Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

عرض ناشر
دعوت اسلامی اور اس کے طریق کار
ہماری دعوت کیا ہے؟
دعوت اسلامی کے تین نکات
بندگی رب کا مفہوم:
منافقت کی حقیقت:
تناقض کی حقیقت:
امامت میں تغیر کی ضرورت:
امامت میں انقلاب کیسے ہوتا ہے؟
مخالفت اور اس کے اسباب
ہمارا طریق کار
علماء اور مشائخ کی آڑ
زہد کا طعنہ:
رفقاء سے خطاب
مولانا امین احسن اصلاحی
اسلام کے اساسی معتقدات اور ان کا مفہوم
ایمان باللہ:
ایمان بالرسات :
ایمان بالکتب:
حق و باطل کے معرکے میں ہمارا فرض
مسلمانوں کی اقسام
تحریک اسلامی کا قیام اور اس کی غرض
کامیابی کا معیار:
نصرت حق کب آتی ہے؟
میاں طفیل محمد
گزری ہوئی زندگی کا محاسبہ:
خدا کے دین کا صحیح تصور:
نماز کا عملی مقصود
نماز کا سب سے پہلا کلمہ:
تکبیر تحریمہ:
تعویذ:
سورۂ فاتحہ:
سورۂ اخلاص:
رکوع‘ قومہ اور سجدہ:
التحیات:
درود شریف پڑھنے کا تقاضا:
دعاء قنوت کی روشنی میں جائزہ لیجئے:
دعاء قنوت:
آخری دعا اور سلام:
اقامت صلوٰۃ حقیقت
اذان کا مقصد اور اس کی حقیقت:
دین پوری زندگی پر حاوی ہے:
آج دنیا میں کروڑوں مسلمان موجود ہیں مگر نظام اسلام کا وجود نہیں!
دین میں دعوت اسلامی کی اہمیت:
دعوت کی راہ کا پہلا قدم:
دعوت کی راہ کا دوسرا قدم:
اس راہ کا تیسرا قدم:
عبادت کا اصل مفہوم اور اس کی روح:
روحانیت کیا ہے؟
دین اسلام صرف مسلمانوں کا دین نہیں یہ پوری نوع انسانی کا دین ہے:
دین اسلام کو صرف مان لینا کافی نہیں ہے‘ اس کی تبلیغ اور اقامت بھی لازم ہے:
غیر مسلموں کے لیے اسلام کا پیغام:
اور اس میں خواتین کا حصہ

دعوت اسلامی اور اس کے مطالبات

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

روحانیت کیا ہے؟

’’عمل و عبادت‘‘ کے علاوہ ’’روحانیت‘‘ کا بھی ایسا غلط اور گمراہ کن تصور عام مسلمانوں میں رائج ہوگیا ہے کہ اس نے مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کو گمراہی میں ڈال رکھا ہے۔ اول تو حقیقت یہ ہے کہ کتاب الٰہی اور حدیث رسولؐ اس لفظ کے وجود ہی سے خالی ہیں۔ یہ کہیں بعد کی پیداوار ہے۔ وہاں تو صرف ایمان‘ اسلام‘ احسان‘ اطاعت‘ تقویٰ‘ اتباع رسول اور خشیت الٰہی کی اصطلااحات ملتی ہیں۔ بہرحال روحانیت کا اگر کوئی مفہوم ہے تو اس کے سوا کچھ نہیں اور نہ ہوسکتا ہے کہ انسان کی ’’روح‘‘ اس کی ’’حیوانیت‘‘ پر اس طرح قابو پالے کہ پھر زندگی کے کسی گوشے میں بھی اس کی حیوانی خواہشات اور نفسانی جذبات کسی حال میں اس کی ’’روح‘‘ پر غالب نہ آسکیں‘ بلکہ اس کی ’’روح‘‘ اس کی ان خواہشات اور جذبات کو اس قدر زیر کرلے کہ کوئی بڑے سے بڑا خوف و لالچ یا نفع و نقصان بھی اسے اطاعت الٰہی اور حدود اللہ کی پابندی و احترام سے نہ ہٹا سکے اور وہ دنیا کی سب چیزوں سے بے نیاز ہو کر اپنے جان و مال سب اللہ کی بندگی اور اس کے دین کی سربلندی کے لیے وقف کر دے۔ یہی کمال انسانیت ہے اور اللہ تعالیٰ نے اسی کو انسان کے لیے فوز عظیم قرار دیا ہے۔
