Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

عرضِ ناشر
مقدمہ
باب اوّل: دُنیوی زندگی کا اسلامی تصور
دُنیوی زندگی کا اِسلامی تصوّر
باب دوم: زندگی کا نصب العین
زِندگی کا نصب العین
حصہ سوم: ۱۔ ایمان کی حقیقت و اہمیت
۲۔اسلام کے ایمانیات
۳۔ ایمان باللّٰہ
۴۔ ایمان بالملائکہ
۵۔ ایمان بالرُّسُل
۶۔ ایمان بالکتب
۷۔ ایمان بالیوم الآخر
۸۔ اسلامی تہذیب میں ایمان کی اہمیت
ضمیمہ: زندگی بعد موت

اسلامی تہذیب اور اس کے اُصول ومبادی

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

زِندگی کا نصب العین

تصورِ حیات کے بعد دوسرا سوال جو ایک تہذیب کے حُسن و قبح کو جانچنے میں خاص اہمیت رکھتا ہے، یہ ہے کہ وہ انسان کے سامنے کون سا نصب العین پیش کرتی ہے؟ اس سوال کی اہمیت اس وجہ سے ہے کہ انسان کے ارادوں اور اس کی عملی کوششوں کا رخ فطری طور پر اسی منتہا اور اسی مقصود کی طرف پھرتا ہے جسے اس نے اپنا نصب العین اور مطمحِ نظر قرار دیا ہو۔ اس کے صحیح یا غلط ہونے پر ذہنیت کی اچھی یا بُری تشکیل اور زندگی بسر کرنے کے طریقوں کی درستی یا نادرستی کا انحصار ہے۔ اسی کے بلند یا پست ہونے پر افکار و تخیلات کی بلندی و پستی، اخلاق و ادب کی فضیلت و رذیلت، اور معیشت و معاشرت کی رفعت و دناء ت کا مدار ہے۔ اسی کے واضح اور متعین ہونے یا نہ ہونے پر انسان کے ارادوں اور خیالات کا مجتمع یا پراگندہ ہونا، اس کی زندگی کے معاملات کا ہموار یا ناہموار ہونا، اور اس کی قوتوں اور قابلیتوں کا ایک راہ میں صرف ہونا یا مختلف راہوں میں منتشر ہو جانا موقوف ہے۔بالجملہ نصب العین ہی وہ چیز ہے جس کی بدولت انسان فکر و عمل کی بہت سی راہوں میں سے کوئی راہ انتخاب کرتا اور اپنی ذہنی و جسمانی قوتوں اور اپنے مادّی و روحانی وسائل کو اسی راہ میں صرف کر دیتا ہے۔ لہٰذا جب ہم کسی تہذیب کو نقدِ صحیح کے معیار پر جانچنا چاہیں تو ہمارے لیے اس کے نصب العین کی جستجو ناگزیر ہے۔
صحیح اجتماعی نصب العین کے لازمی خصائص
لیکن بحث و تحقیق کی راہ میں قدم اٹھانے سے پہلے ہمیں یہ متعین کر لینا چاہیے کہ تہذیب کے نصب العین سے ہماری مراد کیا ہے؟ یہ ظاہر ہے کہ جب ہم ’’تہذیب‘‘ کا لفظ بولتے ہیں تو اس سے ہماری مراد افراد کی شخصی تہذیب نہیں ہوتی بلکہ ان کی اجتماعی تہذیب مراد ہوتی ہے۔ اس لیے ہر فرد کا شخصی نصب العین، تہذیب کا نصب العین نہیں ہو سکتا، لیکن برعکس اس کے یہ لازم ہے کہ ایک تہذیب کا جو نصب العین ہو وہ اس تہذیب کے متبعین میں سے ہر ہر فرد کا نصب العین ہو، عام اس سے کہ ہر فرد کو اس کا شعور ہو یا نہ ہو۔ اس لحاظ سے تہذیب کا نصب العین وہ ہے جو شعوری یا غیر شعوری طور پر انسانوں کی ایک بڑی جماعت کا مشترک اجتماعی نصب العین بن گیا ہو، اور اس نے افراد کے شخصی نصب العین پر اتنا غلبہ پا لیا ہو کہ ہر فرد بجائے خود وہی نصب العین رکھتا ہو جو پوری جماعت کے پیش نظر ہے۔
اس قسم کے اجتماعی نصب العین کے لیے یہ ایک لازمی شرط ہے کہ وہ افراد کے شخصی نصب العین سے کامل موافقت و مناسبت رکھتا ہو اور اس میں یہ صلاحیت موجود ہو کہ معاً انفرادی اور اجتماعی نصب العین بن سکے۔ اس لیے کہ اگر اجتماعی نصب العین افراد کے شخصی نصب العینوں سے منافات کی نسبت رکھتا ہو تو اولاً اس کا اجتماعی نصب العین بننا ہی مشکل ہو گا، کیوں کہ جس خیال کو افراد فرداً فرداً قبول نہ کریں وہ اجتماعی خیال نہیں بن سکتا، اور اگر کسی زبردست اثر کے تحت و ہ اجتماعی نصب العین بن بھی گیا ہو تو فرد کے نصب العین اور جماعت کے نصب العین میں غیر محسوس طور پر ایک کش مکش برپا رہے گی، تاآں کہ اس غالب اثر کے کم زور ہوتے ہی افراد اپنے اپنے نصب العین کی طرف پھر جائیں گے۔ جماعت کا نصب العین باطل ہو جائے گا، ہیئت اجتماعی کی قوتِ جاذبہ و رابطہ فنا ہو جائے گی اور تہذیب کا نام و نشان تک باقی نہ رہے گا۔ اس لیے تہذیب کا صحیح نصب العین وہی ہو سکتا ہے جو حقیقتاً انسان کا فطری نصب العین ہو، اور ایک تہذیب کی اصلی خوبی یہی ہے کہ وہ ایسا اجتماعی نصب العین پیش کرے جوبعینہٖ انفرادی نصب العین بھی بن سکتا ہو۔
اس نقطۂ نظر سے ہمارے سامنے دو سوال آتے ہیں جنھیں حل کیے بغیر ہم آگے نہیں بڑھ سکتے:
ایک یہ کہ فطرتاً انسان کا شخصی نصب العین کیا ہے؟
دوسرے یہ کہ دنیا کی دوسری تہذیبوں نے جو نصب العین پیش کیے ہیں وہ کس حد تک انسان کے اس فطری نصب العین سے مناسبت رکھتے ہیں؟
انسان کا فطری نصب العین
انسان کے فطری نصب العین کا سوال دراصل یہ سوال ہے کہ انسان فطری طور پر دنیا میں کس مقصد کے لیے جدوجہد کرتا ہے اور اس کی طبیعت کس چیز کی خواہش مند ہوتی ہے؟اس کی تحقیق کے لیے اگر آپ فرداً فرداً ہر شخص سے پوچھیں کہ وہ دنیا میں کیا چاہتا ہے تو آپ کو مختلف لوگوں سے مختلف جوابات ملیں گے، اور شاید کوئی دو آدمی بھی ایسے نہ ملیں جن کے مقاصد اور جن کی خواہشات بالکل یکساں ہوں۔ لیکن ان سب کا استقصا کیجیے تو آپ کو معلوم ہو گا کہ لوگوں نے جن چیزوں کو مقاصد قرار دیا ہے وہ دراصل فی نفسہٖ مقصود نہیں ہیں بلکہ ایک مقصود تک پہنچنے کے ذرائع ہیں، اور وہ واحد مقصود خوش حالی و اطمینانِ قلب ہے۔ ہر شخص خواہ وہ کسی مرتبۂ عقلی و ذہنی اور کسی طبقۂ عمرانی سے تعلق رکھتا ہو، اور خواہ وہ کسی شعبۂ حیات اور کسی میدانِ عمل میں جدوجہد کر رہا ہو، اپنی کوششوں کے لیے ایک ہی نصب العین رکھتا ہے، اوروہ یہ ہے کہ اسے امن ، سلامتی، خوشی اور جمعیت ِ خاطر نصیب ہو۔ لہٰذا اسے ہم فرد انسانی کا فطری نصب العین کہہ سکتے ہیں۔
دو مقبول اجتماعی نصب العین اور ان پر تنقید
دنیا کی مختلف تہذیبوں نے جو اجتماعی نصب العین پیش کیے ہیں انھیں بھی اگر جزئیات کے اعتبار سے دیکھا جائے تو ان میں بہت کچھ اختلافات پائے جائیں گے، جن کا حصر کرنا نہ یہاں مقصود ہے اور نہ ممکن، لیکن اصولی حیثیت سے ہم ان سب کو دو قسموں پر تقسیم کر سکتے ہیں:
۱۔ جن تہذیبوں کی بنیاد کسی مذہبی و روحانی تخیل پر نہیں ہے انھوں نے اپنے متبعین کے سامنے تفوق و برتری کا نصب العین پیش کیا ہے۔ یہ نصب العین متعدد اجزا سے مرکب ہے، جن میں سے خاص اور اہم اجزائے ترکیبی یہ ہیں:
٭ سیاسی غلبہ و استیلا کی طلب۔
٭ دولت و ثروت میں سب سے بڑھ جانے کی خواہش، قطع نظر اس سے کہ وہ فتح ممالک کے ذریعے سے ہو یا تجارت و صنعت پر حاوی ہو جانے کی بدولت۔
٭ عمرانی ترقی کے مظاہر میں سب پر سبقت لے جانے کی خواہش، خواہ وہ علوم و فنون کے اعتبار سے ہو، یا آثارِ مدنیت و تہذیب میں شان و شکوہ کے اعتبار سے۔
یہ اجتماعی نصب العین ظاہر نظر میں اس شخصی نصب العین کے منافی نہیں ہے جس کا اوپر ہم ذکر کر آئے ہیں۔ کیوں کہ ادنیٰ غور و تامل کے بغیر یہ حکم لگایا جا سکتا ہے کہ اگر جماعت کا یہ نصب العین متحقق ہو جائے تو فرد کا نصب العین مَعْ شَیْئٍ زائدٍ متحقق ہو جائے گا۔ اس نصب العین کی یہی ظاہر فریبی ہے جس کی بدولت ایک قوم کے لاکھوں کروڑوں افراد اپنے شخصی نصب العین کو اس میں گم کر دیتے ہیں۔ لیکن تعمقِ نظر اور پھر عملی تجربے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ درحقیقت یہ اجتماعی نصب العین فرد کے فطری نصب العین سے سخت منافات رکھتا ہے۔ ظاہر ہے کہ دنیا میں تفوق و برتری کا یہ نصب العین رکھنے والی صرف ایک ہی قوم نہیں ہوتی، بلکہ ایک زمانے میں متعدد قومیں اپنے سامنے یہی نصب العین رکھتی ہیں، اور وہ سب اس کے حصول کے لیے جدوجہد کرتی ہیں۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان میں شدید سیاسی و معاشی اور تمدنی کش مکش برپا ہوتی ہے، مسابقت و مقابلہ اور مزاحمت کے زبردست ہنگامے رونما ہوتے ہیں، اور شورش و اضطراب کے عالم میں افراد کو امن و سکون اور خوش حالی و اطمینانِ قلب کا میسر آنا قریب قریب محال ہو جاتا ہے۔ چنانچہ یہی حالت ہماری آنکھوں کے سامنے مغربی ممالک میں درپیش ہے۔ تاہم اگر ایک زمانہ ایسا بھی فرض کر لیا جائے جس میں صرف ایک ہی قوم اس نصب العین کے لیے کوشش کرنے والی ہو، اور کوئی دوسری قوم اس نصب العین کی خاطر اس کی مزاحمت کرنے والی نہ ہو، تب بھی اس کی کام یابی میں افراد کے شخصی نصب العین کا تحقق ممکن نہیں ہے، اس لیے کہ ایسے اجتماعی نصب العین کا یہ فطری خاصہ ہے کہ وہ بین الاقوامی مقابلہ ہی نہیں پیدا کرتا بلکہ خود ایک قوم کے اپنے افراد میں بھی باہم مسابقت کی ذہنیت پیدا کر دیتا ہے۔ اس کی بدولت قوم کے ہر فرد کا مقصدِ حیات یہ ہو جاتا ہے کہ وہ دوسرے ابنائے قوم پر غلبہ حاصل کرے، دولت، حکومت، طاقت، شان و شوکت اور اسبابِ عیش و نعمت میں سب سے بڑھ جائے، دوسروں کے رزق کی کنجیاں اس کے ہاتھ آ جائیں، جتنے وسائلِ ثروت ممکن ہوں ان کا اجارہ اس کی ذاتِ واحد کو حاصل ہو جائے، فوائد و منافع اس کا حصہ ہوں اور خسران و نامرادی دوسروں کا حصہ، صاحبِ امر وہ ہو اور دوسرے اس کے مطیع و دستِ نگر بن کر رہیں۔ اول تو اس قسم کے لوگوں کی حرص و طمع کسی مرتبے پر بھی پہنچ کر قانع نہیں ہوتی، اس لیے وہ ہمیشہ غیر مطمئن اور بے چین رہتے ہیں۔ دوسرے اس نوع کا مقابلہ جب ایک قوم کے خود اپنے افراد میں پیدا ہو جاتا ہے تو اس میں ہر گھر اور ہر بازار ایک میدانِ جنگ بن جاتا ہے اور امن و اطمینان، سکون و سلامتی اور مسرت و خوش حالی ناپید ہو جاتی ہے، خواہ دولت و حکومت اور اسبابِ نعمت کی کتنی ہی کثرت ہو۔
