Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

عرضِ ناشر
اسلام کی ابتدا (بچوں کے پروگرام میں)
سرورِ عالم ﷺ
میلادُ النبیؐ
سرورِ عالم ﷺ کا اصلی کارنامہ
معراج کی رات
معراج کا پیغام
معراج کا سفرنامہ
شب برأت
روزہ اور ضبطِ نفس
عید قربان
قربانی
پاکستان کو ایک مذہبی ریاست ہونا چاہیے
زندگی بعد موت

نشری تقریریں

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

سرورِ عالم ﷺ کا اصلی کارنامہ

دنیا جانتی ہے کہ نبی عربی صلی اللہ علیہ وسلم انسانیت کے اس برگزیدہ گروہ سے تعلق رکھتے ہیں جو قدیم ترین زمانہ سے نوعِ انسانی کو خدا پرستی اور حسنِ اخلاق کی تعلیم دینے کے لیے اٹھتا ہے۔ ایک خدا کی بندگی اور پاکیزہ اخلاقی زندگی کا درس جو ہمیشہ سے دنیا کے پیغمبر، رِشی ]خدا پرست[ اور مُنی ]زاہد[ دیتے رہے ہیں وہی آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی دیا ہے۔ انھوں نے کسی نئے خدا کا تصور پیش نہیں کیا ہے اور نہ کسی نرالے اخلاق ہی کا سبق دیا ہے جو ان سے پہلے کے رہبرانِ انسانیت کی تعلیم سے مختلف ہو۔ پھر سوال یہ ہے کہ ان کا وہ اصلی کارنامہ کیا ہے جس کی بنا پر ہم انھیں تاریخِ انسانی کا سب سے بڑا آدمی قرار دیتے ہیں۔
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ بے شک آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے انسان خدا کی ہستی اور اس کی وحدانیت سے آشنا تھا، مگر اس بات سے پوری طرح واقف نہ تھا کہ اس فلسفیانہ حقیقت کا انسانی اخلاقیات سے کیا تعلق ہے۔ بلاشبہ انسان کو اخلاق کے عمدہ اصولوں سے آگاہی حاصل تھی، مگر اسے واضح طور پر یہ معلوم نہیں تھا کہ زندگی کے مختلف گوشوں اور پہلوئوں میں ان اخلاقی اصولوں کی عملی ترجمانی کس طرح ہونی چاہیے۔ خدا پر ایمان، اصولِ اخلاق اور عملی زندگی، یہ تین الگ الگ چیزیں تھیں جن کے درمیان کوئی منطقی ربط، کوئی گہرا تعلق اور کوئی نتیجہ خیز رشتہ موجود نہ تھا۔ یہ صرف محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جنھوں نے ان تینوں کو ملا کر ایک نظام میں سمو دیا اور ان کے امتزاج سے ایک مکمل تہذیب و تمدن کانقشہ محض خیال کی دنیا ہی میں نہیں بلکہ عمل کی دنیا میں بھی قائم کرکے دکھایادیا۔
انھوں نے بتایا کہ خدا پر ایمان محض ایک فلسفیانہ حقیقت کے مان لینے کا نام نہیں ہے بلکہ اس ایمان کا مزاج اپنی عین فطرت کے لحاظ سے ایک خاص قسم کے اخلاق کا تقاضا کرتا ہے اور اس اخلاق کا ظہور انسان کی عملی زندگی کے پورے رویہ میں ہونا چاہیے۔ ایمان ایک تخم ہے جو نفسِ انسانی میں جڑ پکڑتے ہی اپنی فطرت کے مطابق عملی زندگی کے ایک پورے درخت کی تخلیق شروع کر دیتا ہے اور اس درخت کے تنے سے لے کر اس کی شاخ شاخ اور پتی پتی تک میں اخلاق کا وہ جیون رَس جاری و ساری ہو جاتا ہے جس کی سوتیں تخم کے ریشوں سے ابلتی ہیں۔ جس طرح یہ ممکن نہیں ہے کہ زمین میں بوئی تو جائے آم کی گٹھلی اور اس سے نکل آئے لیموں کا درخت، اسی طرح یہ بھی ممکن نہیں ہے کہ دل میں بویا تو گیا ہو خدا پرستی کا بیج اور اس سے رونما ہو جائے ایک مادّہ پرستانہ زندگی جس کی رگ رگ میں بداخلاقی کی روح سرایت کیے ہوئے ہو۔ خدا پرستی سے پیدا ہونے والے اخلاق اور شرک، دہریت یا رہبانیت سے پیدا ہونے والے اخلاق یکساں نہیں ہو سکتے۔ زندگی کے یہ سب نظریے اپنا الگ الگ مزاج رکھتے ہیں اور ہر ایک کا مزاج دوسرے سے مختلف قسم کے اخلاقیات کا تقاضا کرتا ہے۔ پھر جو اخلاق خدا پرستی سے پیدا ہوتے ہیں وہ صرف ایک خاص عابد و زاہد کے گروہ کے لیے مخصوص نہیں ہیں کہ صرف خانقاہ کی چار دیواری اور عزلت کے گوشے ہی میں ان کا ظہور ہو سکے۔ ان کا اطلاق وسیع پیمانے پر پوری انسانی زندگی اور اس کے ہر ہر پہلو میں ہونا چاہیے۔ اگر ایک تاجر خدا پرست ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ اس کی تجارت میں اس کا خدا پرستانہ اخلاق ظاہر نہ ہو۔ اگر ایک جج خدا پرست ہے تو عدالت کی کرسی پر، اور ایک پولیس مین خدا پرست ہے تو پولیس پوسٹ پر اس سے غیر خدا پرستانہ اخلاق ظاہر نہیں ہو سکتے۔ اسی طرح اگر کوئی قوم خدا پرست ہے تو اس کی شہری زندگی میں، اس کے انتظام ملکی میں، اس کی خارجی سیاست میں، اور اس کی صلح و جنگ میں خدا پرستانہ اخلاق کی نمود ہونی چاہیے۔ ورنہ اس کا ایمان باللہ محض ایک لفظ بے معنی ہے۔
اب رہی یہ بات کہ خدا پرستی کس قسم کے اخلاق کا تقاضا کرتی ہے اور اُن اخلاقیات کا ظہور کس طرح انسان کی عملی زندگی میں، اور انفرادی و اجتماعی رویہ میں ہونا چاہیے، تو یہ ایک وسیع مضمون ہے جسے ایک مختصر گفتگو میں سمیٹنا مشکل ہے۔ مگر مَیں نمونے کے طور پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چند ارشادات آپ کو سنائوں گا، جن سے آپ کو اندازہ ہو گا کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مرتب کیے ہوئے نظامِ زندگی میں ایمان، اخلاق اور عمل کا امتزاج کس نوعیت کا ہے۔ سنیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
الایمان بضع وسبعون شعبۃ افضلھا قول لا الٰہ الا اللّٰہ و ادناھا امامۃ الاذٰی عن الطریق والحیاء شعبۃ من الایمان۔
’’ایمان کے بہت سے شعبے ہیں۔ اس کی جڑ یہ ہے کہ تم خدا کے سوا کسی کو معبود نہ مانو۔ اور اس کی آخری شاخ یہ ہے کہ راستے میں اگر تم کوئی ایسی چیز دیکھو جو بندگانِ خدا کو تکلیف دینے والی ہو تو اُسے ہٹا دو۔ اور حیا بھی ایمان ہی کا ایک شعبہ ہے۔‘‘
الطھور شطر الایمان۔
جسم و لباس کی پاکیزگی آدھا ایمان ہے۔
المؤمن من امنہ الناس علٰی دمائھم واموالھم۔
