سورۂ فاتحہ کے بعد نماز میں قرآن مجید کی کوئی دوسری سورہ یا اس کا کوئی حصہ پڑھا جاتا ہے جن آیات کو بھی آدمی پڑھے‘ ان کو سامنے رکھ کر اسے غور کرنا چاہئے کہ آیا اس کا طرز عمل ان آیات کے مطالب سے مطابقت رکھتا ہے؟ اگر ان کے مطابق نہیں اور ان سے ہٹا ہوا ہے تو اسے اپنے طرز عمل کو ان کے مطابق کرنے کی فکر کرنی چاہئے ورنہ قیامت کے روز اس کی تلاوت کردہ یہی آیات اس کے خلاف حجت بن کر آکھڑی ہوں گی۔
لیکن چونکہ عام مسلمان زیادہ تر سورۂ اخلاص ہی سے کام چلاتے ہیں۔ اس لیے یہاں تفصیلی تذکرہ صرف اسی کا کیا جاتا ہے‘ فرمایا:
قل ھو اللہ احد۔ اللہ الصمد۔ لم یلد ولم یولد۔ ولم یکن لہ کفواً احد۔
(سورۂ اخلاص)
’’اے (محمدؐ) کہو کہ وہ اللہ (جس کی طرف تمہیں بلایا جارہا ہے) ایک ہے اسے کسی کی حاجت نہیں‘ دوسرے سب اس کے محتاج ہیں۔ وہ نہ کسی کا باپ ہے اور نہ بیٹا۔ اور نہ ہی کوئی اس کا ہمسر ہے‘‘
اب اس تصور باری تعالیٰ کو سامنے رکھیے اور سنجیدگی کے ساتھ اپنی زندگی اور اس کے معاملات کا جائزہ لیجئے کہ یہ سب کہاں تک اللہ تعالیٰ کے بارے میں ان آیات میں مذکور عقیدے سے مطابقت رکھتے ہیں۔ ان آیات میں غیر مبہم الفاظ میں بتا دیا گیا ہے کہ ایک اللہ کے سوا نہ کوئی دوسرا خدا ہے کہ اس سے بھاگ کر اس دوسرے خدا کی مملکت میں جا پناہ لو۔ نہ اسے تم سے یا کسی دوسرے سے کوئی حاجت ہے کہ وہ دبنے یا اس کا لحاظ کرنے پر مجبور ہو۔ نہ اس کا کوئی بیٹا یا باپ ہے جو مچل کر یا اپنی پدرانہ بزرگی اور زور سے اپن بات منوالے۔ اور نہ ہی اس کا کوئی ہمسر ہی ہے جس کی مروت میں آکر وہ کسی کی ناجائز رعایت پر مجبور ہو جائے۔ لہٰذا خوب جان لو کہ اس کے ہاں بالکل بے لاگ انصاف ہوگا۔
فمن یعمل مثقال ذرہ خیراً یرہ۔ ومن یعمل مثقال ذرہ شراً یرہ۔(الزلزال: ۷۔۸)
’’جو ذرہ برابر بھی نیکی کرے گا وہ اسے پالے گا اور جو ذرہ برابر برائی کرے گا‘ اسے پالے گا‘‘