علاوہ بریں یہ ایک فطری بات ہے کہ خالص مادّی ترقی، جس میں روحانیت کا کوئی حصہ نہ ہو، انسان کو کبھی مطمئن نہیں کر سکتی۔ کیوں کہ محض حسی لذات کا حصول ایک خالص حیوانی نصب العین ہے، اور اگر یہ سچ ہے کہ انسان حیوانِ مطلق سے زائد کوئی چیز ہے، تو یقینا ً یہ بھی صحیح ہونا چاہیے کہ انسان کو محض ان چیزوں کا حصول مطمئن نہیں کر سکتا جن کی لذتیں صرف اس کی حیوانی خواہشات کی تسکین کے لیے کافی ہو سکتی ہیں۔
۲۔ جن تہذیبوں کی بنیاد مذہبی و روحانی تخیل پر رکھی گئی ہے، انھوں نے عموماً اپنا نصب العین نجات کو قرار دیا ہے۔ بلاشبہ اس نصب العین میں وہ روحانی عُنصر موجود ہے جو انسان کو سکون و اطمینانِ قلب بخشتا ہے اور یہ بھی صحیح ہے کہ نجات جس طرح ایک قوم کا نصب العین بن سکتی ہے اسی طرح فرداً فرداً ہر شخص کا نصب العین بھی بن سکتی ہے، لیکن زیادہ گہری تنقید سے معلوم ہوتا ہے کہ دراصل یہ نصب العین ایک صحیح نصب العین ہی نہیں بن سکتا۔ اس کے چند وجوہ ہیں:
اوّلاً: نجات کے نصب العین میں ایک طرح کی خود غرضی چھپی ہوئی ہے جس کا خاصہ یہ ہے کہ اجتماعیت کو کم زور کرکے انفرادیت کو قوت پہنچائے۔ کیونکہ جب ہر شخص بجائے خود چند خالص اعمال انجام دے کر نجات حاصل کر سکتا ہو تو اس نصب العین میں کوئی چیز ایسی نہیں رہتی جو اسے انفرادی کے بجائے اجتماعی حیثیت دینے والی اور اس کے تحقق کے لیے فرد کو جماعت کے ساتھ اشتراکِ عمل پر ابھارنے والی ہو۔ یہ انفرادیت کی روح اس مقصد کے بالکل خلاف ہے جو تہذیب کا مِن حیث التہذیب عین مقصد ہے۔
ثانیاً: نجات کا مسئلہ دراصل طریقۂ حصول نجات کے مسئلے سے گہرا تعلق رکھتا ہے، اور اس نصب العین کے صحیح یا غلط ہونے میں اس طریقے کے صحیح یا غلط ہونے کو بھی بہت کچھ دخل حاصل ہے جو اس تک پہنچنے کے لیے تجویز کیا گیا ہو۔ مثلاً جن مذاہب نے ترکِ دنیا اور رہبانیت کو ذریعۂ نجات قرار دیا ہے، ان میں نجات نہ انفرادی نصب العین بن سکتی ہے اور نہ اجتماعی۔ ایسے مذاہب کے متبعین آخر کار دین کو دنیا سے الگ کرنے اور دنیا داروں کی نجات کے لیے بیچ کے راستے (مثلاً دین داروں کی خدمت یا کفارہ وغیرہ) نکال لینے پر مجبور ہوئے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اوّل تو یہ نصب العین یکسانی و یک جائی کے ساتھ فرد اور جماعت کا مشترک نصب العین نہیں رہا، دوسرے یہ کہ دین داروں کی ایک قلیل تعداد کے سوا باقی پوری جماعت کے لیے اس نصب العین میں وہ رفعت، و ہ اہمیت، وہ جاذبیت اور وہ دل چسپی باقی نہیں رہی جو اسے اپنا گرویدہ بنائے رکھتی۔ اس لیے تمام دنیا دار اسے چھوڑ کر اس مادّی نصب العین کے پیچھے پڑ گئے جس کا ذکر ہم اوپر کر آئے ہیں۔ دوسری طرف جن مذاہب نے نجات کو مختلف دیوتائوں اور معبودوں کی خوش نودی پر موقوف قرار دیا ہے ان میں نصب العین کا اشتراک برقرار نہیں رہتا، مختلف گروہ مختلف معبودوں کی طرف پھر جاتے ہیں اور نصب العین کی وہ حقیقی وحدت ہی باقی نہیں رہتی جسے قائم کرنا اور جس کے رشتے میں اپنے تمام متبعین کو مربوط کر دینا ایک تہذیب کا اصلی کام ہے۔ اس لیے ان مذہبوں کے پیرو بھی جب دنیوی ترقی کے راستے پر جانا اور اپنی جماعت کی شیرازہ بندی کرنا چاہتے ہیں تو انھیں کسی دوسرے نصب العین کی حاجت ہوتی ہے۔ ایک اور قسم مذاہب کی وہ ہے جس کی دعوت کا خطاب انسان بحیثیت انسان سے نہیں ہے، بلکہ کسی خاص نسل اور خاص جغرافیائی حدود میں رہنے والی قوم سے ہے، اور اس بِناپر اس کے نزدیک نجات بھی اس خاص نسل و قوم کے لیے مخصوص ہے۔ یہ نصب العین بلاشبہ تہذیب و تمدن کے ابتدائی مرحلے میں ایک کام یاب اجتماعی نصب العین بن سکتا ہے، مگر چوں کہ یہ عقلِ صحیح کے معیار پر پورا نہیں اترتا، اور نجات کا کسی مخصوص نسل کے لیے مختص ہونا ایسی بات ہے جسے ماننے سے ہر سلیم الفطرت انسان کی عقل انکار کرتی ہے، اس لیے ایسے مذاہب کے متبعین عقلی ترقی کی راہ میں چند ہی قدم آگے بڑھ کر اس نصب العین کے خلاف خود بغاوت کر دیتے ہیں اور اسے اپنے ذہن سے خارج کرکے کوئی دوسرا نصب العین اختیار کر لیتے ہیں۔
ثالثاً: نجات کا نصب العین دینی و روحانی نقطۂ نظر سے خواہ کتنا ہی پاکیزہ ہو، لیکن دنیوی نقطۂ نظر سے اپنے اندر کوئی چیز ایسی نہیں رکھتا جو ایک قوم کو من حیث القوم ابھارنے والی اور اس کے اندر وہ حرارت، وہ قوت اور وہ حرکت پیدا کرنے والی ہو جو قومی ترقی کے لیے لازم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک کسی ترقی پسند قوم نے اسے اپنا اجتماعی نصب العین نہیں بنایا، اور ان قوموں میں بھی اس کی حیثیت ہمیشہ ایک انفرادی نصب العین ہی کی رہی ہے جن کے مذہب نے صرف یہی ایک نصب العین پیش کیا ہے۔
یہ وہ وجوہ ہیں جن کی بِنا پر مادّی اور روحانی دونوں نصب العین نقدِ صحیح کے معیار پر پورے نہیں اترتے۔ آیئے اب ہم دیکھیں کہ اسلامی تہذیب نے کس چیز کو اپنا نصب العین قرار دیا ہے اور اس میں کیا خصائص ہیں جو اسے ایک صحیح نصب العین بناتے ہیں:

اسلامی تہذیب کا نصب العین اور اس کی خصوصیات
اس بحث کے آغاز ہی میں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ نصب العین کا سوال درحقیقت تصورِ حیات کے سوال سے ایک گہرا تعلق رکھتا ہے۔ ہم دنیوی زندگی کے متعلق جو تصور رکھتے ہیں، اور دنیا میں اپنی حیثیت اور اپنے لیے دنیا کی حیثیت کا جو نظریہ ہمارے ذہن میں ہے، وہی فطری طور پر زندگی کا ایک نصب العین پیدا کر دیتا ہے، اور ہم اپنی تمام قوتیں اس نصب العین کے تحقق کی راہ میں صرف کرنے لگتے ہیں۔ اگر دنیا کو ہم اپنے لیے ایک چراگاہ تصور کرتے ہیں اور ہمارے ذہن میں زندگی عبارت ہے ایک مہلت سے جو ہمیں کھانے، پینے اور لذاتِ دنیا سے متمتع ہونے کے لیے ملی ہوئی ہے، تو بلاشبہ یہ حیوانی تصور ہمارے نفس میں زندگی کا ایک حیوانی نصب العین راسخ کر دے گا اور ہم تمام عمر اپنے لیے حسی لذتوں کے سامان فراہم کرنے کی کوشش کرتے رہیں گے۔ بخلاف اس کے اگر ہم نے اپنے آپ کو پیدائشی مجرم اور فطری گناہ گار سمجھا ہے اور دنیا کے متعلق ہمارا تصور یہ ہے کہ یہ کوئی عقوبت خانہ اور عذاب کا گھر ہے جہاں اپنے اس پیدائشی جرم کی سزا بھگتنے کے لیے ہم پھینک دیے گئے ہیں، تو قدرتی طور پر یہ تصور ہمارے نفس میں اس عذاب سے رہائی حاصل کرنے کی خواہش پیدا کرے گا، اور اس بنیاد پر ہم نجات کو اپنی زندگی کا نصب العین قرار دیں گے۔ لیکن اگر دنیا کے متعلق ہمارا تصور چراگاہ اور دارالعذاب دونوں سے برتر ہو، اور انسان ہونے کی حیثیت سے ہم اپنے آپ کو حیوان اورمجرم دونوں سے زیادہ ارفع و اعلیٰ سمجھتے ہوں، تو یقیناً ہمارے نفس کو مادی لذات کی طلب اور نجات کے حصول دونوں سے زیادہ بلند نصب العین کی تلاش ہو گی، اور کسی پست اور ادنیٰ مطمحِ نظر پر ہماری نگاہ نہ ٹھیرے گی۔
اس قاعدے کو پیشِ نظر رکھ کر جب آپ دیکھیں گے کہ اسلام نے انسان کو خلیفہ اور رُوئے زمین پر خدا کا نائب قرار دیا ہے، تو اس تصورِ حیات سے جو نصب العین فطری طور پر پیدا ہو سکتا ہے اور ہونا چاہیے، اس تک آپ کی عقل خود بخود پہنچ جائے گی۔ ایک نائب کا بحیثیت نائب ہونے کے اس کے سوا اور کیا نصب العین ہونا چاہیے کہ وہ جس کا نائب ہے اس کی رضا اور خوش نودی حاصل کرے اور اس کی نظر میں ایک اچھا، وفادار، متدیّن اور فرض شناس ملازم قرار پائے؟ اگر وہ کوئی سچا اور نیک نیت آدمی ہے تو کیا وہ اپنے آقا کی خدمت بجا لانے میں اس کی رضا جوئی کے سوا کسی اور چیز کو اپنا مقصود بنا سکتا ہے؟ کیا وہ اپنا فرض اس لیے بجا لائے گا کہ اس کے معاوضے میں اسے کسی نفع کی طمع اور کسی ترقی یا انعام یا اضافۂ مناصب یا جاہ و منزلت کی زیادتی کا لالچ ہے؟ یہ دوسری بات ہے کہ آقا اس سے خوش ہو کر اسے یہ سب کچھ عطا کر دے، یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آقا اسے حُسنِ خدمت کے صلے میں ان چیزوں کے بخش دینے کی اُمید دلائے، اور اس میں بھی مضایقہ نہیں کہ خود اسے یہ علم ہو کہ اگر میں نے ٹھیک طور پر فرائض انجام دے کر اپنے آقا کو خوش کر دیا تو وہ مجھے یہ انعام دے گا۔ لیکن اگر اس نے انعام کو اپنا مقصود بنا لیا، اور اپنے فرائض منفعت کی خاطر انجام دیے، تو کیا کوئی دانش مند ایسے ملازم کو ایک فرض شناس ملازم کہہ سکتا ہے؟ اسی مثال پرخدا اور اس کے نائب کے معاملے کو بھی قیاس کر لیجیے۔ اگر انسان رُوئے زمین پر خدا کا نائب ہے تو اس کی زندگی کا نصب العین خدا کی رضا جوئی اور اس کی خوش نودی کے حصول کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے؟
