ہم مسلمان حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ’’سرورِ عالمؐ‘‘ کہتے ہیں۔ سیدھی سادی زبان میں اس کا مطلب ہے ’’دنیا کا سردار۔‘‘ ہندی میں اس کا ترجمہ ’’جگت گرو‘‘ ہوگا۔ اور انگریزی میں (leader of the world)بظاہر یہ بہت بڑا خطاب ہے، مگر جس بلند پایہ ہستی کو یہ خطاب دیا گیا ہے، اس کا کارنامہ واقعی ایسا ہے کہ اس کو سرور عالمؐ کہنا مبالغہ نہیں عین حقیقت ہے۔
دیکھئے، کسی شخص کو دنیا کا لیڈر کہنے کے لیے سب سے پہلی شرط یہ ہونی چاہئے کہ اس نے کسی خاص قوم یا نسل یا طبقہ کی بھلائی کے لیے نہیں بلکہ تمام دنیا کے انسانوں کی بھلائی کے لیے کام کیا ہو۔ ایک محب وطن یا ایک قوم پرست لیڈر کی آپ اس حیثیت سے جتنی چاہیں قدر کرلیں کہ اس نے اپنے لوگوں کی بڑی خدمت کی، لیکن اگر آپ اس کے ہم وطن یا ہم قوم نہیں ہیں تو وہ آپ کا لیڈر بہرحال نہیں ہوسکتا۔ جس شخص کی محبت، خیر خواہی اور کارگزاری سب کچھ چین یا ہسپانیہ تک محدود ہو، ایک ہندوستانی کو اس سے کیا تعلق کہ وہ اسے اپنا لیڈر مانے؟ بلکہ اگر وہ اپنی قوم کو دوسروں سے افضل ٹھیراتا ہو اور دوسروں کو گرا کر اپنی قوم کو چڑھانا چاہتا ہو تب تو دوسری قوموں کے لوگ الٹی اس سے نفرت کرنے پر مجبور ہیں۔ ساری قوموں کے انسان کسی ایک شخص کو اپنا لیڈر صرف اسی صورت میں مان سکتے ہیں جب کہ اس کی نگاہ میں سب قومیں اور سب آدمی یکساں ہوں، وہ سب کا یکساں خیر خواہ ہو اور اپنی خیر خواہی میں کسی طرح ایک کو دوسرے پر ترجیح نہ دے۔
دوسری اہم شرط جو دنیا کا لیڈر ہونے کے لیے ضروری ہے وہ یہ ہے کہ اس نے ایسے اصول پیش کیے ہوں جو دنیا کے انسانوں کی رہنمائی کرتے ہوں اور جن میں انسانی زندگی کے تمام اہم مسائل کا حل موجود ہو۔ لیڈر کے معنی ہی رہنما کے ہیں۔ لیڈر کی ضرورت ہوتی ہی اس لیے ہے کہ وہ فلاح اور بہتری کا راستہ بتائے۔ لہٰذا دنیا کا لیڈر وہی ہو سکتا ہے جو ساری دنیا کے انسانوں کو ایسا طریقہ بتائے جس میں سب کی فلاح ہو۔
تیسری لازمی شرط دنیا کا لیڈر ہونے کے لیے یہ ہے کہ اس کی رہنمائی کسی خاص زمانے کے لیے نہ ہو بلکہ ہر زمانے اور ہر حال میں یکساں مفید، یکساں صحیح اور یکساں قابل پیروی ہو۔ جس لیڈر کی رہنمائی ایک زمانہ میں کار آمد اور دوسرے زمانہ میں بیکار ہو اس کو دنیا کا لیڈر نہیں کہا جاسکتا۔ دنیا کا لیڈر تو وہی ہے کہ دنیا جب تک قائم رہے اس کی رہنمائی بھی کارآمد ہے۔
چوتھی اہم ترین شرط یہ ہے کہ اس نے صرف اصول پیش کرنے ہی پر اکتفا نہ کی ہو بلکہ اپنے پیش کردہ اصولوں کو زندگی میں عملاً جاری کرکے دکھایا ہو اور ان کی بنیاد پر ایک جیتی جاگتی سوسائٹی پیدا کر دی ہو۔ محض اصول پیش کرنے والا زیادہ سے زیادہ ایک مفکر (thinker) ہوسکتا ہے، لیڈر نہیں ہوسکتا۔ لیڈر ہونے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی اپنے اصولوں کو عمل میں لاکر دکھائے۔
آئیے اب ہم دیکھیں کہ چاروں شرطیں اس ہستی میں کہاں تک پائی جاتی ہیں جس کو ہم ’’سرورِ عالم‘‘ کہتے ہیں۔
