Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

عرضِ ناشر
اسلام کی ابتدا (بچوں کے پروگرام میں)
سرورِ عالم ﷺ
میلادُ النبیؐ
سرورِ عالم ﷺ کا اصلی کارنامہ
معراج کی رات
معراج کا پیغام
معراج کا سفرنامہ
شب برأت
روزہ اور ضبطِ نفس
عید قربان
قربانی
پاکستان کو ایک مذہبی ریاست ہونا چاہیے
زندگی بعد موت

نشری تقریریں

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

زندگی بعد موت

موت کے بعد کوئی دوسری زندگی ہے یا نہیں؟ اور ہے تو کیسی ہے؟ یہ سوال حقیقت میں ہمارے علم کی رسائی سے دور ہے کیوں کہ ہمارے پاس وہ آنکھیں نہیں، جن سے ہم موت کی سرحد کے اس پار جھانک کر دیکھ سکیں، کہ وہاں کیا ہے اور کیا نہیں ہے۔ ہمارے پاس وہ کان نہیں، جن سے ہم ادھر کی کوئی آواز سن سکیں۔ ہم کوئی ایسا آلہ بھی نہیں رکھتے، جس کے ذریعے سے تحقیق کے ساتھ معلوم کیا جا سکے کہ اِدھر کچھ ہے یا کچھ نہیں ہے۔ لہٰذا جہاں تک سائنس کا تعلق ہے، یہ سوال اس کے دائرے سے قطعی خارج ہے جو شخص سائنس کا نام لے کر کہتا ہے کہ موت کے بعد کوئی زندگی نہیں ہے وہ بالکل ایک غیر سائنٹیفک بات کہتا ہے۔ سائنس کی رو سے نہ تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ کوئی زندگی ہے اور نہ یہ کہ کوئی زندگی نہیں ہے۔ جب تک ہم کوئی یقینی ذریعۂ علم نہیں پاتے، کم ازکم اس وقت تک تو صحیح سائنٹیفک رویہ یہی ہو سکتا ہے کہ ہم زندگی کے بعد موت کا نہ انکار کریں نہ اقرار۔
مگر کیا عملی زندگی میں ہم اس سائنٹیفک رویے کو نباہ سکتے ہیں؟ شاید نہیں، بلکہ یقینا نہیں۔ عقلی حیثیت سے تو یہ ممکن ہے کہ جب ایک چیز کو جاننے کے ذرائع ہمارے پاس نہ ہوں، تو اس کے متعلق ہم نفی اور اثبات دونوں سے پرہیز کریں، لیکن جب اُسی چیز کا تعلق ہماری عملی زندگی سے ہو، تو ہمارے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا کہ یا تو انکار پر اپنا طرزِ عمل قائم کریں، یا اقرار پر۔ مثلاً ایک شخص ہے جس سے آپ واقف نہیں ہیں، اگر اس کے ساتھ آپ کا کوئی معاملہ درپیش نہ ہو، تو آپ کے لیے یہ ممکن ہے کہ اس کے ایمان دار ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں کوئی حکم نہ لگائیں، لیکن جب آپ کو اس سے معاملہ کرنا ہو، تو آپ مجبور ہیں کہ یا تو اسے ایمان دار سمجھ کر معاملہ کریں، یا بے ایمان سمجھ کر۔ اپنے ذہن میں آپ ضرور یہ خیال کر سکتے ہیں کہ جب تک اس کا ایمان دار ہونا یا نہ ہونا ثابت نہ ہو جائے، اس وقت تک ہم شک کے ساتھ معاملہ کریں گے، مگر اس کی ایمان داری کو مشکوک سمجھتے ہوئے جو معاملہ آپ کریں گے، عملاً اس کی صورت وہی تو ہو گی جو اس کی ایمان داری کا انکار کرنے کی صورت میں ہو سکتی تھی۔ لہٰذا فی الواقع انکار اور اقرار کے درمیان شک کی حالت صرف ذہن ہی میں ہو سکتی ہے۔ عملی رویہ کبھی شک پر قائم نہیں ہو سکتا۔ اس کے لیے تو اقرار یا انکار بہرحال ناگزیر ہے۔
