Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

عرضِ ناشر
دیباچہ ترتیب جدید
تمہید
اسلام، سرمایہ داری اور اشتراکیت کا اُصولی فرق
اسلامی نظامِ معیشت اور اس کے ارکان
حرمت سود
ایجابی پہلو
جدید بینکنگ
سُود کے متعلق اسلامی احکام
سود کے متعلقات
معاشی قوانین کی تدوین جدید اور اُس کے اُصول
اصلاح کی عملی صورت
ضمیمہ نمبر (۱): کیا تجارتی قرضوں پر سود جائز ہے؟
ضمیمہ نمبر ۲ : ادارۂ ثقافت اسلامیہ کا سوال نامہ
ضمیمہ نمبر ۳ :مسئلۂ سود اور دارالحرب
تنقید: (از: ابوالاعلیٰ مودودی)
قولِ فیصل
مصادر ومراجع (Bibliography)

سود

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

سود کے متعلقات

ہم پہلے بیان کر چکے ہیں کہ ربوٰ دراصل اس زائد رقم یا فائدے کو کہتے ہیں جو قرض کے معاملے میں ایک دائن رأس المال کے علاوہ شرط کے طور پر اپنے مدیون سے وصول کرتا ہے۔ اصطلاح شرح میں اس کو ’’ربا النسیۂ‘‘ کہا جاتا ہے۔ یعنی وہ ربوٰ جو قرض کے معاملے میں لیا اور دیا جائے۔ قرآن مجید میں اسی کو حرام کیا گیا ہے۔ اس کی حرمت پر تمام امت کا اتفاق ہے۔ اس میں کبھی کسی شک و شبہے نے راہ نہیں پائی۔
لیکن شریعتِ اسلامی کے قواعد میں سے ایک قاعدہ یہ بھی ہے کہ جس چیز کو حرام کیا جاتا ہے اس کی طرف جانے کے جتنے رستے ممکن ہیں ان سب کو بند کر دیا جاتا ہے، بلکہ اس کی طرف پیش قدمی کی ابتدا جس مقام سے ہوتی ہے وہیں روک لگا دی جاتی ہے تاکہ انسان اس کے قریب بھی نہ جانے پائے۔ نبیa نے اس قاعدے کو ایک لطیف مثال میں بیان فرمایا ہے۔ عرب کی اصطلاح میں حِمیٰ اس چراگاہ کو کہتے ہیں جو کسی شخص نے اپنے جانوروں کے لیے مخصوص کر لی ہو اور جس میں دوسروں کے لیے اپنے جانور چرانا ممنوع ہو۔ حضورؐ فرماتے ہیں کہ ’’ہر بادشاہ کی ایک حِمیٰ ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی حمیٰ اس کے وہ حدود ہیں جن سے باہر قدم نکالنے کو اس نے حرام قرار دیا ہے جو جانور حمیٰ کے اردگرد چرتا پھرتا ہے، بعید نہیں کہ کسی وقت چرتے چرتے وہ حِمیٰ کے حدود میں بھی داخل ہو جائے۔ اسی طرح جو شخص اللہ تعالیٰ کی حمیٰ یعنی اس کے حدود کے اطراف میں چکر لگاتا رہتا ہے اس کے لیے ہر وقت یہ خطرہ ہے کہ کب اس کا پاؤں پھسل جائے اور وہ حرام میں مبتلا ہو جائے۔ لہٰذا جو امور حلال و حرام کے درمیان واسطہ ہیں ان سے بھی پرہیز لازم آتا ہے تاکہ تمھارا دین محفوظ رہے۔{ FR 2368 }
یہی مصلحت ہے جس کو مدنظر رکھ کر شارع حکیم نے ہر ممنوع چیز کے اطراف میں حرمت اور کراہیت کی ایک مضبوط باڑھ لگا دی ہے اور ارتکابِ ممنوعات کے ذرائع پر بھی ان کے قرب و بعد کے لحاظ سے سخت یا نرم پابندیاں عائد کر دی ہیں۔
