Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

دعوت اسلامی اور اس کا طریق کار
اجتماعات کا مقصد:
دعوت اسلامی کے تین نکات :
بندگی رب کا حقیقی مفہوم:
منافقت کی حقیقت
تناقض کی حقیقت:
امامت میں انقلاب کیسے آتا ہے؟
مخالفت اور اس کے اسباب :
ہمارا طریقِ کار
علماء اور مشائخ کی آڑ :
زہد کا طعنہ:
رفقاء جماعت سے خطاب :

دعوت اسلامی اور اس کا طریق کار

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

زہد کا طعنہ:

ایک اور اعتراض جس کے متعلق مجھے لکھا گیا ہے کہ ایک مخلص ہمدرد نے اسے پیش کیاہے کہ تمہاری جماعت محض چندزہا داور تارکین دنیا کی ایک جماعت ہے جودنیا کے معاملات سے بے تعلق ہوکر ایک طرف بیٹھ گئی ہے اور جسے سیاسیات حاضرہ سے کوئی بحث نہیں ہے ،درانحالیکہ مسلمانوں کو حالات نے مجبور کردیا ہے کہ بغیر ایک لمحہ ضائع کیے ان سیاسی مسائل کو حل کریں جن کے حل پرپوری قوم کے مستقبل کا انحصار ہے اور صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ غیر مسلم بھی مجبور ہیں کہ سب سے پہلے اپنے ملک کے سیاسی مستقبل کی فکر کریں کیونکہ اسی پر ان کی فلاح کا مدار ہے ،لہذا اس ملک میں جو لوگ بھی زندگی کے عملی مسائل سے دلچسپی وتعلق رکھتے ہوںوہ تو تمہاری طرف توجہ نہیں کر سکتے البتہ کچھ گوشہ نشین و زاویہ پسند لوگ جو مذہبی ذہنیت رکھتے ہوں تمہیں ضرور مل جائیں گے۔ ،،یہ اعتراض دراصل اس سطح بینی کا نتیجہ ہے جس سے ہمارے آج کل کے سیاست کار حضرات معاملات کو دیکھنے اور سمجھنے میں کام لے رہے ہیں۔ یہ لوگ محض سیاسی اشکال اور صورتوں کے ردّو بدل کو دیکھتے ہیں اور ان ہی میں مسائل کا حل تلاش کرتے ہیں لیکن سیاست کی عمارت جن بنیادوں پرقائم ہوتی ہے ان تک ان کی نگاہ نہیں پہنچتی۔
آپ کے موجودہ سیاسی مسائل جن کی فکر میں آپ لوگ آج کل اُلجھے ہوئے ہیں کس چیز کے پیداکردہ ہیں ؟صرف اس چیز کے کہ جن اخلاقی اور اعتقادی وفکری اور تہذیبی وتّمدنی بنیادوں پر اس ملک کی سوسائٹی قائم تھی وہ اتنی کمزورثابت ہوئیں کہ ایک دوسری قوم اگرچہ وہ نہایت ہی گمراہ اور نہایت ہی غلط کار تھی۔ مگر بہرحال اپنے اخلاقی اوصاف اپنی تہذیبی وتمدنی طاقت اور اپنی عملی قابلتیوں کے لحاظ سے وہ آپ سے اتنی زیادہ برترثابت ہوئی کہ ہزاروں میل دور سے آکر اس نے آپ کو اپنا محکوم بنا لیا۔پھر آپ اپنی مدت ہائے دراز کی غفلتوں اور کمزوریوں کی وجہ سے اس حد تک گرے کہ خود اس محکومی کے اندر بھی آپ کی ہمسایہ قومیں آپ کے مقابلے میں زیادہ طاقتور ہو گئیں اور آپ کے لیے یہ سوال پیدا ہو گیا کہ اپنے آپ کو پہلے کس سے بچائیں، گھر والے سے یا باہر والے سے ؟یہ ہے آپ کے تمام موجودہ سیاسی مسائل کا خلاصہ، اور ان مسائل کو آپ بھی اور آپ کی ہمسایہ دوسری ہندوستانی قومیں بھی صرف اس طرح حل کرنا چاہتی ہیں کہ ملک کا سیاسی نظام جس شکل پر قائم ہے اس میں بس کچھ اوپری ردّو بدل ہو جائے میں اس سیاست کو اور اس سیاسی طریقِ کار کو بالکل مہمل سمجھتا ہوں اور اس میں اپنا وقت ضائع کرنے کا کچھ حاصل نہیں پاتا پھر صرف ہندوستان ہی میں نہیں بلکہ ساری دُنیا میں جو سیاسی مسائل اس وقت درپیش ہیں ان کا خلاصہ بھی میرے نزدیک صرف یہ ہے کہ انسان کو جوحیثیت دنیا میں فی الواقع حاصل نہیں تھی۔ اسے خواہ مخواہ اپنی حیثیت بنا لینے پر اس نے اصرار کیا اور اپنے اخلاق، اپنی تہذیب، اپنے تمدن،اپنی معیشت اور اپنی سیاست کی بنیاد خدا سے خود مختاری پر رکھ دی جس کا انجام آج ایک عظیم الشان فساد اور ایک زبردست طوفان فسق وفجور کی شکل میں رونما ہو رہا ہے۔