یہ وہ نصب العین ہے جو اس تصورِ حیات سے خود عقل اور فطرت پیدا کرتی ہے اور کسی ادنیٰ فرق کے بغیر ٹھیک یہی نصب العین ہے جو اسلام نے انسان کے سامنے پیش کیا ہے ۔ قرآن مجید کے ارشادات کا تتبع کرنے سے آپ کو معلوم ہو گا کہ طرح طرح سے اسی ایک نصب العین کوذہن نشین کرانے اور قلب و روح میں بٹھا دینے کی کوشش کی گئی ہے اور اس کے سوا ہر دوسرے مطمحِ نظر کا پورے زور کے ساتھ اِبطال کیا گیا ہے۔ فرمایا کہ:
قُلْ اِنَّ صَلَاتِيْ وَنُسُكِيْ وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِيْ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَo لَا شَرِيْكَ لَہٗ۝۰ۚ وَبِذٰلِكَ اُمِرْتُ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِـمِيْنَo الانعام 162-163:6
اے پیغمبرؐ! کہہ دیجیے کہ میری نماز اور میری عبادت اور میرا جینا اور میرا مرنا سب کچھ اللّٰہ کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے اور جس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ مجھے اسی کا حکم دیا گیا ہے اور میں سب سے پہلے اس کے آگے سرجھکانے والا ہوں۔
اِنَّ اللہَ اشْتَرٰي مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ اَنْفُسَھُمْ وَاَمْوَالَھُمْ بِاَنَّ لَھُمُ الْجَنَّۃَ۝۰ۭ يُقَاتِلُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ فَيَقْتُلُوْنَ وَيُقْتَلُوْنَ۝۰ۣ ………فَاسْـتَبْشِرُوْا بِبَيْعِكُمُ الَّذِيْ بَايَعْتُمْ بِہٖ۝۰ۭ وَذٰلِكَ ھُوَالْفَوْزُ الْعَظِيْمُo التوبہ 111:9
اللّٰہ نے مومنوں سے ان کی جانیں اور ان کے اموال خرید لیے ہیں جن کے معاوضے میں ان کے لیے جنت ہے۔ وہ اللّٰہ کی راہ میں جنگ کرتے ہیں، مارتے ہیں اور مارے جاتے ہیں… پس اس سودے پر جو تم نے (اپنے خدا سے) کیا ہے خوشی منائو، حقیقت میں یہی بڑی کام یابی ہے۔
سورۃ بقرہ میں نافرمان اور فرماں بردار بندے کا فرق بتاتے ہوئے فرماں بردار بندے کی تعریف یہ کی ہے کہ:
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّشْرِيْ نَفْسَہُ ابْـتِغَاۗءَ مَرْضَاتِ اللہِ۝۰ۭ وَاللہُ رَءُوْفٌۢ بِالْعِبَادِo
البقرہ 207:2
اور لوگوں میں سے ایک وہ ہے جو اپنی جان کو اللّٰہ کی خوش نودی کی خاطر بیچ دیتا ہے، اور اللّٰہ اپنے بندوں پر شفقت کرنے والا ہے۔
سورہ فتح میں مسلمانوں کی تعریف ہی یہ کی گئی ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جن کی دوستی اور دشمنی اور جن کا رکوع و سجود سب کچھ اللّٰہ کے لیے ہے:
مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ۝۰ۭ وَالَّذِيْنَ مَعَہٗٓ اَشِدَّاۗءُ عَلَي الْكُفَّارِ رُحَمَاۗءُ بَيْنَہُمْ تَرٰىہُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَّبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللہِ وَرِضْوَانًا۝۰ۡ الفتح 29:48
محمدؐ اللّٰہ کے بھیجے ہوئے رسولؐ ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کافروں پر سخت اور آپس میں رحم دل ہیں۔ تم ہمیشہ انھیں رکوع و سجود کرتے ہوئے دیکھتے ہو۔ یہ لوگ اللّٰہ کے فضل اور اس کی خوش نودی کے طلب گار ہیں۔
سورۂ محمدؐ میں کافروں کے اعمال ضائع ہونے کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ وہ خدا کے لیے کچھ نہیں کرتے بلکہ دوسری اغراض کے لیے عمل کرکے خدا کی ناخوشی مُول لیتے ہیں:
ذٰلِكَ بِاَنَّہُمُ اتَّبَعُوْا مَآ اَسْخَـــطَ اللہَ وَكَرِہُوْا رِضْوَانَہٗ فَاَحْبَــطَ اَعْمَالَہُمْo
محمد 28:48
ان پر مار اس لیے پڑے گی کہ انھوں نے اس چیز کی پیروی کی جس نے خدا کو ناخوش کر دیا اور انھوں نے خدا کی خوش نودی حاصل کرنے کو پسند نہ کیا۔ اس لیے اللّٰہ نے ان کے اعمال اکارت کر دیے۔
سورۂ حج میں خدا کی ایسی عبادت کو جو دنیوی فوائد کی خاطر ہو، قطعاً بے کار اور موجبِ نامرادی قرار دیا گیا ہے۔
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّعْبُدُ اللہَ عَلٰي حَرْفٍ۝۰ۚ فَاِنْ اَصَابَہٗ خَيْرُۨ اطْـمَاَنَّ بِہٖ۝۰ۚ وَاِنْ اَصَابَتْہُ فِتْنَۃُۨ انْقَلَبَ عَلٰي وَجْہِہٖ۝۰ۣۚ خَسِرَ الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَۃَ۝۰ۭ ذٰلِكَ ہُوَالْخُسْرَانُ الْمُبِيْنُo الحج 11:22
اور لوگوں میں سے ایک وہ ہے جو اللّٰہ کی عبادت اکھڑے دل سے کرتا ہے۔ اگر اسے کوئی فائدہ پہنچ گیا تو اس سے مطمئن ہو گیا اور اگر کوئی آزمائش کا وقت آ گیا تو الٹا پھر گیا۔ ایسا شخص دنیا اور آخرت دونوں میں نامراد ہوا اور یہی صریح گھاٹا ہے۔
سورۂ بقرہ میں بتایا گیا ہے کہ جو خیرات لوگوں کو دکھانے کے لیے کی جائے اور جس مال کو دے کر آدمی احسان جتائے وہ باطل ہے۔ اس کی مثال ایسی ہے کہ ایک چٹان پر تھوڑی سی مٹی پڑی تھی، تم نے اس میں بیج بویا، مگر پانی کا سیلاب آیا اور اسے بہا لے گیا۔ بخلاف اس کے جو خیرات ثباتِ نفس کے ساتھ خاص خدا کی خوش نودی کے لیے کی جائے، اس کی مثال ایسے باغ کی سی ہے جس پر اگر خوب بارش ہو تو دو چند پھل لائے، اور اگر زور کی بارش نہ ہو تب بھی ہلکی سی پھوہار ہی اس کے پھلنے پھولنے کے لیے کافی ہو جائے۔‘‘ (بقرہ: ۲۶۳۔۲۶۴)
اس بات کو مختلف مقامات پر مختلف پیرایوں میں سمجھایا گیا ہے کہ تم جو نیک عمل بھی کرو صرف خدا کی خوش نودی کے لیے کرو اور اس سے کوئی اور غرض نہ رکھو۔‘‘
وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَيْرٍ فَلِاَنْفُسِكُمْ۝۰ۭ وَمَا تُنْفِقُوْنَ اِلَّا ابْتِغَاۗءَ وَجْہِ اللہِ۝۰ۭ
البقرہ 272:2
تم جو کچھ بھی خیرات کی مد میں خرچ کرو گے، اس کا فائدہ تمھارے ہی لیے ہے، اور جو کچھ بھی تم خرچ کرتے ہوصرف خدا ہی کی رضا جوئی کے لیے کرتے ہو۔
وَالَّذِيْنَ صَبَرُوا ابْتِغَاۗءَ وَجْہِ رَبِّہِمْ وَاَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاَنْفَقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰہُمْ سِرًّا وَّعَلَانِيَۃً وَّيَدْرَءُوْنَ بِالْحَسَـنَۃِ السَّيِّئَۃَ اُولٰۗىِٕكَ لَہُمْ عُقْبَى الدَّارِo الرعد 22:13
اور جن لوگوں نے اپنے رب کی رضا جوئی کے لیے صبر کیا اور نماز قائم کی اور جو کچھ ہم نے انھیں روزی عطا کی تھی، اس میں سے پوشیدہ یا ظاہر خرچ کیا، اور جو لوگ نیکی سے بدی کو دفع کرتے ہیں، آخرت کا گھر ایسے ہی لوگوں کے لیے ہے۔
وَسَيُجَنَّبُہَا الْاَتْقَىo الَّذِيْ يُؤْتِيْ مَالَہٗ يَتَزَكّٰىo وَمَا لِاَحَدٍ عِنْدَہٗ مِنْ نِّعْمَۃٍ تُجْزٰٓىo اِلَّا ابْتِغَاۗءَ وَجْہِ رَبِّہِ الْاَعْلٰىo وَلَسَوْفَ يَرْضٰىo اللیل 17-21:92
عذاب نار سے وہ بڑا پرہیز گار بچ جائے گا جو پاکیزگیِ نفس کے ساتھ اپنا مال دیتا ہے۔ اس پرکسی کا کوئی احسان نہیں ہے جس کا بدلہ اسے دینا ہو بلکہ وہ صرف اپنے بالا و برتر پروردگار کی خوشنودی چاہتا ہے، اور ضرور وہ راضی ہو جائے گا۔
فَاٰتِ ذَا الْقُرْبٰى حَقَّہٗ وَالْمِسْكِيْنَ وَابْنَ السَّبِيْلِ۝۰ۭ ذٰلِكَ خَيْرٌ لِّــلَّذِيْنَ يُرِيْدُوْنَ وَجْہَ اللہِ۝۰ۡوَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَo الروم 38:30
پس تو اپنے رشتے دار کو اس کا حق دے اور مسکین اور مسافر کو (اس کا حق)، یہ بہتر ہے ان لوگوں کے لیے جو خوش نودیِ الٰہی چاہتے ہوں، اور حقیقت میں وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔
وَمَآ اٰتَيْتُمْ مِّنْ زَكٰوۃٍ تُرِيْدُوْنَ وَجْہَ اللہِ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْمُضْعِفُوْنَo الروم39:30
جو زکوٰۃ تم نے دی اور اس سے تم صرف اللّٰہ کی خوش نودی حاصل کرنا چاہتے ہو تو جو لوگ ایسا کر رہے ہیں وہی اپنے دیے کو دوگنا چوگنا کر رہے ہیں۔
وَيُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰي حُبِّہٖ مِسْكِيْنًا وَّيَـتِـيْمًا وَّاَسِيْرًاo اِنَّمَا نُـطْعِمُكُمْ لِوَجْہِ اللہِ لَا نُرِيْدُ مِنْكُمْ جَزَاۗءً وَّلَا شُكُوْرًاo اِنَّا نَخَافُ مِنْ رَّبِّنَا يَوْمًا عَبُوْسًا قَمْطَرِيْرًاo فَوَقٰىہُمُ اللہُ شَرَّ ذٰلِكَ الْيَوْمِ وَلَقّٰىہُمْ نَضْرَۃً وَّسُرُوْرًاo الدھر 8-11:76