سود کے مسئلے میں ابتدائی حکم صرف یہ تھا کہ قرض کے معاملات میں جو سودی لین دین ہوتا ہے، وہ قطعاً حرام ہے۔ چنانچہ اُسامہؓ بن زید سے جو حدیث مروی ہے اس میں حضورa کا یہ ارشاد نقل کیا گیا ہے کہ إِنَّمَا الرِّبَانَیِ النَّسِیئَۃِ اِوفِی بَعْض الْالفَاظِ لَارِبَا إِلاَّ فِی النَّسِیئۃِ۔ { FR 2369 } یعنی سود صرف قرض کے معاملات میں ہے۔{ FR 2241 } لیکن بعد میں آنحضرت علیہ الصلوٰۃ و السلام نے اللہ تعالیٰ کی اس حِمٰی کے اردگرد بندشیں لگانا ضروری سمجھا، تاکہ لوگ اس کے قریب بھی نہ پھٹک سکیں۔ اسی قبیل سے وہ فرمان نبوی ہے جس میں سود کھانے اور کھلانے کے ساتھ سود کی دستاویز لکھنے اور اس پر گواہی دینے کو بھی حرام کیا گیا ہے{ FR 2370 }اور اسی قبیل سے وہ احادیث ہیں جن میں ربوٰ الفضل کی تحریم کا حکم دیا گیا ہے۔
رِبا الفضل کا مفہوم
رِبا الفضل اس زیادتی کو کہتے ہیں جو ایک ہی جنس کی دو چیزوں کی دست بدست لین دین میں ہو۔ رسول اللہ a نے اس کو حرام قرار دیا کیونکہ اس سے زیادہ ستانی (زیادتی)کا دروازہ کھلتا ہے اور انسان میں وہ ذہنیت پرورش پاتی ہے جس کا آخری ثمرہ سود خواری ہے۔ چنانچہ حضورa نے خود ہی اس مصلحت کو اس حدیث میں بیان فرما دیا ہے جس کو ] عبداللہ بن عمرؓ[ نے بدیں الفاظ نقل کیا ہے کہ لاَ تَبِیْعُوا] … [ الدِّرْہَمَ بِالدِرْہَمَیْنِ فَاِنِّیْ اَخَافُ عَلَیْکُمُ الرِّمَا رَوالرِّمَا ہُوَالرِّبَا { FR 2371 }یعنی ایک درہم کو دو درہموں کے عوض نہ فروخت کرو کیونکہ مجھے خوف ہے کہ کہیں تم سود خواری میں نہ مبتلا ہو جاؤ۔‘‘
رِبا الفضل کے احکام
سود کی اس قسم کے متعلق نبی a سے جو احکام منقول ہیں۔ ان کو یہاں لفظ بلفظ نقل کیا جاتا ہے۔
عَنْ عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: اَلذَّھَبُ بِالذَّھَبِ وَالْفِضَّۃُ بِالْفِضَّۃِ وَالْبُرُّ بِالْبِرِّ وَالشَّعِیْرُ بِالشَّعِیْرِ وَالتَّمْرُ بِالتَّمرِوَالْمِلْحُ بِالْمِلْحِ مِثْلاً بِمِثْلٍ سَوَائً بِسَوائٍ یَدًا بِیَدٍ، فَاِذَا اخْتَلَفْتْ ہٰذِہِ الْاَصْنَافُ فَبِیْعُوْا کَیْفَ شِئْتُمْ اِذَا کَانَ یَدًا بِیَدٍ۔{ FR 2372 }
عبادہ بن صامتؓ سے روایت ہے کہ نبی a نے فرمایا سونے کا مبادلہ سونے سے اور چاندی کا چاندی سے اور گیہوں کا گیہوں سے اور جو کا جو سے اور کھجور کا کھجور سے اور نمک کا نمک سے اس طرح ہونا چاہیے کہ جیسے کا تیسا اور برابر اور دست بدست ہو۔ البتہ اگر مختلف اصناف کی چیزوں کا ایک دوسرے سے مبادلہ ہو تو پھر جس طرح چاہو بیچو بشرطیکہ لین دین دست بدست ہو جائے۔
(احمد و مسلم و للنسائی و ابن ماجہ و ابی داؤد نحوہٗ و فی اخرہٖ) وَأَمَرَنَا أَنْ نَبِیْعَ الْبُرَّ بِالشَّعِیْرِ وَ ا الشَّعِیْرَ بِالْبُرِّ یَدًا بِیَدٍ کَیْفَ شِئْنَا۔{ FR 2373 }
(مسند احمد و صحیح مسلم ، یہی حدیث نسائی اور ابن ماجہ اور ابوداؤد میں بھی آئی ہے اور اس کے آخر میں اتنا اضافہ اور ہے) اور آپؐ نے ہمیں حکم دیا کہ ہم گیہوں کا مبادلہ جو سے اور جو کا گیہوں سے دست بدست جس طرح چاہیں کریں۔
عَنْ اَبِیْ سَعِیْدِ الْخُدْرِیِّ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: اَلذَّھَبُ بِالذَّھَبِ وَالْفِضَّۃُ بِالْفِضَّۃِ وَالْبُرُّ بِالْبُرِّ وَالشَّعِیْرُ بِالشَّعِیْرِ وَالتَّمْرُ بِالتَّمْرِ وَالْمِلْحِ بِالْمِلْحِ مَثَلاً بِمِثْلٍ یَدًا بِیَدٍ فَمَنْ زَادَ اَوْاسْتَزَاَدَ فَقَدْ اَرْبٰی، اَلاٰخِذُ وَالْمُعْطِیْ فِیْہِ سَوَآئٌ{ FR 2374 } (البخارِی واحمد و مسلم و فی لفظٍ) لَا تَبِیْعُوا الذَّھَبَ بِالذَّھَبِ وَلاَ الْوَرِقُ بِالْوَرَقِ اِلاَّ وَزْنًا بِوَزْنٍ مِثْلاً بِمِثْلٍ سَوَائً بِسَوَآئٍ۔ { FR 2375 }
