یہاں پہنچ کر مجھے پھر اس بات کا اعادہ کرنا چاہیے کہ اسلام کی نظر میں ’’جہاد‘‘ صرف وہی ہے جو محض فی سبیل اللہ ہو۔۔۔ اور اس جہاد کے نتیجہ میں جب اسلامی حکومت قائم ہو‘ تو مسلمانوں کے لیے یہ ہرگز جائز نہیں ہے کہ وہ قیصر و کِسریٰ کو ہٹا کر خود قیصر و کِسریٰ بن جائیں۔ مسلمان اس لیے نہیں لڑتا اور مسلمان ہونے کی حیثیت سے نہیں لڑسکتا‘ کہ اس کی ذاتی حکومت قائم ہوجائے۔۔۔ اور وہ خدا کے بندوں کو اپنا بندہ بنالے۔۔۔ اور ناجائز طور پر لوگوں کی گاڑھی محنتوں کا روپیہ وصول کرکے اپنے لیے زمین میں جنتیں بنانے لگے۔ یہ جہاد فی سبیل اللہ نہیں‘ بلکہ جہاد فی سبیل الطاغوت ہے اور ایسی حکومت کو اسلام سے کوئی واسطہ نہیں۔ اسلام کا ’’جہاد‘‘ تو ایک خشک اور بے مُزد محنت ہے‘ جس میں جان و مال اور خواہشاتِ نفسانی کی قربانی کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ اگر یہ جہاد کامیاب ہو اور نتیجہ میں حکومت مل جائے‘ تو سچے مسلمان حکمراں پر ذمہ داریوں کا اس قدر بھاری بوجھ عائد ہوجاتا ہے کہ اس غریب کے لیے راتوں کی نیند اور دن کی آسائش تک حرام ہوجاتی ہے۔ مگر اس کے معاوضہ میں وہ حکومت و اقتدار کی ان لذتوں میںسے کوئی لذت حاصل نہیں کرسکتا‘ جن کی خاطر دنیا میںعموماً حکومت حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اسلام کا فرماں روا نہ تو رعیت کے عام افراد سے ممتاز کوئی بالاتر ہستی ہے۔۔۔ نہ عظمت و رفعت کے تخت پر وہ بیٹھ سکتا ہے۔۔۔ نہ اپنے آگے کسی سے گردن جھکوا سکتا ہے۔۔۔ نہ قانونِ شریعت کے خلاف ایک پتہ ہلاسکتا ہے۔۔۔ نہ اسے یہ اختیار حاصل ہے کہ اپنے کسی عزیز یا دوست یا خود اپنی ذات کو کسی ادنیٰ سے ادنیٰ ہستی کے جائز مطالبہ سے بچاسکے۔۔۔ نہ وہ حق کے خلاف ایک حَبّہ لے سکتا ہے اور نہ چپّہ بھر زمین پر قبضہ کرسکتا ہے۔۔۔ ایک متوسط درجہ کے مسلمان کو زندگی بسر کرنے کے لیے جتنی تنخواہ کافی ہوسکتی ہے‘ اس سے زیادہ بیت المال سے ایک پائی لینا بھی اس کے لیے حرام ہے۔ وہ غریب‘ نہ عالیشان قصر بنواسکتا ہے‘ نہ خدم و حشم رکھ سکتا ہے‘ نہ عیش و عشرت کے سامان فراہم کرسکتا ہے۔ اس پر ہروقت یہ خوف غالب رہتا ہے کہ ایک دن اس کے اعمال کا سخت حساب لیا جائے گا اور اگر حرام کا ایک پیسہ‘ جبر سے لی ہوئی زمین کا ایک چپّہ‘ تکبر و فرعونیت کا ایک شمّہ‘ ظلم و بے انصافی کا ایک دھبہ اور خواہشاتِ نفسانی کی بندگی کا ایک شائبہ بھی اس کے حساب میں نکل آیا‘ تو اسے سخت سزا بھگتنی پڑے گی۔ اگر کوئی شخص حقیقت میں دنیا کا لالچی ہو تو اس سے بڑا کوئی بے وقوف نہ ہوگا اگر وہ اسلامی قانون کے مطابق حکومت کا بار سنبھالنے پر آمادہ ہو۔ کیونکہ اسلامی حکومت کے فرماں روا سے تو بازار کے ایک معمولی دکاندار کی پوزیشن زیادہ اچھی ہوتی ہے۔ وہ دن کو خلیفہ سے زیادہ کماتا ہے اور رات کو آرام سے پاؤں پھیلاکر سوتا ہے۔ خلیفہ بے چارے کونہ اس کے برابر آمدنی نصیب اور نہ رات کو چین سے سونا ہی نصیب۔