’’مومن وہ ہے جس سے لوگوں کو اپنے جان و مال کا کوئی خطرہ نہ ہو۔‘‘
لا ایمان لمن لا امانۃ لہ ولا دین لمن لا عہد لہٗ۔
اس شخص میں ایمان نہیں جس میں امانت داری نہیں اور وہ شخص بے دین ہے، جو عہد کا پابند نہیں۔
اذا سرّتک حَسَنَتُک وسا تک سیّئتک فانت مؤمن۔
جب نیکی کرکے تجھے خوشی ہو اور بُرائی کرکے تجھے پچھتاوا ہو تو تُو مومن ہے۔‘‘
الایمان الصبر والسماحۃ۔
’’ایمان، تحمل اور فراخ دلی کا نام ہے۔‘‘
افضل الایمان ان تحبَّ لِلّٰہ وتبغض لِلّٰہ وتعمل لسانک فی ذکر اللّٰہ وان تحب للناس ماتحب لنفسک وتکرہ لھم ماتکرہ لنفسک۔
’’بہترین ایمانی حالت یہ ہے کہ تیری دوستی اور دشمنی خدا واسطے کی ہو، تیری زبان پرخدا کا نام جاری ہو، اور تو دوسروں کے لیے وہی کچھ پسند کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے اور ان کے لیے وہی کچھ ناپسند کرے جو اپنے لیے ناپسند کرتا ہے۔‘‘
اکمل المؤمن ایمانًا احسنھم خلقًا والطفھم باھلہٖ۔
’’تم میں سب سے زیادہ کامل ایمان اس شخص کا ہے جس کے اخلاق سب سے اچھے ہیں اور جو اپنے گھر والوں کے ساتھ حُسنِ سلوک میں سب سے بڑھا ہوا ہے۔‘‘
من کان یؤمن باللّٰہ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ فلیکرم ضیفَہٗ ومن کان یؤمن باللّٰہ والیوم الاٰخر فلا یوذ جَارہٗ ومن کان یُومِنَ باللّٰہ وَالیوم الاٰخرِ فَلْیَقُل خیرًا اولیصمت۔
’’جو شخص خدا اور آخرت پر ایمان رکھتا ہو اسے اپنے مہمان کی عزت کرنی چاہیے، اپنے ہم سائے کو تکلیف نہ دینی چاہیے۔ اور اس کی زبان کھلے تو بھلائی پر کھلے ورنہ چپ رہے۔‘‘
لیس المؤمن بالطعان ولا باللعان ولا الفاحش ولا البذی۔
’’مومن کبھی طعنے دینے والا، لعنت کرنے والا، بدگو اور زبان دراز نہیں ہوا کرتا۔‘‘
یطبع المؤمن علی الخصال کلھا الا الخیانۃ والکذب۔
مومن سب کچھ ہو سکتا ہے مگر جھوٹا اور خائن نہیں ہو سکتا۔
واللّٰہ لایومن واللّٰہ لا یؤمن واللّٰہ لا یؤمن الذی لا یأمن جارہٗ بوائقہ۔
’’خدا کی قسم وہ مومن نہیں ہے، خدا کی قسم وہ مومن نہیں ہے، خدا کی قسم وہ مومن نہیں ہے جس کی بدی سے اس کا ہمسایہ امن میں نہ ہو۔‘‘
لیس المؤمن بالذی یشبع وجارہ جائع الٰی جنبہٖ۔
’’جو شخص خود پیٹ بھر کھالے اور اس کے پہلو میں اس کا ہم سایہ بھوکا رہ جائے وہ ایمان نہیں رکھتا۔‘‘
من کظم غیظًا وھو یقدر وعلٰی ان ینفذہ ملاُ اللّٰہ قلبہٗ امنًا وایمانًا۔
’’جو شخص اپنا غصہ نکال لینے کی طاقت رکھتا ہو اور پھر ضبط کر جائے اس کے دل کو خدا ایمان اور اطمینان سے لبریز کر دیتا ہے۔‘‘
من مشی مع ظالم لیقویہ وھو یعلم انہ ظالم فقد خرج من الاسلام۔
’’جو شخص کسی ظالم کو ظالم جانتے ہوئے اس کا ساتھ دے وہ اسلام سے نکل گیا۔‘‘
من صلّٰی یُرائی فقد اشرک ومن صام یُرائی فقد اشرک و من تصدق یرائی فقد اشرک۔
