Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

عرض ناشر
دعوت اسلامی اور اس کے طریق کار
ہماری دعوت کیا ہے؟
دعوت اسلامی کے تین نکات
بندگی رب کا مفہوم:
منافقت کی حقیقت:
تناقض کی حقیقت:
امامت میں تغیر کی ضرورت:
امامت میں انقلاب کیسے ہوتا ہے؟
مخالفت اور اس کے اسباب
ہمارا طریق کار
علماء اور مشائخ کی آڑ
زہد کا طعنہ:
رفقاء سے خطاب
مولانا امین احسن اصلاحی
اسلام کے اساسی معتقدات اور ان کا مفہوم
ایمان باللہ:
ایمان بالرسات :
ایمان بالکتب:
حق و باطل کے معرکے میں ہمارا فرض
مسلمانوں کی اقسام
تحریک اسلامی کا قیام اور اس کی غرض
کامیابی کا معیار:
نصرت حق کب آتی ہے؟
میاں طفیل محمد
گزری ہوئی زندگی کا محاسبہ:
خدا کے دین کا صحیح تصور:
نماز کا عملی مقصود
نماز کا سب سے پہلا کلمہ:
تکبیر تحریمہ:
تعویذ:
سورۂ فاتحہ:
سورۂ اخلاص:
رکوع‘ قومہ اور سجدہ:
التحیات:
درود شریف پڑھنے کا تقاضا:
دعاء قنوت کی روشنی میں جائزہ لیجئے:
دعاء قنوت:
آخری دعا اور سلام:
اقامت صلوٰۃ حقیقت
اذان کا مقصد اور اس کی حقیقت:
دین پوری زندگی پر حاوی ہے:
آج دنیا میں کروڑوں مسلمان موجود ہیں مگر نظام اسلام کا وجود نہیں!
دین میں دعوت اسلامی کی اہمیت:
دعوت کی راہ کا پہلا قدم:
دعوت کی راہ کا دوسرا قدم:
اس راہ کا تیسرا قدم:
عبادت کا اصل مفہوم اور اس کی روح:
روحانیت کیا ہے؟
دین اسلام صرف مسلمانوں کا دین نہیں یہ پوری نوع انسانی کا دین ہے:
دین اسلام کو صرف مان لینا کافی نہیں ہے‘ اس کی تبلیغ اور اقامت بھی لازم ہے:
غیر مسلموں کے لیے اسلام کا پیغام:
اور اس میں خواتین کا حصہ

دعوت اسلامی اور اس کے مطالبات

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

سورۂ فاتحہ:

ثناء اور تعوذ کے بعد آدمی بسم اللہ الرحمن الرحیم کہہ کر سورۂ فاتحہ پڑھتا ہے‘ جو درج ذیل ہے:
الحمد للہ رب العلمین۔ الرحمن الرحیم۔ ملک یوم الدین۔ ایاک نعبد و ایاک نستعین۔ اھدنا الصراط المستقیم۔ صراط الذین انعمت علیھم غیر المغضوب علیھم ولا الضآلین۔ (آمین)
’’تعریف اللہ ہی کے لیے ہے جو تمام کائنات کا خالق و پروردگار‘ مالک و فرمانروا اور نگہبان ہے۔ رحمن اور رحیم ہے۔ روز جزا کا مالک ہے‘ اے خدا ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے مدد مانگتے ہیں۔ ہمیں سیدھا راستہ دکھا۔ ان لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام فرمایا‘ جو معتوب نہیں ہوئے‘ جو بھٹکے ہوئے نہیں ہیں۔ (اے خدا‘ ہماری اس دعا کو قبول فرما)‘‘
