سوال
’’خطبات‘‘ میں آیت وَقَالَ اللہُ اِنِّىْ مَعَكُمْ۰ۭ لَىِٕنْ اَقَمْــتُمُ الصَّلٰوۃَ ({ FR 2265 }) (المائدہ:۱۲) کی آپ نے جو تفسیرکی ہے وہ عام مفسرین سے مختلف ہے۔آپ نے اِنِّیْ مَعَکُمْکو لَئِنْ اَقَمْتُمْ کا جواب بتایا ہے۔حالاں کہ عام مفسرین نے اِنّیْ مَعَکُمْ کو جملۂ مستانفہ قرا ردیا ہے اور لَئِنْ اَقَمْتُمْ کا جواب لَاُکَفِرَّنَّ عَنْکُمْ بتایا ہے۔آ پ نے تو نہ صرف لَاُکَفِّرَنَّکا جواب نہیں لکھا ہے،بلکہ خطبات میں آیت کے اس آخری حصے کو بالکل چھوڑ ہی دیا ہے۔ معترضین کا دعویٰ ہے کہ نحوی قاعدے کے مطابق بھی اِنِّی مَعَکُمْ کا ٹکڑا لَئِنْ اَقَمْتُمْ کا جواب نہیں ہو سکتا، کیوں کہ اِنّیِ مَعَکُمْ اور لَئِنْ اَقَمْتُمْ کے درمیان وقف جائز ہے،حالاں کہ شرط وجواب کے درمیان تووقف جائزنہیں ہوسکتا۔ہم اس اعتراض کا کوئی جواب دیتے ہیں تو حضرات علما فوراًیہ کہہ کر ہمارا منہ بند کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ تم مودودی صاحب کے اندھے مقلد ہو اور عربی کے نحوی قواعد کا انکار کرکے بھی ان کی ’’تفسیر بالرأے‘‘ کی حمایت میں دلیلیں لاتے ہو۔براہ کرم واضح فرمایئے کہ آپ کی تفسیر صحیح ہے تو کن دلائل کی بنا پر؟اور کیا متقدمین میں سے بھی کسی نے یہ تفسیر کی ہے؟نہیں تو وہ کیا اسباب تھے کہ آپ نے اس نئی تفسیر کی ضرورت محسوس کی؟فصیح عربی زبان میں اس کی کوئی نظیر ہو تو اس سے ضرور مطلع کیجیے۔
جواب
آیت وَقَالَ اللّٰہُ اِنِّیْ مَعَکُمْ کی تفسیر میں ’’معیت‘‘ کو میں نے’’نصرت‘‘ کے معنی میں لیا ہے اور اس بنا پر یہ سمجھا ہے کہ اس نصرت کے لیے اقامت صلاۃ وایتاے زکاۃ وغیرہ بطورِ شرط کے ارشاد ہوئے ہیں ۔لیکن اگر اِنّی مَعَکُمْ کے معنی یہ لیے جائیں کہ اِنِّی مَعَکُمْ بِالْعِلْمِ وَالْقُدْرَۃِ، فَاَسْمَعُ کَلَامَکُمْ وَاَرٰی اَفْعَالَکُمْ وَاَعْلَمُ ضَمَائِرَکُمْ وَاَقْدِرُ عَلٰی اِیْصَالِ الْجَزَائِ اِلَیْکُمْ۔’’یعنی میں اپنے علم وقدرت کے اعتبار سے تمھارے ساتھ ہوں اور تمھاری گفتگوئیں سنتا ہوں ، تمھارے اعمال کو دیکھتا ہوں ،تمھاری نیتوں کو جانتا ہوں اور تم کو جزا وسزا دینے پر پوری طرح قادر ہوں ۔‘‘ تو اس صورت میں بلاشبہہ یہ فقرہ بجاے خود ایک مکمل فقرہ ہو گا اور اس کے بعد لَئِنْ اَقَمْتُمْ کو اس سے جدا ایک الگ فقرہ قرار دینا درست ہوگا۔ اس معاملے میں چوں کہ دو تفسیروں کی گنجائش ہے اس لیے إنِّی مَعَکُمْ کے بعد وقف جائز ہے، مگر لازم نہیں ہے اور وصل ممنوع نہیں ہے۔
جو لوگ میری اس تفسیر کو’’تفسیر بالراے‘‘کہتے ہیں ، ان کو تفسیر بالرأے کے معنی معلوم نہیں ۔ تفسیر بالرأے کے معنی پچھلے مفسرین سے اختلاف کرنے کے نہیں ہیں ،بلکہ ایسی تفسیر کرنے کے ہیں جو قرآن یاحدیث صحیح کے خلاف پڑتی ہو،جو قواعد لغت کے خلا ف ہو۔
میں نہیں سمجھ سکا کہ آپ نظیر کس چیز کی مانگتے ہیں ۔اگر شرط وجواب شرط کے درمیان تقدیم وتاخیر کی نظیر درکار ہے تو اس کی نظیریں بے شمار ہیں ۔خود قرآن میں ہے:
قَدِ افْتَرَيْنَا عَلَي اللہِ كَذِبًا اِنْ عُدْنَا فِيْ مِلَّتِكُمْ ( الاعراف:۸۹)
’’ہم اللّٰہ پرجھوٹ گھڑنے والے ہوں گے اگر تمھاری ملت میں پلٹ آئیں ۔‘‘
اور اگر شرط اور جواب شرط کے درمیان وقف کی نظیرمانگتے ہیں تو میں اس کا قائل کب ہوں کہ اس کی نظیر پیش کروں ۔ میں تو خود کہتا ہوں کہ إنِّی مَعَکُمْ کے بعد وقف اس صورت میں جائز ہے جب کہ اس کو جملۂ مستأ نَفہ مانا جائے۔ لیکن اگر اسے جواب شرط مانا جائے تو وقف جائز نہیں ۔ (ترجمان القرآن، مارچ تا مئی ۱۹۵۱ء)