یہ بنیادی فرق ہے‘ اسلامی حکومت اور غیر اسلامی حکومت کا۔ غیر اسلامی حکومت میں حکمران گروہ اپنی خداوندی قائم کرتا ہے اور اپنی ذات کے لیے ملک کے وسائل و ذرائع استعمال کرتا ہے۔ بخلاف اس کے اسلامی حکومت میں حکمراں گروہ مجرد خدمت کرتا ہے اور عام باشندوں سے بڑھ کر اپنی ذات کے لیے کچھ حاصل نہیں کرتا۔ اسلامی حکومت کی سول سروس کو جو تنخواہیں ملتی تھیں‘ ان کا تقابل آج کل یا خود اس دور کی امپیریلسٹ طاقتوں کی سول سروس کے مشاہروں سے کرکے دیکھئے۔۔۔ آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ اسلام کی جہاں کشائی اور امپیریل ازم کی عالمگیری میں روحی و جوہری فرق ہے۔ اسلامی حکومت میں خراسان‘ عراق‘ شام اور مصر کے گورنروں کی تنخواہیں‘ آپ کے معمولی انسپکٹروں کی تنخواہوں سے بھی کم تھیں۔ خلیفۂ اوّل حضرت ابوبکر صدیقؓ صرف سو روپے مہینہ کی تنخواہ پر اتنی بڑی سلطنت کا انتظام کرتے تھے اور حضرت عمرؓ کی تنخواہ ڈیڑھ سو روپے سے زیادہ نہ تھی‘ دراں حالے کہ بیت المال دنیا کی دو عظیم الشان سلطنتوں کے خزانوں سے بھرپور ہورہا تھا۔ اگرچہ ظاہر میں امپیریل ازم بھی ملک فتح کرتا ہے اور اسلام بھی۔۔۔ مگر دونوں کے جوہر میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔
پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضا میں
کَرگَس کا جہاں اور ہے‘ شاہیں کا جہاں اور
یہ ہے اُس جہاد کی حقیقت‘ جس کے متعلق آپ بہت کچھ سنتے رہے ہیں۔ اب اگر آپ مجھ سے دریافت کریں کہ آج ’’اسلام‘‘ اور ’’مسلم جماعت‘‘ اور ’’جہاد‘‘کا وہ تصور‘ جو تم پیش کررہے ہو‘ کہاں غائب ہو گیا؟ اور کیوں دنیا بھر کے مسلمانوں میں کہیں بھی اس کا شائبہ تک نہیں پایا جاتا؟۔۔۔ تو میں عرض کروں گا کہ یہ سوال مجھ سے نہ کیجیے‘ بلکہ ان لوگوں سے کیجیے جنہوں نے مسلمانوں کی توجہ ان کے اصلی مشن سے ہٹا کر تعویذ‘ گنڈوں اور عملیات اور مراقبوں اور ریاضتوں کی طرف پھیر دی۔۔۔ جنہوں نے نجات‘ فلاح اور حصولِ مقاصد کے لیے شارٹ کٹ تجویز کیے‘ تاکہ مجاہدے اور جانفشانی کے بغیر سب کچھ تسبیح پھرانے یا کسی صاحبِ قبر کی عنایات حاصل کرلینے سے ہی میسر آجائے۔۔۔ جنہوں نے اسلام کے کلیات اور اصول و مقاصد کو لپیٹ کر تاریک گوشوں میں پھینک دیا اور مسلمانوں کے ذہن کو آمین بالجہر اور رَفع یَدین اور ایصالِ ثواب و زیارتِ قبور اور اسی قسم کے بے شمار جزئیات کی بحثوں میں ایسا پھنسایا کہ وہ اپنے آپ کو اور اپنے مقصدِ تخلیق کو اور اسلام کی حقیقت کو قطعی بھول گئے۔ اگر اس سے بھی آپ کی تشفی نہ ہو‘ تو پھر یہ سوال ان امراء اور احکام اور اصحابِ اقتدار کے سامنے پیش کیجیے‘ جو قرآن اور محمدﷺ پر ایمان لانے کا دعویٰ تو کرتے ہیں‘ مگر قرآن کے قانون اور محمد رسول اللہﷺ کی ہدایت کا اس سے زیادہ کوئی حق اپنے اوپر تسلیم نہیں کرتے کہ کبھی ختم قرآن کرا دیں۔۔۔ اور کبھی عید میلاد کے جلسے کروا دیں۔۔۔ اور کبھی اللہ میاں کو نعوذ بااللہ ان کی شاعری کی داد دے دیا کریں۔ رہا اس قانون اور ہدایت کو عملاً نافذ کرنا‘ تو یہ حضرات اپنے آپ کو اس سے بری الذمہ سمجھتے ہیں۔۔۔ کیونکہ درحقیقت اِن کا نفس اُن پابندیوں کو قبول کرنے اور اُن ذمہ داریوں کا بوجھ سنبھالنے کے لیے ہرگز تیار نہیں ہے‘ جو اسلام اِن پر عائد کرتا ہے۔ یہ بڑی سستی نجات کے طالب ہیں۔
(از رسالہ ترجمان القرآن ۔ ربیع الاول ۱۳۵۸ھ ۔ ۱۹۳۹ء)