ابو سعید خدریؓ کہتے ہیں کہ نبی a نے فرمایا سونے کا مبادلہ سونے سے، چاندی کا چاندی سے، گیہوں کا گیہوں سے، جو کا جو سے، کھجور کا کھجور سے، نمک کا نمک سے جیسے کا تیسا، اور دست بدست ہونا چاہیے جس نے زیادہ دیا یا لیا اس نے سودی معاملے کیا، لینے والا اور دینے والا دونوں گناہ میں برابر ہیں۔ (بخاری، احمد، مسلم اور ایک دوسری روایت میں ہے) سونے کو سونے کے عوض اور چاندی کو چاندی کے عوض فروخت نہ کرو مگر وزن میں مساوی، جوں کا توں اور برابر سرابر ۔
وَعَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لاَ تَبِیْعُوا الذَّھَبَ بِالذَّھَبِ اِلَّا مِثْلًا بِمِثْلٍ وَلاَ تُشِفُّوْا بَعْضَہَا عَلٰی بَعْضٍ وَلاَ تَبِیْعُوا الْوَرِقَ بِالْوَرِقِ اِلاَّ مَثَلًا بِمِثْلٍ وَلاَ تشفوا بعضہا علی بعضٍ وَلاَ تَبِیْعوا منہا غائبًا بِناجِزٍ۔{ FR 2376 }
ابو سعید خدریؓ کہتے ہیں کہ نبیa نے فرمایا سونے کو سونے کے عوض نہ بیچو مگر جوں کا توں۔ کوئی کسی کو زیادہ نہ دے اور نہ غائب کا تبادلہ حاضر سے کرو۔
عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ التَّمْرُ بِالتَّمْرِ وَالْحِنْطَۃُ بِالْحْنِطَۃِ وَالشَّعِیْرُ بِالشَّعِیْرِ وَالْمِلْحُ بِالْمِلْحِ مَثْلًا بِمِثْلٍ یَدًا بِیَدٍ فَمَنْ زَادَ اَوِاسَتَزَادَ فَقَدْ اَرْبٰی اِلَّا مَا اخْتَلَفَتْ اَلْوَانُہٗ ۔{ FR 2378 }
ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی a نے فرمایا کھجور کا مبادلہ کھجور سے، گیہوں کا گیہوں سے جو کا جو سے اور نمک کا نمک سے جوں کا توں اور دست بدست ہونا چاہیے جس نے زیادہ دیا یا زیادہ لیا اس نے سودی معاملے کیا۔ سوائے اس صورت کے جب کہ ان اشیا کے رنگ مختلف ہوں۔
عَنْ سَعْدِ بْنِ اَبِیْ وَقَّاصٍ قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُسْئِلُ عَنْ شِرَآئِ التَّمْرِ بِالرَّطْبِ فَقَالَ ] رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ[ اَیَنْقُصُ الرَّطْبُ اِذَا یَبِسَ فَقَالُو اَ نَعَمْ فَنَہَاہُ عَنْ ذٰلِکَ۔ { FR 2377 }
سعد بن ابی وقاصؓ کہتے ہیں کہ نبی a سے پوچھا گیا اور میں سن رہا تھا کہ خشک کھجور کا تر کھجور کے ساتھ مبادلہ کس طریقے پر کیا جائے۔ آپؐ نے دریافت فرمایا کیا تر کھجور سوکھنے کے بعد کم ہو جاتی ہے۔ لوگوں نے عرض کیا ہاں۔ تب آپؐ نے سرے سے اس مبادلے ہی کو منع فرما دیا۔
عَنْ اَبِیْ سَعِیْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ کُنَّا نُرْزَقُ تَمْرَ الْجَمْعِ وَہُوَ الْخِلْطُ مِنَ التَّمْرِ وَکُنَّا نَبِیْعُ صَاعَیْنِ بِصَاعٍ فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَا صَاعَیْنِ بِصَاعٍ وَّلَا دِرْہَمَیْنِ بِدِرْہَمٍ۔ { FR 2379 }
