صفحاتِ گزشتہ میں ڈاکٹر عبدالودود صاحب اور مصنف کی جو مراسلت ناظرین کے سامنے آچکی ہے، اس کے سلسلے میں ڈاکٹر صاحب کا ایک اور خط وصول ہوا جسے مصنف کے جواب سمیت ذیل میں درج کیا جا رہا ہے۔
ڈاکٹر صاحب کا خط
محترم مولانا! السلام علیکم
میرے خط مورخہ ۱۷؍اگست کا جواب آپ کی طرف سے ترجمان القرآن ماہ اکتوبر ونومبر کی اشاعتوں میں آ چکا ہے۔ اکتوبر کے ترجمان میں شائع شدہ جواب کا بقیہ حصہ بھی بذریعہ ڈاک موصول ہو گیا تھا۔ اس جواب کے آخر میں آپ نے فرمایا ہے کہ آگے کسی بحث کا سلسلہ چلنے سے پہلے آپ یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ آیا میں حق کے آگے جھکنے کے لیے تیار بھی ہوں یا نہیں۔
محترم! ایک سچے مسلمان کی طرح میں ہر وقت حق کے آگے جھکنے پر تیار ہوں لیکن جہاں حق موجود ہی نہ ہو بلکہ کسی بت کے آگے جھکنا مقصود ہو تو کم از کم میں ایسا نہیں کر سکتا۔ کیوں کہ شخصیت پرستی میرا مسلک نہیں۔ میں بار بار آپ کو تکلیف اس لیے دیتا ہوں کہ مسئلۂ زیر بحث صاف ہو جائے اور ایک ہی ملک میں بسنے والے اور ایک ہی منزل مقصود کی طرف بڑھنے والے الگ الگ راستے اختیار نہ کریں اور آپ ہیں کہ لفاظی اور جذبات کا مرکب پیش کرنے میں سارا زورِ قلم اس لیے صرف کر رہے ہیں کہ میں جھک جائوں۔ آپ نے اتنا طویل جواب لکھنے میں یقینا بڑی زحمت اُٹھائی لیکن میری بدنصیبی ملاحظہ فرمائیے کہ اس سے اور الجھنیں پیدا ہو گئیں۔
آپ نے یہ درست فرمایا کہ میرے لیے قرآن کا مطالعہ میرے بہت سے مشاغل میں سے ایک ہے اور آپ نے اپنی عمر اس کے ایک ایک لفظ پر غور کرنے اور اس کے مضمرات کو سمجھنے میں صرف کی ہے لیکن مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑے گا کہ آپ کی یہ عمر بھر کی محنت اپنی ذات کے لیے ہو تو ہو لیکن عام مسلمانوں کے لیے کچھ مفید ثابت نہیں ہو سکی۔ آپ کے خط میں بہت سے ابہامات ہیں۔ کئی باتیں قرآن کے خلاف ہیں۔ کئی باتیں ایسی ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ آپ قرآن کا مطلب صحیح طور پر نہیں سمجھتے۔ ان کے لیے بڑا تفصیلی جواب درکار ہے جسے میں ان شاء اللّٰہ العزیز اولین فراغت میں مکمل کر سکوں گا لیکن اس سلسلے میں دو ایک باتیں ایسی ہیں جن کی وضاحت نہایت ضروری ہے۔ اس وقت میں صرف انھی کو پیش کرنا چاہتا ہوں۔
میں سمجھتا ہوں کہ ساری بحث سمٹ سمٹا کر یہاں آ جاتی ہے کہ رسول اللّٰہﷺ پر جو وحی خدا کی طرف سے نازل ہوئی وہ سب کچھ قرآن کے اندر ہے یا باہر کہیں اور بھی۔ آپ کا دعوٰی ہے کہ وحی کا ایک حصہ قرآن کے علاوہ اور بھی ہے۔ اس ضمن میں حسب ذیل امور وضاحت طلب ہیں:
۱۔ جہاں تک ایمان لانے اور اطاعت کرنے کا تعلق ہے کیا وحی کے دونوں حصے یکساں حیثیت رکھتے ہیں؟
۲۔ قرآن نے جہاں مَااُنْزِلَ اِلَیْکَ کہا ہے، کیا اس سے مراد صرف قرآن ہے یا وحی کا مذکورہ صدر حصہ بھی؟
۳۔ وحی کا یہ دوسرا حصہ کہا ںہے؟ کیا قرآن کی طرح اس کی حفاظت کی ذمہ داری بھی خدا نے لی ہوئی ہے؟
۴۔ قرآن کے ایک لفظ کی جگہ عربی کا دوسرا لفظ جو اس کے مرادف المعنی ہو، رکھ دیا جائے تو کیا اس لفظ کو ’’وحی مُنَزَّل مَنِ اللّٰہ‘‘ سمجھ لیا جائے گا؟ کیا وحی کے مذکورہ بالا دوسرے حصے کی بھی یہی کیفیت ہے؟
۵۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے نبوت پانے کے بعد اپنی زندگی کے آخری سانس تک جو کچھ کیا وہ خدا کی طرف سے وحی تھا۔ کیا آپ ان کے ہمنوا ہیں؟ اگر نہیں تو اس باب میں آپ کا عقیدہ کیا ہے؟
۶۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ حضور ﷺ کے بعض ارشادات وحی الٰہی تھے اور بعض وحی نہیں تھے تو کیا آپ فرمائیں گے کہ حضور ﷺ کے جو ارشادات وحی تھے، ان کا مجموعہ کہاں ہے؟ نیز آپ کے جو ارشادات وحی نہیں تھے، مسلمانوں کے لیے ایمان واطاعت کے اعتبار سے ان کی حیثیت کیا ہے؟
۷۔ اگر کوئی شخص قرآن کریم کی کسی آیت کے متعلق یہ کہہ دے کہ وہ ’’منزل من اللّٰہ‘‘ نہیں ہے تو آپ اس سے متفق ہوں گے کہ وہ دائرہ ٔاِسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔ اگر کوئی شخص احادیث کے موجودہ مجموعوں میں سے کسی حدیث کے متعلق یہ کہے کہ وہ خدا کی وحی نہیں تو کیا وہ بھی اسی طرح دائرۂ اِسلام سے خارج ہو جائے گا؟
۸۔ رسول اللّٰہ ﷺ نے دین کے احکام کی بجا آوری کے لیے جو صورتیں تجویز فرمائی ہیں کیا کسی زمانے کی مصلحتوں کے لحاظ سے ان کی جزئیات میں ردوبدل کیا جا سکتا ہے یا نہیں؟ کیا اس قسم کا ردوبدل قرآن کے احکام کی جزئیات میں بھی کیا جا سکتا ہے؟
والسلام
مخلص: عبدالودود