موجودہ نظام میں شخصی حاجات کے لیے فراہمی قرض کی صرف ایک ہی صورت ہے، اور یہ وہ ہے کہ غریب آدمی مہاجن سے، اور صاحبِ جائیداد آدمی بینک سے سودی قرض حاصل کرے۔ دونوں صورتوں میں ہر طالبِ قرض کو ہر غرض کے لیے ہر مقدار میں روپیہ مل سکتا ہے اگر وہ مہاجن یا بینکر کو اصل و سود کے ملتے رہنے کا اطمینان دلاسکتا ہو، قطع نظر اس سے کہ وہ گناہ گاریوں کے لیے لینا چاہتا ہو، یا فضول خرچیوں کے لیے، یا حقیقی ضرورتوں کے لیے۔ بخلاف اس کے کوئی طالب ِ قرض کہیں سے ایک پیسہ نہیں پا سکتا اگر وہ اصل و سود کے ملنے کا اطمینان نہ دلا سکتا ہو، چاہے اس کے گھر ایک مُردہ لاش ہی بے گور و کفن کیوں نہ پڑی ہو۔ پھر موجودہ نظام میں کسی غریب کی مصیبت اور کسی امیر زادے کی آوارگی، دونوں ہی ساہوکار کے لیے کمائی کے بہترین مواقع ہیں اور اس خود غرضی کے ساتھ سنگ دلی کا یہ حال ہے کہ جو شخص سودی قرض کے جال میں پھنس چکا ہے اس کے ساتھ نہ سود کی تحصیل میں کوئی رعایت ہے نہ اصل کی بازیافت میں۔ کوئی یہ دیکھنے کے لیے دل ہی نہیں رکھتا کہ جس شخص سے ہم اصل و سود کا مطالبہ کر رہے ہیں وہ کم بخت کس حال میں مبتلا ہے۔ یہ ہیں وہ ’’آسانیاں‘‘ جو مودہ نظام شخصی حاجات میں فراہمی قرض کے لیے بہم پہنچاتا ہے۔ اب دیکھیے کہ اسلام کا غیر سودی صدقاتی نظام اس چیز کا انتظام کس طرح کرے گا۔
اول تو اس نظام میں فضول خرچیوں اور گناہ گاریوں کے لیے قرض کا دروازہ بند ہو جائے گا، کیوں کہ وہاں سود کے لالچ سے بے جا قرض دینے والا کوئی نہ ہوگا ۔ اس حالت میں قرض کا سارا لین دین آپ سے آپ صرف معقول ضروریات تک محدود ہو جائے گا اور اتنی ہی رقمیں لی اور دی جائیں گی جو مختلف انفرادی حالات میں صریح طور پر مناسب نظر آئیں گی۔
پھر چونکہ اس نظام میں قرض لینے والے سے کسی نوعیت کا فائدہ اٹھانا قرض دینے والے کے لیے جائز نہ ہوگا اس لیے قرضوں کی واپسی زیادہ سے زیادہ آسان ہو جائے گی۔ کم سے کم آمدنی رکھنے والا بھی تھوڑی تھوڑی قسطیں دے کر بارِ قرض سے جلدی اور بآسانی سبکدوش ہوسکے گا۔ جو شخص کوئی زمین یا مکان یا اور کسی قسم کی جائیداد رہن رکھے گا اس کی آمدنی سود میں کھپنے کے بجائے اصل میں وضع ہوگی اور اس طرح جلدی سے جلدی رقم قرض کی بازیافت ہو جائے گی۔ اتنی آسانیوں کے باوجود اگر شاذ و نادر کسی معاملے میں کوئی قرض ادا ہونے سے رہ جائے گا تو بیت المال ہر آدمی کی پشت پر موجود ہوگا جو ادائیگی قرض میں اس کی مدد کرے گا اور بالفرض اگر مدیون کچھ چھوڑے بغیر مر جائے گا تب بھی بیت المال اس کا قرض ادا کرنے کا ذمے دار ہوگا۔ ان وجوہ سے خوش حال و ذی استطاعت لوگوں کے لیے اپنے کسی حاجت مند ہمسائے کی ضرورت کے موقع پراسے قرض دینا اتنا مشکل اور ناگوار کام نہ رہے گا جتنا اب موجودہ نظام میں ہے۔