ومن یطع اللہ و رسولہ فقد فاز فوراً عظیماً۔ (الاحزاب: ۷۱)
’’جس شخص نے اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کی راہ اختیار کرلی اس نے عظیم کامیابی حاصل کرلی‘‘
دوسری جگہ فرمایا:
یا یھا الذین امنوا ھل ادلکم علیٰ تجارۃ تنجیکم من عذاب الیم۔ تومنون باللہ و رسولہ و تجاھدون فی سبیل اللہ باموالکم و انفسکم ذالکم خیر لکم ان کنتم تعلمون۔ یغفرلکم ذنوبکم و یدخلکم جنت تجری من تحتھا الانھرومساکن طیبۃ فی جنت عدن۔ ذلک الفوز العظیم۔ (الصف: ۱۱۔۱۲)
’’اے وہ لوگو‘ جو ایمان لائے ہو‘ کیا میں بتائوں تم کو وہ تجارت جو تمہیں عذاب الیم سے بچا دے؟ اللہ اور اس کے رسول پر (سچے دل سے) ایمان لائو‘ اور اللہ کی راہ میں اپنی جانوں اور مالوں سے جہاد کرو۔ اگر تم جانو تو تمہاری بھلائی اسی میں ہے۔ ایساکرو گے تو اللہ تمہاری لغزشوں کو معاف کر دے گا اور تمہیں نعمت کے ایسے سدا بہار باغوں میں لے جائے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی اور ان میں تمہارے لیے صاف ستھرے رہنے کے گھر ہوں گے‘ (اس راہ پر چلنا اور ان چیزوں کو پالینا) یہ ہے سب سے بڑی کامیابی‘‘
اگر آپ کے رب کے نزدیک فوز و فلاح یہ ہے تو آپ اپنی کسی خود ساختہ تصور روحانیت کے ذریعے اور کس شے کی تلاش میں ہیں‘ اس کا حکم تو یہ ہے کہ:
و اذکروہ کما ھدلکم۔
’’اللہ کو اسی طرح یاد کرو جس طرح اس نے بتایا ہے‘‘
لہٰذا روحانیت حاصل ہوسکتی ہے تو اس کی ہدایت اور اس کے رسولؐ کی بتائی ہوئی راہ پر چل کر ہی حاصل ہوسکتی ہے۔
جہاں تک میں سمجھ سکا ہوں‘ موجودہ زمانے کے بعض لوگ جس روحانیت کے پیچھے سرگرداں ہیں‘ وہ یہ ہے کہ ایک انسان دوسرے انسان کی طرف بلا ارادہ کھنچتا چلا جائے اور یہ دراصل نتیجہ ہوتا ہے طبیعتوں کی باہم مناسبت کا‘ اور اتحاد مقصد اور اتحاد عمل کا۔ جتنا زیادہ کوئی شخص دوسرے سے ان تینوں میں اشتراک رکھتا ہوگا اسی قدر زیادہ اس کی طرف کھنچتا چلا جائے گا‘ ورنہ کیا بات تھی کہ حضرت خدیجۃ الکبریٰ ؓ اور حضرت ابوبکر صدیق ؓ اور حضرت علیؓ وہی بات سن کر فوراً کھچ آتے ہیں‘ اور ابوجہل ابولہب وہی بات عمر بھر سنتے ہیں مگر مخالفت ہی میں شدید تر ہوتے چلے جاتے ہیں؟ اور اس وقت بھی کتنے کروڑ انسان ہیں جو گاندھی کے اشارے پر کٹ مرنے کو تیار ہیں‘ کتنے کروڑ ہیں جو ہٹلر اور سٹالن پر جان قربان کر رہے ہیں‘ کتنے کروڑ ہیں جنہوں نے سب کچھ چرچل اور روز ویلٹ پر نثار کر دیا ہے؟ کیا یہی کفار اس وقت دنیا میں صاحب روحانیت رہ گئے ہیں؟ اور پھر کیا وجہ ہے کہ ایک پیر صاحب کے مریدوں اور ایک گروہ کے لوگوں کو اپنے ہی پیر و مرشد میں روحانیت کے جلوے نظر آتے ہیں اور اسی کی طرف کشش محسوس ہوتی ہے؟ اور پھر کیا نوح ؑ‘ مسیح ؑ‘ اور بعض دوسرے انبیاء علیہم السلام میں بھی نعوذ باللہ روحانیت کی کمی تھی کہ چند انسانوں کے سوا وہ کسی کو اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب نہ ہوسکے؟
