آپ کا دوسرا سوال یہ تھا:
کیا قرآن کی طرح ہمارے ہاں ایسی کوئی کتاب موجود ہے جس میں سُنّتِ رسول اللّٰہa مرتب شکل میں موجود ہو، یعنی قرآن کی طرح اس کی کوئی جامع ومانع کتاب ہے؟
اس سوال کا جو جواب میرے محولہ بالا مضامین میں موجود تھااور اگر آپ نے ان کو بغور پڑھا ہے تو آپ کے سامنے بھی وہ آیا ہو گا، اسے مَیں پھریہاں نقل کیے دیتا ہوں، تاکہ جب نہیں تو اَب آپ اُسے ملاحظہ فرما لیں:
سُنّت کو بجائے خود مآخذ قانون تسلیم کرنے کے بعد یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس کے معلوم کرنے کا ذریعہ کیا ہے۔ مَیں اس کے جواب میں عرض کروں گا کہ آج پونے چودہ سو سال گزر جانے کے بعد پہلی مرتبہ ہم کو اس سوال سے سابقہ پیش نہیں آ گیا ہے کہ ڈیڑھ ہزار سال قبل جو نبوت مبعوث ہوئی تھی اس نے کیا سُنّت چھوڑی تھی۔ دو تاریخی حقیقتیں ناقابل انکار ہیں:
۱۔ ایک یہ کہ قرآن کی تعلیم اور محمد a کی سُنّت پر جو معاشرہ اِسلام کے آغاز میں پہلے دن قائم ہوا تھا وہ اس وقت سے آج تک مسلسل زندہ ہے، اس کی زندگی میں ایک دن کا انقطاع بھی واقع نہیں ہوا ہے اور اس کے تمام ادارے اس ساری مدت میں پیہم کام کرتے رہے ہیں۔ آج تمام دُنیا کے مسلمانوں میں عقائد اور طرز فکر، اخلاق اور اقدار (values)، عبادات اور معاملات، نظریہ حیات اور طریق حیات کے اعتبار سے جو گہری مماثلت پائی جاتی ہے، جس میں اختلاف کی بہ نسبت ہم آہنگی کا عنصر بہت زیادہ موجود ہے، جو اُن کو تمام روئے زمین پر منتشر ہونے کے باوجود ایک امت بنائے رکھنے کی سب سے بڑی بنیادی وجہ ہے۔ یہی امر اس بات کا کھلا ہوا ثبوت ہے کہ اس معاشرے کو کسی ایک ہی سُنّت پر قائم کیا گیا تھا اور وہ سُنّت ان طویل صدیوں کے دوران میں مسلسل جاری ہے۔ یہ کوئی گم شدہ چیز نہیں ہے جسے تلاش کرنے کے لیے ہمیں اندھیرے میں ٹٹولنا پڑ رہا ہو۔
۲۔ دوسری تاریخی حقیقت، جو اتنی ہی روشن ہے، یہ ہے کہ نبی a کے بعد سے ہر زمانے میں مسلمان یہ معلوم کرنے کی پیہم کوشش کرتے رہے ہیں کہ سُنّت ثابتہ کیا ہے اور کیا نئی چیز ان کے نظام حیات میں کسی جعلی طریقے سے داخل ہو رہی ہے چوں کہ سُنّت ان کے لیے قانون کی حیثیت رکھتی تھی، اسی پر ان کی عدالتوں میں فیصلے ہوئے تھے اور ان کے گھروں سے لے کر حکومتوں تک کے معاملات چلتے تھے، اس لیے وہ اس کی تحقیق میں بے پروا اور لاابالی نہیں ہو سکتے تھے۔ اس تحقیق کے ذرائع بھی اور اس کے نتائج بھی ہم کو اِسلام کی پہلی خلافت کے زمانے سے لے کر آج تک نسلًا بعد نسلٍ میراث میں ملے ہیں اور بلا انقطاع ہر نسل کا کیا ہوا کام محفوظ ہے۔
