اسلام نے اشتراکیت اور سرمایہ داری کے درمیان جو متوسط معاشی نظریہ اختیار کیا ہے اس پر ایک عملی نظام کی عمارت اٹھانے کے لیے وہ اخلاق اور قانون دونوں سے مدد لیتا ہے۔ اپنی اخلاقی تعلیم سے وہ جماعت اور اس کے ہر ہر فرد کی ذہنیت کو اپنے نظام کی رضاکارانہ اطاعت کے لیے تیار کرتا ہے۔ اور اپنے قانون کی طاقت سے وہ ان پر ایسی پابندیاں عائد کرتا ہے جو انہیں اس نظام کی بندش میں رہنے پر مجبور کریں اور اس کے حدود سے نکلنے نہ دیں۔ یہ اخلاقی اصول اور قانونی احکام اس نظمِ معیشت کے قوائم و ارکان ہیں اور اس کے مزاج کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ ان پر ایک تفصیلی نظر ڈال لیں۔