اس سلسلے میں حضرت جنیدؒ کی زندگی کا ایک واقعہ بیان کر دینا اصل مدعا کو واضح کرنے میں مدد گار ہوگا۔ روایت ہے کہ ایک شخص حضرت جنیدؒ کی ولایت اور بزرگی کا شہرہ سن کر شاید اسی قسم کی روحانیت کی تلاش میں ان کے پاس آیا۔ کچھ عرصہ ان کی صحبت میں رہا لیکن نہ تو کبھی اس نے اپنے آنے کی کوئی غرض بیان کی اور نہ ہی کوئی سوال کیا۔ آخر جب وہ رخصت کی اجازت کے لیے حاضر ہوا تو آپؒ نے پوچھا آپ کس کام کے لیے آئے تھے اور اب کیسے واپس جارہے ہیں؟ اس نے جواب دیا کہ ’’میں یہ سن کر آیا تھا کہ آپ بہت بڑے صاحب روحانیت اور ولی اللہ ہیں مگر میں نے اتنے دنوں میں کوئی خاص بات نہیں دیکھی‘‘ حضرت جنیدؒ نے پوچھا کہ ’’کیا آپ نے میری کوئی بات کتاب اللہ اور سنت رسولؐ کے خلاف پای ہے؟‘‘ اس شخص نے جواب دیا کہ ’’نہیں‘ کوئی ایسی بات تو میں نے نہیں پائی‘‘۔ آپؒ نے فرمایا ’’تو بس جنیدؒ کے پاس تو یہی کچھ ہے۔
پس معلوم ہوا کہ قرآن و سنت کے کامل اتباع کے سوا ’’روحانیت‘‘ کا مفہوم کچھ اور لینا ہی سرے سے غلط ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنا پورا دین قرآن کریم میں بتا دیا اور اس کے رسولؐ نے اس کی عملی تشریح اپنی سنت اور اسوۂ حسنہ میں فرما دی۔ اور ان کے ساتھ ان کو سمجھنے کے لیے آدمی کو عقل سلیم اور اچھے اور برے کی تمیز دے دی گئی۔ اب جس کا جی چاہے‘ یکسو ہو کر اس راہ پر چل پڑے اور دنیا و آخرت کی بھلائی اور خدا کی خوشنودی حاصل کرے اور جس کا جی چاہے‘ کوئی اور راہ اختیار کرے۔ لیکن اگر کوئی شخص اللہ کی اطاعت و بندگی کے بغیر اس کے نفاذ کے لیے جدوجہد سے قطع نظر کرکے‘ محض کسی اور ریاضت یا ذہنی ورزش سے اللہ کی رضا جوئی اور اس کے ہاں فوز عظیم حاصل کرلینے کی غلط فہمی میں مبتلا ہے‘ تو اسے جان لینا چاہئے کہ اللہ اور اس کے رسولؐ کے ہاں اس کے لیے کوئی سند موجود نہیں۔ یہ کہہ دینا کہ اللہ کے رسولؐ نے کچھ خاص باتیں یا نجات کا کوئی قریبی راستہ (Short Cut)اپنے کسی خاص عزیز یا مخصوص گروہ کے چند لوگوں کو بتایا جو قرآن و حدیث کے علاوہ ہے تو یہ ایک ایسا اتہام ہے جس کے بعد خدا کے رسولؐ پر اس شخص کے ایمان کا کوئی سوال باقی نہیں رہتا۔ کیونکہ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ نعوذ باللہ رسولؐ نے اپنے اس کام میں کوتاہی کی جس کے لیے اللہ تعالیٰ نے اسے منصب نبوت عطا فرمایا تھا۔
یایھا الرسول بلغ ما انزل الیک من ربک و ان لم تفعل فما بلغت رسلۃ۔
(۵:۶۷)
’’اے رسولؐ ‘ تیرے رب نے جو کچھ تیری طرف نازل کیا ہے‘ اسے (دوسروں تک) پہنچا دے اور اگر تو یہ نہ کرے تو تو نے گویا فرض رسالت ہی ادا نہیں کیا‘‘
