطابق ہوگی۔ شارع کا اصل منشا اپنی پوری اسکیم کو اجتماع زندگی میں جاری کرنا ہے اور اس اسکیم کے مجموعی عمل درآمد ہی میں اسلامی قانون کا اجرا صحیح طور پر ہوسکتا ہے۔
شریعت کی یہ اسکیم عملی لحاظ سے کئی حصوں پر مشتمل ہے۔ اس کے بعض حصے ایسے ہیں جن کو ناقد کرنا ہر مومن کا اپنا کام ہے۔ کوئی خارجی طاقت ان کو نافذ نہیں کرا سکتی۔ بعض اور حصے ایسے ہیں جنہیں اسلام اپنے تزکیۂ نفس اور تربیت اخلاق اور تعلیم و تدریس کے پروگرام سے نافذ کراتا ہے۔ بعض دوسرے حصوں کو جاری کرنے کے لیے وہ رائے عام کی طاقت استعمال کرتا ہے۔ بعض اور حصوںکو وہ مسلم سوسائٹی کے اصلاح یافتہ رواجوں کی شکل میں نافذ کرتا ہے اور ان سب کے ساتھ ایک بہت بڑا حصہ ایسا ہے جسے نافذ کرنے کے لیے وہ تقاضا کرتا ہے کہ مسلم سوسائٹی اپنے اندر سایسی اقتدار پیدا کرے کیونکہ وہ اقتدار کے بغیر نافذ نہیں ہوسکتا۔ یہ سیاسی اقتدار اس غرض کے لیے درکار ہے کہ شریعت کے تجویز کردہ نظام زندگی کی حفاظت کرے، اس کو بگڑنے سے روکے، اس کے منشا کے مطابق بھلائیوں کے نشوونما اور برائیوں کے استیصال کا انتظام کرے اور اس کے ان احکام کو نافذ کرے جن کی تنقید کے لیے ایک نظام عدالت کا ہونا ضروری ہے۔
یہی آخری حصہ وہ چیز ے جسے ہم اسلامی قانون کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ اگرچہ ایک لحاظ سے پوری شریعت ہی قانون ہے، کیونکہ وہ رعیت پر حاکم اعلیٰ کا مقرر کیا ہوا مجموعۂ احکام ہے۔ لیکن ونکہ اصطلاح میں ’’قانون‘ذ کا اطلاق ان احکام پر ہوتا ہے جو سیاسی اقتدار کے ذریعہ سے نافذ کیے جائیں، اس لیے ہم شریعت کے صرف اس حصے کو ’’قانونِ اسلام‘‘ قرار دیتے ہیں جسے نافذ کرنے کے لیے وہ خود اپنے اصول و مزاج کے مطابق ایک سیاسی اقتدار کی تشکیل چاہتی ہے۔