اور اللّٰہ کی محبت کی خاطر مسکین اور یتیم اور اسیر کو کھانا کھلاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم تمھیں خدا کے لیے کھلا رہے ہیں، ہم تم سے نہ کوئی جزا چاہتے ہیں اور نہ شکریہ۔ ہمیں تو اپنے رب سے اس دن کا خوف لگا ہوا ہے جب لوگوں کے منہ بنے ہوئے ہوں گے اور ان کے چہروں پر شکنیں پڑ جائیں گی۔ پس اللّٰہ نے انھیں اس دن کے شر سے بچا لیا اور انھیں تازہ رُوئی اور خوش حالی سے ہم آغوش کردیا۔
لِلْفُقَرَاۗءِ الْمُہٰجِرِيْنَ الَّذِيْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِيَارِہِمْ وَاَمْوَالِہِمْ يَبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللہِ وَرِضْوَانًا وَّيَنْصُرُوْنَ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ۝۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الصّٰدِقُوْنَo الحشر 8:59
(فے میں) ان غریب لوگوں کا حصہ بھی ہے جنھوں نے ہجرت کی ہے اورجو اپنے گھروں اور جائدادوں سے نکالے گئے ہیں(اورجنھوں نے یہ سب کچھ اس لیے قبول کیا ہے کہ) وہ اللّٰہ کا فضل اور اس کی خوش نودی چاہتے ہیں اور وہ اللّٰہ اور اس کے رسولؐ کے کام آتے ہیں، حقیقت میں یہی لوگ سچے ہیں۔
اِنَّ اللہَ يُحِبُّ الَّذِيْنَ يُقَاتِلُوْنَ فِيْ سَبِيْلِہٖ صَفًّا كَاَنَّہُمْ بُنْيَانٌ مَّرْصُوْصٌo
الصف 4: 61
اللّٰہ ان لوگوں کو پسند کرتا ہے جو اس کی راہ میں اس طرح صف بستہ ہو کر لڑتے ہیں کہ گویا وہ ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں۔
اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا يُقَاتِلُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ۝۰ۚ وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا يُقَاتِلُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ الطَّاغُوْتِ النسائ 76:4
جو لوگ ایمان لائے ہیں وہ اللّٰہ کی راہ میں جنگ کرتے ہیں، اور جو کافر ہیں وہ ظلم و سرکشی کی خاطر لڑتے ہیں۔
اس تمام تعلیم کو صاحب جوامع الکلم محمد مصطفیٰ ﷺ نے ایک جملے میں ادا فرمایا ہے، اور حقیقت یہ ہے کہ ایسا قاعدہ کلیہ بیان فرما دیا ہے جو تمام معاملات اور عبادات پر پوری طرح حاوی ہے۔ حدیث کے الفاظ یہ ہیں:
اِنَّ اللّٰہَ لَا یَقْبَلُ مِنَ الْعَمَلِ اِلَّا مَاکَان لَہٗ خَالِصًا وَّابْتَغِیْ بِہٖ وَجْھُہٗ۔
اللّٰہ صرف وہی عمل قبول کرتا ہے جو خالصا ً اس کے لیے کیا جائے اور جس سے محض اس کی رضا جوئی مقصود ہو۔
اس بحث سے یہ بات واضح ہو گئی کہ اسلام نے ہر قسم کی دنیوی اور اُخروی اغراض کو چھوڑ کر ایک چیز کو زندگی کا نصب العین، اور انسان کی تمام کوششوں کا مقصود، اور تمام ارادوں اور نیتوں کی غایت الغایات قرار دیا ہے، اور وہ چیز اللّٰہ تعالیٰ کی رضا اور اس کی خوش نودی کا حصول ہے۔ اب ہمیں دیکھنا چاہیے کہ اس نصب العین میں وہ کون سی خصوصیات ہیں جو اسے ایک بہترین نصب العین بناتی ہیں۔

۱۔ طبیعی اور عقلی نصب العین کی ہم آہنگی
کائنات کے متعلق اسلام کا نظریہ، جو نظریے کی حد سے گزر کر ایمان اور یقین کی آخری حد تک پہنچ گیا ہے، یہ ہے کہ وجود کی اس غیر محدود سلطنت کا فرماں روا ایک خدا ہے، اور تمام موجوداتِ عالم اسی کے مطیع، اسی کے تابع فرمان اور اسی کے آگے سربہ سجود ہیں۔
وَلَہٗ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝۰ۭ كُلٌّ لَّہٗ قٰنِتُوْنَo الروم 26:30
کارگاہِ ہستی کی تمام حرکات و سکنات اسی کے حکم اور اسی کی مرضی کے ماتحت ہیں۔
اِنِ الْحُكْمُ اِلَّا لِلہِ۝۰ۭ الانعام 57:6
جتنی چیزیں اس عالم اور دوسرے تمام عالموں میں ہیں، ان سب کا مرجع اسی کی ذات ہے۔
وَاِلَى اللہِ تُرْجَعُ الْاُمُوْرُo البقرہ 210:2
آخر کار سارے معاملات پیش تو اللہ ہی کے حضور ہونے والے ہیں۔
اسی چیز کا نام اسلام ہے۔ جس کے معنی ہیں گردن جھکا دینے اور تابع فرمان ہو جانے کے۔ تمام کائنات اور اس کا ہر ذرہ اپنی فطرت کے لحاظ سے اسی دینِ اسلام کا پیرو ہے، خواہ بطوع و رغبت، خواہ بہ قہر و جبر۔
وَلَہٗٓ اَسْلَمَ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ طَوْعًا وَّكَرْھًا آل عمران 83:3
حالانکہ آسمان و زمین کی ساری چیزیں چار و ناچار اللہ ہی کی تابع فرمان (مسلم) ہیں اور اُسی کی طرف سب کو پلٹنا ہے؟
اس عالم گیر، ناقابل تغیر اور ناآشنائے استثنا قانون میں تمام کائنات کی طرح خود انسان بھی جکڑا ہوا ہے اور اس کی طبیعت و فطرت بھی اسی خدا کی مطیع و فرماں بردار اور اسی کے دین کی پیرو ہے۔
فَاَقِـمْ وَجْہَكَ لِلدِّيْنِ حَنِيْفًا۝۰ۭ فِطْرَتَ اللہِ الَّتِيْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْہَا۝۰ۭ لَا تَبْدِيْلَ لِخَلْقِ اللہِ۝۰ۭ ذٰلِكَ الدِّيْنُ الْـقَيِّمُ۝۰ۤۙ الروم 30:30
پس (اے نبیؐ، اور نبیؐ کے پیروئو) یک سُو ہو کر اپنا رُخ اس دین کی سمت میں جما دو، قائم ہو جائو اُس فطرت پر جس پر اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو پیدا کیا ہے، اللہ کی بنائی ہوئی ساخت بدلی نہیں جاسکتی، یہی بالکل راست اور درست دین ہے۔
اس نظریے کے مطابق تمام موجوداتِ عالم کا، جن میں انسان بھی شامل ہے، فطری نصب العین اور مقصود و مطلوب اور غایت الغایات حضرت حق جل ثناؤہٗ کی ذات ہے اور سب کی طبیعت کا رخ اسی مرکز و مرجع کی طرف پھرا ہوا ہے۔ اب انسان کے لیے بحیثیت ایک عقلی وجود کے صرف اتنی کسر رہ جاتی ہے کہ وہ اپنے اس طبیعی نصب العین کا شعور بھی حاصل کر لے اور عقل و فکر کے ساتھ اسے سمجھ کر اپنے ارادوں اورپنی نیتوں اور اپنی سعی و عمل کا رخ بھی اسی کی طرف پھیر دے۔ اس صورت میں اس کا عقلی نصب العین اس کے اور تمام موجودات کے طبیعی نصب العین کے ساتھ ہم آہنگ ہو جائے گا۔ جہانِ ہستی کے سارے لشکر اور نظامِ وجود کے سب کَل پُرزے اسی مقصود تک پہنچنے میں ان کا ساتھ دیں گے اور وہ اپنے عقلی مرتبے کے لحاظ سے اس عظیم الشان قافلے کا سالار اور امام ہو گا۔ برعکس اس کے اگر اس نصب العین کو چھوڑ کر اس نے کسی اور چیز کو اپنا عقلی نصب العین بنایا تو اس کی مثال ایسی ہو گی جیسے کوئی شخص ایک قافلے کے ساتھ ہے، قافلہ مغرب کی جانب سفر کر رہا ہے، وہ شخص خود جس گھوڑے پر سوار ہے، وہ بھی مغرب کی جانب دوڑ رہا ہے، لیکن اس بے ہوش مسافر کو خبر نہیں کہ قافلے کا رخ اور اس کی اپنی سواری کا رُخ کدھر ہے۔ اس کا دل مشرق میں اٹکا ہوا ہے۔ اس نے اپنے گھوڑے کی دم کی طرف اپنا منہ کر رکھا ہے۔ لگام کھینچ کھینچ کر اور ایڑی لگا لگا کر کوشش کر رہا ہے کہ گھوڑا اُلٹے پائوں چلے۔ چند قدم وہ گھوڑے کو پیچھے کی طرف کھینچ بھی لاتا ہے، مگر پھر قافلے کی رَوِش اور خود اپنی طبیعی رَوِش سے مجبور ہو کر گھوڑا اسی مغربی سمت میں دوڑنے لگتا ہے۔ غرض اس طرح یہ مسافر کشاں کشاں اپنی نیت اور اپنے ارادے کے خلاف اس منزل کی طرف جانے پر مجبور ہو جاتا ہے، مگر ایک کام یاب اور بامراد مسافر کی طرح نہیں بلکہ ایک ناکام و نامراد مسافر کی طرح۔ کیوں کہ اس نے جس چیز کو اپنی منزل مقصود قرار دیا ہے اس تک پہنچنا اسے نصیب نہیں ہوتا اور جہاں فی الواقع وہ پہنچ جاتا ہے وہ جگہ نہ اس کی منزل مقصود ہوتی ہے اور نہ اس جگہ رہنے کے لیے اس نے کوئی تیاری ہی کی ہوتی ہے۔
۲۔ نظامِ اسلامی کی قوتِ جاذبہ
جیسا کہ اوپر اشارہ کیا گیا ہے، دین اسلام کے پورے نظام کا مرکز اورمدار خدا کی ذات ہے، یہ پورا نظام اسی مرکز کے گرد گردش کر رہا ہے، اس نظام میں جو کچھ بھی ہے، خواہ وہ نیت و اعتقاد کے قبیل سے ہو یا پرستش و عبادت کے قبیل سے یا دنیوی زندگی کے معاملات میں سے، بہرنوع اور بہرکیف اس کا رخ اسی مرکزی ہستی کی جانب پھرا ہوا ہے اور ہر چیز اس کی قوتِ جاذبہ کے زبردست تاروں میں جکڑی ہوئی ہے۔ خود لفظ دین (طاعت) اور لفظ اسلام (گردن نہادن) جن سے اسی مذہبی نظام کو موسوم کیا گیا ہے، اپنے مسمّیٰ کی فطرت و حقیقت پر بہترین دلالت کرتے ہیں۔ دین اور اسلام کے معنی ہی یہ ہیں کہ بندہ اپنے خدا کی رضا کے آگے سر جھکا دے اور اسی کی مرضی کا تابع ہو جائے۔
وَمَنْ اَحْسَنُ دِيْنًا مِّمَّنْ اَسْلَمَ وَجْہَہٗ لِلہِ وَھُوَمُحْسِنٌ النسائ 125:4
اس سے بہتر دین اور کس کا ہو گا جس نے اللّٰہ کے آگے سرِ تسلیم خم کر دیا اور جو نیکو کار ہے؟
وَمَنْ يُّسْلِمْ وَجْہَہٗٓ اِلَى اللہِ وَہُوَمُحْسِنٌ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَۃِ الْوُثْقٰى۝۰ۭ
لقمان 22:31
