انسانی تمدن و تہذیب کے لیے اس کا نقصان اس قدر زیادہ ہے کہ اگر بالفرض اس نظام کے تحت ضروریاتِ زندگی انصاف کے ساتھ تقسیم بھی ہوں تو اس کا فائدہ اس کے نقصان کے مقابلے میں ہیچ ہو جاتا ہے، تمدن و تہذیب کی ساری ترقی منحصر ہے اس پر کہ مختلف انسان جو مختلف قسم کی قوتیں اور قابلیتیں لے کر پیدا ہوتے ہیں ان کو پوری طرح نشوونما پانے اور پھر اپنا اپنا حصہ اس مشترک زندگی میں ادا کرنے کا موقع ملے۔ یہ بات ایسے نظام میں حاصل نہیں ہوسکتی جس کے اندر انسانوں کا پلاننگ (planning) کیا جاتا ہو۔ چند انسان، خواہ وہ کتنے ہی لائق اور کتنے ہی نیک اندیش ہوں، بہرحال اتنے علیم و خبیر نہیں ہوسکتے کہ لاکھوں اور کروڑوں آدمیوں کی خلقی قابلیتوں اور ان کے فطری رجحانات کا صحیح اندازہ کرسکیں اور پھر ان کے نشوونما کا ٹھیک ٹھیک راستہ معین کرسکیں۔ وہ اس میں علم کے اعتبار سے بھی غلطی کریں گے، اور جماعتی مفاد یا جماعتی ضروریات کے متعلق جو تخمینہ ان کے ذہن میں ہوگا اس کے لحاظ سے بھی یہ چاہیں گے کہ ان کے زیر اثر انسانوں کی جتنی آبادی ہو وہ ان کے نقشہ پر ڈھال دی جائے۔ اس سے تمدن کی گونا گونی ختم ہو کر ایک بے روح یکسانی میں تبدیل ہو جائے گی۔ اس سے تمدن کا فطری ارتقاء بند اور ایک طرح کا مصنوعی اور جعلی ارتقاء شروع ہو جائے گا۔ اس سے انسانی قوتیں ٹھٹھرتی چلی جائیں گی اور بالآخر ایک شدید ذہنی و اخلاقی انحطاط رونما ہوگا۔ انسان بہرحال چمن کی گھاس اور بیل بوٹے نہیں ہیں کہ ایک مالی انہیں کاٹ چھانٹ کر مرتب کرے اور وہ اسی کے نقشے پر بڑھتے اورگھٹتے رہیں۔ ہر آدمی اپنا ایک تشخص رکھتا ہے جو اپنی فطری رفتار پر بڑھنا چاہتا ہے۔ تم اس کی یہ آزادی سلب کرو گے تو وہ تمہارے نقشے پر نہیں بڑھے گا بلکہ بغاوت کرے گا یا مرجھا کر رہ جائے گا۔
اشتراکیت کی بنیادی غلطی یہ ہے کہ وہ معاش کے مسئلے کو مرکزی مسئلہ قرار دے کر پوری انسانی زندگی کو اس کے گرد گھما دیتی ہے۔ زندگی کے کسی مسئلے پر بھی اس کی نظر مجرد تحقیقی نظر نہیں ہے۔ بلکہ سارے مسائل کو وہ ایک گہرے معاشی تعصب کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ ما بعد الطبیعیات، اخلاق، تاریخ، سائنس، علوم عمران، غرض ہر چیز اس کے دائرے میں معاشی نقطۂ نظر سے مغلوب و متاثر ہے اور اس یک رُخے پن کی وجہ سے زندگی کا پورا توازن بگڑ جاتا ہے۔