ابو سعید خدریؓ کہتے ہیں کہ ہم لوگوں کو بالعموم اجرتوں اور تنخواہوں میں مخلوط قسم کی کھجوریں ملا کرتی تھیں اور ہم دو دو صاع مخلوط کھجوریں دے کر ایک صاع اچھی قسم کی کھجوریں لے لیا کرتے تھے پھر نبی a نے فرمایا کہ نہ دو صاع کا مبادلہ ایک صاع سے کرو اور نہ دو درہم کا ایک درہم سے۔
عَنْ اَبِیْ سَعِیْدٍ الْخُدْرِیِّ وَاَبِیْ ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِسْتَعْمَلَ رَجُلًا عَلٰی خَیْبَرَ فَجَآئَ ہُ بِتَمْرٍ جَنِیبٍ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَکُلَ تَمْرِ خَیْبَرَ ھٰکَذَا قَالَ لاَ وَاللّٰہِ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اِنَّا لَنَاْخُذُ الصَّاعَ مِنْ ہٰذَا بِالصَّاعَیْنِ وَالصَّاعَیْنِ بِالثَّلاَثَۃِ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لاَ تَفْعَلْ بِعِ الْجَمْعَ بِالدَّرَاہِمِ ثُمَّ ابْتَعْ بِالدَّرَاہِمِ جَنِیبًا وَقَالَ فِی الْمِیْزَانِ مِثْلَ ذٰلِکَ۔ { FR 2380 }
ابو سعید خدریؓ اور ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ a نے ایک شخص کو خیبر کا تحصیل دار مقرر کرکے بھیجا وہ وہاں سے (مال گزاری میں) عمدہ قسم کی کھجوریں لے کر آیا۔ آنحضرتa نے پوچھا: کیا خیبر کی ساری کھجوریں ایسی ہی ہوتی ہیں؟ اس نے کہا، نہیں یا رسول اللہ، ہم جو ملی جلی کھجوریں وصول کرتے ہیں انھیں کبھی دو صاع کے بدلے ایک صاع کے حساب سے اور کبھی تین صاع کے بدلے دو صاع کے حساب سے ان اچھی کھجوروں سے بدل لیا کرتے ہیں۔ یہ سن کر آپؐ نے فرمایا ایسا نہ کرو۔ پہلے ان مخلوط کھجوروں کو درہموں کے عوض فروخت کر دو، پھر اچھی قسم کی کھجوریں درہموں کے عوض خرید لو۔ یہی بات آپ نے وزن کے حساب سے مبادلہ کرنے کی صورت میں بھی ارشاد فرمائی۔
عَنْ اَبِیْ سَعِیْدٍ الْخُدْرِیَّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ جَآئَ بِلاَلٌ اِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِتمْرٍ بَرْنِیٍّ فَقَالَ لَہُ النَّبِی صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ اَیْنَ ہٰذَا قَالَ بِلَدلٌ کَانَ عِنْدَنَا تَمْرٌ رَدِیٌّ فَبِعْتُ مِنْہُ صَاعَیْنِ بِصَاعٍ لِنُظْعِمَ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ اَوَّہْ اَوَّہْ عَیْنُ الرِّبَا عَیْنُ الرِّبَا لاَ تَفْعَلْ وَلٰـکِنْ اِذَا اَرَدْتَّ اَنْ تَشْتَرِیَ فَبِعِ التَّمْرَ بِبَیْعٍ اٰخَرَ ثُمَّ اشْتَرِ ہِ { FR 2381 }
ابو سعید خدریؓ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ بلالؓ نبی a کی خدمت میں برنی کھجوریں لے کر آئے۔ (جو کھجور کی ایک بہترین قسم ہوتی ہے) آپؐ نے پوچھا: یہ کہاں سے لے آئے؟ انھوں نے عرض کیا ہمارے پاس گھٹیا قسم کی کھجور تھی۔ میں نے وہ دو صاع دے کر یہ ایک صاع خرید لی۔ فرمایا: ہائیں! قطعی سود! قطعی سود! ایسا ہرگز نہ کیا کرو۔ جب تمھیں اچھی کھجوریں خریدنی ہوں تو اپنی کھجوریں درہم یا کسی اور چیز کے عوض بیچ دو۔ پھر اس قیمت سے اچھی کھجوریں خرید لو۔
