Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

اسلام میں قانون سازی کا دائرہ عمل اور اس میں اجتہاد کا مقام
ایک منکر حدیث کے اعتراضات اور ان کا جواب
مسئلہ اجتہاد کے بارے میں چند شبہات
اجتہاد اور اُس کے تقاضے
مسئلہ اجتہاد میں الفاظ اور رُوح کی حیثیت
قانون سازی، شوریٰ اور اجماع
نظامِ اسلامی میں نزاعی امور کے فیصلے کا صحیح طریقہ
سنت ِرسول بحیثیت ِماخذ قانون
اسلام میں ضرورت و مصلحت کا لحاظ اور اس کے اصول و قواعد
دین میں حکمت ِ عملی کا مقام
غیبت کی حقیقت اور اس کے احکام
غیبت کے مسئلے میں ایک دو ٹوک بات
غیبت کے مسئلے میں بحث کا ایک اور رُخ
دو اہم مبحث:
اسلام اور عدل اجتماعی
یتیم پوتے کی وراثت کا مسئلہ
عائلی قوانین کے کمیشن کا سوالنامہ اور اُس کا جواب
اہلِ کتاب کے ذبیحہ کی حِلّت و حُرمت
انسان کے بنیادی حقوق
مسئلہ خلافت میں امام ابوحنیفہؒ کا مسلک حاکمیت
شہادتِ حسین ؑ کا حقیقی مقصد ۱؎
اقوامِ مغرب کا عبرت ناک انجام
دنیائے اِسلام میں اسلامی تحریکات کے لیے طریق کار

تفہیمات (حصہ سوم)

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

سنت ِرسول بحیثیت ِماخذ قانون

(ذیل میں جسٹس ایس اے رحمان صاحب کے ایک خط پر مصنف کا تبصرہ درج کیا جا رہا ہے۔ وہ خط دراصل اس مراسلت کا ایک حصّہ تھا جو ترجمان القرآن کے صفحات میں صاحب موصوف اور پروفیسر عبدالحمید صدیقی صاحب کے درمیان ہوئی تھی۔ ان صفحات میں اس بحث کو نقل کرنے کی غرض صرف یہ ہے کہ اس سلسلے میں سنّت کے متعلق جو اہم مسائل زیر بحث آ گئے ہیں ان سے عام ناظرین استفادہ کر سکیں۔ فاضل مکتوب نگار کے اصل خط کو یہاں درج کرنے کی حاجت نہیں ہے کیونکہ اس کا متعلقہ حصّہ خود ہمارے تبصرے میں آ گیا ہے)
فاضل مکتوب نگار نے اپنے موقف کی وضاحت فرماتے ہوئے نمبر وار جو اشارات فرمائے ہیں ان میں سے نمبر ۳ کچھ بحث طلب ہے ، کیونکہ اپنی موجودہ مختصر صورت میں وہ بہت سی غلط فہمیاں پیدا کر سکتا ہے۔ اس لیے میں اس کے متعلق کچھ باتیں اس توقع کے ساتھ ان کی خدمت میں عرض کرتا ہوں کہ وہ ان پر پوری سنجیدگی کے ساتھ غور فرمائیں گے۔
صدیقی صاحب نے اس خیال کا اظہار کیا تھا کہ ائمہ سلف کی مرتّب کردہ فقہ پر نظرثانی اگر کی جا سکتی ہے تو صرف اس بنیاد پر کہ ان کا کوئی اجتہاد و استنباط قرآن و سنّت کے مطابق ہے یا نہیں۔ فاضل مکتوب نگار اس کے متعلق فرماتے ہیں:
’’جہاں تک قرآنِ حکیم کا تعلق ہے تفسیر و تعبیر کا حق برقرار رکھتے ہوئے ہر شخص اس سے اتفاق کرے گا لیکن جیسا کہ آپ جانتے ہیں سنّت کا مسئلہ مختلف فیہ ہے۔‘‘
ان الفاظ سے یہ گمان ہوتا ہے کہ موصوف کے نزدیک قرآن تو اسلامی احکام معلوم کرنے کے لیے ضرور مرجع و سند ہے مگر وہ سنّت کو یہ حیثیت دینے میں اس بنا پر متأمل ہیں کہ اس کا مسئلہ مختلف فیہ ہے۔ اب یہ بات ان کے بیان سے واضح نہیں ہوتی کہ اس مسئلے میں کیا چیز مختلف فیہ ہے؟
کیا سنّت کا ماخذ قانون ہونا مسلمانوں میں اختلافی مسئلہ ہے؟