ان دو حقیقتوں کو اگر کوئی اچھی طرح سمجھ لے اور سُنّت کو معلوم کرنے کے ذرائع کا باقاعدہ علمی مطالعہ کرے تو اسے کبھی یہ شبہ لاحق نہیں ہو سکتا کہ یہ کوئی لاینحل معما ہے جس سے وہ آج یکایک دوچار ہو گیا ہے۔ (ترجمان القرآن، جنوری ۱۹۵۸ء، ص ۲۱۸)
اسی مسئلے پر دوبارہ روشنی ڈالتے ہوئے میں نے اپنے دوسرے مضمون میں، جس کا حوالہ بھی میں پہلے آپ کو دے چکا ہوں، یہ لکھا تھا کہ:
نبی a اپنے عہد نبوت میں مسلمانوں کے لیے محض ایک پیرومرشد اور واعظ نہیں تھے بلکہ عملًا ان کی جماعت کے قائد، راہ نُما، حاکم، قاضی، شارع، مربی، معلم سب کچھ تھے اور عقائد وتصورات سے لے کر عملی زندگی کے تمام گوشوں تک مسلم سوسائٹی کی پوری تشکیل آپa ہی کے بتائے، سکھائے اور مقرر کیے ہوئے طریقوں پر ہوئی تھی۔ اس لیے کبھی یہ نہیں ہوا کہ آپa نے نماز، روزے اور مناسک حج کی جو تعلیم دی ہو، بس وہی مسلمانوں میں رواج پا گئی ہو اور باقی باتیں محض وعظ وارشاد میں مسلمان سن کر رہ جاتے ہوں، بلکہ فی الواقع جو کچھ ہوا وہ یہ تھا کہ جس طرح آپa کی سکھائی ہوئی نماز فورًا مسجدوں میں رائج ہوئی اور اسی وقت جماعتیں اس پر قائم ہونے لگیں، اسی طرح شادی بیاہ اور طلاق ووراثت کے متعلق جو قوانین آپa نے مقرر کیے انھی پر مسلم خاندانوں میں عمل شروع ہو گیا، لین دین کے جو ضابطے آپa نے مقرر کیے انھی کا بازاروں میں چلن ہونے لگا، مقدمات کے جو فیصلے آپa نے کیے وہی ملک کا قانون قرار پاتے، لڑائیوں میں جو معاملات آپa نے دشمنوں کے ساتھ، اور فتح پا کر مفتوح علاقوں کی آبادی کے ساتھ کیے وہی مسلم مملکت کے ضابطے بن گئے، اور فی الجملہ اِسلامی معاشرہ اور اس کا نظام حیات اپنے تمام پہلوئوں کے ساتھ انھی سنتوں پر قائم ہوا جو آپ نے خود رائج کیں یا جنھیں پہلے کے مروج طریقوں میں سے بعض کو برقرار رکھ کر آپa نے سُنّتِ اسلام کا جز بنا لیا۔
یہ وہ معلوم ومتعارف سنتیں تھیں جن پر مسجد سے لے کر خاندان، منڈی، عدالت، ایوان حکومت اور بین الاقوامی سیاست تک مسلمانوں کی اجتماعی زندگی کے تمام ادارات نے حضور a کی زندگی ہی میں عمل درآمد شروع کر دیا تھا اور بعد میں خلفائے راشدین کے عہد سے لے کر دورِ حاضر تک ہمارے اجتماعی ادارات کے تسلسل میں ایک دن کا انقطاع بھی واقع نہیں ہوا تھا۔ اس کے بعد اگر کوئی انقطاع رونما ہوا ہے تو صرف حکومت وعدالت اور پبلک لا(public law) کے ادارات عملًا درہم برہم ہوجانے سے ہوا ہے ان (سنتوں) کے معاملے میں ایک طرف حدیث کی مستند روایات اور دوسری طرف امت کا متواتر عمل، دونوںایک دوسرے سے مطابقت رکھتے ہیں۔ (ترجمان القرآن، دسمبر ۱۹۵۸ء، ص ۱۶۷)