عَنْ فُضَالَۃ بْنِ عُبَیْدٍ قَالَ اِشْتَرَیْتُ قَلَادَۃً یَوْمَ خَیْبَرَ بِاِثْنَی عَشَرَ دِیْنَارًا فِیْہَا ذَہَبٌ وَ خَرَزٌ فَفَصَّلْتُہَا فَوَجَدْتُ فِیْہَا أکْثَرَ مِنْ اثْنَی عَشَرَ دِیْنَارًا فَذَکَرْتُ ذٰالِکَ لِلنَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لَا تُبَاعُ حَتّٰی تُفَصَّلَ۔{ FR 2382 }
فضالہؓ بن عبید کہتے ہیں کہ میں نے جنگ خیبر کے موقع پر ایک جڑاؤ ہار ۱۲ دینار میں خریدا۔ پھر جو میں نے اس ہار کو توڑ کر نگ اور سونا الگ الگ کیا تو اس کے اندر ۱۲ دینار سے زیادہ کا سونا نکلا۔{ FR 2242 } میں نے اس کا ذکر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا۔ آپؐ نے فرمایا: آئندہ سے سونے کا جڑاؤ زیور سونے کے عوض نہ بیچا جائے جب تک کہ نگ اور سونے کو الگ الگ نہ کر دیا جائے۔
عَنْ اَبِیْ بَکْرَۃَ قَالَ نَھٰی رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنِ الْفِضَّۃِ بِالْفِضَّۃِ وَالذَّہَبِ بِالذَّہَبِ اِلَّا سَوَآئً بِسَوَآئٍ وَّاَمَرَنَا اَنْ نَشْتَرِیَ الْفِضَّۃَ بِالذَّہَبِ کَیْفَ شِئْنَا وَنَشْتَرِیَ الذَّہَبَ بِالْفِضَّۃِ کَیْفَ شِئْنَا۔ { FR 2383 }
ابوبکرہؓ کہتے ہیں کہ نبی a نے حکم دیا کہ چاندی کا چاندی سے اور سونے کا سونے سے مبادلہ نہ کیا جائے مگر برابری کے ساتھ نیز آپؐ نے فرمایا کہ چاندی کو سونے سے اور سونے کو چاندی سے جس طرح چاہو بدل سکتے ہو۔
اَحکامِ بالا کا ماحصل
مذکورہ بالا احادیث کے الفاظ اور معانی پر اور ان حالات پر جن میں یہ احادیث ارشاد ہوئی ہیں‘ غور کرنے سے حسب ذیل اُصول اور احکام حاصل ہوتے ہیں:
(۱) یہ ظاہر ہے کہ ایک ہی جنس کی دو چیزوں کو بدلنے کی ضرورت صرف اسی صورت میں پیش آتی ہے جب کہ اتحادِ جنس کے باوجود ان کی نوعیتیں مختلف ہوں۔ مثلاً چاول اور گیہوں کی ایک قسم اور دوسری قسم ، عمدہ سونا اور گھٹیا سونا، یا معدنی نمک اور سمندری نمک وغیرہ۔ ان مختلف اقسام کی ہم جنس چیزوں کو ایک دوسرے کے ساتھ بدلنا، اگرچہ بازار کے نرخ کو ملحوظ رکھ کر ہو، بہرحال ان میں کمی بیشی کے ساتھ مبادلہ کرنے سے اس ذہنیت کے پرورش پانے کا اندیشہ ہے جو بالآخر سود خواری اور ناجائز نفع اندوزی تک جا پہنچتی ہے۔ اس لیے شریعت نے قاعدہ مقرر کر دیا کہ ہم جنس اشیا کے مبادلے کی اگر ضرورت پیش آئے تو لازماً حسب ذیل دو شکلوں میں سے ہی کوئی ایک شکل اختیار کرنی ہوگی۔ ایک یہ کہ ان کے درمیان قدرو قیمت کا جو تھوڑا سا فرق ہو اسے نظر انداز کرکے برابر سرابر مبادلہ کر لیا جائے۔ دوسرے یہ کہ چیز کا چیز سے براہ راست مبادلہ کرنے کے بجائے ایک شخص اپنی چیز روپے کے عوض بازار کے بھاؤ بیچ دے اور دوسرے شخص سے اس کی چیز روپے کے عوض بازار کے بھاؤ خرید لے۔
