Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

عرضِ ناشر
اسلام کی ابتدا (بچوں کے پروگرام میں)
سرورِ عالم ﷺ
میلادُ النبیؐ
سرورِ عالم ﷺ کا اصلی کارنامہ
معراج کی رات
معراج کا پیغام
معراج کا سفرنامہ
شب برأت
روزہ اور ضبطِ نفس
عید قربان
قربانی
پاکستان کو ایک مذہبی ریاست ہونا چاہیے
زندگی بعد موت

نشری تقریریں

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

شب برأت

شب برأت کو عموماً مسلمانوں کا ایک تہوار سمجھا جاتا ہے۔ اس کے کچھ مراسم بھی مقرر کر لیے گئے ہیں جن کی شدت سے پابندی کی جاتی ہے۔ دھوم دھام کے لحاظ سے تو گویا محرم کے بعد اسی کا نمبر ہے۔ مگر سچی بات یہ ہے کہ یہ خواہ مخواہ کا بناوٹی تہوار ہے۔ نہ قرآن میں اس کی کوئی اصلیت ہے، نہ حدیث میں، نہ صحابۂ کرام کے دَور کی تاریخ ہی میں اس کا کوئی پتا نشان ملتا ہے اور نہ ابتدائی زمانہ کے بزرگانِ دین ہی میں کسی نے اسے اسلام کا تہوار قرار دیا ہے۔
اسلام دراصل رسموں اور تہواروں کا مذہب ہے ہی نہیں۔یہ تو ایک سیدھا اور معقول مذہب ہے جو انسان کو رسموں کی جکڑ بندیوں سے، کھیل تماشے کی بے فائدہ مشغولیتوں سے، اور فضول کاموں میں وقت، محنت اور دولت کی بربادیوں سے بچا کر زندگی کی ٹھوس حقیقتوں کی طرف توجہ دلاتا ہے اور اُن کاموں میں آدمی کو مشغول کرنا چاہتا ہے جو دنیا اور آخرت کی فلاح وبہبود کا ذریعہ ہوں۔ ایسے مذہب کی فطرت سے یہ بالکل بعید ہے کہ وہ سال میں ایک دن حلوے پکانے اور آتش بازیاں چھوڑنے کے لیے مخصوص کر دے اور آدمی سے کہے کہ تو مستقل طور پر ہر سال اپنی زندگی کے چند قیمتی گھنٹے اور اپنی محنت سے کمائے ہوئے بہت سے روپے ضائع کرتا رہا کر اور اس سے بھی زیادہ بعید یہ ہے کہ وہ کسی ایسی رسم کا انسان کو پابند بنائے جو صرف وقت اور روپیہ ہی برباد نہیں کرتی بلکہ بعض اوقات جانوں کو بھی ضائع کرتی ہے اور گھر تک پھونک ڈالتی ہے۔ اس قسم کی فضولیات کا حکم دینا تو درکنار، اگر ایسی کوئی رسم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں موجود ہوتی تو یقینا اسے حکماً روک دیا جاتا، اور جو ایسی رسمیں اس زمانہ میں موجودتھیں انھیں روکا ہی گیا۔
حلوے اور آتش بازی کا معاملہ تو خیر اس قدر کھلا ہوا ہے کہ جو شخص کچھ بھی اسلام کے متعلق جانتا ہے وہ پہلی ہی نظر میں کَہ دے گا کہ ان چیزوں کی پابندی اس مذہب کی روح کے خلاف ہے۔ مگر جب ہم تلاش کرتے ہیں کہ شعبان کے مہینا میں اس خاص دن کے ساتھ کوئی مستند مذہبی عقیدہ وابستہ ہے یاکوئی لازمی عبادت مقرر ہے تو ہمیں اس کا بھی کوئی نشان نہیں ملتا۔ زیادہ سے زیادہ اگر کوئی چیز اسلامی لٹریچر میں ملتی ہے تو وہ یہ ہے کہ ایک دفعہ شعبان کی پندرھویں شب کو حضرت عائشہ ؓ نے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بستر پر نہ پایا اور وہ آپؐ کو تلاش کرنے کے لیے نکلیں۔ ڈھونڈتے ڈھونڈتے بقیع کے قبرستان پہنچیں۔ وہاں آپؐ کو موجود پایا۔ وجہ دریافت کرنے پر آں حضرتؐ نے فرمایا کہ اس رات کو اللّٰہ تعالیٰ آسمانِ دنیا کی طرف توجہ فرماتا ہے اور قبیلۂ کلب کی بھیڑوں کے جس قدر بال ہیں اُس قدر انسانوں کے گناہ معاف کرتا ہے لیکن حدیث کے مشہور امام ترمذی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے اور اپنی تحقیق یہ بیان کی ہے کہ اس کی سند صحیح طور پر حضرت عائشہؓتک نہیں پہنچتی۔ بعض دوسری روایات میں، جو کم درجہ کی کتبِ حدیث میں ملتی ہیں، اس رات کی یہ فضیلت بیان کی گئی ہے کہ اس میں قسمتوں کے فیصلے کیے جاتے ہیں اور پیدائش اور موت کے معاملات طے ہوتے ہیں لیکن یہ سب روایات ضعیف ہیں۔ ہر ایک کی سند میں کوئی نہ کوئی کم زوری موجود ہے۔ اس لیے حدیث کی قدیم تر اور زیادہ معتبر کتابوں میں کہیں ان کا ذکر نہیں ملتا۔ تاہم اگر ان کی کوئی اصلیت تسلیم بھی کر لی جائے تو حد سے حد بس اتنا ہی نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ اس رات میں عبادت کرنا اور خدا سے مغفرت کی دُعا کرنا ایک اچھا فعل ہے جسے انفرادی طور پر لوگ کریں تو ثواب پائیں گے۔ اس سے بڑھ کر کوئی ایسی چیز ان روایتوں سے ثابت نہیں ہوتی جس سے یہ سمجھا جائے کہ چودھویں تاریخ کو یا پندرھویں شب کو اسلام میں عید قرار دیا گیا ہے یا کوئی اجتماعی عبادت مقرر کی گئی ہے۔
حدیث کی زیادہ معتبر کتابوں سے جو بات ثابت ہے وہ یہ ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر رمضان کی آمد سے پہلے ہی شعبان کے مہینا میں ایک خاص کیفیت طاری ہوجاتی تھی۔ رمضان کا مہینا وہ مہینا ہے جس میں آپؐ کو اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے پیغمبری جیسے عظیم الشان منصب پر مامور کیا گیا اور قرآن جیسی لازوال کتاب کے نزول کا آغاز ہوا۔ اس وجہ سے نہ صرف رمضان میں آپؐ غیر معمولی طور پر عبادت فرمایا کرتے تھے بلکہ اس سے پہلے ہی آپؐ کی لَو خدا سے لگ جاتی تھی۔ حضرت عائشہؓ اور حضرت ام سلمہؓ بیان کرتی ہیں کہ رمضان کے سوا سال کے باقی گیارہ مہینوں میں صرف شعبان ہی ایسا مہینا تھا جس میں آپ سب سے زیادہ روزے رکھتے تھے، بلکہ تقریباً پورا مہینا ہی روزہ رکھتے گزر جاتا تھا لیکن آپؐ کا یہ طرزِ عمل اپنی ذات کے لیے خاص تھا اور اس گہرے روحانی تعلق کی بِنا پر تھا جو نزولِ قرآن کے مہینے سے آپؐ کو تھا۔ رہے عام مسلمان، تو اُنھیں آپؐ نے ہدایت فرما دی تھی کہ ماہِ شعبان کے آخری پندرہ دنوں میں روزے نہ رکھا کریں کیوں کہ اس میں یہ اندیشہ تھا کہ اگر عادتاً لوگ اس مہینا کے آخری دنوں میں روزہ رکھنے لگے تو رفتہ رفتہ یہ ایک لازمی رسم بن جائے گی اور رمضان کے فرض روزوں پر خواہ مخواہ دس پندرہ مزید روزوں کا اضافہ ہو جائے گا اور اس طرح لوگوں پر وہ بار پڑ جائے گا جو خدا نے ان پر نہیں رکھا ہے۔