اب اس سورہ کی ایک آیت کے ذریعے دن میں کم از کم بتیس مرتبہ روزانہ کیے جانے والے عہد پر اپنی زندگی اور اپنے طرز عمل کا جائزہ لیجئے اور دیکھئے کہ آپ اس کو کہاں تک وفا کر رہے ہیں۔
الحمد للہ کے ذریعے آپ اعلان کرتے ہیں کہ ہر قسم کی حمد و ثناء اور تعریف و ستائش صرف اللہ کے لیے ہے۔ کیونکہ ساری کائنات اور اس کی ہر شے کا خالق وہی ہے اور جس کے اندر جو حسن و خوبی بھی ہے‘ ان کا عطا کرنے والا اللہ ہی ہے۔ اس لیے اس اعلان و اعتراف کا تقاضا یہ ہے کہ ہر جلوۂ جمال و کمال آپ کا سرنیاز خالق کل کے سامنے پہلے سے زیادہ عقیدت و اطاعت کے ساتھ جھکا دے اور آپ کو اپنے رب کی بندگی و غلامی میں اور زیادہ پختہ کر دے۔ ورنہ اس اعلان و اقرار کا بار بار اعادہ محض زبانی جمع خرچ سے زائد کیا ہے؟
(2)الحمد للہ کے ساتھ دوسرا اقرار ہم یہ کرتے ہیں کہ وہ رب العالمین ہے لیکن کیا اللہ کو رب العالمین ماننے کے اقرار نے ہمارے دلوں اور دماغوں میں ایک زندہ عقیدے کی شکل اختیار کرلی ہے اور یہ عقیدہ واقعی ہمارے ہر قول و عمل اور تمام تعلقات و معاملات میں ہماری زندگی کا رہنما اصول بن گیا ہے کہ اپنے رزق و روزگار کے بارے میں نہ کوئی خوف و خطرہ ہمیں راہ حق سے ہٹا سکتا ہو اور نہ کوئی طمع و لالچ ہمیں اس راہ سے منحرف کرسکتا ہو۔ بلکہ ہماری زندگی قالوا ربنا اللہ ثم استقاموا (حم السجدہ: ۳۰)کا مظہر بن گئی ہو اور اللہ ہی کے رب ہونے کے عقیدے پر ہم مردانہ وار ڈٹ گئے ہوں کہ جب اللہ ہی رب العالمین اور ہم سب کا رب ہے‘ رزق کے سارے خزانے اس کے ہاتھ میں ہیں۔ اسی نے سب کو پیدا کیا‘ وہی پرورش کر رہا ہے‘ وہی نفع اور نقصان کا مالک ہے‘ تو اسے چھوڑ کر کسی دوسرے سے کیوں ڈریں؟ کسی اور کی نیاز مندی اور غلامی کس لیے کریں۔
اغیر اللہ اتخذ و لینا فاطر السموات والارض وھو یطعم ولا یطعم ۔
(الانعام: ۱۴)
’’کیا میں زمین و آسمان کے خالق خدا کو چھوڑ کر کسی اور کو اپنا ولی و سرپرست بنالوں؟ حالانکہ وہی (ایک ایسا الٰہ) ہے جو روزی دیتا ہے‘ روزی لیتا ہے‘‘
قل اغیر اللہ بغی ربا وھو رب کل شئی۔ (الانعام: ۱۶۵)
’’کہو‘ کیا میں اس کے سوا کوئی اور رب تلاش کروں‘ حالانکہ وہی ہر چیز کا رب ہے‘‘
ایشرکون مالا یخلق شیئاً و ھم یخلقون ولا یستطیعون لھم نصراً ولا انفسھم ینصرون۔ (الاعراف: ۱۹۱۔۱۲۹)
’’کیسے نادان ہیں وہ لوگ جو ان کو خدا کا شریک ٹھیراتے ہیں جو کسی چیز کو بھی پیدا نہیں کرتے بلکہ خود پیدا کیے جاتے ہیں اور جو اپنے پرستاروں کی مدد تو کیا کریں گے‘ خود اپنی مدد پر بھی قادر نہیں ہیں‘‘
