اس مختصر بیان سے واضح ہو گیا کہ وہی سائنس جس پر انسان نے اپنے تفوق اور اپنے افتخار کی بنیاد رکھی ہے، کس طرح اس کی تمام فکری بلند پروازیوں اور تحقیق و اکتشاف کی عقدہ کشائیوں کا سرمایہ فخر و ناز اس سے چھین لیتا ہے۔ اور کس طرح انسان خود اپنے علم اور اپنی تحقیق کی بنا پر اپنے آپ کو نباتات و جمادات اور بے جان مشینوں کی طرح ایک مضطر و بے اختیار ہستی تسلیم کر لیتا ہے۔ مگر اس تسلیم و اعتراف کے معنی یہ ہرگز نہیں کہ سائنس نے قضا و قدر کے مسئلے کو واقعی حل کر لیا ہے۔ برعکس اس کے اس سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ سائنس اُس اختیار قدرت اور آزادیٔ ارادہ کی کوئی توجیہہ نہیں کر سکا، جس کو وجدانی طور پر ہم اپنے اندر محسوس کرتے ہیں، جس کے آثار شب و روز ہمارے مشاہدے میں آتے ہیں اور جس کی بنا پر ہم ارادی و اضطراری اعمال میں ہمیشہ فرق کیا کرتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ خود نفس جس کے وجود پر انسان کا مختار اور صاحب ارادہ ہونا موقوف ہے، سائنس کی تحقیقات سے بالاتر ثابت ہوا ہے اور کوئی سائنٹیفک طریق تفتیش ابھی تک اس شے کی حقیقت تک نہیں پہنچ سکا ہے جو انسان کے مادی وجود میں ایسے آثار و افعال اور اوصاف و خواص کا مبداء بنتی ہے جن کو کسی مادی ترکیب اور کسی کیمیاوی امتزاج کی طرف منسوب نہیں کیا جا سکتا۔
بہرحال اگر طبیعت کا عالم یہ کہے کہ انسان کی سیرت میں اس کے نظامِ عصبی اور جِرمِ دماغی کی ساخت کو بہت کچھ دخل حاصل ہے تو اس کو تسلیم کیا جا سکتا ہے لیکن اس کا یہ دعویٰ تسلیم نہیں کیا جا سکتا کہ جسمانی خصائص، نفسانی خصائص کی واحد علت ہیں۔ اسی طرح اگر نظریۂ ارتقا کا پیرو یہ کہے کہ انسان اپنی بہت سی خصوصیات وراثتاً حاصل کرتا ہے تو اس کو تسلیم کرنے میں کوئی قباحت نہیں لیکن اگر وہ یہ کہے کہ انسان میں سب کچھ موروثی ہی ہے اور اس کے پاس اپنا کچھ بھی نہیں تو دوسرے حقائق کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہم اس دعویٰ کو کسی طرح قبول نہیں کر سکتے۔ اسی طرح تاریخ اور اعدادوشمار کی بنا پر جو نظریہ قائم کیا گیا ہے اس کی صحت بھی بس اسی حد تک ہے کہ شخص انسانی کو ایک بڑی حد تک اُن خارجی تاثیرات نے مجبور کر رکھا ہے جو وسیع پیمانے پر قوموں اور جماعتوں کو متاثر کرتی ہیں، لیکن اس سے یہ ثابت کرنا ممکن نہیں ہے کہ اجتماعی احوال کی گردش میں افراد کے شخصی ارادوں کو کسی قسم کی آزادی حاصل ہی نہیں ہے اور اجتماعی زندگی کی مشین میں اشخاص محض بے جان کل پرزوں کی طرح حرکت کر رہے ہیں۔
پس علومِ طبیعی اور ان کے توابع درحقیقت مسئلہ جبر و قدر کا تصفیہ نہیں کرتے بلکہ ہم کو مشاہدات و تجربات کی بنا پر صرف یہ بتاتے ہیں کہ ہماری زندگی میں جبر کے حدود کہاں تک وسیع ہیں۔
٭…٭…٭…٭…٭