اگر ان کا مطلب یہ ہے کہ بجائے خود سنّت (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و عمل اور امرو نہی) کا ماخذ قانون اور مرجع احکام ہونا ہی مختلف فیہ ہے تو میں عرض کروں گا کہ یہ ایک خلافِ واقعہ بات ہے۔ جس روز سے امت مسلمہ وجود میں آئی ہے اس وقت سے آج تک یہ بات اہلِ اسلام میں کبھی مختلف فیہ نہیں رہی ہے۔ تمام امت نے ہمیشہ اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مومنوں کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مطاع اور متبوع ہیں۔ ان کے حکم کی اطاعت اور ان کے امر و نہی کا اتباع ہر مسلمان پر واجب ہے۔ جس طریقے پر چلنے کی انھوں نے اپنے قول و عمل اور تقریر ۱؎ سے تعلیم دی ہے اس کی پیروی پر ہم مامور ہیں، اور زندگی کے جس معاملے کا بھی انھوں نے فیصلہ کر دیا ہے اس میں کوئی دوسرا فیصلہ کر لینے کے ہم مجاز نہیں ہیں۔ ہمیں نہیں معلوم کہ تاریخ اسلام کے گزشتہ ۱۳۸۱ سال میں کس نے اور کب اس سے اختلاف کیا ہے۔ نرالی اپچ نکالنے والے کچھ منفرد اور شاذ قسم کے خبطی تو دنیا میں ہمیشہ ہر گروہ میں پائے جاتے رہے ہیں۔ اس طرح کے افراد نے کبھی مسلّماتِ قوم کے خلاف کوئی بات کر دی ہو تو اس کی بنا پر یہ کہہ دینا صحیح نہیں ہے کہ ایک عالمگیر مسلّمہ مختلف فیہ ہو گیا ہے۔ اس لیے وہ مسلّمہ نہیں رہا۔ اس طرح تو خبطیوں کی تاخت سے قرآن بھی نہیں بچا ہے۔ کہنے والے تحریف قرآن تک کا دعویٰ کر بیٹھے ہیں۔ اب کیا ان کی وجہ سے ہم کلامِ الٰہی کے مرجع و سند ہونے کو بھی مختلف فیہ مان لیں گے؟
کیا اختلافات کی گنجائش ہونا سنّت کے ماخذ قانون ہونے میں مانع ہے؟
لیکن اگر مختلف فیہ سنّت کا بجائے خود مرجع و سند ہونا نہیں ہے بلکہ اختلاف جو کچھ بھی واقع ہوتا ہے اور ہوا ہے وہ اس امر میں ہے کہ کسی خاص مسئلے میں جس چیز کے سنّت ہونے کا دعویٰ کیا گیا ہو وہ فی الواقع سنّت ثابتہ ہے یا نہیں، تو ایسا ہی اختلاف قرآن کی آیات کے مفہوم و منشا میں بھی واقع ہوتا ہے۔ ہر صاحب علم یہ بحث اٹھا سکتا ہے کہ جو حکم کسی مسئلے میں قرآن سے نکالا جا رہا ہے وہ درحقیقت اس سے نکلتا ہے یا نہیں۔ فاضل مکتوب نگار نے خود قرآن مجید میں اختلافِ تفسیر و تعبیر کا ذکر کیا ہے اور اس اختلاف کی گنجائش ہونے کے باوجود وہ بجائے خود قرآن کو مرجع و سند مانتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اسی طرح الگ الگ مسائل کے متعلق سنتوں کے ثبوت و تحقیق میں اختلاف کی گنجائش ہونے کے باوجود فی نفسہٖ ’’سنت‘‘ کو مرجع و سند تسلیم کرنے میں انھیں کیوں تامّل ہے۔
یہ بات ایک ایسے فاضل قانون دان سے جیسے کہ محترم مکتوب نگار ہیں، مخفی نہیں رہ سکتی کہ قرآن کے کسی حکم کی مختلف ممکن تعبیرات میں سے جس شخص، ادارے یا عدالت نے تفسیر و تعبیر کے معروف علمی طریقے استعمال کرنے کے بعد بالآخر جس تعبیر کو حکم کا اصل منشا قرار دیا ہو اس کے علم اور دائرہ کار کی حد تک وہی حکمِ خدا ہے اگرچہ یہ دعویٰ نہیں کیا جا سکتا کہ حقیقت میں بھی وہی حکم خدا ہے۔ بالکل اسی طرح سنّت کی تحقیق کے علمی ذرائع استعمال کرکے کسی مسئلے میں جو سنّت بھی ایک فقیہ، یا لیجسلیچر یا عدالت کے نزدیک ثابت ہو جائے وہی اس کے لیے حکم رسول ہے اگرچہ قطعی طور پر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ حقیقت میں رسول کا حکم وہی ہے۔ ان دونوں صورتوں میں یہ امر تو ضرور مختلف فیہ رہتا ہے کہ میرے نزدیک خدا یا رسول کا حکم کیا ہے اور آپ کے نزدیک کیا، لیکن جب تک میں اور آپ خدا اور اس کے رسول کو آخری سند (final authority) مان رہے ہیں، ہمارے درمیان یہ امر مختلف فیہ نہیں ہو سکتا کہ خدا اور اس کے رسول کا حکم بجائے خود ہمارے لیے قانونِ واجب الاتباع ہے۔ لہٰذا میں جناب ایس اے رحمان صاحب کی یہ بات سمجھنے سے معذور ہوں کہ احکامِ فقہ کی تحقیق میں وہ قرآن کو تو ان اختلافات کے باوجود مرجع و سند مانتے ہیں جو اس کے منشا کی تعیین میں واقع ہو سکتے ہیں اور ہوئے ہیں، مگر سنّت کو یہ حیثیت دینے میں اس بنا پر تامّل کرتے ہیں کہ جزئیات مسائل کے متعلق سنتوں کے مشخّص کرنے میں اختلافات واقع ہوئے ہیں اور ہو سکتے ہیں۔
کیا احادیث موضوعہ کی موجودگی واقعی بے اطمینانی کی موجب ہے؟
آگے چل کر صاحب موصوف سنّت کو سند قرار نہ دینے کی وجہ یہ بیان کرتے ہیں کہ ’’متعدد احادیث موضوعہ متداولہ مجموعوں میں شامل ہو گئی ہیں‘‘۔ اور اس کے ساتھ وہ یہ بھی فرماتے ہیں کہ ’’اس موضوع پر ضخیم کتابیں بھی لکھی گئی ہیں‘‘۔ بظاہر اس ارشاد سے ان کا مدعا یہ متصوّر ہوتا ہے کہ سنّت ایک مشکوک چیز ہے۔ ممکن ہے کہ یہ شبہ اختصار بیان کی وجہ سے پیدا ہوتا ہو اور فی الواقع ان کا مدعا یہ نہ ہو لیکن اگر ان کا مدعا یہی ہے تو میں عرض کروں گا کہ وہ اس مسئلے پر مزید غور فرمائیں۔ ان شائ اللہ انھیں خود محسوس ہو گا کہ جس چیز کو وہ سنّت کے مشکوک ہونے کی دلیل سمجھ رہے ہیں وہی دراصل اس کے محفوظ ہونے کا اطمینان دلاتی ہے۔ میں تھوڑی دیر کے لیے اس سوال کو چھوڑ دیتا ہوں کہ وہ کون سے متداول مجموعے ہیں جن میں احادیث ِموضوعہ شامل ہو گئی ہیں۔ اگرچہ مختلف محدّثین نے جو مجموعے بھی مرتّب کیے ہیں ان میں اپنی حد تک پوری چھان بین کرکے انھوں نے یہی کوشش کی ہے کہ قابلِ اعتماد روایات جمع کریں۔ مگر اس معاملے میں صحاح ستّہ اور مؤطّا کا پایہ جس قدر بلند ہے وہ اہلِ علم سے پوشیدہ نہیں ہے تاہم تھوڑی دیر کے لیے ہم یہ مان بھی لیں کہ سب مجموعوں میں موضوعات نے کچھ نہ کچھ راہ پا لی ہے تو غور طلب بات یہ ہے کہ وہ ’’ضخیم کتابیں‘‘ جن کا ذکر فاضل مکتوب نگار کر رہے ہیں آخر ہیں کس موضوع پر۔ ان کا موضوع یہی تو ہے کہ کون کون سی حدیثیں وضعی ہیں، کون کون سے راوی کذّاب اور وضّاع حدیث ہیں، کہاں کہاں موضوع احادیث نے راہ پائی ہے۔ کس کتاب کی کون کون سی روایات ساقط الاعتبار ہیں، کن راویوں پر ہم اعتماد کر سکتے ہیں اور کن پر نہیں کر سکتے۔ ’’موضوع‘‘ کو ’’صحیح‘‘ سے جدا کرنے کے طریقے کیا ہیں، اور روایات کی صحت، ضعف، علّت وغیرہ کی تحقیق کن کن طریقوں سے کی جا سکتی ہے۔ ان ضخیم کتابوںکی اطلاع پا کر تو ہمیں امن کا ویسا ہی اطمینان حاصل ہوتا ہے جیسا کسی کو یہ سن کر ہو کہ بکثرت چور پکڑ لیے گئے ہیں، بڑے بڑے جیل خانے ان سے بھر گئے ہیں۔ بہت سے اموال مسروقہ برآمد کر لیے گئے ہیں اور سراغ رسانی کا ایک باقاعدہ انتظام موجود ہے جس سے آیندہ بھی چور پکڑے جا سکتے ہیں۔ لیکن تعجب کی بات ہو گی اگر کسی کے لیے یہی اطلاع الٹی بے اطمینانی کی موجب ثابت ہو اور وہ اسے بدامنی کے ثبوت میں پیش کرنے لگے۔ بیشک بڑی مثالی حالت ِامن ہوتی اگر چوری کا سرے سے کبھی وقوع ہی نہ ہوتا۔ بلاشبہ اس طرح کی واردات ہو جانے سے کچھ نہ کچھ بے اطمینانی تو پیدا ہو ہی جاتی ہے۔ لیکن مکمل حالت ِامن زندگی کے اور کس معاملے میں ہم کو نصیب ہے جو یہاں ہم اسے طلب کریں۔ جس حالت پر ہم دنیا میں بالعموم مطمئن رہتے ہیں اس کے لیے اتنا امن کافی ہے کہ چوروں کی اکثریت پکڑ کر بند کر دی جائے اور جو قلیل تعداد بھی آزاد پھر رہی ہو اس کے پکڑے جانے کا معقول انتظام موجود ہو۔ کیا ہمارے سپریم کورٹ کے فاضل جج سنّت کے معاملے میں اتنے امن پر قانع نہیں ہو سکتے؟ کیا وہ اس مکمل امن سے کم کسی چیز پر راضی نہیں ہیں جس میں سرے سے چوری کے وقوع ہی کا نام و نشان نہ پایا جائے؟
روایات کی صحت جانچنے کے اصول
آخر میں فاضل محترم تحریر فرماتے ہیں:
’’میں اس معاملے میں بھی افراط و تفریط کا قائل نہیں۔ سنّنِ متوارث جن کا تعلق طریق عبادات مثلاً نماز یا مناسک حج وغیرہ سے ہے ان کی حیثیت مصوُن و مامون ہے لیکن باقی ماندہ موادِ احادیث روایت کے ساتھ درایت کے اصولوں پر پرکھا جانا چاہیے۔ پیشتر اس کے کہ اس کی حجیت قبول کی جائے۔ میں تاریخی تنقید کا قائل ہوں۔‘‘
یہ ایک حد تک صحیح نقطۂ نظر ہے لیکن اس میں چند امور ایسے ہیں جن پر میں آں محترم کو مزید غوروفکر کی دعوت دوں گا۔ جس تاریخی تنقید کے وہ قائل ہیں، فن حدیث اسی تنقید ہی کا تو دوسرا نام ہے۔ پہلی صدی سے آج تک اس فن میں یہی تنقید ہوتی رہی ہے اور کوئی فقیہ یا محدّث اس بات کا قائل نہیں رہا ہے کہ عبادات ہوں یا معاملات، کسی مسئلے کے متعلق بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نسبت دی جانے والی کسی روایت کو تاریخی تنقید کے بغیر حجت کے طور پر تسلیم کر لیا جائے۔ یہ فن حقیقت میں اس تنقید کا بہترین نمونہ ہے اور جدید زمانے کی بہتر سے بہتر تاریخی تنقید کو بھی مشکل ہی سے اس پر کوئی اضافہ و ترقی (Improvement) کہا جا سکتا ہے۔ بلکہ میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ محدّثین کی تنقید کے اصول اپنے اندر ایسی نزاکتیں اور باریکیاں رکھتے ہیں جن تک موجودہ دور کے ناقدین تاریخ کا ذہن بھی ابھی تک نہیں پہنچا ہے۔ اس سے بھی آگے بڑھ کر میں بلاخوفِ تردید یہ کہوں گا کہ دنیا میں صرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنّت و سیرت اور ان کے دور کی تاریخ کا ریکارڈ ہی ایسا ہے جو اس کڑی تنقید کے معیاروں پر کسا جانا برداشت کر سکتا تھا جو محدّثین نے اختیار کی ہے، ورنہ آج تک دنیا کے کسی انسان اور کسی دور کی تاریخ بھی ایسے ذرائع سے محفوظ نہیں رہی ہے کہ ان سخت معیاروں کے آگے ٹھہر سکے اور اس کو قابلِ تسلیم تاریخی ریکارڈ مانا جا سکے۔ مجھے افسوس ہے کہ ہمارے جدید زمانے کے اہلِ علم اس فن کا تحقیقی مطالعہ نہیں کرتے اور قدیم طرز کے اہلِ علم جو اس میں بصیرت رکھتے ہیں وہ اس کو عصر حاضر کی زبان اور اسالیب ِبیان میں پیش کرنے سے قاصر ہیں۔ اسی وجہ سے باہر والے تو درکنار خود ہمارے اپنے گھر کے لوگ آج اس کی قدر نہیں پہچان رہے ہیں۔ ورنہ حقیقت یہ ہے کہ علوم حدیث میں سے اگر صرف ایک علل حدیث ہی کے فن کی تفصیلات سامنے رکھ دی جائیں تو دنیا کو معلوم ہو کہ تاریخی تنقید کس چیز کا نام ہے۔ تاہم میں یہ کہوں گا کہ مزید اصلاح و ترقی کا دروازہ بند نہیں ہے۔ کوئی شخص یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ روایات کو جانچنے اور پرکھنے کے جو اصول محدّثین نے اختیار کیے ہیں وہ حرفِ آخر ہیں۔ آج اگر کوئی ان کے اصولوں سے اچھی طرح واقفیت پیدا کرنے کے بعد ان میں کسی کمی یا خامی کی نشان دہی کرے اور زیادہ اطمینان بخش تنقید کے لیے کچھ اصول معقول دلائل کے ساتھ سامنے لائے تو یقیناً اس کا خیرمقدم کیا جائے گا۔ ہم میں سے آخر کون یہ نہ چاہے گا کہ کسی چیز کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنّت قرار دینے سے پہلے اس کے سنّت ِ ثابتہ ہونے کا تیقّن حاصل کر لیا جائے اور کوئی کچی پکی بات حضور کی طرف منسوب نہ ہونے پائے۔
درایت کی حقیقت
احادیث کے پرکھنے میں روایت کے ساتھ درایت کا استعمال بھی، جس کا ذکر محترم مکتوب نگار نے کیا ہے، ایک متفق علیہ چیزہے۔ اگرچہ درایت کے مفہوم، اصول اور حدود میں فقہا و محدّثین کے مختلف گروہوں کے درمیان اختلافات رہے ہیں، لیکن بجائے خود اس کے استعمال پر تقریباً اتفاق ہے اور دورِ صحابہ سے لے کر آج تک اسے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ البتہ اس سلسلے میں جو بات پیش نظر رہنی چاہیے اور مجھے امید ہے کہ فاضل مکتوب نگار کو بھی اس سے اختلاف نہ ہو گا۔ وہ یہ ہے کہ درایت صرف انھی لوگوں کی معتبر ہو سکتی ہے جو قرآن و حدیث اور فقہ اسلامی کے مطالعہ و تحقیق میں اپنی عمر کا کافی حصّہ صرف کر چکے ہوں، جن میں ایک مدت کی ممارست نے ایک تجربہ کار جوہری کی سی بصیرت پیدا کر دی ہو اور خاص طور پر یہ کہ جن کی عقل اسلامی نظامِ فکر و عمل کے حدود اربعہ سے باہر کے نظریات، اصول اور اقدار لے کر اسلامی روایات کو ان کے معیار سے پرکھنے کا رجحان نہ رکھتی ہو۔ بلاشبہ عقل کے استعمال پر ہم کوئی پابندی نہیں لگا سکتے، نہ کسی کہنے والے کی زبان پکڑ سکتے ہیں۔ لیکن بہرحال یہ امر یقینی ہے کہ اسلامی علوم سے کورے لوگ اگر اناڑی پن کے ساتھ کسی حدیث کو خوش آیند پا کر قبول اور کسی کو اپنی مرضی کے خلاف پا کر ردّ کرنے لگیں، یا اسلام سے مختلف کسی دوسرے نظام فکر و عمل میں پرورش پائے ہوئے حضرات یکایک اٹھ کر اجنبی معیاروں کے لحاظ سے احادیث کے ردّ و قبول کا کاروبار پھیلا دیں تو مسلم ملت میں نہ ان کی درایت مقبول ہو سکتی ہے اور نہ اس ملت کا اجتماعی ضمیر ایسے بے تکے عقلی فیصلوں پر کبھی مطمئن ہو سکتا ہے۔ اسلامی حدود میں تو اسلام ہی کی تربیت پائی ہوئی عقل اور اسلام کے مزاج سے ہم آہنگی رکھنے والی عقل ہی ٹھیک کام کر سکتی ہے۔ اجنبی رنگ و مزاج کی عقل یا غیر تربیت یافتہ عقل بجز اس کے کہ انتشار پھیلائے کوئی تعمیری خدمت اس دائرے میں انجام نہیں دے سکتی۔
سنت کے معتبر ہونے کے دلائل