جو لوگ انبیاء تک کے بارے میں اتنی بڑی جسارت کر ڈالیں ان کے رحمن کے بجائے شیطان کے بندے اور ایجنٹ ہونے میں کیا شبہ ہے؟ ہر شخص کے تقویٰ و بزرگی اور عمل و روحانیت کو صرف کتاب و سنت پر پرکھنے کی عادت ڈالیے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ہر وقت دوسروں ہی کو جانچتے پرکھتے رہنے کے بجائے خود اپنے آپ کو بار بار جانچتے اور پرکھتے رہئے اور اپنے فرائض انجام دینے کی فکر میں لگے رہیے۔ کیوں کہ ہر شخص کو دوسروں کے اعمال کی نہیں بلکہ اپنے اعمال کی جواب دہی کرنی ہے۔
لاتکسب کل نفس الاعلیھا ولا تزر و ازرۃ وزراً اخریٰ۔ (الانعام: ۱۶۵)
’’ہر شخص جو کچھ کرتا ہے اس کا ذمہ دار وہ خود ہی ہے۔ کوئی بھی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا‘‘
لمن شآء منکم ان یتقدم اویتاخر کل نفس بما کسبت رھینۃ۔(المدثر: ۳۷۔۳۸)
’’تم میں سے جس کا جی چاہے آگے بھی کچھ بھیجے اور جس کا جی چاہے سب کچھ یہیں دنیا میں چھوڑ جائے‘ بہرحال ہر شخص اپنے کیے کے بدلے میں رہن ہے۔ کوئی شخص اپنے عمل کا حساب چکائے بغیر نہیں چھوٹے گا‘‘
اسلام میں عزت و سربلندی کا مفہوم:
’’عمل و عبادت‘‘ اور ’’روحانیت‘‘ ہی کا نہیں ’’عزت و ذلت‘‘ اور ’’سربلندی و پستی‘‘ کا مفہوم بھی اس زمانے میں سراسر الٹ گیا ہے۔ اس وقت ہمارے معاشرے میں عزت و احترام اور عزاز و سربلندی کا واحد ذریعہ مال و دولت اور مادی وسائل کی کثرت رہ گیا ہے۔ بلندی اخلاق‘ پختگی کردار اور شرافت نفس اور تقویٰ و طہارت کی کوئی قدر و قیمت نہیں رہی۔ حد یہ ہے کہ ایک بدتر سے بدتر انسان جو شرابی‘ زانی‘ جوئے باز‘ مفسد و رشوت خور‘ بددیانت‘ مکار اور حدود اخلاق کا اعلانیہ توڑنے والا ہے‘ اگر مال و دولت اور کچھ وسائل زندگی رکھتا ہے تو وہی سوسائٹی میں معزز و محترم اور ممتاز مانا جاتا ہے۔ اور ایک دوسرا شخص خواہ وہ کتنا ہی شریف النفس‘ صاحب اخلاق‘ بلند کردار‘ متقی اور خدا ترس ہو لیکن صرف اس لیے کہ مال و دولت میں دوسروں سے کمتر ہے‘ سوسائٹی میں کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ حقیقت یہ ہے کہ تہذیب و تمدن کے اپنے سارے دعووں کے باوجود ساری دنیا اس وقت ’’لکشمی پوجا‘‘ میں بری طرح مبتلا ہے۔ اب آپ کو اس بگڑی ہوئی سوسائٹی کو از سر نو صحیح بنیادوں پر قائم کرنا ہے اور اس کے لیے اس بات کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ اسلام میں شرف و بزرگی اور عزت و سربلندی نہ مال و دولت میں ہے‘ نہ قوت و غلبہ میں‘ نہ محلات و باغات میں اور نہ وردی و تمغات میں‘ بلکہ صرف اس امر میں ہے کہ کوئی شخص کتنا کریم النفس‘ بلند اخلاق‘ صاحب کردار‘ امانت دار اور خدا ترس ہے اور اللہ کی اطاعت و بندگی میں کس قدر بڑھا ہوا ہے۔
ان اکرمکم عند اللہ اتقکم۔ (۴۹:۱۳)
’’اللہ کے ہاں معزز وہ ہے جو تقویٰ اور خدا ترسی میں بڑھا ہوا ہو‘‘