جو کوئی اپنا رخ خدا کی طرف پھیر دے اوراس کے ساتھ وہ نیکو کار بھی ہو تو اس نے بڑی مضبوط رسی تھام لی۔
اس سے بڑھ کر فطرتِ اسلام کا اندازہ اس چیز سے ہوتا ہے کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے صاحب زادے خدا کے آگے سرِ تسلیم خم کر دیتے ہیں، بیٹا {یٰٓاَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ} کہہ کر اپنے آپ کو چھری کے حوالے کر دیتا ہے، اور باپ اپنے لختِ جگر کو محض خدا کی خوش نودی کے لیے ذبح کرنے پر آمادہ ہو جاتا ہے، تو ان دونوں کے اس فعل کو ’’اسلام‘‘ کے لفظ سے تعبیر کیا جاتا ہے:
فَلَمَّآ اَسْلَمَا وَتَلَّہٗ لِلْجَبِيْنِo الصٰفٰت 103:37
آخر کو جب ان دونوں نے سرتسلیم خم کر دیا۔
یہی وجہ ہے کہ اسلام میں جو کچھ بھی ہے خدا کے لیے ہے۔ نماز اگر خدا کے لیے نہ ہو تو وہ ایک بے معنی اٹھک بیٹھک ہے۔ روزہ اگر خدا کے لیے نہ ہو تو وہ محض ایک فاقہ ہے۔ زکوٰۃ و خیرات اگر خدا کے لیے ہو تو خیرات اور انفاق فی سبیل اللّٰہ ہے، ورنہ محض اسراف و تبذیر۔ جنگ اور جہاد اگر خالصتاً لِلّٰہ اور فی سبیل اللّٰہ ہو تو بہترین عبادت ہے، ورنہ محض ایک فساد اور ناحق کی خوںریزی۔ اسی طرح دوسرے تمام افعال جن کا حکم اسلام میں دیا گیا ہے اگر خدا کے لیے کیے جائیں تو وہ نیک اور قابلِ اجر ہیں، ورنہ بے فائدہ اور بے نتیجہ۔ اور جن سے اسلام نے منع کیا ہے اگر ان سے اجتناب خدا کی خوش نودی کی خاطر کیا جائے تو مفید ہے ورنہ قطعاً لاحاصل۔
یہ زبردست مرکزیت اور یک سُوئی جو اسلام کے نظام میں نظر آتی ہے، اسی نصب العین کی پیدا کردہ ہے۔ یہی قوتِ جاذبہ ہے جس نے نظامِ اسلامی کے تمام اجزا میں ایک طاقت اور مائل المرکز میلان پیدا کر دیا ہے، جس کی بدولت یہ نظام ویسا ہی ایک مکمل اور مضبوط نظام بن گیا ہے جیسا موجودہ زمانے کے علم ہیئت کی رُو سے ہمارا نظامِ شمسی مکمل اور مضبوط ہے۔ اگر یہ نصب العین نہ ہوتا تو دینِ اسلام میں یہ نظم بھی نہ ہوتا۔
۳۔ فکر و عمل کی یک سُوئی
جس طرح اس نصب العین نے اسلام کے نظام دینی میں مرکزیت، یک سُوئی اور ضبط و نظم کی قوت پیدا کی ہے، اسی طرح یہ انسان کے افکار و خیالات، ارادات و نیّات اور عقائد و اعمال میں بھی کامل یک سُوئی پیدا کردیتا ہے، اور یک سُوئی کے ساتھ یہ اسے ایک ایسے بلند مطمحِ نظر اور ایک ایسے اعلیٰ و ارفع مقصد کی طرف ہمہ تن متوجہ کردیتا ہے جس سے زیادہ بلند اور عالی شان اور رفیع المنزلت کوئی مقصد اور مطمحِ نظر نہیں ہو سکتا۔ جس شخص کے پیشِ نظر محض اپنی طبیعی خواہشات کی تسکین، یا نفسانی اغراض کی تحصیل یا روحانی مقاصد کی تکمیل ہو، اُسے کبھی فکر و عمل کی یک سُوئی میسر نہیں آ سکتی، کیوں کہ عقلی و ذہنی ارتقا اور نظری و عملی اکتشاف کے ہر مرحلے میں اس کے اندر نئی خواہشیں اور نئی رغبتیں پیدا ہوں گی اور وہ نئی نئی چیزوں کو اپنی غایت اور اپنا مقصد قرار دیتا چلا جائے گا۔ یہ کسی طرح ممکن نہیں ہے کہ علم اور عقل کے کسی اونچے مرحلے پر پہنچ کر انسان انھی طبیعی رغبتوں اور نفسانی و روحانی مطالبوں پر جما رہے جو اس سے پہلے کے پست تر مرحلے میں اس کے لیے جاذبِ نظر اور محرکِ عمل تھے۔ اس طرح انسان کی تمام زندگی ایک مقصد سے دوسرے مقصد کی طرف انتقال میں بسر ہو جائے گی اور کبھی کوئی ایسا مرکزی تخیل اس کے ذہن میں جاگزیں نہ ہو سکے گا جو اس کے افکار میں کامل یک سُوئی پیدا کر دینے والا ہو اور جس کی راہ میں وہ اپنی تمام فکری اور عملی قوتیں صرف کر سکتا ہو۔ یہ خوبی صرف اسلامی نصب العین ہی میں ہے کہ وہ ہر مرتبۂ علمی وعقلی میں انسان کا واحد نصب العین بن سکتا ہے اور کسی اعلیٰ سے اعلیٰ مرتبے پر پہنچ کر اسے بدلنے کی ضرورت نہیں پیش آتی۔ کیوں کہ ہم جتنے عقلی اور عملی مراتب کا تصور کر سکتے ہیں، خدا کی ذات ان سب سے اعلیٰ و ارفع ہے، اور اس کے باوجود ادنیٰ سے ادنیٰ مرتبے سے لے کر بلند سے بلند مرتبے تک ہر ایک کے ساتھ اس کا تعلق یکساں ہے ۔اگر فرق ہے تو وہ محض ہمارے تعقل و شعور کے مراتب کے لحاظ سے ہے۔
۴۔ خالص بشری اجتماعیت کی شیرازہ بندی
پھر جس طرح یہ نصب العین ایک فرد کا نصب العین بن سکتا ہے، اسی طرح ایک جماعت، ایک قوم، بلکہ تمام نوعِ بشری کا نصب العین بھی بن سکتا ہے۔ اس میں سرے سے نفسانیت اور انفرادی یا اجتماعی خود غرضی کا وہ عنصر ہی موجود نہیں ہے جس کی طبیعی خاصیت یہ ہے کہ انسانیت کو نسلوں اور قوموں میں اور پھر افراد و اشخاص میں تقسیم کر دے، اور ان کے اندر ایک دوسرے کے خلاف مقابلہ و مزاحمت اور بُغض و حسد کے جذبات ابھارتا ہے۔ برعکس اس کے یہ نصب العین انسان کو اسی ہستی کی طرف متوجہ کر دیتا ہے جس کے ساتھ تمام نوعِ بشری، بلکہ تمام کائنات کا تعلق یکساں ہے اورجس کی طرف متوجہ ہو جانے کے بعد ہر جہت اور ہر حیثیت سے انسانی مقاصد میں ایسا اشتراک و اتحاد پیدا ہو جاتا ہے کہ لوگوں میں مقابلہ و مزاحمت تو درکنار، تعاون اور موالات، اخوت اور بھائی چارے کی روح پیدا ہو جاتی ہے۔ دنیا کے جتنے مادی مقاصد ہیں، ان کی راہ میں دو آدمی بھی ایک دوسرے کے سچے مددگار نہیں ہو سکتے۔ بھائی اور بھائی، باپ اور بیٹے، ماں اور بیٹی کے لیے بھی ایک مادی مقصد میں مشترک ہو کر تزاحُم اور کش مکش، حتیٰ کہ عداوت اور دشمنی تک سے بچنا مشکل ہو جاتا ہے۔ ہم نے خود رحم اور خون کے تعلقات منقطع ہوتے دیکھے ہیں۔ ہماری آنکھوں کے سامنے بھائیوں نے بھائیوں کے گلے کاٹ دیے ہیں۔ ہماری نگاہوں سے ایسے بے شمار مناظر گزرے ہیں اور گزرتے رہتے ہیں کہ قریب سے قریب عزیزوں نے دنیوی مقاصد کی خاطر ایک دوسرے کی جان، مال، عزت اور آبرو کو تباہ و برباد کر دیا۔ یہ سب اس نفسانیت اور خود غرضی کی تاثیرات ہیں جو دنیوی اغراض و مقاصد کے عناصرِ ترکیبی میں سب سے اہم عنصر ہے۔ لیکن ذاتِ حق وہ غایت الغایات ہے جس کی جانب لاکھوں، کروڑوں انسان بیک وقت دوڑ سکتے ہیں، بغیر اس کے کہ ان میں کوئی کش مکش، مقابلہ اور مزاحمت ہو، اور کسی ایک شخص کو بھی دوسرے شخص کی ٹھوکر لگے۔ بلکہ یہ سفر تو ایسا سفر ہے جس کا ہر مسافر دوسرے مسافر کی مخلصانہ مدد کرتا ہے، اپنے آرام پر دوسرے کے آرام کو ترجیح دیتا ہے، اپنی مشقت کو دوسرے کی مشقت کے مقابلے میں گوارا کر لیتا ہے، عیش و آرام کے ساتھ جانے سے بدرجہ ہابہتر اسے سمجھتا ہے کہ اپنے دوسرے ساتھیوں کا بوجھ ڈھو کر، دوسروں کی خدمت کرکے، ہانپتا، کانپتا، تھکا ماندہ، عرق عرق، منزلِ مقصود پر پہنچے اور اپنے مالک کی زیادہ سے زیادہ خوش نودی حاصل کرے۔
حقیقت یہ ہے کہ نسل، رنگ، زبان اور جغرافی حدود کے امتیازات کو مٹا کر ایک عالم گیر قومیت کی تعمیر، اور ایک بین الاقوامی انسانی جمعیت کی شیرازہ بندی کے لیے جس مرکزی تخیل کی ضرورت ہے، وہ اس نصب العین میں بدرجۂ اتم موجود ہے۔ اس قسم کی جہاں گیر تہذیب کے لیے اس سے بہتر نصب العین اور کوئی نہیں ہو سکتا۔ کیوں کہ وہ ایک طرف فرد کی انفرادیت کو بالکل فنا بھی نہیں کرتا، اور دوسری طرف انفرادیت کے تمام دافع المرکز میلانات کو مٹا کر اسے ایک خالص بشری اجتماعیت میں پوری طرح ضم بھی کر دیتا ہے۔
۵۔ تمام انسانی مرادات کا بالتبع حصول
اس نصب العین کی ایک بڑی خصوصیت یہ ہے کہ دنیا میں انفرادی اور اجتماعی حیثیت سے انسان کے جتنے مقاصد ہو سکتے ہیں وہ سب اس کے تحقُّق کے ساتھ بالتبع حاصل ہو جاتے ہیں، بغیر اس کے کہ انسان انھیں بالذات مقصود بنائے۔ قرآن مجید نے ایک ایک کر کے ان سب چیزوں کو گنایا ہے جو رضائے الٰہی کے حصول کے ساتھ لازماً حاصل ہوتی ہیں۔
دنیوی زندگی میں انسان سب سے زیادہ جس چیز کا خواہش مند ہوتا ہے وہ امن و سکون، راحت اور اطمینانِ قلب ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ خدا کی طرف رجوع کرو اور اس کی خوش نودی کے طالب ہو جائو، یہ چیز تمھیں آپ سے آپ مل جائے گی۔
بَلٰي۝۰ۤ مَنْ اَسْلَمَ وَجْہَہٗ لِلہِ وَھُوَمُحْسِنٌ فَلَہٗٓ اَجْرُہٗ عِنْدَ رَبِّہٖ۝۰۠ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْہِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَo البقرہ 122:2
ہاں جس کسی نے اللّٰہ کے آگے سرِ تسلیم خم کر دیا اور وہ نیکو کار ہوا، تو اس کا اجر اس کے پروردگار کے پاس ہے۔ ایسے لوگوں کے لیے کوئی خوف نہیں ہے اور نہ وہ رنجیدہ ہوتے ہیں۔
اَلَا بِذِكْرِ اللہِ تَطْمَىِٕنُّ الْقُلُوْبُo الرعد 28:13
آگاہ ہو جائو کہ اللّٰہ کی یاد ہی سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوتا ہے۔
