Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

انسان کا معاشی مسئلہ اور اس کا اسلامی حل
جُز پرستی کا فتنہ
اصل معاشی مسئلہ
معاشی انتظام کی خرابی کا اصل سبب
نفس پرستی اور تعیش
سرمایہ پرستی
نظامِ محاربہ
چند سری نظام
اِشتراکیت کا تجویز کردہ حل
نیا طبقہ
نظامِ جبر
شخصیت کا قتل
فاشزم کا حل
اسلام کا حل
بنیادی اصول
حصولِ دولت
حقوقِ ملکیت
اصولِ صَرف
سرمایہ پرستی کا استیصال
تقسیم ِ دولت اور کفالتِ عامہ
سوچنے کی بات

انسان کا معاشی مسئلہ اور اس کا اسلامی حل

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

سرمایہ پرستی

یہ تو شیطانی رہنمائی کے ایک حصے کا نتیجہ تھا۔دوسری رہنمائی کے نتائج اس سے بھی زیادہ خراب نکلے۔ یہ اصول کہ اپنی اصلی ضرورت سے زائد جو وسائل معیشت کسی انسان کے قبضے میں آگئے ہوں، ان کو وہ جمع کرتا چلا جائے اور پھر مزید وسائل معیشت حاصل کرنے کے لیے استعمال کرے، اول تو بداہتاً غلط ہے۔ ظاہر ہے کہ خدا نے معیشت کے اسباب جو زمین پر پیدا کیے ہیں یہ مخلوق کی حقیقی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے پیدا کیے ہیں۔ تمھارے پاس خوش قسمتی سے اگر کچھ زیادہ اسباب آگئے ہیں تو یہ دوسروں کا حصہ تھا جو تم تک پہنچ گیا۔ اسے جمع کرنے کہاں چلے ہو؟ اپنے گرد و پیش دیکھو۔ جو لوگ سامانِ زیست میں سے اپنا حصہ حاصل کرنے کے قابل نظر نہیں آتے، یا اسے حاصل کرنے میں ناکام رہ گئے ہیں، یا جنھوں نے اپنی ضرورت سے کم پایا ہے، سمجھ لو کہ یہی وہ لوگ ہیں جن کا حصہ تمھارے پاس پہنچا ہے۔ وہ حاصل نہیں کرسکتے تو تم ان تک پہنچا دو ۔ یہ صحیح کام کرنے کے بجائے اگر تم ان اسباب کو اور زیادہ اسبابِ معاش حاصل کرنے کے لیے استعمال کرو گے تو یہ غلط کام ہو گا، کیوں کہ بہرحال وہ مزید اسباب جو تم حاصل کرو گےتمھاری ضرورت سے اور بھی زیادہ ہوں گے۔ پھر ان کے حصول کی کوشش بجز اس کے کہ تمھاری حرص و ہوس کی تسکین کا ذریعہ ہو اور کیا مفید پہلو رکھتی ہے؟ حصولِ معاش کی سعی میں تم اپنے وقت، محنت اور قابلیت کا جتنا حصہ اپنی ضروریات زندگی فراہم کرنے کے لیے صرف کرتے ہو وہ تو صحیح اور معقول مصرف میں صرف ہوتا ہے ، مگر اس واقعی ضرورت سے زائد ان چیزوں کو اس کام میں صرف کرنے کے معنی یہ ہیں کہ تم معاشی حیوان بلکہ دولت پیدا کرنے کی مشین بن رہے ہو۔ حالانکہ تمھارے وقت و محنت اور ذہنی و جسمانی قوتوں کے لیے کسبِ معاش کے سوا اور زیادہ بہتر مصرف بھی ہیں۔ پس عقل اور فطرت کے لحاظ سے یہ اصول ہی سرے سے غلط ہے جو شیطان نے اپنے شاگردوں کو سکھایا ہے ۔ لیکن اس اصول پر جو عملی طریقے بنے ہیں، وہ تو اس قدر قابلِ لعنت اور ان کے نتائج اتنے ہولناک ہیں کہ ان کا صحیح تخمینہ بھی مشکل ہے۔
زائد از ضرورت وسائل معیشت کو مزید وسائل قبضے میں لانے کے لیے استعمال کرنے کی دو صورتیں ہیں:
ایک یہ کہ ان وسائل کو سود پر قرض دیا جائے۔
دوسرے یہ کہ انھیں تجارتی اور صنعتی کاموں میں لگایا جائے۔
یہ دونوں طریقے اپنی نوعیت میں کچھ ایک دوسرے سے مختلف ضرور ہیں، لیکن دونوں کے مشترک عمل کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ سوسائٹی دو طبقوں میں تقسیم ہو جاتی ہے۔ ایک وہ قلیل طبقہ جو اپنی ضرورت سے زیادہ وسائلِ معاش رکھتا ہے اور اپنے وسائل کو مزید وسائل کھینچنے کے لیے وقف کر دیتا ہے۔ دوسرا وہ کثیر طبقہ جو اپنی ضرورت کے مطابق یا اس سے کم وسائل رکھتا ہے یا بالکل نہیں رکھتا۔ ان دونوں طبقوں کے مفاد نہ صرف یہ کہ ایک دوسرے کے خلاف ہوتے ہیں بلکہ لامحالہ ان کے درمیان کش مکش اور نزاع برپا ہوتی ہے، اور یوں انسان کا معاشی انتظام جس کو فطرت نے مبادلہ پر مبنی کیا تھا، محاربہ (antagomistic competition) پر قائم ہو کر رہ جاتا ہے۔

شیئر کریں