’’جس نے لوگوں کو دکھانے کے لیے نماز پڑھی اُس نے شرک کیا۔ جس نے لوگوں کو دکھانے کے لیے روزہ رکھا اس نے شرک کیا۔ اور جس نے لوگوں کو دکھانے کے لیے خیرات کی اس نے شرک کیا۔‘‘
اربع من کن فیہ کان منافقا خالصًا۔ اِذا ئتمن خان و اذا حدث کذب واذا عاھد غدر واذا خاصم فجر۔
’’چار صفات ایسی ہیں کہ جس میں پائی جائیں وہ خالص منافق ہے۔ امین بنایا جائے تو خیانت کرے۔ بولے تو جھوٹ بولے۔ عہد کرے تو اسے توڑ دے اور لڑے تو شرافت کی حد سے گزر جائے۔‘‘
عدلت الشھادۃ الزور بالاشراک باللّٰہ۔
’’جھوٹی گواہی اتنا بڑا گناہ ہے کہ شرک کے قریب جا پہنچتا ہے۔‘‘
المجاھد من جاھد نفسہ فی طاعۃ اللّٰہ والمھاجر من ھجر مانھی اللّٰہ۔
’’اصلی مجاہد وہ ہے جو خدا کی فرماں برداری میں خود اپنے نفس سے لڑے اور اصلی مہاجر وہ ہے جو ان کاموں کو چھوڑے جنھیں خدا نے منع فرمایا ہے۔‘‘
اتدرون من السابقون الٰی ظل اللّٰہ عزوجل یوم القیمۃ قالوا اللّٰہ ورسولہ اعلم۔ قال الذین اذا عطرالحق قبلوہ واذا سئلوہ بذلرہ وحکموا للناس کحکمھم لانفسھم۔
’’جانتے ہو کہ قیامت کے دن خدا کے سائے میں سب سے پہلے جگہ پانے لوگ والے کون ہوں گے؟ وہ جن کا حال یہ رہا کہ جب بھی حق ان کے سامنے پیش کیا گیا تو انھوں نے مان لیا، اور جب بھی حق ان سے مانگا گیا تو انھوں نے کھلے دل سے دیا، اور دوسروں کے معاملہ میں انھوں نے فیصلہ کیا جو وہ خود اپنے معاملے میں چاہتے تھے۔‘‘
اضمنو الی ستاً من انفسکم اضمن لکم الجنۃ اصدقوا اذا حدثتم واوفوا اذا وعدتم وادو اذا تمنتم واحفظوا فروجکم وغضوا ابصارکم وکفوا ایدیکم۔
’’تم چھے باتوں کی مجھے ضمانت دو میں جنت کی تمھیں ضمانت دیتا ہو۔ بولو تو سچ بولو، وعدہ کرو تو وفا کرو، امانت میں پورے اترو، بدکاری سے پرہیز کرو، بد نظر سے بچو اور ظلم سے ہاتھ روکو۔‘‘
لا یدخل الجنۃ حب ولا بخیل ولا منان۔
’’دھوکا باز اور بخیل اور احسان جتانے والا آدمی جنت میں نہیں جا سکتا۔‘‘
لایدخل الجنۃ لحم نبت من السحت وکل لحم نبت من السحت فالنار اولٰی بہٖ۔
’’جنت میں وہ گوشت نہیں جا سکتا جو حرام کے لقموں سے بنا ہو۔ حرام خوری سے پلے ہوئے جسم کے لیے تو آگ ہی زیادہ موزوں ہے۔‘‘
من باع عیبًا لم ینبہ لم یزل فی مقت اللّٰہ ولم تزل الملئکۃ تلعنہ۔
’’جس شخص نے عیب دار چیز بیچی اور خریدار کو عیب سے آگاہ نہ کیا اس پرخدا کا غصہ بھڑکتا رہتا ہے اور فرشتے اس پر لعنت بھیجتے رہتے ہیں۔‘‘
لو ان رجلًا قتل فی سبیل اللّٰہ ثم عاش ثم قتل فی سبیل اللّٰہ ثم عاش ثم قتل فی سبیل اللّٰہ ثم عاش وعلیہ دین مادخل الجنۃ حتی یقضٰی دینہ۔
’’کوئی شخص خواہ کتنی ہی بار زندگی پائے اور خدا کی راہ میں جہاد کرکے جان دیتا رہے مگر وہ جنت میں نہیں جا سکتا اگر اس پر قرض ہو اور وہ ادا نہ کیا گیا ہو۔‘‘