پھر اسی سلسلے میں آگے چل کر مزید تشریح کرتے ہوئے میں نے یہ بھی لکھا تھا:
ان معلوم ومتعارف سنتوں کے علاوہ ایک قسم سنتوں کی وہ تھی جنھیں حضورa کی زندگی میں شہرت اور رواج عام حاصل نہ ہوا تھا، جو مختلف اوقات میں حضورa کے کسی فیصلے،ارشاد، امرونہی، تقریر({ FR 6800 })واجازت، یا عمل کو دیکھ کر، یا سن کر خاص خاص اشخاص کے علم میں آئی تھیں اور عام لوگ ان سے واقف نہ ہو سکے تھے۔
ان سنتوں کا علم جو متفرق افراد کے پاس بکھرا ہوا تھا، امت نے اس کو جمع کرنے کا سلسلہ حضور a کی وفات کے بعد فورًا ہی شروع کر دیا کیوں کہ خلفا، حکام، قاضی، مفتی اور عوام سب اپنے اپنے دائرہ کار میں پیش آنے والے مسائل کے متعلق کوئی فیصلہ یا عمل اپنی رائے اور استنباط کی بِنا پر کرنے سے پہلے یہ معلوم کر لینا ضروری سمجھتے تھے کہ اس معاملے میں آں حضرت a کی کوئی ہدایت تو موجود نہیں ہے۔ اسی ضرورت کی خاطر ہر اُس شخص کی تلاش شروع ہوئی جس کے پاس سُنّت کا کوئی علم تھا، اور ہر اس شخص نے جس کے پاس ایسا کوئی علم تھا، خود بھی اس کو دوسروں تک پہنچانا اپنا فرض سمجھا۔ یہی روایتِ حدیث کا نقطہ آغاز ہے اور ۱۱ہجری سے تیسری چوتھی صدی تک ان متفرق سنتوں کو فراہم کرنے کا سلسلہ جاری رہا ہے۔ موضوعات گھڑنے والوں نے ان کے اندر آمیزش کرنے کی جتنی کوششیں بھی کیں وہ قریب قریب سب ناکام بنا دی گئیں کیوں کہ جن سنتوں سے کوئی حل ثابت یا ساقط ہوتا تھا، جن کی بِنا پر کوئی چیز حرام یا حلال ہوتی تھی، جس سے کوئی شخص سزا پا سکتا تھا یا کوئی ملزم بری ہو سکتا تھا، غرض یہ کہ جن سنتوں پر احکام اور قوانین کا مدار تھا، ان کے بارے میں حکومتیں اور عدالتیں اور افتا کی مسندیں اتنی بے پرواہ نہیں ہو سکتی تھیں کہ یوںہی اٹھ کر کوئی شخص قال النبی a کہہ دیتااور ایک حاکم، یا جج، یا مفتی اسے مان کر کوئی حکم صادر کر ڈالتا۔ اسی لیے جو سنتیں احکام سے متعلق تھیں ان کے بارے میں پوری چھان بین کی گئی، سخت تنقید کی چھلنیوں سے ان کو چھانا گیا، روایت کے اصولوں پر بھی انھیں پرکھا گیا اور درایت کے اصولوں پر بھی، اور وہ سارا مواد جمع کر دیا گیا، جس کی بِنا پر کوئی روایت مانی گئی ہے یا رد کر دی گئی ہے، تاکہ بعد میں بھی ہر شخص اس کے رد وقبول کے متعلق تحقیقی رائے قائم کر سکے۔
(ترجمان القرآن، دسمبر ۱۹۵۸ء، ص ۱۶۸۔۱۶۹)