اس پر بھی اگر کسی بندۂ خدا کو اس کے محلے یا بستی سے قرض نہ ملے گا، تو بیت المال کا دروازہ اس کے لیے کھلا ہوگا۔ وہ جائے گا اور وہاں سے بآسانی قرض حاصل کرلے گا۔ لیکن یہ واضح رہنا چاہیے کہ بیت المال سے استمداد ان اغراض کے لیے آخری چارئہ کار ہے۔ اسلامی نقطۂ نظر سے شخصی حاجات میں ایک دوسرے کو قرض دینا معاشرے کے افراد کا اپنا فرض ہے اور ایک معاشرے کی صحت مندی کا معیار یہی ہے کہ اس کے افراد اپنی اس طرح کی اخلاقی ذمہ داریوں کو خود ہی محسوس اور ادا کرتے رہیں۔ اگر کسی بستی کا کوئی باشندہ اپنے ہمسایوں سے قرض نہیں پاتا اور مجبور ہو کربیت المال کی طرف رجوع کرتا ہے تو یہ صریحاً اس بات کی علامت ہے کہ اس بستی کی اخلاقی آب و ہوا بگڑی ہوئی ہے۔ اس لیے جس وقت اس قسم کا کوئی معاملہ بیت المال میں پہنچے گا تو وہاں صرف اس طالبِ قرض کی حاجت پوری کرنے ہی پر اکتفا نہ کیا جائے گا، بلکہ فوراً اخلاقی حفظانِ صحت کے محکمے کو اس ’’واردات‘‘ کی اطلاع دی جائے گی اور وہ اسی وقت اس بیمار بستی کی طرف توجہ کرے گا جس کے باشندے اپنے ایک ہمسائے کی ضرورت کے وقت اس کے کام نہ آئے۔ اس طرح کے کسی واقعہ کی اطلاع ایک صالح اخلاقی نظام میں وہی اضطراب پیدا کرے گی جو ہیضے یا طاعون کے کسی واقعے کی اطلاع ایک مادہ پرست نظام میں پیدا کیا کرتی ہے۔
شخصی حاجات کے لیے قرض فراہم کرنے کی ایک اور صورت بھی اسلامی نظام میں اختیار کی جاسکتی ہے۔ وہ یہ ہے کہ تمام تجارتی کمپنیوں اور کاروباری اداروں پر ان کے ملازموں اور مزدوروں کے جو کم سے کم حقوق ازروئے قانون مقرر کیے جائیں ان میں سے ایک حق یہ بھی ہو کہ وہ ان کی غیر معمولی ضرورت کے مواقع پر ان کو قرض دیا کریں نیز حکومت خود بھی اپنے اوپر اپنے ملازموں کا یہ حق تسلیم کرے اور اس کو فیاضی کے ساتھ ادا کرے۔ یہ معاملہ حقیقت میں صرف اخلاقی نوعیت ہی نہیں رکھتا بلکہ اس کی معاشی و سیاسی اہمیت بھی اتنی ہی ہے جتنی اس کی اخلاقی اہمیت ہے۔ آپ اپنے ملازموں اور مزدوروں کے لیے غیر سودی قرض کی سہولت بہم پہنچائیں گے تو صرف ایک نیکی ہی نہیں کریں گے بلکہ ان اسباب میں سے ایک بڑے سبب کو دور کر دیں گے جو آپ کے کارکنوں کو فکر، پریشانی، خستہ حالی، جسمانی آزار اور مادی بربادی میں مبتلا کرتے ہیں ۔ ان بلائوں سے ان کی حفاظت کیجئے۔ ان کی آسودگی ان کی قوت کار بڑھائے گی اور ان کا اطمینان انہیں فساد انگیز فلسفوں سے بچائے گا۔ اس کا نفع بہی کھاتے کی رو سے چاہے کچھ نہ ہو، لیکن کسی کو عقل کی بینائی میسر ہو تو وہ بہ آسانی دیکھ سکتا ہے کہ مجموعی طور پر پورے معاشرے ہی کے لیے نہیں، بلکہ فرداً فرداً ایک ایک سرمایہ دار و کارخانہ دار کے لیے بھی اور ایک ایک معاشی و سیاسی ادارے کے لیے بھی اس کا نفع اس سود سے بہت زیادہ قیمتی ہوگا جو آج مادہ پرست نظام میں محض احمقانہ تنگ نظری کی بنا پر وصول کیا جا رہا ہے۔