(۵)جہاں دوگروہوں کے درمیان مذہب‘معاشرت اورمعیشت میںکشمکش ہو وہاں سیاسی کشمکش کارونماہوناایک بالکل قدرتی بات ہے۔مگرقادیانیوںاورمسلمانوںکے معاملہ میںسیاسی کشمکش کے اسباب اس سے کچھ زیادہ گہرے ہیں۔مرزاصاحب اوران کے پیروئوںکوابتداسے یہ احساس تھاکہ جس نبوت کادعویٰ وہ لے کراٹھے ہیںوہ مسلم معاشرہ کے اندرکفراورایمان کی ایک نئی تفریق پیداکرتی ہے اوران کویہ بھی معلوم تھاکہ اپنی ملت میںاس طرح کی ایک تفرقہ انگیزقوت(disintegrating force)کومسلمانوں نے حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ کے زمانے سے لے کرقاچاری اورعثمانی فرماںروائوںکے دورتک ’پچھلی بارہ صدیوں‘میںکبھی اُبھرنے نہیں دیا ہے۔اس لیے اُنہوںنے اپنی تحریک کے آغازہی سے انگریزی حکومت کی وفاداری کواپناجزوایمان بنایانہ صر ف زبان سے بلکہ پورے خلوص کے ساتھ دل سے بھی یہی سمجھاکہ ان کے بقااورنشوونمااورفلاح وکامیابی کا انحصار سراسرایک غیرمسلم حکومت کے سایۂ عاطفت پرہے ۔مسلمان غلام ہوںاورغیرمسلم ان پر حکمران ہوں۔ قادیانی ان غیرمسلم حکمرانوںکے پکے وفاداربن کران کی حمایت حاصل کریں اور پھر آزادی کے ساتھ بے بس مسلمانوںکواپنی تفرقہ انگیزتحریک کاشکاربنائیں۔ یہ تھاقادیانیت کی ترقی کاوہ مختصرفارمولاجومرزا غلام احمدصاحب نے بنایااوران کے بعدان کے خلفا اور ان کی جماعت کے تقریباتمام بڑے بڑے مصنفین اورمقررین نے اپنی بے شمار تحریروں اور تقریروں میںبارباردہرایا۔
قادیانیت کے اس سیاسی رجحان کوابتدا توانگریزخوداچھی طرح نہیںسمجھتے تھے۔ قادیانیوںنے بڑی کوششوںسے انہیںاپنے’’امکانات‘‘سمجھائے اورپھرانگریزوںنے ان کواپنی مسلم رعایاکاسب سے زیادہ قابل اعتمادعنصرسمجھ کرہندوستان میںبھی استعمال کیااورباہردوسرے مسلمان ممالک میںبھی۔
اس کے بعدجب ہندوستان میںہندوئوںاورمسلمانوںکی قومی کشمکش بڑھی تو کانگریس کے نیشنلسٹ لیڈروںکی نگاہ بھی قادیانیت کے’’امکانات‘‘پرپڑنی شروع ہوگئی ۔ یہ۱۹۳۰ء کے لگ بھگ زمانہ کی بات ہے جب کہ ایک بہت بڑے ہندولیڈرنے قادیانیت کی حمایت میںڈاکٹرعلامہ اقبال مرحوم سے مباحثہ فرمایاتھااورایک دوسرے نامورلیڈرنے اعلانیہ کہاتھاکہ مسلمانوںمیںہمارے نقطہ نظرسے سب سے زیادہ پسندیدہ عنصرقادیانی ہیں۔کیونکہ ان کانبی بھی دیسی (Indigenous)ہے اوران کے مقدس مقامات بھی اسی دیس میںواقع ہیں۔غرض اپنے مسلک خاص کی وجہ سے قادیانیوں کا سیاسی موقف ہے ہی کچھ اسی قسم کاکہ غیرمسلم کوان کوفطرتاًپُراُمیدنگاہوںسے اورمسلمان اندیش ناک نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔مسلمانوںمیںہمیشہ یہ عام خیال موجودرہاہے کہ ملت اسلامیہ کی تخریب کے لیے خوداس ملت کے اندرسے جوعنصرسب سے بڑھ کردشمنانِ اسلام کاآلہ کاربن سکتاہے، وہ قادیانی عنصرہے اوراس خیال کوجن باتوںنے تقویت پہنچائی ہے، وہ یہ ہیںکہ پہلی جنگ عظیم میںجب بغداد‘بیت المقدس اورقسطنطنیہ پر انگریزوں کا قبضہ ہواتوپوری مسلم قوم کے اندروہ صرف قادیانی تھے جنھوںنے اس پرخوشیاں منائیں اور چراغاںکیے۔یہی نہیںبلکہ قادیانیوںکے خلیفہ صاحب نے علی الاعلان یہ فرمایاکہ انگریزی حکومت کی ترقی سے ہماری ترقی وابستہ ہے۔جہاںجہاںیہ پھیلے گی ہمارے لیے تبلیغ کامیدان نکلتاآئے گا۔ ان باتوںکے بعدیہ نہیںکہاجاسکتاکہ قادیانیوںکے متعلق مسلمانوںکی عام بدگمانی بے وجہ ہے۔