ظاہر ہے کہ اللہ رب العالمین کے سوا جو بھی اپنی خدائی و فرمانروائی اورتقدس و حاکمیت کے دعوے دار ہیں اور اللہ کے سوا انسانوں نے جن کو بھی اپنا خدا اور مطاع و معبود بنا رکھا ہے‘ وہ سب اپنے بندوں کو رزق دینے کے بجائے الٹا ان سے رزق وصول کرتے ہیں‘ کوئی بادشاہ اور حکمران خواہ وہ فرعون اور نمرود ہی کا سا دبدبہ اور اقتدار کیوں نہ رکھتا ہو‘ اپنی خدائی اور حاکمیت کا ٹھاٹھ جما نہیں سکتا جب تک کہ اس کے بندے اپنے ٹیکسوں اور نذرانوں سے اس کے خزانے نہ بھریں‘ اور وقت پڑنے پر اس کف وج بن کر اسے اس کے دشمنوں سے نہ بچائیں۔ کسی صاحب قبر کی شان معبودیت قائم نہیں ہوسکتی بغیر اس کے کہ اس کے پرستار خود اس کا مقبرہ تعمیر کرکے نذریں اور نیازیں چڑھانا اور منتیں ماننا نہ شروع کریں۔ کسی دیوی‘ دیوتا کا دربار سج نہیں سکتا جب تک اس کے پجاری اس کا مجسمہ بنا کر کسی عالی شان مندر میں نصب نہ کر دیں اور ہر قسم کے قصے اور کہانیاں گھڑ کر جاہل لوگوں میں نہ پھیلا دیں۔ سارے بناوٹی خدا بے چارے خود اپنے بندوں کے محتاج ہیں۔ صرف ایک خداوند عالم ہی وہ حقیقی خدا ہے جس کی خدائی آپ اپنے بل بوتے پر قائم ہے اور جو کسی کی مدد کا محتاج نہیں بلکہ اس کے محتاج ہیں۔
(3) اللہ تعالیٰ کے رب العالمین ہونے کے اقرار کے بعد ہم اس کے الرحمن الرحیم ہونے کا اقرار کرتے ہیں۔ اپنے قول و عمل پر نگاہ ڈال کر بتائیے کہ اللہ رب العالمین کے ارلرحمن الرحیم ہونے کے مضمرات کا ہم نے واقعی ادراک کرلیا ہے کہ ہمارے رب کی رحمت و ربوربیت‘ اس کی شفقت و فیاضی اور مہربانی کس قدر ہمہ گیر‘ کس قدر وسیع‘ کتنی مسلسل اور کبھی نہ ختم ہونے والی ہے؟ اور اس نے کس کمال تسلسل کے ساتھ ہماری اور اس کائنات کی دوسری بے حد و حساب مخلوق کی تمام محسوس و غیر محسوس ضروریات کو پورا کرنے کا انتظام کر دیا ہے اور بے دریغ کیے چلا جارہا ہے‘ قطع نظر اس کے کہ کوئی اس کی اطاعت کرے یا نافرمانی کرے یا اس کے وجود تک کا انکار کرتا ہو؟ کیا ہماری زندگی اور اس کے مشاغل‘ ہمارے اس احساس کی ٹھوس شہادت دیتے ہیں اور ہماری زندگی کماحقہ‘ نہ سہی بحیثیت مجموعی اپنے رب کی اطاعت و بندگی اور اس کی ملازمت میں گزر ری ہے؟ ظاہر بات ہے کہ جب رحمت و ربوبیت ہمہ گیر اور مسلسل ہے تو بندوں کی بندگی کسی جگہ‘ وقت اور معاملے تک محدود اور وقتی ہونے کے کیا معنی؟ اس کی تمام مخلوق کے ساتھ ہمارا طرز عمل اور ہمارے تعلقات ٹھیک وہی اور اس نہج پر ہونے چاہئیں جو اور جیسے الرحم الراحمین نے مقرر کیے ہیں۔ خدا اور خلق ہر ایک کے خلاف ہر نوع کے ظلم و طغیان اور سرکشی اور ہر قسم کے فواحش و منکرات سے ہماری زندگی پاک ہو جانی چاہئے۔ کیوں کہ اس رب رحمن و رحیم کی بے پایاں رحمت کبھی یہ گوارا نہیں کرسکتی کہ اس کی مخلوق میں سے کسی کی کوئی ادنیٰ سے ادنیٰ حق تلفی کرے۔ اور اس کی زمین پر ظلم و تعدی کا ارتکاب کرے۔ اور اگر کوئی ایسا کرے تو اللہ کی رحمت و شفقت کا یہ تقاضا ہے کہ وہ اپنی مخلوق کے درمیان عدل کا بندوبست فرمائے۔اور مظلوموں کی داد رسی کے لیے بے لاگ انصاف کا ایک دن مقرر کرے جہاں ہر شخص اپنی ہر نیکی اور ہر بدی کا پورا پورا اور ٹھیک ٹھیک بدلہ پائے۔ نہ صرف رحمت کا تقاضا ہے بلکہ عقل کا فیصلہ اور اخلاق کا مطالبہ بھی یہی ہے کہ ابراہیم اور نمرود‘ موسیٰ اور فرعون‘ ابوبکر اور ابوجہل اور ظالم و مظلوم کا انجام ایک نہیں ہونا چاہئے۔
(4)چنانچہ اسی تقاضے کے جواب میں (ملک یوم الدین) کے الفاظ کے ذریعے اطمینان دلایا گیا۔ اسی امر کی وضاحت لا یستوی اصحاب النار و اصحب الجنۃ سے کی گئی کہ اہل دوزخ اور اہل جنت کسی طرح برابر نہیں کیے جاسکتے اور اسی امر کی صراحت دوسری جگہ درج ذیل آیات میں فرمائی گئی۔
ام نجعل الذین امنوا و عملوا الصحلت کالمفسدین فی الارض ام نجعل المتقین کالفجار۔ (ص: ۲۸)
’’کیا ہم ایمان لانے والوں اور نیک کام کرنے والوں کو انہی جیسا بنا دیں گے جو زمین میں فساد کرتے ہیں؟ کیا ہم متقیوں اور فاجروں کو یکساں کر دیں گے؟‘‘
ام حسب الذین اجتر حوا السیئات ان نجعلھم کالذین امنوا و عملو الصلحت سواء محیاھم و مماتھم ساء مایحکمون۔ (الجاثیہ:)
’’کیا بدکاریاں کرنے والے یہ گمان کرتے ہیں کہ ہم ان کو ایمان لانے والوں اور نیک کام کرنے والوں کے برابر کر دیں گے اور ان کی زندگی اور موت یکساں ہوگی؟ یہ کیسی بری بات ہے جس کا وہ حکم لگاتے ہیں‘‘
بلکہ: ولکل درجات مما عملوا۔ (الانعام: ۱۳۳)
’’ہر ایک کے لیے ویسے ہی درجات ہوں گے جیسے انہوں نے عمل کیے‘‘
لہٰذا ملک یوم الدین کے اقرار کے بعد ہمارے تمام امور زندگی اور سارے معاملات (انفرادی‘ اجتماعی‘ معاشی‘ معاشرتی اور تمدنی‘ ملی اور سیاسی سب کے سب) اسی اقرار اور عقیدے کے مطابق انجام پانے چاہئیں کہ ایک روز ہمیں ایک ایک پائی‘ ایک ایک حرکت اور ایک ایک لمحہ کا اپنے عالم الغیب و الشھادۃ اور علیم بذات الصدور خدا کو حساب دینا ہے۔ اب ذرا ملک یوم الدین کے منظر کو اپنے ذہن کے سامنے لاکر جائزہ لیجئے کہ کیا خدا کے حقوق‘ والدین‘ بھائی‘ بہنوں‘ بیوی اور اولاد کے حقوق‘ پڑوسن‘ سوسائٹی اور دوسری مخلوق خدا کے حقوق ٹھیک ٹھیک اور اسی طرح ادا کیے جارہے ہیں۔ جس طرح اللہ اور اس کے رسولؐ نے مقرر کیے ہیں۔ کیا آپ کے سارے معاملات ایسے ہیں کہ ملک یوم الدین کے روبرو ’’فوز عظیم‘‘ پانے والے نہ سہی‘ کم سے کم اس کی سزا اور اس کے عتاب ہی سے بچ جائیں۔
