پھر انھوں نے اپنے سیاسی نظرئیے اور سیاسی ادارے بھی ہم پر مسلّط کیے جو ہمارے دین اور ہماری دنیاکے لیے کسی دوسری چیز سے کم غارت گر ثابت نہ ہوئے۔ ان کے سیکولرزم نے ہمارے دینی تصورات کی جڑیں کھوکھلی کیں اور ان کے نیشنلزم اوران کی ڈیموکریسی نے ہم کو مسلسل ایک صدی تک اتنا پِیسا کہ آخر کار ہمیں اپنی آدھی قوم کو دے کر اور اپنی لاکھوں جانیں اور بے شمار عورتوں کی عصمتیں قربان کرکے صرف اپنی آدھی قوم کو اس چکی کے پاٹوں سے بچا لینے پرآمادہ ہونا پڑا۔ ان بے درد احمقوں نے ایک لمحے کے لیے بھی یہ نہ سوچا کہ ہندوستان کے ہندو اور مسلمان اور سکھ اور اچھوت مل کر جدید سیاسی معنوں میں ایک قوم کیسے قرار پا سکتے ہیں جس میں ڈیموکریسی کا یہ اصول چل سکے کہ قوم کی اکثریت قانون ساز اور حکم ران ہو اور اقلیت رائے عامہ کو ہموار کرکے اکثریت بننے کی کوشش کرتی رہے؟ انھوں نے کبھی یہ سمجھنے کی کوشش نہ کی کہ یہاں اقلیتیں اور اکثریتیں، قومی اقلیتیں اور اکثریتیں ہیں، نہ کہ محض سیاسی۔ انھوں نے جن پر ۳۵ کروڑ انسانوں کے حال ومستقبل کی بھاری ذمہ داری تھی، اپنا ایک منٹ بھی اس معاملے کو سمجھنے پر صرف نہ کیا کہ اِن مختلف قوموں کے مجموعے کو ایک قوم فرض کرکے یہاں سیکولرڈیموکریسی قائم کرنے کے معنی اس کے سوا کچھ نہیں ہو سکتے کہ ان میں سے ایک کثیر التعداد قوم باقی سب قوموں کے مذہب، تہذیب اور قومی انفرادیت کو زبردستی مٹا کر رکھ دے۔ وہ اندھا دُھند اپنے گھرکے اصول اور نظریات اور عملی طریقے ایک بالکل مختلف ماحول پر ٹھونستے چلے گئے۔ ہندوستان کا چپہ چپہ برسوں منافرت کا زہر اور مظلوموں کا خون اور جاں گسل کش مکش کا دھواں اگل اگل کر خبر دیتا رہا کہ یہ بالکل ایک غلط نظام ہے جو اس آبادی کے مزاج کے خلاف اس پر مسلّط کیا جا رہا ہے۔ مگر انھوں نے اس کانوٹس تک نہ لیا۔ ایک دیوار بیچ کے ہمسائے ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو گئے مگر انھوں نے اپنی پالیسی پر نظرثانی کرنے کی ضرورت محسوس نہ کی۔ پھر جب نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ تقسیم کے سوا کوئی چارہ باقی نہ رہا تو وہ ایسے طریقے سے تقسیم کرکے رخصت ہوئے جس کی بدولت خون کے دریااور لاشوں کے پہاڑ ہندوستان وپاکستان کی سرحد بنے اور یہ تقسیم پچھلے جھگڑوں کے تصفیے کی ایک شکل بننے کے بجائے بہت سے نئے جھگڑوں کی بنیاد بن گئی جو نہ معلوم کتنی مدت تک اس برعظیم کے لوگوں کو آپس کی دشمنی اور کش مکش میں مبتلا رکھیں گے۔
میں مانتا ہوں کہ ان بیرونی حاکموں نے یہاں کچھ اچھے کام بھی کیے۔ ان کی بدولت جو مادی ترقیات یہاں ہوئیں اور علومِ جدیدہ کے مفید پہلوئوں سے جو فائدہ ہمیں پہنچا، ان کی قدر وقیمت سے مجھے انکار نہیں ہے۔ مگر کیا نسبت ہے ان فائدوں کو ان بے شمار اخلاقی، روحانی اور مادی نقصانات سے جو ہمیں بالادستی سے پہنچ گئے؟