دوسری چیز جو انسان دنیا میں حاصل کرنا چاہتا ہے، خوش حالی ہے۔ یعنی ایسی زندگی جو پریشانی اور پراگندہ خاطری سے خالی ہو۔ قرآن کہتا ہے کہ خدا پرایمان لانے اور اس کے غضب سے بچنے اور اس کی خاطر پرہیز گاری و نیکوکاری اختیار کرنے سے یہ چیز بھی باحسن وجوہ حاصل ہو جاتی ہے۔
وَلَوْ اَنَّ اَہْلَ الْقُرٰٓي اٰمَنُوْا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَيْہِمْ بَرَكٰتٍ مِّنَ السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ
الاعراف 96:7
اگر ان بستیوں کے لوگ ایمان لاتے اور پرہیز گاری اختیار کرتے تو ہم ان پرآسمان و زمین سے برکتوں کے دروازے کھول دیتے۔
مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰى وَہُوَمُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّہٗ حَيٰوۃً طَيِّبَۃً۝۰ۚ وَلَـنَجْزِيَنَّہُمْ اَجْرَہُمْ بِاَحْسَنِ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَo النحل 97:16
جس کسی نے نیک عمل کیا، اس حال میں کہ وہ مومن ہو، تو خواہ وہ مرد ہو یا عورت ،ہم اسے ضرور خوش حالی کی زندگی بسرکرائیں گے اور یقیناً ایسے لوگوں کو ہم ان کے عمل سے بہت زیادہ اچھا بدلہ دیں گے۔
تیسری چیز حکومت و فرماں روائی اور غلبہ و سربلندی ہے جو انسان کی بڑی مطلوب و مرغوب چیز ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ تم خدا کے ہو جائو، یہ متاع خود تمھارے قدموں میں آ رہے گی۔
وَمَنْ يَّتَوَلَّ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا فَاِنَّ حِزْبَ اللہِ ہُمُ الْغٰلِبُوْنَo المائدہ 56:5
جو کوئی اللّٰہ اور اس کے رسولؐ اورایمان لانے والوں کا دوست ہو گیا (وہ اللّٰہ کی پارٹی میں شامل ہو گیا) اور اللّٰہ کی پارٹی ہی غالب ہونے والی ہے۔
وَلَقَدْ كَتَبْنَا فِي الزَّبُوْرِ مِنْۢ بَعْدِ الذِّكْرِ اَنَّ الْاَرْضَ يَرِثُہَا عِبَادِيَ الصّٰلِحُوْنَo
الانبیائ 105:21
اور ہم زبور میں پند و نصیحت کے بعد یہ بات لکھ چکے ہیں کہ زمین کے وارث ہمارے صالح بندے ہوں گے۔
وَعَدَ اللہُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّہُمْ فِي الْاَرْضِ كَـمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ۝۰۠ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَہُمْ دِيْنَہُمُ الَّذِي ارْتَضٰى لَہُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّہُمْ مِّنْۢ بَعْدِ خَوْفِہِمْ اَمْنًا۝۰ۭ النور 55:24
تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور جنھوں نے نیک عمل کیے، ان سے اللّٰہ کا وعدہ ہے کہ وہ ضرور انھیں زمین میں خلافت عطا کرے گا، جس طرح اس نے ان سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں کو خلیفہ بنایا تھا، اور وہ ضرور ان کے اس دین کو استحکام بخشے گا جسے اس نے ان کے لیے پسند کیا ہے، ان کی حالتِ خوف کے بعد انھیں امن عطا کرے گا۔
اسی طرح اخروی زندگی میں نجات انسان کی مطلوب ہے اوراس کے متعلق بھی قرآن کہتا ہے کہ وہ صرف خدا کی رضا اور اس کی خوش نودی کے حاصل ہونے کا نتیجہ ہے:
يٰٓاَيَّتُہَا النَّفْسُ الْمُطْمَىِٕنَّۃُo ارْجِعِيْٓ اِلٰى رَبِّكِ رَاضِيَۃً مَّرْضِيَّۃًo فَادْخُلِيْ فِيْ عِبٰدِيْo وَادْخُلِيْ جَنَّتِيْo الفجر 27-30:89
اے نفسِ مطمئن! اپنے پروردگار کی طرف واپس ہو، اس حال میں کہ تو اس سے راضی ہے اور وہ تجھ سے راضی۔ پھر (خدا کہے گا کہ) تو میرے بندوں میں شامل اور میری جنت میں داخل ہو جا۔
اس سے معلوم ہوا کہ دوسروں نے جتنی چیزوں کو مقصود اور غایت قرار دیا ہے، اسلام نے ان کی طرف توجہ بھی نہیں کی، بلکہ اس چیز کو اپنا مطمحِ نظر بنایا ہے جس کے حصول سے یہ سب چیزیں خود بخود حاصل ہو جاتی ہیں۔ دوسرے جن چیزوں کو اپنا نصب العین قرار دیتے ہیں، مسلمان کی نگاہ میں وہ اس قابل ہی نہیں ہیں کہ وہ ان کی طلب میں اپنے قلب کو ایک لمحے کے لیے بھی الجھنے دے۔ اس کے پیشِ نظر تو ایک ایسا نصب العین ہے جو ان سب سے اور جہانِ ہستی کی ہر چیز سے اعلیٰ و ارفع ہے۔ وہ جانتا ہے کہ جب اس بلند ترین مقصود کو وہ پہنچ جائے گا تو اس کے تحت جتنی چیزیں ہیں وہ اسے آپ سے آپ حاصل ہو جائیں گی۔ بالکل اسی طرح جس طرح عمارت کی سب سے اونچی منزل پر پہنچ جانے والا بیچ کی تمام منازل کو اپنے قدموں کے نیچے پاتا ہے۔
۶۔ تقویٰ اور نیکوکاری کے لیے بہترین محرک
ایک اور خصوصیت اس نصب العین کی یہ ہے کہ اسلام نے پرہیز گاری اور نیکوکاری کا جو اعلیٰ معیار قائم کیا ہے، اور اس کے لیے اوامر و نواہی کا جو ضابطہ پیش کیا ہے، اس کے اتباع پر انسان کو آمادہ کرنے کے لیے صرف یہی نصب العین ایک شریف اور پاکیزہ نصب العین ہو سکتا ہے۔
دنیا میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں ہے جو کہتے ہیں کہ نیکی اس لیے ہونی چاہیے کہ وہ نیکی ہے اور بدی سے اس لیے اجتناب ہونا چاہیے کہ وہ بدی ہے۔ لیکن جو لوگ ایسا کہتے ہیں انھیں یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ ان کے اس قول کا مفہوم کیا ہے۔ نیکی محض نیکی کی خاطر کرنے کے معنی یہ ہیں کہ ہر قسم کے فوائد ومنافع سے قطع نظر کرکے نیکی بجائے خود نیکی ہے اور وہ انسان کی مقصود بن سکتی ہے۔ اور اسی طرح بدی سے محض اس کے بدی ہونے کی بنا پر اجتناب کرنا یہ معنی رکھتا ہے کہ تمام مضرتوں اور نقصانات سے مجرّد کرکے بدی اپنی ذات میں بدی ہے، گویا اس کی ذات ہی کوئی ایسی چیز ہے جو انسان کے لیے قابلِ اجتناب بن سکتی ہے۔ مگر حقیقتاً دنیا میں انسان کے لیے کسی ایسی خالص نیکی کا وجود ہی نہیں ہے جو ذاتِ فاعل کی طرف عائد ہونے والے تمام فوائد و منافع سے مجرّد ہو، اور نہ کسی ایسی خالص بدی کا وجود ہے جو فاعل کی ذات کو پہنچنے والی جملہ مضرتوں سے خالی ہو۔ بلکہ زیادہ صحیح یہ ہے کہ انسان کے ذہن میں نیکی اور بدی کا تخیل ہی فائدے اور نقصان، منفعت اورمضرت کے تجربات سے پیدا ہوا ہے۔ انسان ہر اس فعل کو بد کہتا ہے جس سے خود اس کی ذات کو کوئی حقیقی مضرت پہنچتی ہو، خواہ وہ ظاہر نظر میں اپنے اندر کچھ منفعتیں بھی رکھتا ہو۔ اگر کسی فعل کو فائدے اور نقصان کے جملہ پہلوئوں سے مجرّد کر لیا جائے اور وہ فعل محض ایک حرکت رہ جائے تو ہم اس پر نیک یا بد ہونے کا کوئی حکم نہیں لگا سکتے۔ اس میں شک نہیں کہ نیکی کا ملکہ راسخ ہو جانے اور بلند عقلی مراتب پر پہنچ جانے کے بعد یہ ممکن ہے کہ انسان فائدے اور نقصان کے تصور سے خالی الذہن ہو کر نیکی محض نیکی کی خاطر کرنے لگے اور بدی سے محض اس کے بدی ہونے کی بِنا پر مجتنب رہے، لیکن اوّل تو یہ فقط مبدئِ خیر و شر کی طرف سے ذہول ہے نہ کہ اس کی مبدائیت کا سبب، دوسرے یہ محض فلسفیوں کے تخیل کی معراج ہے جس تک پہنچنا بڑے بڑے حکما کو بھی نصیب نہیں ہوا ہے، پھر بھلا عام انسان مجرّد نیکی کے اختیار اور مجرّد بدی سے اجتناب کو اپنا نصب العین کیوں کر بنا سکتے ہیں؟
اس سے یہ بات ظاہر ہو گئی کہ نیکی اور بدی کے تصور کوفائدے اور نقصان کے تصور سے جدا نہیں کیا جا سکتا۔ نیکی فی نفسہٖ انسان کی مراد نہیں ہو سکتی جب تک کہ اس کی تہ میں کوئی فائدہ مضمر نہ ہو، اور بدی بذاتِ خود قابلِ احتراز قرار نہیں پا سکتی تا وقتیکہ اس کے باطن میں کوئی نقصان پوشیدہ نہ ہو۔ اب اگر ہم تقوٰی اور نیکو کاری کو خود غرضی کے ادنیٰ مرتبے سے اٹھا کر بے نفسی اور خلوص کے اعلیٰ مرتبے تک پہنچانا اور اسے ایک ایسے ضابطۂ اخلاق کی بنیاد قرار دینا چاہیں جو عوام و خواص سب کے لیے ہو، تو اس کی بہترین صورت یہی ہے کہ فائدے اور نقصان کا ایک ایسا معیار قائم کیا جائے جو مادیّت اور نفسانیت سے بالاتر ہو، جس کی بنیاد پر تمام مادی اور نفسانی نقصانات سے لبریز ہونے کے باوجود ایک نیک عمل انسان کی نگاہ میں سراسر فائدوں سے مملو نظر آئے، اور ہر قسم کی منفعتوں سے پُر ہونے کے باوجو دایک بُرا عمل اسے سرتا پا نقصان محسوس ہو۔ یہی طریقہ اسلام نے اختیار کیا ہے، اس نے رضائے الٰہی کے حصول و عدمِ حصول کو فائدے اور نقصان کا معیار قرار دیا ہے جو مادی اور نفسانی آلائشوں سے بالکل پاک ہے۔ اس معیار کے مطابق ایک نیکو کار انسان اللّٰہ کی خوش نودی حاصل کرنے کے لیے اپنی جان، مال ، اولاد، نیک نامی، شہرت ہر چیز کو قربان کرکے بھی یہ یقین رکھتا ہے کہ وہ فائدے میں ہے، اور ایک بدکار انسان خدا کا غضب مُول لینے کے بعد دنیا کے تمام مادی اور نفسانی فوائد حاصل کرکے بھی یہ خوف رکھتا ہے کہ وہ نقصان میں ہے۔ یہی چیز ہے جو انسان کو تمام دنیوی فائدوں اور نقصانوں سے بے نیاز کرکے خلوصِ نیت کے ساتھ تقوٰی اور نیکوکاری اختیار کرنے پر آمادہ کرتی ہے۔
