ذمّیوں کے شخصی معاملات ان کی اپنی ملّتِ کے قانون (Personal Law) کے مطابق طے کیے جائیں گے۔ اسلامی قانون ان پر نافذ نہیں کیا جائے گا۔ ہمارے لیے شخصی معاملات جو کچھ ناجائز ہے‘ وہ اگر اُن کے مذہی و قومی قانون میں جائز ہو تو اسلامی عدالت اُن کے قانون ہی کے مطابق فیصلہ کرے گی۔ مثلاً بغیر گواہوں کے نکاح یا زمانۂ عدّت کے اندر نکاح ثانی‘ یا محرمات کے ساتھ نکاح اگر وہ جائز رکھتے ہوں تو ان کے لیے یہ سب افعال جائز رکھے جائیں گے۔ خلفاء راشدین اور ان کے بعد کے تمام اَدوار میں اسلامی حکومتوں کا اسی پر عمل رہا ہے۔ حضرت عمر ابن عبدالعزیز نے اس معاملہ میں حضرت حسنؒ بصری سے فتویٰ طلب کیا تھا کہ:۔
ما بال الخلفاء الراشدین ترکوا اھل الذمۃ وما ھم علیہ من نکاح المحارم واقتناء الخمور والخنازیر؟
’’کیا بات ہے کہ خلفاء راشدین نے ذمّیوں کو محرمات کے ساتھ نکاح اور شراب اور سُور کے معاملہ میں آزاد چھوڑ دیا ہے ؟‘‘
جواب میں حضرت حسنؒ نے لکھا:۔
انما بذلوا الجزیۃ لیترکو او مایعتقدون وانما انت متبع ولا مبتدع والسلام۔
’’انہوں نے جزیہ دینا اسی لیے تو قبول کیا ہے کہ انہیں ان کے عقیدے کے مطابق زندگی بسر کرنے کی آزادی دی جائے۔ آپ کا کام پچھلے طریقہ کی پیروی کرنا ہے نہ کہ کوئی نیا طریقہ ایجاد کرنا ہے۔‘‘
البتہ اگر کسی مقدمہ میں فریقین خود اسلامی عدالت سے درخواست کریں کہ شریعتِ اسلام کے مطابق ان کا فیصلہ کیا جائے، تو عدالت ان پر شریعت نافذ کرے گی۔ نیز اگر شخصی قانون سے تعلق رکھنے والے کسی معاملہ میں ایک فریق مسلمان ہو تو پھر فیصلہ اسلامی شریعت کے مطابق ہو گا۔ مثلاً کوئی عیسائی عورت کسی مسلمان کے نکاح میں تھی اور اس کا شوہر مر گیا، تو اس عورت کو شریعت کے مطابق پوری عدتِ وفات گزارنی ہو گی۔ عدت کے اندر وہ نکاح کرے گی تو ایسا نکاح باطل ہو گا۔
(المبسوط ج۵ ص۲۸۔ ۴۱)