یہ تھے وہ اخلاقیات جو فاتحانہ رعب داب کے ساتھ آئے اور ہم پر حکم ران ہوئے۔ اب اس سیاسی نظام کو لیجئے جو یہاں قائم کیا گیا اور مغربی آقائوں کی راہ نمائی میں پروان چڑھا۔ اس کی بنیاد تین اصولوں پر قائم کی گئی تھی۔ ایک سیکولرزم یعنی لادینی۔ دوسرے نیشنلزم، یعنی قوم پرستی، تیسرے ڈیموکریسی، یعنی حاکمیتِ جمہور۔
پہلے اصول کا مطلب یہ تھا کہ مذہب اور اس کے خدا اور اس کی تعلیمات کا کوئی تعلق سیاسی واجتماعی معاملات سے نہیں ہے۔ اہلِ دنیا اپنی دنیا کے معاملات خود اپنی صواب دید کے مطابق چلانے کے مختار ہیں۔ جس طرح چاہیں چلائیں اور انھیں چلانے کے لیے جو اصول، قوانین، نظرئیے اور طریقے چاہیں بنائیں۔ خدا کو نہ ان معاملات میں بولنے کا کوئی حق، اور نہ ہمیں، اس سے یہ پوچھنے کی ضرورت کہ وہ کیا پسند کرتا ہے اورکیا پسند نہیں کرتا۔ البتہ اگر کوئی بڑی مصیبت کبھی ہم پر ٹوٹ پڑے تو یہ بات سیکولرزم کے خلاف نہیں ہے کہ ایسے وقت میں خد ا کو مدد کے لیے پکارا جائے اوراس صورت میں خدا پر فرض عاید ہو جاتا ہے کہ ہماری مدد کو آئے۔
دوسرے اصول کا مطلب یہ تھا کہ جس مقام سے خدا کو ہٹایا گیا ہے وہاں قوم کو لا بٹھایا جائے۔ قوم ہی معبود ہو، قوم ہی کا مفاد معیار خیر وشر ہو، قوم ہی کی ترقی اور اس کا وقار اور دوسروں پر اس کا غلبہ مطلوب ومقصود ہو اور افراد کی ہر قربانی قوم کے لیے جائز بھی ہو اور واجب بھی، اس کے ساتھ ’’قومیت‘‘ کا جو تصور ہمارے بیرونی آقائوں نے یہاں درآمد کیا وہ غیر مذہبی، وطنی قومیت کا تصور تھا جس کے ساتھ مل کر قوم پرستی کا مسلک کم از کم ہمارے لیے تو کریلا اور نیم چڑھا ہو گیا۔ کیوں کہ جس ملک کی آبادی کا ۴/۳ حصہ غیر مسلم ہو اس میں ’’وطنی قومیت‘‘ کی بنیاد پر مذہب ِ قوم پرستی کا رواج صریح طور پر یہ معنی رکھتا تھا کہ یا تو ہم سیدھی طرح ہی نہیں بلکہ پُرجوش طریقے سے نامسلمان بنیں، یا پھر مذہب قوم پرستی کی رُو سے کافر (یعنی غدار وطن) قرار پائیں۔
تیسرے اصول کا مطلب یہ تھا کہ قومی ریاست میں جس مقام سے مذہب کو بے دخل کیا گیا ہے وہاں جمہورِ قوم، یعنی اکثریت کی رائے کو اس کا جانشین بنایا جائے۔ اکثریت مذہب سے قطع نظر کرتے ہوئے جسے حق کہے وہ حق اور جسے باطل کہے وہ باطل۔ اکثریت ہی کے بنائے ہوئے اصول اور قوانین اور ضوابط قوم کا دین ہوں اور اکثریت ہی اس دین میں ردوبدل کی مختار ہو۔