یہاں تک دو امور کی تشریح کی جا چکی ہے۔ ایک یہ کہ اسلام نے کس چیز کو زندگی کا نصب العین قرار دیا ہے، دوسرے یہ کہ وہ کن وجوہ سے ایک بہترین نصب العین ہے۔ اب ہمیں اس مسئلے کے تیسرے پہلو کی طرف نظر کرنی چاہیے، اور وہ یہ ہے کہ اسلامی تہذیب کو ایک مخصوص تہذیب بنانے میں اس نصب العین کا کیا حصہ ہے اور اس نے اس تہذیب کو کون سی خصوصی شان بخشی ہے؟
طریقوں کے امتیاز میں مقصد کی تعیین کا اثر
پہلے اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا جا چکا ہے کہ زندگی کے تمام معاملات میں جس طرح مقصد کی تعیین ضروری ہے، اسی طرح طریق حصولِ مقصد کی تعیین بھی ضروری ہے، اور طریقے کی تعیین، مقصد کی مناسبت کے سوا کسی اور بنیاد پر نہیں ہو سکتی۔ اگر کسی شخص کے پیشِ نظر نفسِ سلوک و سیر کے سوا کوئی متعین شے مقصود نہ ہو اور وہ محض راستوں اور گلیوں کی خاک چھانتا پھرے تو ہم اسے مجنون یا آوارہ گرد کہتے ہیں۔ اور اگر وہ مقصد تو رکھتا ہو، لیکن اس کی تحصیل کے مختلف طریقوں میں سے کسی خاص طریقۂ کار کا پابند نہ ہو، بلکہ ہر اس طریقے پر چلنے کے لیے تیار ہو جائے جس پر اسے موصل الی المقصود ہونے کا گمان ہو، تو اسے بھی ہم احمق قرار دیتے ہیں۔ کیوں کہ ازرُوئے عقل ایسا شخص کبھی منزلِ مقصود تک نہیں پہنچ سکتا جو ایک مقام کی طرف جانے کے لیے دس مختلف راستوں پر چلنے کی کوشش کرتا ہو۔ اسی طرح اگر کوئی شخص اپنا مقصود تو کسی چیز کو قرار دے اور راستہ ایسا اختیار کرے جو اس کے مخالف سمت میں جانے والا ہو، تو اسے بھی ہم صاحبِ عقل نہیں سمجھتے۔ کیوں کہ وہ اس اعرابی کے مانند ہے جو کعبے کی طرف جانے کے لیے ترکستان کی راہ پر چل رہا ہو۔ پس انسان کی عملی کام یابی کے لیے ضروری ہے کہ وہ سلوک کے لیے پہلے ایک مقصد متعین کرے، پھر اپنی نیتوں اور کوششوں کا رخ اسی مقصد کی طرف پھیر دے، اور اگر اس مقصد تک پہنچنے کے بہت سے راستے ہوں تو ان میں سے ایک راستہ اختیار کر لے جو اس کے نزدیک بہترین ہو، اور اس کے سوا دوسرے تمام راستوں کو چھوڑ دے۔
یہ ترک و اختیار عین مقتضائے عقل ہے۔ مقصد کی تعیین کا عقلی نتیجہ یہی ہے کہ جو طریقہ اس مقصد سے خاص طور پرمناسبت رکھتا ہو اُسے اختیار کیا جائے اوردوسرے تمام طریقوں کو ترک کر دیا جائے۔ ایک صاحبِ عقل آدمی جب سفرکرتا ہے تو اسی ایک راستے پر چلتا ہے جو منزلِ مقصود تک پہنچانے والے راستوں میں سب سے بہتر ہو۔ اس کے سوا اور بیسیوں راستے جو اسے دورانِ سفرمیں ملتے ہیں ان کی طرف وہ التفات بھی نہیں کرتا۔ ایک عقل مند طالب علم اپنے لیے علم کا وہی شعبہ اختیار کرتا ہے جو اس کے نصب العین کی تحصیل میں سب سے زیادہ مددگار ہوتا ہے۔ دوسرے جتنے شعبے اس سے غیر متعلق ہوتے ہیں ان میں اپنا وقت اور اپنا دماغ کھپانا پسند نہیں کرتا۔ ایک زیرک و دانا سوداگر اپنے لیے کاروبار کا وہی طریقہ اختیار کرتا ہے جو اس کے نزدیک حصولِ مراد کا بہترین وسیلہ ہو سکتاہو۔ ہر کام میں اپنا سرمایہ لگانا اور ہر پیشے میں اپنی محنت صرف کرنا حماقت سمجھتا ہے۔ اس ترک و اختیار کے فعل پرایک نقاد اگر بحث کر سکتا ہے تو صرف اس حیثیت سے کہ جو راستہ اختیار کیا گیا ہے وہ مقصود تک پہنچانے کے لیے بہترین ہے یا نہیں۔ لیکن نفسِ ترک و اختیار پر کوئی اعتراض ممکن نہیں ہے۔
یہ اصل جس طرح زندگی کے جزوی معاملات پرمنطبق ہوتی ہے، اسی طرح من حیث المجموع پوری زندگی پر بھی منطبق ہوتی ہے۔ اگر انسان اپنی زندگی کا کوئی مقصد نہ رکھتا ہو، یا بالفاظ دیگر جینے سے اس کا مقصود محض جینا ہو، تو وہ آزاد ہے کہ زندگی بسر کرنے کا جو طریقہ چاہے اختیار کرے۔ اس کے لیے طریقوں کے درمیان اچھے اور برے، صحیح اور غلط، اعلیٰ اور اسفل کا امتیاز محض بے معنی ہے۔ وہ اپنی خواہشات اور حاجات کو جس طرح چاہے پورا کر سکتا ہے۔ بیرونی اسباب کسی حد تک اسے ایک خاص طریقے کی پابندی پر مجبور بھی کریں تو یہ اس کی زندگی کو کسی نظم اور ضابطے کے تحت لانے میں کارگر نہیں ہو سکتے، کیوں کہ انضباط کا کوئی مبدئِ محرک خود اس کے اپنے نفس میں موجود نہ ہو گا۔ بخلاف اس کے اگر وہ اپنے پیشِ نظر زندگی کا کوئی مقصد رکھتا ہو، یا زیادہ صحیح الفاظ میں زندگی کے حیوانی طبیعی مقصد سے بالاتر کوئی عقلی انسانی مقصد اس کے ذہن میں جاگزیں ہو، تو لازماً وہ طریقوں کے درمیان امتیاز کرے گا اور اگر حقیقت میں وہ ایک صاحبِ عقل انسان ہے تو اس کے لیے ضروری ہو گا کہ زندگی بسر کرنے کے مختلف طریقوں میں سے کسی ایک طریقے کو جو اس کے مقصد کے لیے زیادہ مناسب ہو اختیار کرے گا۔ ایک مقصد متعین کر لینے کے بعد طریقوں میں وہی آزادی برتنا جو صرف ایک بے مقصد انسان کا حق ہے، اس کے لیے کسی طرح جائز نہ ہو گا۔
اب اس قاعدے کو ذرا وسیع کیجیے۔ فرد کی جگہ جماعت کو لے کر دیکھیے۔ یہی قاعدہ بالکل اسی طرح مجموعۂ افراد پربھی جاری ہوتا ہے۔ جب تک کوئی جماعت مدنیت کے ابتدائی مدارج میں ہوتی ہے، اور زندگی کے حیوانی طبیعی مقاصد سے اعلیٰ و ارفع کوئی مقصد اس کے پیشِ نظر نہیں ہوتا، وہ اپنے طور طریقوں میں اسی طرح آزاد رہتی ہے جس طرح ایک بے مقصد انسان ہوا کرتا ہے۔ مگر جب ایک ارتقائے عقلی اور نہضتِ مدنی کے زیادہ اونچے مدارج پر پہنچ کر اس میں ایک تہذیب پیدا ہو جاتی ہے، اور وہ تہذیب اس کے لیے اجتماعی زندگی کا کوئی عقلی مقصد متعین کر دیتی ہے، تو یہ ناگزیر ہو جاتا ہے کہ اس مقصد کی مناسبت سے عقائد، تصورات، معاملات، اخلاق، معاشرت، معیشت وغیرہ کے لیے ایک خاص نظام وضع کیا جائے، تہذیب کے متبعین کو اس نظام کا پابند بنایا جائے اور ان کے لیے اس امر کی آزادی باقی نہ رہنے دی جائے کہ وہ اس کے دائرے میں رہتے ہوئے کسی ایسے عقیدہ یا طرزِ عمل کو اختیار کر لیں جو اس نظام سے خارج ہو۔
اپنے اس ضابطے کی حفاظت میں سختی کرنا تہذیب کی فطرت کا عین مقتضا ہے۔ اس باب میں جس تہذیب کی گرفت ڈھیلی ہو گی، اور جس کی قوتِ ضابطہ میں ضُعف اور سستی پائی جائے گی، وہ کبھی زندہ ہی نہیں رہ سکتی، کیوں کہ تہذیب کا وجود منحصر ہے اس پر کہ عقیدہ اور عمل کا جو نظام اس نے وضع کیا ہے اس کے متبعین اس کی پابندی کریں۔ جب متبعین میں اس کی پابندی ہی نہ ہو گی اور اس نظام سے باہر کے تصورات اور طور طریقے ان کے ذہن اور ان کی عملی زندگی پرقابض ہو جائیں گے تو تہذیب کا کوئی واقعی وجود باقی نہ رہے گا۔ لہٰذا ایک تہذیب اپنے متبعین سے اپنے وضع کردہ نظام کی پابندی کا مطالبہ کرنے اور دوسرے خارجی نظامات سے علیحدگی پر اصرار کرنے میں بالکل حق بجانب ہے۔ نقاد اگر کچھ کلام کر سکتا ہے تو اس کے مقصد کے صحیح یا غلط ہونے پر کر سکتا ہے، یا اس پر کر سکتا ہے کہ اس مقصد کے لیے یہ خاص طریقہ مناسب ہے یا نہیں، یا اس پر کر سکتا ہے کہ اس نظام کی پابندی تمام حالات میں ممکن ہے یا نہیں۔ لیکن وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس تہذیب کو اپنے متبعین سے اپنے وضع کردہ نظام کی پابندی کا مطالبہ کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔
پھر جب یہ قاعدہ مسلّم ہو چکا ہے کہ ذہنی اور عملی زندگی کے لیے جو خاص طریقے اور مناہج متعین کیے جاتے ہیں ان کی تعیین دراصل مقصد کی نوعیت پر مبنی ہوتی ہے، اور مقصد کے اختلاف سے طریقوں اور منہجوں کا مختلف ہونا ضروری ہے، تو یہ بھی ماننا پڑے گا کہ جو تہذیبیں اپنے مقاصد میں مختلف ہوں، ان کے اعتقادات اور عملی نظامات لازمی طور پر ایک دوسرے سے مختلف ہونے چاہییں۔ یہ ممکن ہے کہ وہ نظام اپنے بعض اجزا میں باہم متشابہ ہوں،اور یہ بھی ممکن ہے کہ ایک نظام میں بعض جزئیات دوسرے نظام سے آ گئی ہوں، لیکن نہ تو جزوی تشابہات سے کلی موافقت کا حکم نکالا جا سکتا ہے اور نہ جزئیات کے مستعار لینے سے کل کا مستعار ہونا لازم آتا ہے۔
اسی اصل سے دو قاعدے اورنکلتے ہیں:
ایک یہ کہ ایک خاص مقصد رکھنے والی تہذیب کے نظام کو جانچنے کے لیے دوسری جداگانہ مقصد رکھنے والی تہذیب کے نظام کو معیار نہیں بنایا جا سکتا۔ یعنی تنقید کا یہ طریقہ درست نہیں ہے کہ یہ نظام اگر اس نظام سے مطابقت رکھتا ہے تو صحیح ہے ورنہ غلط۔
دوسرے یہ کہ ایک تہذیب کو بجائے خود باقی رکھتے ہوئے اس کے اعتقادی اور عملی نظام کودوسرے نظام سے نہیں بدلا جا سکتا اور نہ ایک نظام کے اساسی اجزا دوسرے نظام میں داخل کیے جا سکتے ہیں۔ جو شخص اس قسم کے خلط ملط کو ممکن یا درست سمجھتا ہے، وہ تہذیب کے اصول سے ناواقف ہے اور اس کے مزاج کو سمجھنے کی اہلیت نہیں رکھتا۔
اسلامی تہذیب کی تشکیل میں اس کے نصب العین کا حصہ
