اس رضاکارانہ انفاق کے بعد ایک چیز اور ہے جسے اسلام میں لازم کر دیا گیا ہے اور وہ ہے زکوٰۃ جو جمع شدہ سرمایوں پر، تجارتی اموال پر، کاروبار کی مختلف صورتوں پر، زرعی پیداوار پر ، اور مواشی پر اس غرض سے عائد کی جاتی ہے کہ اس سے ان لوگوں کو سہارا دیا جائے جو معاشی حیثیت سے پسماندہ رہ گئے ہوں۔ ان دونوں قسم کے انفاقوں کی مثال ایسی ہے جیسے ایک نماز نفل ہے اور ایک فرض۔ نفل نماز آپ کو اختیار ہے جتنی چاہیں پڑھیں۔ جتنی زیادہ روحانی ترقی آپ کرنا چاہتے ہیں، جتنا کچھ اللہ سے قرب حاصل کرنا چاہتے ہیں، اتنے ہی نوافل آپ اپنی مرضی سے ادا کیجئے۔ لیکن فرض نماز لازماً آپ کو پڑھنی ہی ہوگی۔ ایسا ہی معاملہ انفاق فی سبیل اللہ کا ہے کہ ایک قسم کا انفاق نفل ہے جو آپ اپنی خوشی سے کریں گے، دوسری قسم کا انفاق وہ ہے جو آپ پر فرض کر دیاگیا ہے اور وہ آپ کو لازماً کرنا ہوگا جب کہ آپ کی دولت ایک حدِّ مقرر سے زائد ہو۔
زکوٰۃ کے متعلق یہ غلط فہمی آپ کے ذہن میں نہیں رہنی چاہیے کہ یہ کوئی ٹیکس ہے۔ دراصل یہ ٹیکس نہیں ہے بلکہ عبادت ہے اور نماز کی طرح اسلام کا ایک اہم رکن ہے۔ زکوٰۃ اور ٹیکس میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ ٹیکس وہ ہوتا ہے جو زبردستی کسی انسان پر عائد کیا جاتا ہے۔ اس کے لیے ضروری نہیں ہے کہ وہ بخوشی اس کو قبول کرے۔ اس کے عائد کرنے والوں کا کوئی شخص معتقد نہیں ہوتا۔ ان کے برحق ہونے پر ایمان نہیں لاتا۔ ان کے ڈالے ہوئے اس بار کو زبردستی کی چٹی سمجھتا ہے۔ اس پر ناک بھوں چڑھاتا ہے۔ اس سے بچنے کے لیے ہزار حیلے کرتا ہے ۔ اس کو ادا نہ کرنے کی تدبیریں نکالتا ہے اور اس سے اس کے ایمان میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ پھر ان دونوں میں اصولی فرق یہ ہے کہ ٹیکس دراصل ان خدمات کے مصارف پورے کرنے کے لیے عائد کیا جاتا ہے جن کا فائدہ خود ٹیکس ادا کرنے والے کی طرف پلٹتا ہے۔ اس کے پیچھے بنیادی تصور یہ کار فرما ہے کہ آپ جن سہولتوں کی ضرورت محسوس کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ حکومت کے ذریعہ سے وہ سہولتیں آپ کو بہم پہنچائی جائیں، ان کے لیے آپ اپنی دولت کے لحاظ سے متناسب چندہ دیں۔ یہ ٹیکس درحقیقت ایک طرح کا چندہ ہی ہے جو قانونی جبر کے تحت ان اجتماعی خدمات کے لیے آپ سے لیا جاتا ہے جن کے فوائد سے متمتع ہونے والوں میں آپ خود بھی شامل ہیں۔ زکوٰۃ اس کے برعکس ایک عبادت ہے بالکل اسی طرح جیسے نماز ایک عبادت ہے۔ کوئی پارلیمنٹ یا قانون ساز اسمبلی اس کی عائد کرنے والی نہیں ہے، بلکہ اسے خدا نے عائد کیا ہے جسے ایک مسلمان اپنا معبودِ برحق مانتا ہے۔ کوئی شخص اگر اپنے ایمان کو محفوظ رکھنا چاہتا ہو تو وہ زکوٰۃ سے بچنے یا اس میں خورد برد کرنے کی کبھی کوشش نہیں کرسکتا۔ بلکہ اگر کوئی خارجی طاقت اس سے حساب لینے اور زکوٰۃ وصول کرنے والی نہ بھی ہو تو ایک مومن اپنی زکوٰۃ کا حساب خود کر کے اپنی مرضی سے نکالے گا۔ پھر یہ زکوٰۃ سرے سے اس غرض کے لیے ہے ہی نہیں کہ ان اجتماعی ضروریات کو پورا کیا جائے جن سے متمتع ہونے میں آپ خود بھی شامل ہیں، بلکہ یہ صرف ان لوگوں کے لیے مخصوص کی گئی ہے جو کسی نہ کسی طرح سے دولت کی تقسیم میں اپنا حصہ پانے سے، یا پورا حصہ پانے سے محروم رہ گئے ہیں، اور کسی وجہ سے مدد کے محتاج ہیں، خواہ عارضی طور پر یا مستقل طور پر۔ اس طرح زکوٰۃ اپنی حقیقت، اپنے بنیادی اصول اور اپنی روح اور شکل کے اعتبار سے ٹیکس سے بالکل ایک مختلف چیز ہے۔ یہ آپ کے لیے سڑکیں اور ریلیں اور نہریں بنانے اور ملک کا نظم و نسق چلانے کے لیے نہیں ہے بلکہ چند مخصوص حق داروں کے حقوق ادا کرنے کے لیے خدا کی طرف سے ایک عبادت کے طور پر فرض کی گئی ہے، اسلام کے پانچ ارکان میں سے ایک رکن ہے، اور اس کا کوئی فائدہ اللہ کی خوشنودی اور آخرت کے اجر کے سوا آپ کی ذات کی طرف پلٹ کر نہیں آتا۔
بعض لوگوں کو یہ غلط فہمی بھی ہے کہ اسلام میں زکوٰۃ اور خراج کے سوا کوئی ٹیکس نہیں ہے۔ حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح طور پر فرمایا ہے کہ اِنَّ فِی الْمَالِ حقًّا سِویٰ الزَّکٰوۃِ۔ ’’لوگوں کے مال میں زکوٰۃ کے علاوہ بھی ایک حق ہے۔‘‘ دراصل جن ٹیکسوں کو شریعت میں ناروا قرار دیا گیا ہے وہ قیصروں اور کسرائوں اور ان کے امراء کے لگائے ہوئے وہ ٹیکس تھے جنھیں بادشاہ اور امیر کی ذاتی ملک بنا لیا جاتا تھا اور جن کی آمد و خرچ کا حساب دینے کے وہ ذمہ دار نہ تھے ۔ رہے وہ ٹیکس جو شوریٰ کے طریقے پر چلنے والی حکومت لوگوں کی مرضی اور مشورے سے لگائے، جن کی آمدنی پبلک کے خزانے میں جمع ہو، جن کو خرچ بھی لوگوں کے مشورے سے کیا جائے، اور جن کا حساب دینے کی حکومت ذمہ دار ہو ۔ تو ایسے ٹیکس عائد کرنے پر شریعت میں قطعاً کوئی پابندی نہیں ہے۔ اگر معاشرے میں اسلامی حکومت کے قیام سے پہلے کوئی بے جا اونچ نیچ پیدا ہو چکی ہو، یا حرام طریقوں سے کمائی ہوئی دولت بعض طبقوں نے بے تحاشا فراہم کرلی ہو، تو ایک اسلامی حکومت ضبطی جائیداد کے طریقے اختیار کرنے کے بجائے ٹیکس عائد کر کے اس بیماری کا مداوا کرسکتی ہے اور دوسرے اسلامی قوانین کی مدد سے دولت کے اس ارتکاز کو ختم کرسکتی ہے۔ ضبطی جائیداد کا طریقہ استعمال کرنے کے لیے حکمرانوں کو ایسے جابرانہ اختیارات دینا ناگزیر ہو جاتا ہے جنھیں پا کر وہ کسی حد پر روکے نہیں جاسکتے اور ایک ظلم کی جگہ اس سے بدتر ظلم قائم ہو جاتا ہے۔