یہ بات تھوڑے ہی غور و فکر سے آپ کی سمجھ میں آ سکتی ہے کہ زندگی بعد موت کا سوال محض ایک فلسفیانہ سوال نہیں ہے، بلکہ ہماری عملی زندگی سے اس کا بہت گہرا تعلق ہے۔ دراصل ہمارے اخلاقی رویے کا سارا انحصار ہی اس سوال پر ہے۔ اگر میرا یہ خیال ہو کہ زندگی جو کچھ ہے بس یہی دنیوی زندگی ہے، اور اس کے بعد کوئی دوسری زندگی نہیں ہے، تو میرا اخلاقی رویہ ایک طرح کا ہو گا۔ اگر میں یہ خیال رکھتا ہوں کہ اس کے بعد ایک دوسری زندگی بھی ہے۔ جس میں مجھے اپنی موجودہ زندگی کا حساب دینا ہو گا اور وہاں میرا اچھا یا برا انجام میرے یہاں کے اعمال پر منحصر ہو گا، تو یقینا میرا اخلاقی طرزِ عمل بالکل ایک دوسری ہی طرح کا ہو گا، اس کی مثال یوں سمجھیے، جیسے ایک شخص یہ سمجھتے ہوئے سفر کر رہا ہے کہ اسے بس یہاں سے کراچی تک جانا ہے، اور کراچی پہنچ کر نہ صرف یہ کہ اس کا سفر ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گا، بلکہ وہ وہاں پولیس اور عدالت اور ہر اس طاقت کی دسترس سے باہر ہو گا، جو اس سے کسی قسم کی باز پرس کر سکتی ہو۔ برعکس اس کے ایک دوسرا شخص یہ سمجھتا ہے کہ یہاں سے کراچی تک تو اس کے سفر کی صرف ایک ہی منزل ہے۔ اس کے بعد اسے سمندر پار ایک ایسے ملک میں جانا ہو گا جہاں کا بادشاہ وہی ہے جو پا کستان کا بادشاہ ہے، اور اس بادشاہ کے دفتر میں میرے اس پورے کارنامے کا خفیہ ریکارڈ موجود ہے، جو میں نے پاکستان میں انجام دیا ہے، اور وہاں میرے ریکارڈ کو جانچ کر فیصلہ کیا جائے گا کہ میں اپنے کام کے لحاظ سے کس درجے کا مستحق ہوں۔ آپ بآسانی اندازہ کر سکتے ہیں کہ ان دونوں شخصوں کا طرزِ عمل کس قدر ایک دوسرے سے مختلف ہو گا۔ پہلا شخص یہاں سے کراچی تک کے سفر کی تیاری کرے گا، اور دوسرے کی تیاری بعد کی طویل منزلوں کے لیے بھی ہو گی۔ پہلا شخص یہ سمجھے گا کہ نفع یا نقصان جو کچھ بھی ہے کراچی پہنچنے تک ہے، آگے کچھ نہیں، اور دوسرا یہ خیال کرے گا کہ اصل نفع و نقصان سفر کے پہلے مرحلے میں نہیں ہے، بلکہ آخری مرحلے میں ہے۔ پہلا شخص اپنے افعال کے صرف اُنھی نتائج پر نظر رکھے گا جو کراچی تک کے سفر میں نکل سکتے ہیں۔ لیکن دوسرے شخص کی نگاہ ان نتائج پر ہو گی جو سمندر پار دوسرے ملک میں پہنچ کر نکلیں گے۔ ظاہر ہے کہ ان دونوں شخصوں کے طرز عمل کا یہ فرق براہِ راست نتیجہ ہے ان کی اس رائے کا جو وہ اپنے سفر کی نوعیت کے متعلق رکھتے ہیں۔ ٹھیک اسی طرح ہماری اخلاقی زندگی میں بھی وہ عقیدہ فیصلہ کن اثر رکھتا ہے جو ہم زندگی کے بعد موت کے بارے میں رکھتے ہیں۔ عمل کے میدان میں جو قدم بھی ہم اٹھائیں گے، اس کی سمت کا تعین اس بات پر منحصر ہو گا کہ آیا ہم اسی زندگی کو پہلی اور آخری زندگی سمجھ کر کام کر رہے ہیں یا کسی بعد کی زندگی اور اس کے نتائج کو ملحوظ رکھتے ہیں۔ پہلی صورت میں ہمارا قدم ایک سمت اٹھے گا اور دوسری صورت میں اس کی سمت بالکل مختلف ہو گی۔