ان مقدمات کو ذہن نشین کرنے کے بعد آپ سمجھ سکتے ہیں کہ اسلامی تہذیب کو ایک بالکل جداگانہ اور مخصوص تہذیب بنانے میں اس کے نصب العین کا کیا حصہ ہے؟ پچھلے مباحث میں یہ بات پوری تفصیل کے ساتھ بیان کی جا چکی ہے کہ اسلام نے زندگی کا جو نصب العین مقرر کیا ہے وہ دوسرے ادیان اور دوسری تہذیبوں کے نصب العین سے اصلاً مختلف ہے۔ اور یہ بھی ثابت کیا جا چکا ہے کہ مقصد کے اختلاف سے اعتقاد و عمل کے نظام میں بنیادی اختلاف واقع ہوجاتا ہے۔ لہٰذا اس کا منطقی نتیجہ یہ ہے کہ اسلام کے نصب العین نے اسے ایک ایسی مخصوص تہذیب بنا دیا ہے جو بنیادی طور پر دوسری تہذیبوں سے مختلف ہے اور جس کا اعتقادی و عملی نظام دوسرے نظامات سے اساسی اختلاف رکھتا ہے۔ یہ ممکن ہے کہ اس نظام کے بعض اجزا دوسرے نظامات میں بھی پائے جاتے ہوں، لیکن یہاں وہ اجزا بعینہٖ اس حیثیت سے مندرج نہیں ہیں جس حیثیت سے وہ دوسرے نظامات میں مندرج ہیں۔ کسی نظام میں مندرج ہونے کے بعد جز اپنی شخصی طبیعت کو گم کرکے کل کی طبیعت اختیار کر لیتا ہے، اور جب ایک کل کی طبیعت دوسرے کل سے مختلف ہو تو لازماً اس کے ہر جُز کی طبیعت بھی دوسرے کے ہر جز کی طبیعت سے مختلف ہو گی، خواہ اس کے بعض اجزا اپنی ظاہری شکل میں دوسرے کے بعض اجزا سے کتنی ہی مشابہت رکھتے ہوں۔
جیسا کہ بیان کیا جا چکا ہے، اسلام نے انسان کو دنیا میں خدا کا نائب قرار دیا ہے اور اس کی زندگی کا مقصد یہ متعین کیا ہے کہ جس آقا کا وہ نائب ہے اس کی خوش نودی حاصل کرے۔ یہ مقصد چوں کہ عین اس کی زندگی کا مقصد ہے اس لیے ضروری ہے کہ اس کی زندگی کے تمام اعمال کا رخ اسی مقصد کی طرف پھر جائے۔ اس کے نفس اور اس کے جسم کی تمام قوتیں اسی مقصد کی راہ میں صرف ہوں۔ اس کے خیالات و تصورات اور حرکات و سکنات پر اسی مقصد کی حکومت ہو۔ اس کا جینا اورمرنا، اس کا سونا اورجاگنا، اس کا کھانا اور پینا، اس کے معاملات اور تعلقات، اس کی دوستی اوردشمنی، اس کی معیشت اور معاشرت، غرض اس کی ہر چیز اسی ایک مقصد کے لیے ہو، اور یہ مقصد اس کے اندر اس طرح ساری و جاری ہو جائے کہ گویا وہی اس کی وہ روح ہے جس کی بدولت وہ زندہ اور متحرک ہے۔ اب ظاہر ہے کہ جو شخص اپنی زندگی کا یہ مقصد رکھتا ہو، اور اسی مقصد کے لیے زندہ ہو، وہ اس شخص کی طرح زندگی بسر نہیں کر سکتا جس کے پیشِ نظر کوئی مقصد نہ ہو، یا اگر ہو بھی تو اس مقصد سے مختلف ہو۔ یہ مقصد تو اپنی عین فطرت کے اعتبار سے انسان کو ایک عامل اورکارکن ہستی میں تبدیل کر دیتا ہے۔ ایسا عامل اور کارکن جو زندہ ہے صرف اس لیے کہ اپنی زندگی کے مقصد کو حاصل کرے۔
پس یہ مقصد متعین کرنے کے بعد اسلام زندگی بسر کرنے کے مختلف طریقوں میں سے ایک خاص طریقے کو انتخاب کرتا ہے اور انسان کو مجبور کرتا ہے کہ اس طریقے کے سوا کسی اور طریقے پر چل کر اپنے عزیز وقت اور اپنی قیمتی طاقتوں کو ضائع نہ کرے۔ وہ اس مقصدکی طبیعت و فطرت کے مطابق عقائد اور اعمال کا ایک جداگانہ نظام وضع کرتا ہے اور انسان سے مطالبہ کرتا ہے کہ اس خاص نظام سے کسی حال میں باہر نہ جائے۔ وہ اس نظام کو سراسر اطاعت اور عین انقیاد قرار دیتا ہے، اس لیے اس کا نام ہی ’’دین‘‘ رکھ دیتا ہے، جس کے معنی اطاعت اور انقیاد کے ہیں۔ وہ کہتا ہے:
اِنَّ الدِّيْنَ عِنْدَ اللہِ الْاِسْلَامُ۝۰ۣ آل عمران 19:3
دین اللّٰہ کے نزدیک صرف اسلام ہے۔
اسی دین کی بنیاد پر وہ اپنے متبعین اور غیر متبعین کے درمیان خطِ امتیاز کھینچتا ہے۔ جو لوگ اس خاص مقصد کے تحت اس نظام دینی کا اتباع کرتے ہیں انھیں وہ ’’مسلم‘‘ (اطاعت کرنے والے) اور ’’مومن‘‘ (ماننے والے) کہتا ہے، اور جو اس مقصد سے متفق نہیں ہیں اور اس نظامِ دین کا اتباع نہیں کرتے انھیں ’’کافر‘‘ ۱؎ (انکار کرنے والا) قرار دیتا ہے۔ وہ نسل، قوم، زبان، وطن اور ایسے ہی دوسرے تمام امتیازات کو مٹا کر اولادِ آدم میں صرف اسی ایک کفر و ایمان کے امتیاز کو قائم کرتا ہے۔ جو کوئی اس کے نظام کا اتباع کرے وہ اس کا اپنا ہے، خواہ وہ مشرق میں ہو یا مغرب میں، اور جو اس کے نظام کا اتباع نہ کرے وہ غیر ہے، خواہ وہ عین کعبہ کی دیوارہی کے نیچے کیوں نہ رہتا ہو، اور اس کی ہڈی بوٹی مکے کی کھجوروں اور زم زم کے پانی ہی سے کیوں نہ بنی ہو۔
جس طرح اس نے عقائد اور اعمال کی بنا پر انسانوں کے درمیان ’’کفر‘‘ اور ’’ایمان‘‘ کا امتیاز قائم کیا ہے اسی طرح زندگی بسر کرنے کے طریقوں اور دنیا کی تمام چیزوں کے درمیان بھی اس نے حرام اور حلال، جائز اور ناجائز، مکروہ اور مستحب کا امتیاز قائم کیا ہے۔ جو اعمال اور طور طریقے اس مقصد کی تحصیل اور فرائضِ خلافت کی بجا آوری میں مددگار ہیں وہ اپنے مرتبے کے لحاظ سے مستحب ہیں یا حلال ہیں یا جائز۔ اور جو اس میں مزاحم اور مانع ہیں وہ اپنے مرتبے کے لحاظ سے مکروہ ہیں یا ناجائز یا حرام۔ جو مومن اس خطِ امتیاز کا احترام کرے وہ ’’متقی‘‘ (پرہیز گار) ہے اور جو اس کا احترام نہ کرے وہ ’’فاسق‘‘ (حدود سے نکل جانے والا) ہے۔ اللّٰہ کی پارٹی کے لوگوں میں ادنیٰ اور اعلیٰ کا امتیاز مال و دولت، یا حسب و نسب، یا مراتبِ معاشرت، یا رنگ کی سیاہی و سپیدی پر مبنی نہیں ہے، بلکہ صرف ’’تقوٰی‘‘ کی بِنا پر ہے:
اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللہِ اَتْقٰىكُمْ۝۰ۭ الحجرات13:49
بے شک اللّٰہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تمھارے اندر سب سے زیادہ پرہیز گار ہے۔
اس طرح تصورات و افکار، اخلاق و خصائل، معیشت و معاشرت، تمدن و عمران، سیاست و حکومت، غرض انسانی زندگی کے تمام شعبوں میں اسلامی تہذیب کا راستہ دوسری تہذیبوں کے راستے سے الگ ہو جاتا ہے۔ زندگی کے متعلق اسلام کا نظریہ دوسری تہذیبوں کے نظریے سے الگ ہے۔ زندگی کا مقصد اسلام کے نزدیک اس مقصد سے مختلف ہے جو دوسری تہذیبوں نے متعین کیا ہے۔ لہٰذا اسلام اپنے نظریے کے مطابق دنیا اور مافیہا سے جو معاملہ برتتا ہے، اور اپنے مقصد کی تحصیل کے لیے دنیوی زندگی میں جو طریقہ اختیارکرتا ہے، وہ بھی بنیادی طور پر اس معاملے اور اس طریقے سے مختلف ہے جو دوسری تہذیبوں نے اختیار کیا ہے۔ ذہن کے بہت سے افکار و تصورات، نفس کے بہت سے میلانات و رجحانات، اور زندگی بسر کرنے کے بہت سے طریقے ایسے ہیں جن کا اتباع دوسری تہذیبوں کے نزدیک نہ صرف جائز بلکہ بسا اوقات لازمۂ تہذیب ہے، مگر اسلام انھیں ناجائز، مکروہ اور بعض حالات میں حرام قرار دینے پر مجبور ہے۔ اس لیے کہ وہ ان تہذیبوں کے تصور حیات سے عین مطابقت رکھتے ہیں اور ان کے مقصدِ زندگی کی تحصیل میں مددگار ہوتے ہیں، مگر اسلام کے تصور حیات سے انھیں کوئی لگائو نہیں ہے یا اس کے مقصدِ زندگی کی تحصیل میں مانع ہیں۔ مثال کے طور پر فنونِ لطیفہ دنیا کی بہت سی تہذیبوں میں جانِ تہذیب ہیں اور ان فنون میں اعلیٰ مہارت رکھنے والوں کو قومی ہیرو کا مرتبہ حاصل ہو جاتا ہے، مگر اسلام ان میں سے بعض کو حرام، بعض کو مکروہ، اور بعض کو ایک حد تک جائز قرار دیتا ہے۔ اس کے قانون میں ذوقِ لطیف کی پرورش اور جمالِ مصنوعی سے لطف اندوزی کی اجازت صرف اس حد تک ہے جہاں انسان اس کے ساتھ ساتھ خدا کو یاد رکھ سکے، اس کی رضا جوئی کے لیے عمل کر سکے، اپنے منصبِ خلافت کے فرائض بجا لا سکے۔ مگر جس مقام پر یہ ذوقِ لطیف احساسِ فرض پر غالب آ جاتا ہو، جہاں لطف اندوزی کا انہماک انسان کو خدا پرست کے بجائے حسن پرست بنا دیتا ہو، جہاں فنونِ لطیفہ کی چاشنی سے انسان کو عیش پسندی کا چسکا لگ جاتا ہو، جہاں ان فنون کے اثر سے جذبات وداعیاتِ نفس اس قدر قوت و شدت حاصل کر لیتے ہوں کہ عقل کی گرفت ڈھیلی پڑ جائے اور ضمیر کی آواز کے لیے دل کے کان بہرے ہو جائیں اور فرض کی پکار کے لیے سمع و طاعت باقی نہ رہے، ٹھیک اسی سرحد پر اسلام عدم جواز، کراہت اور حرمت کے موانع قائم کر دیتا ہے۔ اس لیے کہ اس کا مقصد تان سین اور بند اوین، مانی اور بہزاد، چارلی چپلن اور میری پکفورڈ پیدا کرنا نہیں ہے بلکہ وہ ابوبکر صدیق ؓ اور عمر فاروقؓ، علیؓ ابن ابی طالب اور حسین ابن علیؓ، ابو ذر غفاریؓ اور رابعہ بصریہؒ پیدا کرنا چاہتا ہے۔
یہی حال معاشرت اور تمدن کے اور بہت سے معاملات میں بھی ہے جن کی تفصیلات کو اوپر کی مثال پر قیاس کیا جا سکتا ہے۔ خصوصیت کے ساتھ مردوں اور عورتوں کے تعلقات، مال دار اور مفلس کے معاملات، راعی اور رعیت کے روابط، اور انسانی طبقات کے باہمی برتائو کے متعلق اسلام کا طریقہ تمام قدیم اور جدید تہذیبوں کے طریقے سے اصولی طور پر مختلف ہے۔ اس بات میں دوسری تہذیبوں کے نظام کومعیار قرار دینا اور اسلام کے نظام کو اس پر جانچنے کی کوشش کرنا اصلاً غلط ہے۔ جو لوگ ایسا کرتے ہیں وہ سطح بین اور حقیقت ناآشنا ہیں۔
٭…٭…٭…٭…٭

شیئر کریں