ان مقاصد کی اہمیت اسلام میں اتنی زیادہ ہے کہ انھیں حاصل کرنے کے لیے صرف نماز کو کافی نہ سمجھا گیا اس رکن کو مزید تقویت پہنچانے کے لیے ایک دوسرے رکن ’’روزہ‘‘ کا بھی اضافہ کر دیا گیا ہے، نماز کی طرح یہ روزہ بھی قدیم ترین زمانہ سے اسلام کا رکن رہا ہے۔ اگرچہ تفصیلی احکام کے لحاظ سے اس کی شکلیں مختلف رہی ہیں مگر جہاںتک نفس روزہ کا تعلق ہے وہ ہمیشہ الٰہی شریعتوں کا جزو لاینفک ہی رہا۔ تمام انبیاء علیہم السلام کے مذہب میں یہ فرض کی حیثیت سے شامل تھا۔ جیسا کہ قرآن میں ارشاد ہوا ہے:
كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَـمَا كُتِبَ عَلَي الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ البقرہ 183:2
تم پر روزے فرض کر دیے گئے، جس طرح تم سے پہلے انبیا کے پیروئوں پر فرض کیے گئے تھے۔
اس سے یہ بات خود بخود مترشح ہوتی ہے کہ اسلام کی فطرت کے ساتھ اس طریق تربیت کو ضرور کوئی مناسبت ہے۔
زکوٰۃ اور حج کی طرح روزہ ایک مستقل جداگانہ نوعیت رکھنے والا رکن نہیں ہے بلکہ دراصل اس کا مزاج قریب قریب وہی ہے جو رکن صلوٰۃ کا ہے اور اسے رکنِ صلوٰۃ کے مددگار اور معاون ہی کی حیثیت سے لگایا گیا ہے۔ اس کاکام انھی اثرات کو زیادہ تیز اور زیادہ مستحکم کرنا ہے جو نماز سے انسانی زندگی پر مترتب ہوتے ہیں۔ نماز روزمرہ کا معمولی نظام تربیت ہے جو روز پانچ وقت تھوڑی تھوڑی دیر کے لیے آدمی کو اپنے اثر میں لیتا ہے۔ اور تعلیم و تربیت کی ہلکی ہلکی خوراکیں دے کر چھوڑ دیتا ہے اور روزہ سال بھر میں ایک مہینا کا غیر معمولی نظام تربیت (special training course) ہے جو آدمی کو تقریباً ۷۲۰ گھنٹا تک مسلسل اپنے مضبوط ڈسپلن کے شکنجہ میں کسے رکھتا ہے تاکہ روزانہ کی معمولی تربیت میں جو اثرات خفیف تھے وہ شدید ہو جائیں۔ یہ غیر معمولی نظام تربیت کس طرح اپنا کام کرتا ہے، اور کس کس ڈھنگ سے نفس انسانی پر مطلوب اثر ڈالتا ہے، اس کا تفصیلی جائزہ ہم ان صفحات میں لینا چاہتے ہیں۔