(۲) جیسا کہ ہم ابھی بیان کر چکے ہیں، قدیم زمانے میں تمام سکے خالص چاندی سونے کے ہوتے تھے اور ان کی قیمت دراصل ان کی چاندی اور ان کے سونے کی قیمت ہوتی تھی۔ اس زمانے میں درہم کو درہم سے اور دینار کو دینار سے بدلنے کی ضرورت ایسے مواقع پر پیش آتی تھی جب کہ مثلاً کسی شخص کو عراقی درہم کے عوض رومی درہم درکار ہوتے یا رومی دینار کی حاجت ہوتی۔ ایسی ضرورتوں کے مواقع پر یہودی ساہوکار اور دوسرے ناجائز کمانے والے لوگ کچھ اسی طرح کا ناجائز منافع وصول کرتے تھے جیسا موجودہ زمانے میں بیرونی سکوں کے مبادلے پر بٹاون لی جاتی ہے، یا اندرونِ ملک میں روپیہ کی ریز گاری مانگنے والوں، یا دس اور پانچ روپے کے نوٹ بھنانے والوں سے کچھ پیسے یا آنے وصول کر لیے جاتے ہیں۔ یہ چیز بھی چونکہ سود خورا نہ ذہنیت ہی کی طرف لے جانے والی ہے اس لیے نبی a نے حکم دے دیا کہ نہ تو چاندی کا مبادلہ چاندی سے اور سونے کا مبادلہ سونے سے کمی بیشی کے ساتھ کرنا جائز ہے اور نہ ایک درہم کو دو درہم کے عوض بیچنا درست ہے۔
(۳) ہم جنس اشیا کے درمیان مبادلے کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ ایک شخص کے پاس ایک چیز خام شکل میں ہو اور دوسرے کے پاس اسی جنس سے بنی ہوئی کوئی شے ہو اور دونوں آپس میں ان کا مبادلہ کرنا چاہیں۔ اس صورت میں دیکھا جائے گا کہ آیا صنعت نے اس شے کی ماہیت بالکل ہی تبدیل کر دی ہے۔ یا اس کے اندر صنعت کے تصرف کے باوجود ابتدائی خام صورت کی بہ نسبت کوئی بڑا فرق واقع نہیں ہوا ہے۔ پہلی صورت میں تو کمی بیشی کے ساتھ مبادلہ ہو سکتا ہے لیکن دوسری صورت میں شریعت کا منشا یہ ہے کہ یا تو سرے سے مبادلہ ہی نہ ہو یا اگر ہو تو برابری کے ساتھ ہوتا کہ زیادہ ستانی (زیادتی) کے مرض کو غذا نہ مل سکے۔ مثال کے طور پر ایک تو وہ عظیم الشان تغیرات ہیں جو روئی سے کپڑا اور لوہے سے انجن بننے کی صورت میں رونما ہوتے ہیں اور دوسرے وہ خفیف تغیرات ہیں جو سونے سے ایک چوڑی یا ایک کنگن بنائے جانے کی صورت میں ہوتے ہیں۔ ان میں سے پہلی صورت میں تو کوئی مضائقہ نہیں اگر ہم زیادہ مقدار میں روئی دے کر کم مقدار میں کپڑا اور بہت سے وزن کا خام لوہا دے کر تھوڑے سے وزن کا ایک انجن خرید لیں‘ لیکن دوسری صورت میں یا تو سونے کے کنگن کا مبادلہ ہم وزن سونے ہی سے کرنا ہوگا۔{ FR 2243 } پھر سونے کو بازار میں بیچ کر اس کی قیمت کے کنگن خریدنے پڑیں گے۔
(۴) مختلف اجناس کی چیزوں کا باہم مبادلہ کمی بیشی کے ساتھ ہو سکتا ہے مگر شرط یہ ہے کہ معاملہ دست بدست ہو جائے۔ اس شرط کی وجہ یہ ہے کہ دست بدست جو لین دین ہوگا وہ تو لامحالہ بازار کے نرخوں ہی پر ہوگا۔ مثلاً جو شخص چاندی دے کر سونا لے گا وہ نقد سودے کی صورت میں سونے کے بالمقابل اتنی ہی چاندی دے گا جتنی اسے بازار کے بھاؤ کے لحاظ سے دینی چاہیے لیکن قرض کی صورت میں کمی بیشی کا معاملہ اس اندیشے سے خالی نہیں ہو سکتا کہ اس کے اندر سود کا غبار شامل ہو جائے۔ مثال کے طور پر جو شخص آج ۸۰ تولے چاندی دے کر یہ طے کرتا ہے کہ ایک مہینے بعد وہ ۸۰ تولہ چاندی کے بجائے ۲ تولے سونا لے گا، اس کے پاس درحقیقت یہ معلوم کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے کہ ایک مہینہ بعد ۴۰ تولہ چاندی ایک تولہ سونے کے برابر ہوگی۔ لہٰذا اس نے چاندی اور سونے کے درمیان مبادلے کی اس نسبت کا جو پیشگی تعین کر لیا یہ بہرحال ایک طرح کی سود خورانہ اور قمار بازانہ ذہنیت کا نتیجہ ہے اور قرض لینے والے نے جو اسے قبول کیا تو اس نے بھی گویا جوا کھیلا کہ شاید ایک مہینے بعد سونے اور چاندی کی باہمی نسبت ۴۰ کے بجائے ۳۵ ہو۔ اسی بنا پر شارع نے یہ قانون مقرر کیا ہے کہ مختلف اجناس کا مبادلہ کمی بیشی کے ساتھ کرنا ہو تو وہ صرف دست بدست ہی ہو سکتا ہے۔ رہا قرض تو وہ لازماً دو طریقوں میں سے کسی ایک طریقے پر ہونا چاہیے۔ یا تو جو چیز جتنی مقدار میں قرض دی گئی ہے وہی چیز اسی مقدار میں واپس قبول کی جائے یا پھر معاملہ اجناس اور اشیا کی شکل میں طے کرنے کے بجائے روپے کی شکل میں طے کیا جائے۔ مثلاً یہ کہ آج زید نے بکر سے ۸۰ روپے یا ۸۰ روپے کے گیہوں قرض لیے اور ایک مہینے بعد وہ بکر کو ۸۰ روپے یا ۸۰ روپے کے جو واپس دے گا۔ اس قانون کو ابوداؤد کی اس روایت میں بالکل واضح طور پر بیان کیا گیا ہے:
وَلَا بَاْسَ بِبَیْعِ الذَّہَبِ بِالْفِضَّۃِ وَالْفِضَّۃُ اَکْثَرُہُمَا یَدًا بِیَدٍ وَاَمَّا نَسِییَٔۃً فَلاَ وَلَا بَاْسَ بِبَیْعِ الْبُرِّ بِالشَّعِیرِ وَالشَّعِیرُ اَکْثَرُہُمَا یَدًا بِیَدٍ وَاَمَّا نَسِیَٔۃً فَلاَ۔{ FR 2384 }
اور کوئی مضائقہ نہیں اگر سونے کو چاندی کے عوض بیچا جائے اور چاندی زیادہ ہو بشرطیکہ معاملہ دست بدست ہو جائے، رہا قرض تو وہ جائز نہیں ہے۔ اور کوئی مضائقہ نہیں اگر گیہوں کو جو کے عوض بیچا جائے اور جو زیادہ ہوں بشرطیکہ معاملہ دست بدست ہو جائے، رہا قرض تو وہ جائز نہیں ہے۔
حضرت عمرؓ کا قول
نبی a کے یہ احکام مُجمل ہیں اور معاملات کی تمام جزئی صورتوں کی ان میں تصریح نہیں ہے۔ اس لیے بہت سے جزئیات ایسے پائے جاتے ہیں جن میں شک کیا جا سکتا ہے کہ آیا وہ ربوٰ کی تعریف میں آتے ہیں یا نہیں۔ یہی بات ہے جس کی طرف حضرت عمرؓ نے اشارہ کیا ہے کہ:
اِنَّ اٰیَۃَ الرِّبَا مِنْ اٰخَرِ مَا نَزَلَ مِنَ الْقُرْاٰنِ وَاِنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قُبَضِ قَبُلَ اَنْ یُبَیَّنَہٗ لَنَا فَدَعُوا الرِّبَا وَ الرَّیْبِۃُ۔{ FR 2385 }
آیت ربوٰ قرآن کی ان آیات میں سے ہے جو آخر زمانے میں نازل ہوئی ہیں اور نبیa کا وصال ہوگیا قبل اس کے کہ تمام احکام ہم پر واضح فرماتے لہٰذا تم اس چیز کو بھی چھوڑ دو جو یقینا سود ہے اور اس چیز کو بھی جس میں سود کا شبہ ہو۔
فقہا کے اختلافات
احکام کا یہ اجمال ہی ان اختلافات کا مبنیٰ ہے جو سودی اجناس کے تعین اور ان میں تحریم کی علت اور حکم تحریم کے اجزا میں فقہائے اُمت کے درمیان ہوئے ہیں۔
ایک گروہ کی رائے یہ ہے کہ رِبا صرف ان چھ اجناس میں ہے جن کا ذکر نبیa نے فرما دیا ہے ، یعنی سونا، چاندی، گیہوں، جو، خرما اور نمک۔ ان کے سوا دوسری تمام چیزوں میں تفاضل کے ساتھ بلا کسی قید کے ہم جنس اشیا کا لین دین ہو سکتا ہے۔ یہ مذہب قتادہؒ اور طاؤسؒ اور عثمانؒ البتی اور ابن عقیلیؒ اور ظاہر یہ کا ہے۔{ FR 2386 }