اس سے معلوم ہوا کہ زندگی بعد موت کا سوال محض ایک عقلی اور فلسفیانہ سوال نہیں ہے، بلکہ عملی زندگی کا سوال ہے، اور جب بات یہ ہے تو ہمارے لیے اس معاملے میں شک اور تردد کے مقام پر ٹھہرنے کا کوئی موقع نہیں۔ شک کے ساتھ جو رویہ ہم زندگی میں اختیار کریں گے، وہ بھی لامحالہ انکار ہی کے رویے جیسا ہو گا۔ لیکن ہم بہرحال اس امر کا تعین کرنے پر مجبور ہیں کہ آیا موت کے بعد کوئی اور زندگی ہے یا نہیں، اگر سائنس اس کے تعین میں ہماری مدد نہیں کرتا، تو ہمیں عقلی استدلال سے مدد لینی چاہیے۔
اچھا تو عقلی استدلال کے لیے ہمارے پاس کیا مواد ہے؟
ہمارے سامنے ایک تو خود انسان ہے، اور دوسرے یہ نظامِ کائنات، ہم انسان کو اس نظامِ کائنات کے اندر رکھ کر دیکھیں گے کہ جو کچھ انسان میں ہے، آیا اس کے سارے مقتضیات اس نظام میں پورے ہوجاتے ہیں، یا کوئی چیز بچی رہ جاتی ہے، جس کے لیے کسی دوسری نوعیت کے نظام کی ضرورت ہو۔
دیکھیے، انسان ایک تو جسم رکھتا ہے، جو بہت سے معدنیات، نمکیات پانی اور گیسوں کا مجموعہ ہے۔ اس کے جواب میں کائنات کے اندر بھی مٹی، پتھر، دھاتیں، نمک، گیسیں، دریا اور اسی جنس کی دوسری چیزیں موجود ہیں۔ ان چیزوں کو کام کرنے کے لیے قوانین کی ضرورت ہے، وہ سب کائنات کے اندر کار فرما ہیں، اور جس طرح وہ باہر کی فضا میں پہاڑوں، دریائوں اور ہوائوں کو اپنے حصے کا کام پورا کرنے کا موقع دے رہے ہیں، اسی طرح انسانی جسم کو بھی ان قوانین کے تحت کام کرنے کا موقع حاصل ہے۔
پھر انسان ایک زندہ وجود ہے، جو اپنے ارادے سے حرکت کرتا ہے، اپنی غذا خود اپنی کوشش سے فراہم کرتا ہے، اپنے نفس کی آپ حفاظت کرتا ہے اور اپنی نوع کو باقی رکھنے کا انتظام کرتا ہے۔ کائنات میں اس جنس کی بھی دوسری بہت سی قسمیں موجود ہیں۔ خشکی، تری اور ہوا میں بے شمار حیوانات پائے جاتے ہیں اور وہ قوانین بھی تمام و کمال یہاں کار فرما ہیں، جو ان زندہ ہستیوں کے پورے دائرۂ عمل پر حاوی ہونے کے لیے کافی ہیں۔
ان سب سے اوپر انسان ایک اور نوعیت کا وجود بھی رکھتا ہے، جسے ہم اخلاقی وجود کہتے ہیں، اس کے اندر نیکی اور بدی کرنے کا شعور ہے، نیک اور بد کی تمیز ہے، نیکی اور بدی کرنے کی قوت ہے، اور اس کی فطرت یہ مطالبہ کرتی ہے کہ نیکی کا اچھا اور بُرائی کا بُرا نتیجہ ظاہر ہو، اور وہ ظلم اور انصاف، سچائی اور جھوٹ، حق اور ناحق، رحم اور بے رحمی احسان اور احسان فراموشی، فیاضی اور بخل، امانت اور خیانت اور ایسی ہی مختلف اخلاقی صفات کے درمیان فرق کرتا ہے۔ یہ صفات عملًا اس کی زندگی میں پائی جاتی ہیں، اور یہ محض خیالی چیزیں نہیں ہیں، بلکہ بالفعل ان کے اثرات انسانی تمدن پر مرتب ہوتے ہیں، لہٰذا انسان جس فطرت پر پیدا ہوا ہے، اس کا شدت کے ساتھ یہ تقاضا ہے کہ جس طرح اس کے افعال کے طبعی نتائج رونما ہوتے ہیں، اسی طرح اخلاقی نتائج بھی رونما ہوں۔