یہاں یہ یاد رہے کہ اپنی مخلوق پر خالق کے حقوق باقی سب حقوق سے بڑھ کر ہیں اور اس کا حق یہ ہے کہ ہم اپنی پوری زندگی اس کی اطاعت میں غیر مشروط طور پر دے دیں اور اس کا کلمہ بلند کرنے اور زمین پر اس کے منشاء اور مرضی کو عملاً نافذ کرنے کے لیے انا سب کچھ لگا دیں۔ حق یہ ہے کہ خدا کے سوا کسی اور کا بذاتہ کسی پر کوئی حق نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے خود دوسرے لوگوں کے کچھ حقوق ہمارے ذمے لگا دئیے ہیں جن کو اس نے ہماری پیدائش‘ پرورش اور اجتماعی زندگی کے قیام کا ذریعہ بنایا ہے اور ان حقوق کی ادائیگی دراصل اللہ ہی کی اطاعت میں داخل ہے۔ اسی لیے اگر وہ کسی ایسی چیز کا حکم دیں جو شریعت الٰہی کے خلاف ہو تو اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر ہدایت فرمائی ہے کہ اس حکم کی تعمیل نہ کی جائے۔ اگر اس کی تعمیل کی جائے گی تو اللہ تعالیٰ کے ہاں گرفت ہوگی اور سزا دی جائے گی۔ لہٰذا بندوں کا جو مطالبہ خدا کے حق یا اس کے کسی حکم سے ٹکرائے گا‘ رد کر دیا جائے گا‘ خواہ وہ مطالبہ ماں باپ کا ہو‘ برادری کا ہو‘ یا کسی دوسری بڑی سے بڑی طاقت کا۔
(5 ) ایاک نعبد و ایاک نستعین کے الفاظ میں ہم اللہ تعالیٰ کو یہ یقین دلاتے ہیں کہ ہماری عبادت و غلامی اور اطاعت و فرمانبرداری بس تیرے ہی لیے ہے۔ ہماری تمنائوں‘ امیدوں اور آرزوئوں کا سہارا بس تو یہی ہے اور ان مشکلات و مصائب میں جو تیری اطاعت و غلامی کی راہ میں پیش آتی ہیں ان میں ہم تیری ہی امداد واعانت طلب کرتے ہیں۔ اس عہد و اقرار پر اپنے آپ کو انچ کر فیصلہ کیجئے کہ کیا اس کا عملی ثبوت ہماری روزانہ زندگی‘ اس کے معاملات‘ ہمارے طرز عمل اور ہماری روزانہ کی دوڑ دھوپ سے ملتا ہے؟ یا پھر اطاعت و فرمانبرداری اور غلامی و بندگی تمام تر نہیں تو بیشتر کسی اور کی ہو رہی ہے اور اس بندگی میں غیر اللہ میں امداد و اعانت اللہ سے طلب کی جارہی ہے۔ گویا کہ وہ اپنی قدرت کاملہ سے اپنے خلاف بغاوت و سرکشی اور کفر و طغیان کے اور زیادہ مواقع اور سہولتیں عطا فرمائے۔ نعوذ باللہ من ذالک۔