سنت کی جو تقسیم محترم مکتوب نگار نے ’’سنن متوارث جن کا تعلق طریق عبادات سے ہے‘‘ اور ’’باقی ماندہ موادِ احادیث‘‘ میں کی ہے اور ان میں سے مقدّم الذکر کو مصوُن و مامون اور موخر الذکر کو محتاجِ تنقید قرار دیا ہے، اس سے اتفاق کرنا ہمارے لیے مشکل ہے۔ بظاہر اس تقسیم میں جو تصوّر کام کر رہا ہے وہ یہ ہے کہ جو طریقے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عبادات کے متعلق سکھائے تھے وہ تو امت میں عملاً جاری ہو گئے اور نسل کے بعد نسل ان کی پیروی کرتی رہی، اس لیے یہ ’’متوارث‘‘ سنتیں محفوظ رہ گئیں، باقی رہے دوسرے معاملاتِ زندگی تو ان میں حضورؐ کی ہدایات نہ عملاً جاری ہوئیں، نہ ان پر کوئی نظامِ تمدن و معاشرت کام کرتا رہا، نہ وہ بازاروں اور منڈیوں میں رائج ہوئیں، نہ عدالتوں میں ان پر فیصلے ہوئے۔ اس لیے وہ بس متفرق لوگوں کی سینہ بسینہ روایات تک محدود رہ گئیں، اور یہی مواد ایسا ہے کہ اب اس میں سے بڑی دیدہ ریزی کے بعد قابلِ اعتبار چیزیں تلاش کرنی ہوں گی۔ فاضل مکتوب نگار کا تصوّر اگر اس کے سوا کچھ اور ہے تو میں بہت شکرگزار ہوں گا کہ وہ میری غلط فہمی رفع کر دیں۔ لیکن اگر یہی ان کا تصوّر ہے تو میں عرض کروں گا کہ یہ تاریخِ سنّت کی واقعی صورتِ حال سے مطابقت نہیں رکھتا۔
اصل حقیقت یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے عہد نبوت میں مسلمانوں کے لیے محض ایک پیرومرشد اور واعظ نہیں تھے بلکہ عملاً ان کی جماعت کے قائد، رہنما، حاکم، قاضی، شارع، مربی، معلّم سب کچھ تھے اور عقائد و تصوّرات سے لے کر عملی زندگی کے تمام گوشوں تک مسلم سوسائٹی کی پوری تشکیل آپ ہی کے بتائے سکھائے اور مقرر کیے ہوئے طریقوں پر ہوئی تھی۔ اس لیے یہ کبھی نہیں ہوا کہ آپ نے نماز روزے اور مناسک حج کی جو تعلیم دی ہو بس وہی مسلمانوں میں رواج پا گئی ہو اور باقی باتیں محض وعظ و ارشاد میں مسلمان سن کر رہ جاتے ہوں۔ بلکہ فی الواقع جو کچھ ہوا وہ یہ تھا کہ جس طرح آپ کی سکھائی ہوئی نماز فوراً مسجدوں میں رائج ہوئی اور اسی وقت جماعتیں اس پر قائم ہونے لگیں ٹھیک اسی طرح شادی بیاہ اور طلاق و وراثت کے متعلق جو قوانین آپ نے مقرر کیے انھی پر مسلم خاندانوں میں عمل شروع ہو گیا، لین دین کے جو ضابطے آپ نے مقرر کیے انھی کا بازاروں میں چلن ہونے لگا، مقدمات کے جو فیصلے آپ نے کیے وہی ملک کا قانون قرار پائے، لڑائیوں میں جو معاملات آپ نے دشمنوں کے ساتھ اور فتح پا کر مفتوح علاقوں کی آبادی کے ساتھ کیے وہی مسلم مملکت کے ضابطے بن گئے اور فی الجملہ اسلامی معاشرہ اور اس کا نظامِ حیات اپنے تمام پہلوئوں کے ساتھ انھی سنتوں پر قائم ہوا جو آپ نے یا تو خود رائج کیں یا جنھیں پہلے کے مروّج طریقوں میں سے بعض کو برقرار رکھ کر آپ نے سنّت ِاسلام کا جُز بنا لیا۔ یہ وہ معلوم و متعارف سنتیں تھیں جن پر مسجد سے لے کر خاندان، منڈی، عدالت، ایوانِ حکومت اور بین الاقوامی سیاست تک مسلمانوں کی اجتماعی زندگی کے تمام ادارات نے حضورؐ کی زندگی ہی میں عملدرآمد شروع کر دیا تھا اور بعد میں خلفائے راشدین کے عہدے سے لے کر دورِ حاضر تک ہمارے اجتماعی ادارات کا ڈھانچہ انھی پر قائم ہے۔ پچھلی صدی تک تو ان ادارات کے تسلسل میں ایک دن کا انقطاع بھی واقع نہیں ہوا تھا۔ اس کے بعد اگر کوئی انقطاع رونما ہوا ہے تو صرف حکومت و عدالت اور پبلک لا کے ادارات عملاً درہم برہم ہو جانے کی وجہ سے ہوا ہے۔ اگر آپ ’’متوارث‘‘ سنتوں کی محفوظیت کے قائل ہیں تو عبادات اور معاملات دونوں سے تعلق رکھنے والی یہ سب معلوم و متعارف سنتیں متوارث ہی ہیں۔ ان کے معاملے میں ایک طرف حدیث کی مستند روایات اور دوسری طرف امت کا متواتر عمل، دونوں ایک دوسرے سے مطابقت رکھتے ہیں۔ ان میں مسلمانوں کی بے راہ روی سے جو الحاقی چیز بھی کبھی داخل ہوئی ہے، علمائے امت نے اپنے اپنے دور میں بروقت ’’بدعت‘‘ کی حیثیت سے اس کی الگ نشاندہی کر دی ہے اور قریب قریب ہر ایسی بدعت کی تاریخ موجود ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کس زمانے سے اس کا رواج شروع ہوا۔ مسلمانوں کے لیے ان بدعات کو سنن متعارفہ سے ممیز کرنا کبھی مشکل نہیں رہا ہے۔
اخبار آحاد کی حیثیت
ان معلوم و متعارف سنتوں کے علاوہ ایک قسم سنتوں کی وہ تھی جنھیں حضورؐ کی زندگی میں شہرت اور رواجِ عام حاصل نہ ہوا تھا۔ جو مختلف اوقات میں حضورؐ کے کسی فیصلے، ارشاد، امر و نہی، تقریر و اجازت، یا عمل کو دیکھ کر یا سن کر خاص خاص اشخاص کے علم میں آئی تھیں اور عام لوگ ان سے واقف نہ ہو سکے تھے۔ یہ سنتیں عبادات اور معاملات دونوں ہی طرح کے امور سے تعلق رکھتی تھیں۔ یہ خیال کرنا صحیح نہیں ہے کہ ان کا تعلق صرف معاملات سے تھا۔ ان سنتوں کا علم جو متفرق افراد کے پاس بکھرا ہوا تھا۔ امت نے اس کو جمع کرنے کا سلسلہ حضورؐ کی وفات کے بعد فوراً ہی شروع کر دیا۔ کیونکہ خلفاء، حکام، قاضی، مفتی اور عوام سب اپنے اپنے دائرہ کار میں پیش آمدہ مسائل کے متعلق کوئی فیصلہ یا عمل اپنی رائے اور استنباط کی بنا پر کرنے سے پہلے یہ معلوم کرنا ضروری سمجھتے تھے کہ اس معاملے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی ہدایت تو موجود نہیں ہے۔ اسی ضرورت کی خاطر ہر اس شخص کی تلاش شروع ہوئی جس کے پاس سنّت کا کوئی علم تھا، اور ہر اس شخص نے جس کے پاس ایسا کوئی علم تھا خود بھی اس کو دوسروں تک پہنچانا اپنا فرض سمجھا۔ یہی روایت ِحدیث کا نقطہ آغاز ہے۔ اور ۱۱ھ سے تیسری چوتھی صدی تک ان متفرق سنتوں کو فراہم کرنے کا سلسلہ جاری رہا ہے۔ موضوعات گھڑنے والوں نے ان کے اندر آمیزش کرنے کی جتنی بھی کوششیں کیں وہ قریب قریب سب ناکام ہو گئیں کیونکہ جن سنتوں سے کوئی حق ثابت یا ساقط ہوتا تھا، جن کی بنا پر کوئی چیز حرام یا حلال ہوتی تھی، جن سے کوئی شخص سزا پا سکتا تھا یا کوئی ملزم بری ہو سکتا تھا، غرض یہ کہ جن سنتوں پر احکام اور قوانین کا مدار تھا ان کے بارے میں حکومتیں اور عدالتیں اور افتا کی مسندیں اتنی بے پروا نہیں ہو سکتی تھیں کہ یوں ہی اٹھ کر کوئی شخص قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم کہہ دیتا اور ایک حاکم یا جج یا مفتی اسے مان کر کوئی حکم صادر کر ڈالتا۔ اسی لیے جو سنتیں احکام سے متعلق تھیں ان کے بارے میں پوری چھان بین کی گئی، سخت تنقید کی چھلنیوں سے ان کو چھانا گیا، روایت کے اصولوں پر بھی انھیں پرکھا گیا اور درایت کے اصولوں پر بھی، اور وہ سارا مواد جمع کر دیا گیا جس کی بنا پر کوئی روایت مانی گئی ہے۔ یا ردّ کر دی گئی ہے تاکہ بعد میں بھی ہر شخص اس کے ردّ و قبول کے متعلق تحقیقی رائے قائم کر سکے۔ ان سنتوں کا ایک معتدبہ حصّہ فقہاء اور محدّثین کے درمیان متفق علیہ ہے اور ایک حصّے میں اختلافات ہیں۔ بعض لوگوں نے ایک چیز کو سنّت مانا ہے اور بعض نے نہیں مانا۔ مگر اس طرح کے تمام اختلافات میں صدیوں اہلِ علم کے درمیان بحثیں جاری رہی ہیں اور نہایت تفصیل کے ساتھ ہر نقطہ ٔ نظر کا استدلال اور وہ بنیادی مواد جس پر یہ استدلال مبنی ہے فقہ اور حدیث کی کتابوں میں موجود ہے۔ آج کسی صاحب علم کے لیے بھی یہ مشکل نہیں ہے کہ کسی چیز کے سنّت ہونے یا نہ ہونے کے متعلق تحقیق سے خود کوئی رائے قائم کر سکے۔ اس لیے میں نہیں سمجھتا کہ سنّت کے نام سے متوحش ہونے کی کسی کے لیے بھی کوئی معقول وجہ ہو سکتی ہے۔ البتہ ان لوگوں کا معاملہ مختلف ہے جو اس شعبہ علم سے واقف نہیں ہیں اور جنھیں بس دور ہی سے حدیثوں میں اختلافات کا ذکر سن کر گھبراہٹ لاحق ہو گئی ہے۔
احکامی احادیث کی امتیازی حیثیت
اس سلسلے میں یہ بات بھی اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ احادیث میں جو مواد احکام سے متعلق نہیں ہے بلکہ جس کی نوعیت محض تاریخی ہے یا جو فتن ِ، ملاحم، رِقاق، مناقب، فضائل اور اسی طرح کے دوسرے امور سے تعلق رکھتا ہے، اس کی چھان بین میں وہ عرق ریزی نہیں کی گئی ہے جو احکامی سنتوں کے باب میں ہوئی ہے۔ اس لیے موضوعات نے اگر راہ پائی بھی ہے تو زیادہ تر انھی ابواب کی روایات میں پائی ہے۔ احکامی سنتیں بے اصل اور جھوٹی روایتوں سے تقریباً بالکل ہی پاک کر دی گئی ہیں۔ ان سے تعلق رکھنے والی روایتوں میں ضعیف خبریں تو ضرور موجود ہیں مگر موضوعات کی نشاندہی مشکل ہی سے کی جا سکتی ہے اور اخبارِ ضعیفہ میں سے بھی جس کسی کو فقہ کے کسی اسکول نے قبول کیا ہے اس بنا پر کیا ہے کہ اس کے نزدیک وہ قرآن سے، سُننِ متعارفہ کے جانے پہچانے نظام سے اور شریعت کے جامع اصولوں سے مناسبت رکھتی ہے، یعنی روایتہ ضعیف ہونے کے باوجود درایتہ اس میں معنی کی قوت موجود ہے۔
محترم مکتوب نگار کی چند سطروں پر یہ تفصیلی تبصرہ میں نے صرف اس لیے کیا ہے کہ یہ سطریں کسی عام آدمی کے قلم سے نہیں نکلی ہیں بلکہ ایک ایسے بزرگ کے قلم سے نکلی ہیں جنھیں ہمارے سپریم کورٹ کے جج کی بلند پوزیشن حاصل ہے۔ سنّت کی شرعی و قانونی حیثیت کے متعلق اس پوزیشن کے بزرگوں کی رائے میں ذرّہ برابر بھی کوئی کمزور پہلو ہو تو وہ بڑے دوررس نتائج پیدا کر سکتا ہے۔ قریب کے زمانے میں سنّت کے متعلق عدلیہ کی بعض دوسری بلند پایہ شخصیتوں کے ایسے ریمارک بھی سامنے آئے ہیں جو صحیح علمی نقطۂ نظر سے مطابقت نہیں رکھتے۔ اس لیے میں چاہتا ہوں کہ جو باتیں میں نے اس تبصرے میں عرض کی ہیں انھیں فاضل مکتوب نگار ہی نہیں ہمارے دوسرے حکام عدالت بھی اسی بے لاگ نگاہ سے ملاحظہ فرمائیں جس کی ہم اپنی عدلیہ سے توقع رکھتے ہیں۔(ترجمان القرآن۔ دسمبر۱۹۵۸ئ)
٭…٭…٭…٭…٭

شیئر کریں