مگر نظامِ کائنات پر گہری نگاہ ڈال کر دیکھیے، کیا اس نظام میں انسانی افعال کے اخلاقی نتائج پوری طرح رونما ہو سکتے ہیں؟ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ یہاں اس کا امکان نہیں ہے، اس لیے کہ یہاں کم از کم ہمارے علم کی حد تک کوئی دوسری ایسی مخلوق نہیں پائی جاتی جو اخلاقی وجود رکھتی ہو۔ سارا نظامِ کائنات طبعی قوانین کے ماتحت چل رہا ہے۔ اخلاقی قوانین کسی طرف کارفرما نظر نہیں آتے، یہاں روپے میں وزن اور قیمت ہے۔ مگر سچائی میں نہ وزن ہے نہ قیمت۔ یہاں آم کی گٹھلی سے ہمیشہ آم پیدا ہوتا ہے۔ مگر حق پرستی کا بیج بونے والے پر کبھی پھولوں کی بارش ہوتی ہے اور کبھی بلکہ اکثر جوتیوں کی۔ یہاں مادی عناصر کے لیے مقرر قوانین ہیں جن کے مطابق ہمیشہ مقرر نتائج نکلتے ہیں ، مگر اخلاقی عناصر کے لیے کوئی مقرر قانون نہیں ہے کہ ان کی فعلیت سے ہمیشہ مقرر نتیجہ نکل سکے۔ طبعی قوانین کی فرماں روائی کے سبب سے اخلاقی نتائج کبھی تو نکل ہی نہیں سکتے، کبھی نکلتے ہیں تو صرف اس حد تک جس کی اجازت طبعی قوانین دے دیں، اور بارہا ایسا بھی ہوتا ہے کہ اخلاق ایک فعل سے ایک خاص نتیجہ نکلنے کا تقاضا کرتا ہے، مگر طبعی قوانین کی مداخلت سے نتیجہ بالکل برعکس نکل آتا ہے۔ انسان نے خود اپنے تمدنی و سیاسی نظام کے ذریعے سے تھوڑی سی کوشش اس امر کی کی ہے کہ انسانی اعمال کے اخلاقی نتائج ایک مقرر ضابطے کے مطابق برآمد ہو سکیں۔ مگر یہ کوشش بہت محدود پیمانے پر ہے اور بے حد ناقص ہے۔ ایک طرف طبعی قوانین اسے محدود اورناقص بناتے ہیں، اور دوسری طرف انسان کی اپنی بہت سی کم زوریاں اس انتظام کے نقائص میں اور زیادہ اضافہ کرتی ہیں۔
مَیں اپنے مدعا کی توضیح چند مثالوں سے کروں گا۔ دیکھیے ایک شخص اگر کسی دوسرے شخص کا دشمن ہو، اور اس کے گھر میں آگ لگا دے تو اس کا گھر جل جائے گا۔ یہ اس کے افعال کا طبعی نتیجہ ہے، اس کا اخلاقی نتیجہ یہ ہونا چاہیے کہ اس شخص کو اتنی ہی سزا ملے جتنا اس نے ایک خاندان کو نقصان پہنچایا ہے، مگر اس نتیجے کا ظاہر ہونا اس بات پر موقوف ہے کہ آگ لگانے والے کا سراغ ملے، وہ پولیس کے ہاتھ آ سکے، اس پر جرم ثابت ہو، عدالت پوری طرح اندازہ کر سکے کہ آگ لگنے سے اس خاندان کو اور اس کی آیندہ نسلوں کو ٹھیک ٹھیک کتنا نقصان پہنچا ہے۔ اور پھر انصاف کے ساتھ اس مجرم کو اتنی ہی سزا دے۔ اگر ان شرطوں میں سے کوئی شرط بھی پوری نہ ہو، تو اخلاقی نتیجہ یا تو بالکل ہی ظاہر نہ ہو گا یا اس کا صرف ایک تھوڑا سا حصہ ظاہر ہو کر رہ جائے گا، اور یہ بھی ممکن ہے کہ اپنے حریف کو برباد کرکے وہ شخص دنیا میں مزے سے پھولتا پھلتا رہے۔