اس انجام کو انتظام دنیا کی محض ظاہری شکلوں کے ردّو بدل سے دور کرنے کے لیے جو کو ششیں آج کی جارہی ہیں انہی کا نام آج ’’سیاست ‘‘ہے اورمیرے نزدیک بلکہ فی الحقیقت اسلام سے جن حقیقوں کو سمجھا ہے ان کی بنا پر میرے نزدیک ہندوستان کے مسلمانوں کی اور ہندوستان کے سارے باشندوں کی اور تمام دنیائے مسلمین اور دنیائے غیر مسلمین کی سیاست کا حل صرف یہ ہے کہ ہم سب خدا کی بندگی اختیار کریں،اس کے قانون کو اپنا قانونِ حیات تسلیم کریں اور انتظام دنیا کی زمامِ اختیار فساق وفجار کے بجائے عباداللہ الصالحین کے ہاتھ میں ہو۔یہ سیاست اگر آپ کو اپیل نہیں کرتی اور آپ کچھ دوسری سیاست بازیوں سے اپنے مسائل کو حل کرنا چاہتے ہیں تو آپ کا راستہ الگ ہے اور میرا راستہ الگ۔جائیے اور جن جن طریقوں سے اپنے مسائل کو حل کرنا چاہتے ہیں حل کر کے دیکھ لیجیے۔مگر میں اور میرے رفقاء علیٰ وجہ البصیرت جس چیز میں اپنی قوم کی، اپنے ملک کی اور ساری دنیا کی فلاح دیکھتے ہیں۔ اسی پر ہم اپنی ساری کوششیں صرف کرتے رہیں گے۔اگر دنیا کے لوگ ہماری باتوں کی طرف توجہ کریں گے تو ان کے اپنے لیے بھلا ہے اور نہ کریں گے تو اپنا کچھ بگاڑیں گے۔ ہمارا کچھ نقصان نہ کر سکیں گے۔
رہی یہ غلط فہمی کہ ہم زاہدوں اور گوشہ نشینوں کا ایک گروہ بنا رہے ہیں تو اگر یہ عمداً واقعہ کی غلط تعبیر نہیں ہے اور واقعی غلط فہمی ہی ہے تو اسے ہم صاف صاف رفع کردینا چاہتے ہیں۔ہم دراصل ایسا گروہ تیار کرنا چاہتے ہیں جو ایک طرف زہدو تقویٰ میں اصطلاحی زاہدوں اور متقیوں سے بڑھ کر ہو اور دوسری طرف دنیا کے انتظام کو چلانے کی قابلیت وصلاحیت بھی عام دنیا داروں سے زیادہ اور بہتر رکھتا ہو۔ہمارے نزدیک دنیا کی تمام خرابیوں کا ایک بڑا سبب یہ ہے کہ نیک لوگ نیکی کے صحیح مفہوم سے نا آشنا ہونے کی بنا پر گوشہ گیر ہو کر بیٹھ جاتے ہیں اور پرہیزگاری اس کو سمجھتے ہیں کہ دنیا کے معاملات ہی سے پر ہیز کریں،اور دوسری طرف ساری دنیا کے کاروبار بدوں کے ہاتھ میں آجاتے ہیں جن کی زبان پر نیکی کا نام اگر آتا بھی ہے تو صرف خلق خدا کو دھوکا دینے کے لیے۔اس خرابی کا علاج صرف یہی ہو سکتا ہے کہ صالحین کی ایک جماعت منظم کی جائے جو خدا ترس بھی ہو،راست باز اور دیانت داربھی ہو،خدا کے پسندیدہ اخلاق اور اوصاف سے آراستہ بھی ہو اور اس کے ساتھ دنیا کے معاملات کو دنیا داروں سے زیادہ اچھی طرح سمجھے اور خود دنیا داری ہی میں اپنی مہارت و قابلیت سے ان کو شکست دے سکے۔ہمارے نزدیک اس سے بڑا اور کوئی سیاسی کام نہیں ہوسکتا اور نہ اس سے زیادہ کامیاب سیاسی تحریک اور کوئی ہوسکتی ہے کہ ایسے ایک صالح گروہ کو منظم کر لیا جائے۔بد اخلاق اور بے اصول لوگوں کے لیے دنیا کی چراگاہ میں بس اسی وقت تک چرنے چگنے کی مہلت ہے جب تک ایسا گروہ نہیں تیار ہو جاتا اور جب ایسا گروہ تیار ہو جائے گا تو آپ یقین رکھیے کہ نہ صرف آپ کے اس ملک کی بلکہ بتدریج ساری دنیا کی سیاست اور معیشت اور مالیات اور علوم و آداب اور عدل وانصاف کی باگیں اسی گروہ کے ہاتھ میں آجا ئیں گی اور فساق وفجار کا چراغ ان کے آگے نہ جل سکے گا یہ میں نہیں کہہ سکتا کہ یہ انقلاب کس طرح رونما ہوگا لیکن جتنا مجھے کل سورج کے طلوع ہونے کا یقین ہے اتنا ہی مجھے اس بات کا بھی یقین ہے کہ یہ انقلاب بہرحال رونما ہو کر رہے گا بشر طیکہ ہمیں صالحین کے ایسے گروہ کو منظم کرنے میں کامیابی حاصل ہو جائے۔

شیئر کریں