ایک اور اعتراض جس کے متعلق مجھے لکھا گیا ہے کہ ایک مخلص ہمدرد نے اسے پیش کیا ہے‘ یہ ہے کہ ’’آپ کا یہ طریق کار چند زہاد اور تارکین دنیا کی ایک جماعت کے لیے موزوں ہے جو دنیا کے معاملات سے بے تعلق ہو کر ایک طرف بیٹھ گئی ہو اور جسے سیاسیات حاضرہ سے کوئی بحث نہ ہو‘‘۔ درآں حالیکہ مسلمانوں کو حالات نے مجبور کر دیا ہے کہ بغیر ایک لمحہ ضائع کیے ان مسائل سیاسی کو حل کریں جن کے حل پر پوری قوم کے مستقبل کا انصار ہے‘ اور صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ غیر مسلم بھی مجبور ہیں کہ سب سے پہلے اپنے ملک کے سیاسی مستقبل کی فکر کریں کیونکہ اسی پر ان کی فلاح کا مدار ہے۔ لہٰذا اس ملک میں جو لوگ بھی زندگی کے عملی مسائل سے دلچسپی اور تعلق رکھتے ہیں وہ تو تمہاری طرف توجہ نہیں کرسکتے۔ البتہ کچھ گوشہ نشین و زاویہ پسند لوگ جو مذہبی ذہنیت رکھتے ہوں‘ تمہیں ضرور مل جائیں گے‘‘
یہ اعتراض دراصل اس سطح بینی کا نتیجہ ہے جس سے ہمارے آج کل کے سیاست کار حضرات معاملات کے رد و بدل کو دیکھتے ہیں اور انہی میں اپنے مسائل کا حل تلاش کرتے ہیں۔ لیکن سیاست کی عمارت جن بنیادوں پر قائم ہوتی ہے‘ ان تک ان کی نگاہ نہیں پہنچتی۔ آپ کے موجودہ سیاسی مسائل جن کی فکر میں آپ لوگ آج کل الجھے ہوئے ہیں‘ کس چیز کے پیدا کردہ ہیں‘ صرف اس چیز کے کہ جن اخلاقی اور اعتقادی و فکری اور تہذیبی و تمدنی بنیادوں پر اس ملک کی سوسائٹی قائم تھی وہ اتنی کمزور ثابت ہوئیں کہ ایک دوسری قوم اگرچہ وہ نہایت ہی گمراہ اور نہایت ہی غلط کار تھی مگر بہرحال اپنے اخلاقی اوصاف‘ اپنی تہذیبی و تمدنی طاقت اور اپنی عملی قابلیتوں کے لحاظ سے وہ آپ سے اتنی زیادہ برتر ثابت ہوئی کہ ہزاروں میل دور سے آکر اس نے اپنے آپ کو اپنا محکوم بنا لیا۔ پھر آپ اپنی مدت ہائے دراز کی غفلتوں اور کمزوریوں کی وجہ سے اس حد تک گرے کہ خود اس محکومی کے اندر بھی آپ کی ہمسایہ قومیں آپ کے مقابلے میں زیادہ طاقتور ہوگئیں اور آپ کے لیے یہ سوال پیدا ہوگیا کہ اپنے آپ کو پہلے کس سے بچائیں۔ گھر والوں سے یا باہر والے سے؟ یہ ہے آپ کے تمام موجودہ سیاسی مسائل کا خلاصہ‘ اور ان مسائل کو آپ بھی اور آپ کی ہمسایہ دوسری ہندوستانی قومیں بھی صرف اس طرح حل کرنا چاہتی ہیں کہ ملک کا سیاسی نظام جس شکل پر قائم ہے اس میں بس کچھ اوپری رد و بدل ہو جائے۔ میں اس سیاست کو اور اس سیاسی طریق کار کو بالکل مہمل سمجھتا ہوں اور اس میں اپنا وقت ضائع کرنے کا کچھ حاصل نہیں پاتا۔ پھر صرف ہندوستان ہی میں نہیں بلکہ ساری دنیا میں جو سیاسی مسائل اس وقت دروپیش ہیں‘ ان کا خلاصہ بھی میرے نزدیک صرف یہ ہے کہ انسان کو جو حیثیت دنیا میں فی الواقع حاصل نہیں تھی‘ اسے خواہ مخواہ اپنی حیثیت بنا لینے پر اس نے اصرار کیا اور اپنے اخلاق‘ اپنی تہذیب‘ اپنے تمدن‘ اپنی معیشت اور اپنی سیاست کی بنیاد خدا سے خود مختاری پر رکھ دی جس کا انجام آج ایک عظیم الشان فساد اور ایک زبردست طوفان فسق و فجور کی شکل میں رونما ہو رہا ہے‘ اس انجام کو انتظام دنیا کی محض ظاہری شکلوں کے رد و بدل سے دور کرنے کے لیے جو کوششیں آج کی جارہی ہیں‘ انہی کا نام آج ’’سیاست‘‘ ہے اور میرے نزدیک بلکہ فی الحقیقت اسلام کے نزدیک یہ ساری سیاست سراسر لغو ہے اور بے حاصل ہے۔ میں نے اسلام سے جن حقیقتوں کو سمجھا ہے‘ ان کی بنا پر میرے نزدیک ہندوستان کے مسلمانوں کی اور ہندوستان کے سارے باشندوں کی اور دنیائے مسلمین اور دنیائے غیر مسلمین کی سیاست کا حل صرف یہ ہے کہ ہم سب خدا کی بندگی اختیار کریں‘ اس کے قانون کو اپنا قانون حیات تسلیم کریں اور انتظام دنیا کی زمام اختیار فساق و فجار کے بجائے عباد اللہ الصالحین کے ہاتھ میں ہو۔ یہ سیاست اگر آپ کو اپیل نہیں کرتی اور آپ کچھ دوسری سیاست بازیوں سے اپنے مسائل کو حل کرنا چاہتے ہیں تو آپ کا راستہ الگ ہے اور میرا راستہ الگ۔ جائیے اور جن جن طریقوں سے اپنے مسائل کو حل کرنا چاہتے ہیں‘ حل کرکے دیکھ لیجئے۔ مگر میں اور میرے رفقاء علیٰ وجہ البصیرت جس چیز میں اپنی‘ اپنی قوم کی‘ اپنے ملک کی اور ساری دنیا کی فلاح دیکھتے ہیں‘ اسی پر ہم اپنی ساری کوششیں صرف کرتے رہیں گے۔ اگر دنیا کے لوگ ہماری باتوں کی طرف توجہ کریں گے تو ان کے اپنے لیے بھلا ہے اور نہ کریں گے تو اپنا کچھ بگاڑیں گے ہمارا کچھ نقصان نہ کریں گے۔
رہی یہ غلط فہمی کہ ہم زاہدوں اور گوشہ نشینوں کا ایک گروہ بنا رہے ہیں تو اگر یہ عمداً واقعہ کی غلط تعبیر نہیں ہے اور واقعی غلط فہمی ہی ہے تو اسے ہم صاف صاف رفع کر دینا چاہتے ہیں۔ ہم دراصل ایک ایسا گروہ تیار کرنا چاہتے ہیں جو ایک طرف زہد و تقویٰ میں اصطلاحی زاہدوں اور متقیوں سے بڑھ کر ہو‘ اور دوسری طرف دنیا کے انتظام کو چلانے کی قابلیت و صلاحیت بھی عام دنیا داروں سے زیادہ اور بہتر رکھتا ہو۔ ہمارے نزدیک دنیا کی تمام خرابیوں کا ایک بڑا سبب یہ ہے کہ لوگ نیکی کے صحیح مفہوم سے ناآشنا ہونے کی بنا پر گوشہ گیر ہو کر بیٹھ جاتے ہیں اور پرہیزگاری اس کو سمجھتے ہیں کہ دنیا کے معاملات ہی سے پرہیز کریں اور دوسری طرف ساری دنیا کے کاروبار بدوں کے ہاتھ میں آجاتے ہیں جن کی زبان پر نیکی کاکام اگر کبھی آتا بھی ہے تو صرف خلق خدا کو دھوکہ دینے کے لیے۔ اس خرابی کا علاج صرف یہی ہوسکتا ہے کہ صالحین کی ایک جماعت منظم کی جائے جو خدا ترس بھی ہو‘ راست باز اور دیانت دار بھی ہو‘ خدا کے پسندیدہ اخلاق اور اوصاف سے آراستہ بھی ہو‘ اور اس کے ساتھ دنیا کے معاملات کو دنیا داروں سے زیادہ اچھی طرح سمجھے اور خود دنیاداری ہی میں اپنی مہارت و قابلیت سے ان کو شکست دے سکے۔ ہمارے نزدیک اس سے بڑا اور کوئی سیاسی کام نہیں ہوسکتا اور نہ اس سے زیادہ کامیاب سیاسی تحریک اور کوئی ہوسکتی ہے کہ ایسے صالح گروہ کو منظم کرلیا جائے‘ بداخلاق اور بے اصول لوگوں کے لیے دنیا کی چراگاہ میں بس اسی وقت تک چرنے چگنے کی مہلت ہے جب تک ایسا گروہ تیار نہیں ہو جاتا‘ اور جب ایسا گروہ تیار ہو جائے گا آپ یقین رکھئے کہ نہ صرف آپ کے اس ملک کی بلکہ بتدریج ساری دنیا کی سیاست اور معیشت اور مالیات اور علوم و آداب اور عدل و انصاف کی باگیں اسی گروہ کے ہاتھ آجائیں گی اور فساق و فجار کا چراغ ان کے آگے نہ جل سکے گا۔ یہ میں نہیں کہہ سکتا کہ یہ انقلاب کس طرح رونما ہوگا لیکن جتنا مجھے کل سورج کے طلوع ہونے کا یقین ہے اتنا ہی مجھے اس بات کا بھی یقین ہے کہ یہ انقلاب بہرحال رونما ہو کر رہے گا۔ بشرطیکہ ہمیں صالحین کے ایسے گروہ کو منظم کرنے میں کامیابی حاصل ہو جائے۔