(6)کیا جب آپ روزانہ بار بار اھدنا الصراط المستقیم کی التجا اللہ تعالیٰ سے کرتے ہیں تو آپ کے دل میں صراط مستقیم پر چلنے کا واقعی کوئی ارادہ و خیال یہ کوئی سنجیدہ تمنا موجود ہوتی ہے؟ کیا آپ کی زندگی اور اس کے مشاغل میں اس کا کوئی ثبوت موجود ہے کہ آپ حقیقتاً اس راہ کے متلاشی ہیں؟ کیا آپ کی قوت و قابلیت‘ فکر و خیال‘ جان و مال اور وقت کا کوئی حصہ اس کی تلاش میں صرف ہو رہا ہے؟ جو تھوڑی بہت اور جس قدر معلومات اس بارے میں آپ کو حاصل ہیں‘ کیا ان کے مطابق کوئی قدم اٹھا رہے ہیں؟ اگر ایسا نہیں ہے بلکہ اپنے تمام ذرائع و وسائل اور ساری قوتوں کو صراط النفس میں لگا رکھا ہے‘ ایک کافرانہ یا غیر مومنانہ نظام کی گاڑی میں پوری خوش دلی اور اطمینان سے سوار ہیں‘ اس گاڑی کا بیل بننا آپ کی نظر میں دنیا جہاں کی سعادتوں کے حصول کا ہم معنی ہے اور اپنے عقل و دماغ کو اسی گاڑی کو چلانے اور اس کی رفتار کو تیز کرنے کے لیے وقف کر رکھا ہے تو کیا اھدنا الصراط المستقیم کے ذریعے اللہ سے اب یہ چاہا جارہا ہے کہ اپنے سب ضابطوں کو توڑ کر‘ آپ کو ارادہ و انتخاب کی قوتوں سے محروم کرکے اور اینٹ پتھر کی طرح مجبور محض بنا کر اپنی راہ پر ڈال دے؟
اس بارے میں یہ اچھی طرح سے جان لینا چاہئے کہ حق و باطل کی پیروی کے بارے میں اللہ کا قانون جبر و اکراہ سے کام لینا نہیں ہے۔ لا اکراہ فی الدین (البقرہ: ۲۵۶) اس نے انسان کو دونوں راستے دکھا دئیے ہیں۔ وھدینہ النجدین(البلد: ۱۰)اور اسے پورا اختیار دیدیا ہے کہ اپنے لیے ہدایت اور فلاح کے راستے کو پسند کرے یا گمراہی اور بغاوت کی راہ اختیار کرے۔ فمن شاء فلیومن ومن شاء فلیکفر (الکہف: ۳۹) اور اگر وہ اس معاملے میں سخت کوشی سے کام لے اور اس کے لیے کوئی چوٹ کھانے کے لیے تیار ہو تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے صراط مستقیم کھول دیتا ہے۔ والذین جاھدوا فینا لنھدینھم سبلنا۔ (العنکبوت: ۶۹)
ظاہر ہے کہ کراچی کا کوئی مسافر لاہور سے پشاور کی طرف جانے والی گاڑی میں سوار ہو کر خواہ لاکھوں سجدے کرے‘ دن رات مراقبے میں گزار دے اور جتنی چاہے کراچی کی دعائیں اور التجائیں کرتا رہے۔ بہرحال پشاور ہی پہنچ کر رہے گا اور اگر راستے میں گرد و پیش اور ملک کے جغرافیہ سے ناواقفیت کی بنا پر وہ کسی غلط فہمی میں مبتلا تھا تو منزل پر پہنچتے ہی اسے معلوم ہو جائے گا کہ وہ تو اپنے مطلوب مقام کے بجائے کہیں اور پہنچ گیا ہے اور یہ غلطی خواہ اس نے کتنی نیک نیتی اور دیانت داری سے کی ہو‘ نتیجے لے لحاظ سے بہرحال کوئی فرق نہیں ہوگا۔ لیکن یہاں تو معاملہ ہی بالکل برعکس ہے کہ غیر اللہ کی گاڑی کو غیر اللہ کی گاڑی جانتے ہوئے اور زبانوں سے اس کا اقرار کرتے ہوئے اس میں سوار ہیں‘ اس کے بیل بنے ہیں اور اس کے کل پرزے بنانے میں مصروف ہیں اور اس کے لیے تیل مہیا کرنے کے لیے خون پسینہ ایک کیے ہوئے ہیں اور ساتھ ساتھ زبان سے اھدنا الصراط المستقیم کا ورد بھی جاری ہے۔ حماقت اور بے عقلی کی اس سے آگے بھی کوئی انتہا ہے؟ اگر فی الواقع صراط مستقیم پر چلنے کی کوئی تمنا ہے تو اس گاڑی سے اترئیے‘ اس کو چلانے کے بجائے اس پر بریک لگانے کی فکر کیجئے۔ اس کے چلانے والوں کو سیدھی راہ کی طرف بلائیے۔ وہ نہ مانیں تو دوسری سواریوں کو اس گاڑی کی غلط سمت سے آگاہ کرکے ان کو اپنے ساتھ بلائیے تاکہ سب کی اجتماعی قوت اور کوشش سے گاڑی کو صحیح سمت میں موڑا اور چلایا جاسکے اور اگر اس کا امکان نظر نہیں آتا تو پھر جو اور جتنے ساتھی بھی آپ کو ملیں ان کو ساتھ لے کر اس گاڑی سے الگ ہو جائیے تاکہ اگر اپنی منزل کی طرف بڑھنے کی صورت اور وسائل میسر نہیں ہیں تو کم سے کم اس منزل سے اور دور تو نہ ہوتے چلے جالیں۔۱؎ اس راہ کو اختیار کرکے اپنے رب سے راہ راست کی ہدایت اور اس پر چلنے کی توفیق مانگی جائے تو انشاء اللہ وہ یہ راہ دکھا بھی دے گا اور اس پر چلنے کی توفیق بھی عطا فرما دے گا۔
(7)صراط الذین انعمت علیھم غیر المغضوب علیھم ولا الضآلین کے ذریعے اس امر کی وضاحت کی جاتی ہے کہ صراط مستقیم سے ہماری مراد کیا ہے اور اس کا تقاضا یہ ہے کہ آدمی ’’مغضوب‘‘ اور ’’ضالین‘‘ کی روش کو فی الواقع چھوڑ کر ان لوگوں کی راہ پر عملاً چلنے اور بڑھنے کی کوشش کرے جن پر اللہ نے انعام فرمایا اور جو نہ معتوب ہوئے اور نہ بھٹکے۔ لیکن اگر حال یہ ہو کہ آدمی عملاً خدا کی نافرمانی کے راستے پر چل رہا ہو اور اس بات کی پرواہ ہی نہ کرے کہ اللہ نے کیا حلال اور کیا حرام کیا ہے‘ بلکہ اس کے دین کو فرسودہ اور ناممکن العمل قرار دے اور اپنے دل و دماغ‘ ہاتھ پائوں اور جان و مال کی قوتیں خدا کے دین کو غالب و نافذ کرنے کی جدوجہد کے لیے وقف کرنے کے بجائے اس کے نافرمانوں کے ہاتھ بیچے اور کرایہ پر چڑھائے ہوئے ہو تو بتائیے کہ ان کلمات کو اپنے رب کے روبرو بار بار دست بستہ دہرا کر اس کے ساتھ تمسخر نہیں تو اور کیا کیا جارہا ہے۔ گویا کہ اللہ تعالیٰ سے یہ کہا جارہا ہے کہ اگر تیرا زور چلتا ہے تو زبردستی ہمیں اپنی بغاوت و نافرمانی کی راہ سے ہٹا کر ان لوگوں کی راہ پر چلا دے جو تجھے پسند اور تیرے انعام کے مستحق ہیں؟

شیئر کریں