یہی وہ چیز ہے جس کی خبر مخبر صادق علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس حدیث میں دی ہے جو ابو دائود میں حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ:
ان اللّٰہ یبعث لِھذہ الامّۃ علٰی رأس کل مأۃ سنۃ من یجددلھا دینھا۔
’’اللّٰہ ہر صدی کے سر پر اس امت کے لیے ایسے لوگ اٹھاتا رہے گا جو اس کے لیے اس کے دین کو تازہ کریں گے۔‘‘
مگر اس حدیث سے بعض لوگوں نے تجدید اور مجددین کا بالکل ہی ایک غلط تصور اخذ کر لیا۔ انھوں نے علیٰ رأس کل مأۃ سے صدی کا آغاز یا اختتام مراد لے لیا اور من یجددلھا کا مطلب یہ سمجھا کہ اس سے مراد لازماً کوئی ایک ہی شخص ہے۔ اس بنا پر انھوں نے تلاش کرنا شروع کر دیا کہ اِسلام کی پچھلی تاریخوں میں کون کون ایسے اشخاص ملتے ہیں جو ایک ایک صدی کے آغاز یا اختتام پر پیدا ہوئے یا مرے ہوں اور انھوں نے تجدید دین کا کام بھی کیا ہو۔ حالانکہ نہ رأس سے مراد سرا ہے اور من کا مفہوم فرد واحد تک محدود ہے۔ اس کے معنی سر کے ہیں اور صدی کے سر پر کسی شخص یا گروہ کے اٹھائے جانے کا مطلب صاف طور پر یہ ہے کہ وہ اپنے دور کے علوم ، افکار اور رفتارِ عمل پر نمایاں اثر ڈالے گا۔ اور من کا لفظ عربی زبان میں واحد اور جمع دونوں کے لیے استعمال ہوتا ہے ، اس لیے من سے مراد ایک شخص بھی ہو سکتا ہے ، بہت سے اشخاص بھی ہو سکتے ہیں اور پورے پورے ادارے اور گروہ بھی ہو سکتے ہیں۔ حضورؐ نے جو خبر دی ہے اس کا واضح مفہوم یہ ہے کہ ان شاء اللّٰہ اسلامی تاریخ کی کوئی صدی ایسے لوگوں سے خالی نہ گزرے گی جو طوفانِ جاہلیّت کے مقابلے میں اٹھیں گے اور اِسلام کو اس کی اصلی روح اور صورت میں ازسرِ نو قائم کرنے کی کوشش کرتے رہیں گے۔ ضروری نہیں کہ ایک صدی کا مجدد ایک ہی شخص ہو۔ ایک صدی میں متعدد اشخاص اور گروہ یہ خدمت انجام دے سکتے ہیں۔ یہ بھی ضروری نہیں کہ تمام دُنیائے اِسلام کے لیے ایک ہی مجدد ہو۔ ایک وقت میں بہت سے ملکوں میں بہت سے آدمی تجدید دین کے لیے سعی کرنے والے ہو سکتے ہیں۔ یہ بھی ضروری نہیں کہ وہ شخص جو اس سلسلے کی کوئی خدمت انجام دے ’’مجدد‘‘ کے خطاب سے نوازا جائے۔ یہ خطاب تو صرف ایسے اشخاص ہی کو دیا جا سکتا ہے جنھوں نے تجدید دین کے لیے کوئی بہت بڑا اور نمایاں کارنامہ انجام دیا۔
٭…٭…٭…٭…٭