اس سے بڑے پیمانے پر ایک اور مثال لیجیے۔ چند اشخاص اپنی قوم میں اثر پیدا کر لیتے ہیں، اور ساری قوم ان کے کہے پرچلنے لگتی ہے، اس پوزیشن سے فائدہ اٹھا کر وہ لوگوں میں قوم پرستی کا اشتعال اور ملک گیری کا جذبہ پیدا کرتے ہیں، گرد و پیش کی قوموں سے جنگ چھیڑ دیتے ہیں، لاکھوں آدمیوں کو ہلاک کرتے ہیں، ملک کے ملک تباہ کر ڈالتے ہیں۔ کروڑوں انسانوں کو ذلیل اورپست زندگی بسر کرنے پر مجبور کرتے ہیں، اورانسانی تاریخ پر اُن کی کارروائیوں کا ایسا زبردست اثر پڑتا ہے، جس کاسلسلہ آیندہ سیکڑوں برس تک پشت در پشت اور نسل در نسل پھیلتا جائے گا۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ یہ چند اشخاص جس جرمِ عظیم کے مرتکب ہوئے ہیں اس کی مناسب اورمنصفانہ سزا انھیں کبھی اس دنیوی زندگی میں مل سکتی ہے؟ ظاہر ہے کہ اگر ان کی بوٹیاں بھی نوچ ڈالی جائیں، اگر انھیں زندہ جلا ڈالا جائے یا کوئی اور ایسی سزا دی جائے جو انسان کے بس میں ہے، تب بھی کسی طرح وہ اس نقصان کے برابر سزا نہیں پا سکتے جو انھوں نے کروڑہا انسانوں کو اور ان کی آیندہ بے شمار نسلوں کو پہنچایا ہے، موجودہ نظامِ کائنات جن طبعی قوانین پر چل رہا ہے، ان کے تحت کسی طرح یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ وہ اپنے جرم کے برابر سزا پا سکیں۔
اسی طرح اُن نیک انسانوں کو لیجیے جنھوں نے نوعِ انسانی کو حق اور راستی کی تعلیم دی، اور ہدایت کی روشنی دکھائی جس کے فیض سے بے شمار انسانی نسلیں صدیوں سے فائدہ اٹھا رہی ہیں، اور نہ معلوم آیندہ کتنی صدیوں تک اٹھائی چلی جائیں گی، کیا یہ ممکن ہے کہ ایسے لوگوں کی خدمات کا پورا صلہ ان کو اس دنیا میں مل سکے؟ کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ موجودہ طبعی قوانین کی حدود کے اندر ایک شخص اپنے اس عمل کا پورا صلہ حاصل کر سکتا ہے، جس کا ردِّ عمل اس کے مرنے کے بعد ہزاروں برس تک اور بے شمار انسانوں تک پھیل گیا ہو؟
جیسا کہ میں ابھی بیان کر چکا ہوں، اوّل تو موجودہ نظامِ کائنات جن قوانین پر چل رہا ہے، ان کے اندر اتنی گنجائش ہی نہیں ہے کہ انسانی افعال کے اخلاقی نتائج پوری طرح مرتب ہو سکیں۔ دوسرے یہاں چند سال کی زندگی میں انسان جو عمل کرتا ہے اس کے ردِّ عمل کا سلسلہ اتنا وسیع ہوتا ہے اور اتنی مدت تک جاری رہتا ہے کہ صرف اسی کے پورے نتائج وصول کرنے کے لیے ہزاروں بلکہ لاکھوں برس کی زندگی درکار ہے، اور موجودہ قوانینِ قدرت کے ماتحت انسان کو اتنی زندگی ملنا ناممکن ہے تو موجودہ طبعی دنیا(physical world) اور اس کے طبعی قوانین کافی ہیں، مگر اس کے اخلاقی عنصر کے لیے یہ دنیا بالکل ناکافی ہے اس کے لیے ایک دوسرا نظامِ عالم درکار ہے جس میں حکمران قانون (governing law) اخلاق کا قانون ہو، اور طبعی قوانین اس کے ماتحت محض مددگار کی حیثیت سے کام کریں جس میں زندگی محدود نہ ہو، بلکہ غیر محدود ہو، جس میں وہ تمام اخلاقی نتائج جو یہاں مرتب ہونے سے رہ گئے ہیں، یا اُلٹے مرتب ہوئے ہیں، اپنی صحیح صورت میں پوری طرح مرتب ہو سکیں، جہاں سونے اور چاندی کی بجائے نیکی اور صداقت میں وزن اور قیمت ہو۔ جہاں آگ صرف اس چیز کو جلائے جو اخلاقًا جلنے کی مستحق ہو۔ جہاں عیش اسے ملے جو نیک ہو، اور مصیبت اس کے حصے میں آئے جو بد ہو، عقل چاہتی ہے، فطرت مطالبہ کرتی ہے کہ ایک ایسا نظامِ عالم ضرور ہونا چاہیے۔