ان الرجل لیعمل والمرأۃ بطاعۃ اللّٰہ ستین سنۃ ثم یحضرھما الموت فیضار ان فی الوصیۃ فتجب لھما النار۔
’’ایک شخص ۶۰ برس خدا کی عبادت کرتا ہے اور مرتے وقت ایک وصیت میں حق دار کی حق تلفی کرکے اپنے آپ کو دوزخ کا مستحق بنا لیتا ہے۔‘‘
لا یدخل الجنۃ سیی الملکہ۔
’’وہ شخص جنت میں داخل نہ ہو گا جو اپنے ماتحتوں پر بُری طرح افسری کرے۔‘‘
الا اخبرکم بافضل من درجۃ الصیام والصدقۃ والصلٰوۃ اصلاح ذات البین وافساد ذات البین ھی الحالقہ۔
’’میں تمھیں بتائوں کہ روزے اور خیرات اور نماز سے بھی افضل کیا چیز ہے؟ وہ ہے بگاڑ میں صلح کرانا۔ اور لوگوں کے باہمی تعلقات میں فساد ڈالنا وہ فعل ہے جو آدمی کی ساری نیکیوں پر پانی پھیر دیتا ہے۔‘‘
ان المفلس من امتی من یاتی یوم القیمۃ بصلوۃ وصیام وزکٰوۃ ویاتی قد شتم ھذا اوقذف ھذا واکل مال ھذا وسفک دم ھذا وضرب ھذا فیعطی ھذا من حسناتہ وھٰذا من حسناتہ فان فنیت حسناتہ قبل ان یقضٰی ماعلیہ اخذ من خطا یاھم فطرحت علیہ ثم طرح فی النار۔
’’اصل مفلس وہ ہے جو قیامت کے دن خدا کے حضور اس حال میں حاضر ہوا کہ اس کے ساتھ نماز، روزہ، زکوٰۃ سب ہی کچھ تھا، مگر اس کے ساتھ وہ کسی کو گالی دے کر آیا تھا، کسی پر بہتان لگا کر آیا تھا، کسی کا مال کھایا تھا، کسی کا خون بہایا تھا اور کسی کو پیٹ کر آیا تھا۔ پھر خدا نے اس کی ایک ایک نیکی ان مظلوموں پر بانٹ دی اور جب اس سے بھی حساب چکتا نہ ہوا تو ان کے گناہ لے کر اس پر ڈال دیے اور اسے دوزخ میں جھونک دیا۔‘‘
لن یھلک الناس حتٰی یعذرو امن انفسھم۔
’’لوگ کبھی نجات سے محروم نہ ہوں اگر اپنی برائیوں کی تاویلیں کرکے اپنے نفس کو بُرائیوں پر مطمئن نہ کرتے رہیں۔‘‘
المحتکر ملعون۔
’’جو تاجر قیمتیں چڑھانے کے لیے مال روک رکھے وہ ملعون ہے۔‘‘
من احتکر طعامًا اربعین یوما یرید بہ الغلاء فقد بری من اللّٰہ وبری اللّٰہ منہ۔
’’جس نے چالیس دن غلہ اس نیت سے روک رکھا کہ قیمتیں چڑھ جائیں تو خدا اس سے اور اس کا خدا سے کوئی تعلق نہیں۔‘‘
من احتکر طعامًا اربعین یومًا ثم تصدق بہ لم یکن لہ کفارۃ۔
’’چالیس دن غلہ روکنے کے بعد اگر آدمی اس غلہ کو خیرات بھی کر دے تو معاف نہ کیا جائے گا۔‘‘
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بہت سے اقوال میں سے یہ چند ہیں جو میں نے محض نمونے کے طور پر آپ کے سامنے پیش کیے ہیں۔ ان سے آپ کو اندازہ ہو گا کہ حضورؐ نے ایمان سے اخلاق اور اخلاق سے زندگی کے تمام شعبوں کا تعلق کس طرح قائم کیا ہے۔ تاریخ کا مطالعہ کرنے والے جانتے ہیں کہ آپؐ نے ان باتوں کو صرف باتوں کی حد تک ہی نہ رکھا بلکہ عمل کی دنیا میں ایک پورے ملک کے نظامِ تمدن و سیاست کو انھی بنیادوں پر قائم کرکے دکھا دیا، اور آپؐ کا یہی وہ کارنامہ ہے جس کی بنا پر آپ نوعِ انسانی کے سب سے بڑے راہ نما ہیں۔

شیئر کریں