اسلام میں خاص طور پر یہ بات ملحوظ رکھی گئی ہے کہ جو کچھ خدا نے اپنے بندوں کے لیے لازم کیا ہے، اس کے سوا کوئی دوسری چیز بندے خود اپنے اوپر لازم نہ کر لیں۔ کوئی خُود ساختہ رسم، کوئی مصنوعی قاعدہ، کوئی اجتماعی عمل ایسا نہ ہو جس کی پابندی لوگوں کے لیے فرض کی طرح بن جائے۔ خدا زیادہ بہتر جانتا ہے کہ اس کے بندوں کی بھلائی کن چیزوں کی پابندی میں ہے اور کس چیز کی کتنی پابندی میں ہے۔ اس کی قائم کی ہوئی حدوں سے تجاوز کرکے بندوں کو بطور خود کوئی رسم مقرر نہیں کر لینی چاہیے۔ پچھلی قوموں نے یہی غلطی کی تھی کہ نئی نئی رسمیں ایجاد کرکے اپنے اوپر فرائض اور واجبات کے ردّے چڑھاتی چلی گئیں اور رفتہ رفتہ رسمیات کا ایک ایسا تانا بانا اپنے گرد بُن ڈالا جس کے جال نے آخر کار اُن کے ہاتھ پائوں جکڑ کر رکھ دیے۔ قرآن رسموں کو زنجیروں سے تشبیہ دیتا ہے اورحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن کا ایک بڑا کام یہ بتانا ہے کہ ان زنجیروں کو کاٹ پھینکیں جن میں انسان نے اپنے آپ کو خود کس رکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شریعتِ محمدی میں فرائض کا ایک نہایت ہلکا اور سادہ ضابطہ تجویز کرکے باقی تمام رسموں کا خاتمہ کر دیا گیا، عید الفطر اور بقر عید کے سوا کوئی تہوار نہ رکھا گیا، حج کے سوا کوئی یاترا نہ رکھی گئی، زکوٰۃ کے سوا کسی نذر نیاز یاد ان پُن کو فرض نہ کیا گیا، اور ہمیشہ کے لیے یہ اصول طے کر دیا گیا کہ انسان کو جس طرح خدائی فرض میں کوئی چیز کم کرنے کا حق نہیں ہے، اسی طرح کوئی چیز بڑھانے کا حق بھی نہیں ہے۔
ابتدائی زمانہ میں جو لوگ شریعتِ محمدی کی روح کو سمجھتے تھے وہ سختی کے ساتھ اس اصول کے پابند رہے۔ انھوں نے نئی رسمیں ایجاد کرنے سے انتہائی پرہیز کیا اور جو چیز لازمی رسم بنتی نظر آئی اس کی فورًاجڑ کاٹ کر رکھ دی۔ انہیں معلوم تھا کہ ایک چیز جس کو نیکی اور ثواب کا کام سمجھ کرابتدا میں بڑی نیک نیتی کے ساتھ شروع کیا جاتا ہے، وہ رفتہ رفتہ کس طرح سنت، پھر واجب، پھر فرض اور آخر کار فرضوں سے بھی زیادہ اہم بنتی چلی جاتی ہے اور جہالت کی بِنا پر لوگ اس نیکی کے ساتھ کس طرح بہت سی برائیاں ملا جلا کر ایک قبیح رسم بنا ڈالتے ہیں اور اس قسم کی رسمیں جمع ہو کر کس طرح انسانی زندگی کے لیے ایک وبال اور انسانی ترقی کی راہ میں ایک بھاری روک بن جاتی ہیں۔ اس لیے ابتدائی دَور کے علما اور امام اس بات کی سخت احتیاط رکھتے تھے کہ شریعت میں کسی نئی چیز کا اضافہ نہ ہونے پائے۔ ان کا یہ مستقل عقیدہ تھا کہ جو چیز شریعت میں نہیں ہے اسے شرعی حیثیت دینا یا جس چیز کی شریعت میں جو حیثیت ہے اس سے زیادہ اہمیت اسے دینا بدعت ہے اور ہر بدعت گم راہی ہے۔
لیکن افسوس ہے کہ بعد کی صدیوں میں اس طرف سے انتہائی غفلت برتی گئی اور بتدریج مسلمان بھی اپنی خود ساختہ رسموں کے جال میں اسی طرح پھنستے چلے گئے جس طرح دنیا کی دوسری قومیں پھنسی ہوئی تھیں۔ اس خرابی کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ بعد کے زمانے میں جو قومیں اسلام کے دائرے میں داخل ہوئیں انھیں صحیح اسلامی تعلیم وتربیت نہ مل سکی۔ وہ اپنے ساتھ پرانے جاہلیت کے بہت سے خیالات اور بہت سے طور طریقے لیے ہوئے اسلام میں آ گئیں۔ انھیں صدہا برس سے رسمیات اور تہواروں اور میلوں ٹھیلوں اور یاترائوں کی عادت پڑی ہوئی تھی۔ اس کے بغیر ان کے لیے مذہبی زندگی میں گویا کوئی لطف ہی نہ تھا۔ اسلام کی سادہ شریعت کے دائرے میں آ کر بجائے اس کے کہ وہ پرانی رسموں کا بوجھ اترنے اور پرانی زنجیروں کے بند کٹنے سے اطمینان محسوس کرتیں، انھیں یہاں آتے ہی یہ فکر لاحق ہو گئی کہ کس طرح وہی بوجھ پھر اپنے اوپر لاد لیں جنھیں اسلام نے اتارا تھا اور وہی بیڑیاں پھر پہن لیں جنھیں اسلام نے کاٹا تھا۔ چنانچہ انھوں نے کچھ توپرانی، جاہلیت کی رسمیں ذرا سی ظاہری صورت بدل کر باقی رکھیں، کچھ نئی رسمیں خود ایجاد کیں، یہاں تک کہ اسلام کو بھی ویسا ہی رسموں اور تہواروں کا مذہب بناکر رکھ دیا جیسے ان کے پرانے مذہب تھے۔ ان نئی رسموں کی ایجاد میں ماشاء اللّٰہ خاصی باریک بینی سے کام لیا گیا۔ قرآن اور حدیث کو اس غرض کے لیے تو نہ چھانا گیا کہ اسلام نے انسانی زندگی کے لیے جو نظام نامہ مرتب کیا ہے اس کے اصول معلوم کیے جاتے، بلکہ ساری چھان بین اسی لیے کی گئی کہ کہاں ایک نئی رسم ایجاد کرنے کے لیے یا پرانی جاہلانہ رسموں کو جاری رکھنے کے لیے کوئی بہانہ مل سکتا ہے۔ پھر اگر کسی جگہ ایک بال کی نوک کے برابربھی کوئی اشارہ مل گیا تو اس پر ایک پہاڑ برابر عمارت تعمیر کر ڈالی گئی۔ لوگ اپنی جگہ خوش ہیں کہ اسلام میں تہواروں اور رسموں کی جو کمی تھی اس کو انھوں نے پورا کر لیا ہے۔ حالانکہ دراصل انھوں نے اپنی جہالت سے وہ ساری بیڑیاں پہن لی ہیں جو اللّٰہ نے اپنے نبی کے ہاتھوں سے کٹوا دی تھیں، اور اپنے آپ کو پھر اُس جال میں پھانس لیا ہے جس میں پھنس کر دنیا کی قوم کبھی نہ ابھر سکی۔

شیئر کریں