اب میں چند الفاظ میں اس سنت اللّٰہ کو بیان کیے دیتا ہوں جو امامت کے باب میں ابتدائے آفرینش سے جاری ہے اور جب تک نوعِ انسانی اپنی موجودہ فطرت پر زندہ ہے اس وقت تک برابر جاری رہے گی، اور وہ یہ ہے:
اگر دُنیا میں کوئی منظم انسانی گروہ ایسا موجود نہ ہو جو اِسلامی اَخلاقیات اور بنیادی انسانی اَخلاقیات دونوں سے آراستہ ہو اور پھر مادی اسباب ووسائل بھی استعمال کرے، تو دُنیا کی امامت وقیادت لازماً کسی ایسے گروہ کے قبضے میں دے دی جاتی ہے جو اِسلامی اَخلاقیات سے چاہے بالکل ہی عاری ہو لیکن بنیادی انسانی اَخلاقیات اور مادی اسباب ووسائل کے اعتبار سے دوسروں کی بہ نسبت زیادہ بڑھا ہوا ہو۔ کیوں کہ اللّٰہ تعالیٰ بہرحال اپنی دُنیا کا انتظام چاہتا ہے، اور یہ انتظام اسی گروہ کے سپرد کیا جاتا ہے، جو موجود الوقت گروہوں میں اہل تر ہو۔
لیکن اگر کوئی منظم گروہ ایسا موجود ہو جو اِسلامی اَخلاقیات اور بنیادی انسانی اَخلاقیات دونوں میں باقی ماندہ انسانی دُنیا پر فضیلت رکھتا ہو اور وہ مادّی اسباب ووسائل کے استعمال میں بھی کوتاہی نہ کرے، تو یہ کسی طرح ممکن نہیں ہے کہ اس کے مقابلے میں کوئی دوسرا گروہ دُنیا کی امامت وقیادت پر قابض رہ سکے۔ ایسا ہونا فطرت کے خلاف ہے، اللّٰہ کی اس سنت کے خلاف ہے جو انسانوں کے معاملے میں اس نے مقرر کر رکھی ہے، ان وعدوں کے خلاف ہے جو اللّٰہ نے اپنی کتاب میں مومنین صالحین سے کیے ہیں اور اللّٰہ ہرگز فساد پسند نہیں کرتا کہ اس کی دُنیا میں ایک صالح گروہ انتظامِ عالم کو ٹھیک ٹھیک اُس کی رضا کے مطابق درست رکھنے والا موجود ہو اور پھر بھی وہ مفسدوں ہی کے ہاتھ میں اس انتظام کی باگ ڈور رہنے دے۔
مگر یہ خیال رہے کہ اس نتیجے کا ظہور صرف اسی وقت ہو سکتا ہے جبکہ ایک جماعتِ صالحہ ان اوصاف کی موجود ہو۔ کسی ایک صالح فرد، یا متفرق طور پر بہت سے صالح افراد کے موجود ہونے سے استخلاف فی الارض کا نظام تبدیل نہیں ہو سکتا خواہ وہ افراد اپنی جگہ کیسے ہی زبردست اولیائ اللہ بلکہ پیغمبر ہی کیوں نہ ہوں۔ اللہ نے استخلاف کے متعلق جتنے وعدے بھی کیے ہیں، منتشر و متفرق افراد سے نہیں، بلکہ ایک جماعت سے کیے ہیں جو دُنیا میں اپنے آپ کو عملاً ’’خیر امت‘‘ اور ’’اُمتِ وَسط‘‘ ثابت کر دے۔
نیز یہ بھی ذہن نشین رہے کہ ایسے ایک گروہ کے محض وجود میں آ جانے ہی سے نظامِ امامت میں تغیر واقع نہ ہو جائے گا کہ ادھر وہ بنے اور ادھر اچانک آسمان سے کچھ فرشتے اتریں اور فساق وفجار کی گدّی سے ہٹا کر انھیں مسند نشین کر دیں۔ بلکہ اس جماعت کو کفر وفسق کی طاقتوں سے زندگی کے ہر میدان میں، ہر ہر قدم پر کش مکش اور مجاہدہ کرنا ہو گا اور اقامتِ حق کی راہ میں ہر قسم کی قربانیاں دے کر اپنی محبتِ حق اور اپنی اہلیت کا ثبوت دینا پڑے گا۔ یہ ایسی شرط ہے جس سے انبیائ علیہم السلام تک مستثنیٰ نہ رکھے گئے، کجا کہ آج کوئی اس سے مستثنیٰ ہونے کی توقع کرے۔