دوسرا گروہ کہتا ہے کہ یہ حکم ان تمام چیزوں میں جاری ہوگا جن کا لین دین وزن اور پیمانے کے حساب سے کیا جاتا ہے۔ یہ عمارؒ اور امام ابوحنیفہؒ کا مذہب ہے، اور ایک روایت کی رُو سے امام احمد بن حنبلؒ کی بھی یہی رائے ہے۔{ FR 2387 }
تیسرا گروہ کہتا ہے کہ یہ حکم سونے چاندی اور کھانے کی ان چیزوں کے لیے ہے جن کا لین دین پیمانے اور وزن کے لحاظ سے ہوتا ہے یہ سعید بن المسیبؒ کا مذہب ہے اور ایک ایک روایت اس باب میں امام شافعیؒ اور امام احمدؒ سے بھی منقول ہے۔{ FR 2388 }
چوتھا گروہ کہتا ہے کہ یہ حکم مخصوص ہے ان چیزوں کے ساتھ جو غذا کے کام آتی ہیں اور ذخیرہ کرکے رکھی جاتی ہیں۔ یہ امام مالکؒ کا مذہب ہے۔{ FR 2389 }
درہم و دینار کے بارے میں امام ابوحنیفہؒ اور امام احمدؒ کا مذہب یہ ہے کہ ان میں علت تحریم ان کا وزن ہے اور شافعیؒ و مالکؒ اور ایک روایت کے مطابق امام احمدؒ کی رائے یہ ہے کہ قیمت اس کی علت ہے۔
مذاہب کے اس اختلاف سے جزئی معاملات میں حکم تحریم کا اجرا بھی مختلف ہوگیا ہے۔ ایک چیز ایک مذہب میں سرے سے سودی جنس ہی نہیں ہے اور دوسرے مذہب میں اس کا شمار سودی اجناس میں ہوتا ہے۔ ایک مذہب کے نزدیک ایک شے میں علت تحریم کچھ ہے اور دوسرے مذہب کے نزدیک کچھ اور۔ اس لیے بعض معاملات ایک مذہب کے لحاظ سے سود کی زد میں آ جاتے ہیں اور دوسرے مذہب کے لحاظ سے نہیں آتے لیکن یہ تمام اختلافات ان امور میں نہیں ہیں جو کتاب و سنت کے صریح احکام کی رو سے ربوٰ کے حکم میں داخل ہیں بلکہ ان کا تعلق صرف مشتبہات سے ہے اور ایسے امور سے ہے جو حلال و حرام کی درمیانی سرحد پر واقع ہیں۔ اب اگر کوئی شخص ان اختلافی مسائل کو حجت بنا کر ان معاملات میں شریعت کے احکام کو مشتبہ ٹھیرانے کی کوشش کرے جن کے سود ہونے پر نصوص صریحہ وارد ہو چکی ہیں اور اس طریق استدلال سے رخصتوں اور حیلوں کا دروازہ کھولے ، اور پھر ان دروازوں سے بھی گزر کر اُمت کو سرمایہ داری کے راستوں پر چلنے کی ترغیب دے وہ خواہ اپنی جگہ نیک نیت اور خیر خواہ ہی کیوں نہ ہو، حقیقت میں اس کا شمار ان لوگوں میں ہوگا جنھوں نے کتاب و سنت کو چھوڑ کر ظن و تخمین کی پیروی کی، خود بھی گمراہ ہوئے اور دوسروں کو بھی گمراہ کیا۔
جانوروں کے مبادلے میں تفاضل
اس سلسلے میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ہم جنس اشیا کے مبادلے میں تفاضل کی ممانعت کا جو حکم دیا گیا ہے اس سے جانور مستثنیٰ ہیں۔ ایک ہی جنس کے جانوروں کا مبادلہ ایک دوسرے کے ساتھ تفاضل کے ساتھ کیا جا سکتا ہے، نبیa نے خود کیا ہے اور آپ کے بعد صحابہ نے بھی کیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ جانور اور جانور میں قدرو قیمت کے اعتبار سے بہت بڑا فرق ہوتا ہے۔ مثلاً ایک معمولی قسم کا گھوڑا اور ایک اعلیٰ نسل کا گھوڑا جو ریس میں دوڑایا جاتا ہے، یا ایک عام کتا اور ایک اعلیٰ قسم کا کتا، ان کی قیمتوں میں اتنا فرق ہوتا ہے کہ ایک جانور کا تبادلہ اسی جنس کے سو جانوروں سے بھی کیا جا سکتا ہے۔

٭…٭…٭

شیئر کریں