اس جواب کو بغور ملاحظہ فرما لینے کے بعد اب آپ فرمائیں کہ آپ کو اپنے دوسرے سوال کا جواب ملا یا نہیں۔ ممکن ہے آپ اس پر یہ کہیں کہ تم نے: قرآن کی طرح ایک جامع ومانع کتاب‘‘ کا نام تو لیا ہی نہیں جس میں ’’سُنّت رسول اللّٰہa مرتب شکل میں موجود ہو، مگر میں عرض کروں گا کہ میرے اس جواب پر یہ اعتراض ایک کج بحثی سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ آپ ایک پڑھے لکھے ذی ہوش آدمی ہیں۔ کیا آپ اتنی سی بات بھی نہیں سمجھ سکتے کہ ایک معاشرے اور ریاست کا پورا نظام صرف ایک مدون کتاب آئین (code) ہی پر نہیں چلا کرتا ہے، بلکہ اس کتاب کے ساتھ رواجات (conventions) ، روایات (traditions)، نظائر (precedents)، عدالتی فیصلوں، انتظامی احکام، اخلاقی روایات وغیرہ کا ایک وسیع سلسلہ بھی ہوتا ہے جوکتابِ آئین پر عملًا ایک نظام زندگی چلنے کا لازمی نتیجہ ہے۔ یہ چیز ایک قوم کے نظامِ حیات کی جان ہوتی ہے جس سے الگ کرکے محض اس کی کتابِ آئین نہ تو اس کے نظامِ حیات کی پوری تصویر ہی پیش کرتی ہے، نہ وہ ٹھیک طور پر سمجھی ہی جا سکتی ہے اور یہ چیز دُنیا میں کہیں بھی کسی ’’ایک جامع ومانع کتاب‘‘ کی شکل میں مرتب نہیں ہوتی، نہ ہو سکتی ہے، نہ ایسی کسی ’’ایک کتاب‘‘ کا فقدان یہ معنی رکھتا ہے کہ اس قوم کے پاس اس کی کتاب آئین کے سوا کوئی ضابطہ وقانون موجود نہیں ہے۔ آپ انگلستان، امریکہ، یا دُنیا کی کسی اور قوم کے سامنے یہ بات ذرا کہہ کر دیکھیں کہ تمھارے پاس تمھارے مدوّن قانون (codified law) کے سوا جو کچھ بھی ہے سب ساقط الاعتبار ہے، اور تمھاری تمام روایات وغیرہ کو یا تو ’’ایک کتاب‘‘ کی شکل میں مرتب ہونا چاہیے، ورنہ انھیں آئینی حیثیت سے بالکل ناقابل لحاظ قرار دیا جانا چاہیے، پھر آپ کو خود ہی معلوم ہو جائے گا کہ آپ کا یہ ارشاد کتنے وزن کا مستحق قرار پاتا ہے۔
کسی کا یہ کہنا کہ عہد نبویa کے رواجات، روایات، نظائر، فیصلوں، احکام اور ہدایات کا پورا ریکارڈ ہم کو ’’ایک کتاب‘‘ کی شکل میں مرتب شدہ ملنا چاہیے تھا، درحقیقت ایک خالص غیر عملی طرزفکر ہے اور وہی شخص یہ بات کہہ سکتا ہے جو خیالی دُنیا میں رہتا ہو۔ آپ قدیم زمانے کے عرب کی حالت کو چھوڑ کر تھوڑی دیر کے لیے آج اس زمانے کی حالت کو لے لیجیے جب کہ احوال ووقائع کو ریکارڈ کرنے کے ذرائع بے حد ترقی کر چکے ہیں۔ فرض کر لیجیے کہ اس زمانے میں کوئی لیڈر ایسا موجود ہے جو ۲۳ سال تک شب وروز کی مصروف زندگی میں ایک عظیم الشان تحریک برپا کرتا ہے، ہزاروں افراد کو اپنی تعلیم وتربیت سے تیار کرتا ہے، ان سے کام لے کر ایک پورے ملک کی فکری، اخلاقی، تمدنی، اور معاشی زندگی میں انقلاب پیدا کرتا ہے، اپنی قیادت وراہ نُمائی میں ایک نیا معاشرہ اور ایک نئی ریاست وجود میں لاتا ہے، اس معاشرے میں اس کی ذات ہر وقت ایک مستقل نمونۂ ہدایت بنی رہتی ہے، ہر حالت میں لوگ اس کو دیکھ دیکھ کر یہ سبق لیتے ہیں کہ کیا کرنا چاہیے اور کیا نہ کرنا چاہیے، ہر طرح کے لوگ شب وروز اس سے ملتے رہتے ہیں اور وہ ان کو عقائد وافکار، سیرت واخلاق، عبادات ومعاملات، غرض ہر شعبۂ زندگی کے متعلق اصولی ہدایات بھی دیتا ہے اور جزئی احکام بھی۔ پھر اپنی قائم کردہ ریاست کا فرماں روا، قاضی، شارع، مدبر اور سپہ سالار بھی تنہا وہی ہے اور دس سال تک اس مملکت کے تمام شعبوں کو وہ خود اپنے اصولوں پر قائم کرتا اور اپنی راہ نُمائی میں چلاتا ہے۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ آج اس زمانے میں بھی یہ سارا کام کسی ایک ملک میں ہو تو اس کا ریکارڈ’’ایک کتاب‘‘ کی شکل میں مرتب ہو سکتا ہے؟ کیا ہر وقت اس لیڈر کے ساتھ ٹیپ ریکارڈر لگا رہ سکتا ہے؟ کیا ہر آن فلم کی مشین اس کی شبانہ روز نقل وحرکت ثبت کرنے میں لگی رہ سکتی ہے؟ اور اگر یہ نہ ہو سکے تو کیا آپ کہیں گے کہ وہ ٹھپا جو اس لیڈر نے ہزاروں لاکھوں افراد کی زندگی پر پورے معاشرے کی ہیئات اور پوری ریاست کے نظام پر چھوڑا ہے، سرے سے کوئی شہادت ہی نہیں ہے جس کا اعتبار کیا جا سکے؟ کیا آپ یہ دعوٰی کریں گے کہ اس لیڈر کی تقریریں سننے والے، اس کی زندگی دیکھنے والے، اس سے ربط وتعلق رکھنے والے بے شمار اشخاص کی رپورٹیں سب کی سب ناقابل اعتماد ہیں کیوں کہ خود اس لیڈر کے سامنے وہ ’’ایک کتاب‘‘ کی شکل میں مرتب نہیں کی گئیں اور لیڈر نے ان پر اپنے ہاتھ سے مہر تصدیق ثبت نہیں کی؟ کیا آپ فرمائیں گے کہ اس کے عدالتی فیصلے، اس کے انتظامی احکام، اس کے قانونی فرامین، اس کے صلح وجنگ کے معاملات کے متعلق جتنا مواد بھی بہت سی مختلف صورتوں میں موجود ہے اس کی کوئی قدروقیمت نہیں ہے کیوں کہ وہ ’’ایک جامع ومانع کتاب‘‘ کی شکل میں تو ہے ہی نہیں؟
ان امور پر اگر بحث کی نیت سے نہیں، بلکہ بات سمجھنے کی نیت سے غور کیا جائے تو ایک ذی فہم آدمی خود محسوس کر لے گا کہ یہ ’’ایک کتاب‘‘ کا مطالبہ کتنا مہمل ہے۔ اس طرح کی باتیں ایک کمرے میں بیٹھ کر چند نیم خواندہ اور فریب خوردہ عقیدت مندوں کے سامنے کر لی جائیں تو مضائقہ نہیں، مگر کھلے میدان میں پڑھے لکھے لوگوں کے سامنے ان کو چیلنج کے انداز میں پیش کرنا بڑی جسارت ہے۔