نماز کی طرح روزہ بھی بجائے خود ایک انفرادی فعل ہے، لیکن جس طرح نماز کے ساتھ جماعت کی شرط لگا کر اسے انفرادی سے اجتماعی فعل میں تبدیل کر دیا گیا ہے، اسی طرح روزے کو بھی ایک ذرا سی حکیمانہ تدبیر نے انفرادی عمل کے بجائے اجتماعی عمل بنا کر اس کے فوائد و منافع کو اتنا بڑھا دیا ہے کہ ان کا احاطہ نہیں کیا جاسکتا۔ وہ تدبیر بس اتنی سی ہے کہ روزے رکھنے کے لیے ایک خاص مہینا مقرر کر دیا گیا۔ اگر شارع کے پیش نظر محض افراد کی اخلاقی تربیت ہوتی تو اس کے لیے یہ حکم دینا کا فی تھا کہ ہر مسلمان سال بھر کے دوران میں کبھی تیس دن کے روزے رکھ لیا کرے۔ اس طرح وہ تمام مقاصد پورے ہوسکتے تھے جن کا ذکر اوپر کیا گیا ہے، بلکہ ضبط نفس کی مشق کے لیے یہ صورت زیادہ مناسب تھی۔ کیوں کہ اجتماعی عمل سے روزہ رکھنے میں جو آسانی افراد کے لیے پیدا ہو جاتی ہے وہ انفرادی عمل کی صورت میں نہ ہوتی اور ہر شخص کو اپنا فرض ادا کرنے میں نسبتاً زیادہ شدت کے ساتھ اپنی قوت ارادی استعمال کرنا پڑتی۔ لیکن اسلام کا قانون جس حکیم نے بنایا ہے اس کی نگاہ میں افراد کی ایسی تیاری کسی کام کی نہیں ہے جس کے نتیجہ میں ایک جماعت صالحہ وجود میں نہ آئے، اس لیے اس نے روزے کو محض ایک انفرادی عمل بنانا پسند نہیں کیا، بلکہ سال بھر میں ایک مہینا روزے کے لیے مخصوص کر دیا تاکہ سب مسلمان بہ یک وقت روزہ رکھیں اور وہی نظام تربیت جس سے افراد تیار ہوں، ایک صالح اجتماعی نظام بنانے میں بھی مدد گار ہو جائے۔
اس حکیمانہ تدبیر سے روزے کے اخلاقی و روحانی منافع میں جو اضافہ ہوا ہے اس کی طرف یہاں چند مختصر اشارات کیے جاتے ہیں۔