جہاں تک عقلی استدلال کا تعلق ہے وہ ہمیں صرف ’’ہونا چاہیے‘‘ کی حد تک لے جا کر چھوڑ دیتا ہے۔ اب رہا یہ سوال کہ آیا واقعی کوئی ایسا عالم ہے بھی، تو ہماری عقل اور ہمارا علم، دونوں اس کا حکم لگانے سے عاجز ہیں، یہاں قرآن ہماری مدد کرتا ہے، وہ کہتا ہے کہ تمھاری عقل اور تمھاری فطرت جس چیز کا مطالبہ کرتی ہے، فی الواقع وہ ہونے والی ہے موجودہ نظام عالم جو طبعی قوانین پر بنا ہے، ایک وقت میں توڑ ڈالا جائے گا، اس کے بعد ایک دوسرا نظام بنے گا، جس میں زمین و آسمان اور ساری چیزیں ایک دوسرے ڈھنگ پر ہوں گی، پھر اللہ تعالیٰ تمام انسانوں کو جو ابتدائے آفرینش سے قیامت تک پیدا ہوئے تھے، دوبارہ پیدا کر دے گا اور بیک وقت ان سب کو اپنے سامنے جمع کرے گا، وہاں ایک ایک شخص کا، ایک ایک قوم کا اور پوری انسانیت کا ریکارڈ ہر غلطی اور ہر فروگذاشت کے بغیر محفوظ ہو گا، ہر شخص کے ایک ایک عمل کا جتنا ردِّ عمل دنیا میں ہوا ہے اس کی پوری روداد موجود ہو گی۔ وہ تمام نسلیں گواہوں کے کٹہرے میں حاضر ہوں گی جو اس ردِّ عمل سے متاثر ہوئیں، ایک ایک ذرہ جس پر انسان کے اقوال اور افعال کے نقوش ثبت ہوئے اپنی داستان سنائے گا۔ خود انسان کے ہاتھ اورپائوں، آنکھ اور زبان اور تمام اعضا شہادت دیں گے کہ ان سے اس نے کس طرح کام لیا، پھر اس روداد پر وہ سب سے بڑا حاکم پورے انصاف کے ساتھ فیصلہ کرے گا کہ کون کتنے انعام کا مستحق ہے اور کون کتنی سزا کا۔ یہ انعام اور یہ سزا دونوں چیزیں اتنے بڑے پیمانے پر ہوں گی جس کا کوئی اندازہ موجودہ نظامِ عالم کی محدود مقداروں کے لحاظ سے نہیں کیا جا سکتا۔ وہاں وقت اور جگہ کے معیار کچھ اور ہوں گے۔ وہاں کی مقداریں کچھ اور ہوں گی وہاں کے قوانینِ قدرت کسی اور قسم کے ہوں گے۔ انسان کی جن نیکیوں کے اثرات دنیا میں ہزاروں برس چلتے رہے ہیں، وہاں وہ ان کا بھرپور صلہ وصول کر سکے گا، بغیر اس کے کہ موت اور بیماری اور بڑھاپا اس کے عیش کا سلسلہ توڑ سکیں، اور اسی انسان کی جن برائیوں کے اثرات دنیا میں ہزارہا برس تک اور بے شمار انسانوں تک پھیلتے رہے ہیں، وہ ان کی پوری سزا بھگتے گا، بغیر اس کے کہ موت اور بے ہوشی آ کر اسے تکلیف سے بچا سکے۔
ایسی ایک زندگی اور ایسے ایک عالم کو جو لوگ ناممکن سمجھتے ہیں، مجھے ان کے ذہن کی تنگی پر ترس آتا ہے، اگر ہمارے موجودہ نظامِ عالم کا موجودہ قوانین قدرت کے ساتھ موجود ہونا ممکن ہے، تو آخر ایک دوسرے نظامِ عالم کا دوسرے قوانین کے ساتھ وجود میں آنا کیوں ناممکن ہو؟ البتہ یہ بات کہ واقع میں ایسا ضرور ہو گا تو اس کا تعین نہ دلیل سے ہو سکتا ہے اور نہ علمی ثبوت سے اس کے لیے ایمان بالغیب کی ضرورت ہے۔

شیئر کریں