پہلی شرط کو پہلے لیجئے۔ آپ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا مطالعہ کریں تو ایک ہی نظر میں محسوس کریں گے کہ یہ کسی قوم پرست یا محب طن کی زندگی نہیں ہے بلکہ ایک محب انسانیت اور ایک عالمگیر نظریہ رکھنے والے انسان کی زندگی ہے۔ ان کی نگاہ میں تمام انسان یکساں تھے۔ کسی خاندان، کسی طبقے، کسی قوم، کسی نسل یا کسی ملک کے خاص مفاد سے انہیں دلچسپی نہ تھی۔ امیر اور غریب، اونچ اور نیچ، کالے اور گورے، عرب اور غیر عرب، مشرق اور مغربی، سامی اور آرین، سب کو وہ اس حیثیت سے دیکھتے تھے کہ یہ سب ایک ہی انسانی نسل کے افراد ہیں۔ ان کی زبان سے تمام عمر کوئی ایک لفظ یا ایک فقرہ بھی ایسا نہ نکلا، اور نہ زندگی بھر میں کوئی کام انہوں نے ایسا کیا جس سے یہ شبہ کیا جاسکتا ہو کہ انہیں ایک طبقۂ انسانی کے مفاد سے زیادہ تعلق تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی زندگی ہی میں حبشی، ایرانی، رومی، مصری اور اسرائیلی، اسی طرح ان کے رفیق کار بنے جس طرح عرب۔ اور ان کے بعد زمین کے ہر گوشے میں ہر نسل اور ہر قوم کے انسانوں نے ان کو اسی طرح اپنا رہنما تسلیم کیا جس طرح خود اپنی قوم نے۔ یہ اسی خالص انسانیت ہی کا کرشمہ تو ہے کہ آج آپ ایک ہندوستانی کی زبان۱؎ سے اس شخص کی تعریف سن رہے ہیں جو صدیوں پہلے عرب میں پیدا ہوا تھا۔
اب دوسری اورتیسری شرط کو ایک ساتھ لیجئے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے مخصوص قوموں اور مخصوص ملکوں کے وقتی اور مقامی مسائل سے بحث کرنے میں اپنا وقت ضائع نہیں کیا بلکہ اپنی پوری قوت دنیا میں انسانیت کے اس بڑے مسئلے کو حل کرنے میں صرف کر دی جس سے تمام انسانوں کے ساتھ چھوٹے چھوٹے مسائل خود حل ہو جاتے ہیں۔ وہ بڑا مسئلہ کیا ہے؟ وہ صرف یہ ہے کہ:
’’کائنات کا نظام فی الواقع جس اصول پر قائم ہے، انسان کی زندگی کا نظام بھی اسی کے مطابق ہو۔ کیونکہ انسان اس کائنات کا ایک جز ہے اور جز کی حرکت کا کل کے خلاف ہونا ہی خرابی کا موجب ہے۔‘‘
اگر آپ اس بات کو سمجھنا چاہتے ہیں تو اس کی آسان صورت یہ ہے کہ اپنی نگاہ کو ذرا کوشش کرکے زمان اور مکان کی قیود سے آزاد کر لیجئے اور پورے کرہ زمین پر اس طرح نظر ڈالیے کہ ابتدا سے آج تک اور آئندہ غیر محدود زمانہ تک بسنے والے تمام انسان بہ یک وقت آپ کے سامنے ہوں۔ پھر دیکھئے کہ انسان کی زندگی میں خرابی کی جتنی صورتیں پیدا ہوئی ہیں یا ہونی ممکن ہیں ان سب کی جڑ کیا ہے یا کیا ہوسکتی ہے۔ اس سوال پر آپ جتنا غور کریں گے، جتنی چھان بین اور تحقیق کریں گے، حاصل یہی نکلے گا کہ:
’’انسان کی خدا سے بغاوت تمام خرابیوں کی جڑ ہے۔‘‘
اس لیے کہ خدا سے باغی ہو کر انسان لازمی طور پر دو صورتوں میں سے کوئی ایک ہی صورت اختیار کرتا ہے: یا تو وہ اپنے آپ کو خود مختار اور غیر ذمہ دار سمجھ کر من مانی کارروائیاں کرنے لگتا ہے اور یہ چیز اسے ظالم بنا دیتی ہے۔ یا پھر وہ خدا کے سوا دوسروں کے حکم کے آگے سر جھکانے لگتا ہے اور اس سے دنیا میں فساد کی بے شمار صورتیں پیدا ہوتی ہیں۔ اب یہ سوچنے کی بات ہے کہ خدا سے بے پروا ہو کر یہ خرابیاں کیوں پیدا ہوتی ہیں؟ اس کا سیدھا اور صاف جواب یہ ہے کہ ایسا کرنا چونکہ حقیقت کے خلاف ہے اس لیے اس کا نتیجہ برا نکلتا ہے۔ یہ ساری کائنات فی الواقع خدا کی سلطنت ہے۔ زمین، سورج، چاند، ہوا، پانی، روشنی، سب خدا کی ملک ہیں اور انسان اس سلطنت میں پیدائشی بندے کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ پوری سلطنت جس نظام پر چل رہی ہے، اگر انسان اس کا ایک جزہونے کے باوجود اس سے مختلف رویہ اختیار کرے تو لامحالہ اس کا ایسا رویہ تباہ کن نتائج ہی پیدا کرے گا۔ اس کا یہ سمجھنا کہ مجھ سے اوپر کوئی مقتدرِ اعلیٰ نہیں ہے جس کے سامنے میں جوابدہ ہوں… واقعہ کے خلاف ہے۔ اس لیے جب وہ خود مختار بن کر غیر ذمہ دارانہ طریقہ پر کام کرتا ہے اور اپنا قانون زندگی آپ سے تجویز کرتا ہے تو نتیجہ برا نکلتا ہے۔ اسی طرح اس کا خدا کے سوا کسی اور کو صاحب اختیار و اقتدار ماننا اور اس سے خوف یا لالچ رکھنا اور اس کی آقائی کے آگے جھک جانا بھی حقیقت کے خلاف ہے، کیونکہ فی الحقیقت اس پوری کائنات میں خدا کے سوا کوئی بھی یہ حیثیت نہیں رکھتا۔ لہٰذا اس کا نتیجہ بھی برا ہی نکلتا ہے۔ صحیح نتیجہ برآمد ہونے کی صورت اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ زمین و آسمان میں جو حقیقی حکومت ہے، انسان اس کے سامنے سر جھکا دے، اپنی خودی و خود سری کو اس کے آگے تسلیم کر دے، اپنی اطاعت اور بندگی کو اس کے لیے خالص کر دے، اور اپنی زندگی کا ضابطہ و قانون خود بنانے یا دوسروں سے لینے کے بجائے اس سے لے۔
یہ بنیادی اصلاح کی تجویز ہے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانی زندگی کے لیے پیش کی ہے، یہ مشرق اور مغرب کی قید سے آزاد ہے۔ روئے زمین میں جہاں جہاں انسان آباد ہیں، یہی ایک اصلاحی تجویز ان کی زندگی کی بگڑی ہوئی کل کو درست کر سکتی ہے۔ اور یہ ماضی و مستقبل کی قید سے بھی آزاد ہے۔ ڈیڑھ ہزار برس پہلے یہ جتنی صحیح و کارگر تھی اتنی ہی آج بھی ہے اور اتنی ہی دس ہزار برس بعد بھی ہوگی۔
اب آخری شرط باقی رہ جاتی ہے۔ یہ تاریخی حقیقت ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف خیالی نقشہ ہی پیش نہیں کیا بلکہ اس نقشہ پر ایک زندہ سوسائٹی پیدا کرکے دکھا دی۔ انہوں نے ۲۳ سال کی مختصر مدت میں لاکھوں انسانوں کو خدا کی حکومت کے آگے سراطاعت جھکانے پر آمادہ کرلیا۔ ان سے خود پرستی بھی چھڑوائی اور خدا کے سوا دوسروں کی بندگی بھی۔ پھر ان کو جمع کرکے خالص خدا کی بندگی پر ایک نیا نظام اخلاق، نیا نظام تمدن، نیا نظام معیشت اور نیا نظام حکومت بنایا اور تمام دنیا کے سامنے بات کا عملی مظاہرہ کر دیا کہ جو اصول وہ پیش کر رہے ہیں اس پر کیسی زندگی بنتی ہے اور دوسرے اصولوں کی زندگی کے مقابلہ میں وہ کتنی اچھی، کتنی پاکیزہ اور کتنی صالح ہے۔
یہ وہ کارنامہ ہے جس کی بنا پر ہم محمدﷺ کو سرور عالم یا سارے جہان کا لیڈر کہتے ہیں۔ ان کا یہ کام کسی خاص قوم کے لئے نہ تھا بلکہ تمام انسانوں کے لئے تھا۔ یہ انسانیت کی مشترک میراث ہے جس پر کسی کا حق کسی دوسرے سے کم یا زیادہ نہیں ہے۔ جو چاہے اس میراث سے فائدہ اٹھائے، میں نہیں سمجھتا کہ اس کے خلاف کسی کو تعصب رکھنے کی آخر کیا وجہ ہوسکتی ہے۔
۱۰، اپریل ۱۹۴۱ء