خلافت کی اس تشریح سے یہ مسئلہ خود بخود حل ہو جاتا ہے کہ اسلامی دستور میں ریاست کے حدودِ عمل کیا ہیں۔ جب یہ ریاست اللہ کی خلافت ہے اور اللہ کی قانونی حاکمیّت تسلیم کرتی ہے تو لامحالہ اس کا دائرہِ اختیار ان حدود کے اندر ہی محدود رہے گا جو اللہ نے مقرر کی ہیں۔ ریاست جو کچھ کر سکتی ہے ان حدود کے اندر ہی کر سکتی ہے‘ ان سے تجاوز کرنے کی وہ ازروئے دستور مجاز نہیں ہے۔ یہ بات صرف منطقی طور پر ہی خدا کی قانونی حاکمیّت کے اصول سے نہیں نکلتی بلکہ خود قرآن اس کو صاف صاف بیان کرتا ہے۔ وہ جگہ جگہ احکام دے کر متنبہ کرتا ہے تِلْکَ حُدُودُ اللّٰہِ فَلَا تَقْرَبُوْھَا۔ ’’یہ اللہ کی حدیں ہیں ان سے تجاوز نہ کرو۔‘‘ وَمَنْ یَّتَعَدَّ حُدُودَ اللّٰہِ فَاُولٰئِکَ ھُمُ الظّٰلِمُونَ۔ ’’اور جو لوگ اللہ کی حدود سے تجاوز کریں وہی ظالم ہیں۔‘‘ پھر وہ بطور ایک قاعدہ کلیہ کے یہ حکم دیتا ہے :
یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَطِیْعُوْا اللّٰہَ وَاَطِیْعُو الرَّسُوْلَ وَاُوْلِی الْاَمرِ مِنکُمْ فَاِنْ تَنَازَعْتُم فِی شَییٍٔ فَرُدُّوْہُ اِلٰی اللّٰہِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ کُنتُمْ تُؤمِنُوْنَ بِااللّٰہِ وَالیَرْمِ الْاٰخِرِ۔ (النساء: ۵۹)
اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسولؐ کی اور ان لوگوں کی جو تم میں سے صاحبِ امر ہوں۔ پھر اگر تم کسی چیز میں جھگڑو تو اسے اللہ اور رسولؐ کی طرف پھیر دو اگر تم ایمان رکھتے ہو اللہ اور آخرت کے دن پر۔
اس آیت کی رُو سے ریاست کی اطاعت لازماً خدا اور رسول کی اطاعت کے تحت ہے، نہ کہ اس سے آزاد، اور اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ احکامِ خدا اور رسولؐ کی پابندی سے آزاد ہو کر ریاست کو سرے سے اطاعت کے مطالبے کا حق ہی باقی نہیں رہتا۔ اس نکتے کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں واضح فرمایا: لَا طَاعَۃَ لِمَنْ عَصَی اللّٰہِ ’’کوئی اطاعت اس شخص کے لیے نہیں ہے جو اللہ کی نافرمانی کرے۔‘‘ وَلَا طَاعَۃَ لِمَخْلُوْقٍ فِیْ مَعْصِیَۃِ الْخَالِق، خالق کی معصیت میں کسی مخلوق کے لیے اطاعت نہیں ہے۔
اس اصول کے ساتھ دوسرا اصول جو یہ آیت مقرر کرتی ہے، یہ ہے کہ مسلم سوسائٹی میں جو اختلاف بھی رونما ہو، خواہ وہ افراد اورافراد کے درمیان ہو، یا گروہوں اور گروہوں کے درمیان، یا رعیّت اور ریاست کے درمیان، یا ریاست کے مختلف شعبوں اور اجزاء کے درمیان، بہرحال اس کا فیصلہ کرنے کے لیے رجوع اس بنیادی قانون ہی کی طرف کیا جائے گا جو اللہ اور اس کے رسول نے ہم کو دیا ہے۔ یہ اصول اپنی عین نوعیت ہی کے اعتبار سے اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ ریاست میں لازماً کوئی ادارہ ایسا ہونا چاہیے جو اختلافی معاملات کا فیصلہ کتاب اللہ و سنت رسولؐ کے مطابق کرے۔
٭ ٭ ٭