ہاں ان کے ساتھ اگر اللہ تعالیٰ نے اسے اسباب دنیا اور وسائل زندگی سے بھی نوازا ہو تو وہ اس کے لیے مزید عزت و شرف کا موجب ہے۔ لیکن انسانی اوصاف سے قطع نظر کرکے ہر دو ٹنگے جانور یا انسان نما درندے کو محض اس لیے احترام کا مستحق قرار دے لینا کہ وہ ریشم و حریر میں ملبوس ہے یا شال و پرنیاں کا جھول اس پر کسا ہوا ہے تو یہ کام عقل کے اندھوں اور انسان نما جانوروں ہی سے ہوسکتا ہے کیونکہ وہ بے چارے تو قوت و طاقت اور سامان خورد و نوش سے متاثر ہوتے ہیں۔ لیکن اگر انسان بھی انہی کو عزت و بزرگی کا معیار بنا لیں تو ان کو چاہئے کہ جنگل کے جانوروں سے جاملیں۔ دراصل یہ صورت حال کا غیر شعوری نتیجہ ہے۔ اس ذہنیت کا جس کے تحت جدید فلاسفہ کے ایک گروہ نے اپنا سلسلہ نسب بھی حضرت آدم ؑ کے بجائے جنگل کے جانوروں ہی سے ملانے کی کوشش کی ہے۔ ایسے لوگوں کو انسان شمار کرنا تو کجا اللہ تعالیٰ نے انہیں جانوروں سے بھی بدتر قرار دیا ہے۔
لھم قلوب لا یفقھون بھا ولھم اعین لا یبصرون بھا ولھم اذان لا یسمعون بھا اولئک کالا نعام بل ھم اضل۔ (اعراف: ۱۷۹)
’’ان کے پاس دل تو ہیں لیکن ان سے سمجھنے کاکام نہیں لیتے‘ ان کے پاس آنکھیں ہیں لیکن ان سے دیکھنے کاکام نہیں لیتے۔ ان کے پاس کان (بھی) ہیں لیکن ان سے سننے کی خدمت نہیں لیتے۔ یہ تو نرے جانور ہیں‘ بلکہ ان سے بھی بدتر ہیں‘‘
انسان کے لیے شرمناک بات یہ نہیں کہ وہ مزدوری کرتا ہے‘ ٹوکری اٹھاتا ہے‘ دکان لگاتا ہے‘ جوتے بناتا ہے‘ کپڑا بنتا ہے‘ چھابڑی لگاتا ہے‘ بوجھ ڈھوتا ہے یا کسی ایسی ہی چھوٹی موٹی صنعت سے روٹی کماتا ہے‘ بلکہ اس کے لیے شرمناک بات یہ ہے کہ خواہشات نفس کا بندہ بن کر اپنا دل و دماغ اور ایمان و ضمیر دوسروں کے ہاتھ فروخت کر دے اور حرص دنیا سے اس درجہ مغلوب ہو جائے کہ جو پیشانی اللہ تعالیٰ نے صرف اپنے ہی سامنے جھکنے کے لیے بنائی تھی اسے وہ جانوروں سے بدتر انسانوں کے سامنے جھکائے‘ جو زبان اس نے اپنی حمد و ثناء کے لیے دی تھی اس سے وہ غیر اللہ کی مدح سرائی اور خوشامد کرے اورجو قوتیں اللہ نے بندوں کو بندوں کی غلامی سے نجات دلانے اور اپنی زمین کو امن و انصاف کا گھربنانے کے لیے دی تھیں‘ ان کو وہ نظام باطل کے قیام اور کفر و ضلالت کے فروغ کے لیے استعمال کرے اور پھر اسی کے معاوضے کو اپنا ذریعہ معاش بنائے۔ جھوٹ بولے‘ چوری اور خیانت کرے‘ رشوت کھائے‘ دوسروں کے حق مارے‘ ظلم و زیادتی کرے اور خدا کی نافرمانی کے دوسرے کام کرے۔ غالباً ایسے ہی لوگوں کی تمثیل اللہ تعالیٰ نے درج ذیل آیت میں بیان فرمائی ہے:
ولکنہ اخلد الی الارض و اتبع ھواہ فمثلہ کمثل الکلب ان تحمل علیہ یلھت اوتترکہ یلھث‘ ذالک مثل القوم الذین کذبوا بایتنا فاقصص القصص لعلھم یتفکرون۔ (الاعراف: ۱۷۶)
’’لیکن وہ تو زمین (نفع دنیا) ہی کی طرف جھک کر رہ گیا اور اپنی خواہشات نفس ہی کے پیچھے پڑا رہا‘ حتیٰ کہ اس کی حالت کتے کی سی ہوگئی کہ تم اس پر حملہ کرو تب بھی زبان لٹکائے رہے اور اسے چھوڑ دو تب بھی زبان لٹکائے رہے۔ یہی مثال ہے ان لوگوں کی جو ہماری آیات کو جھٹلاتے ہیں‘ (ان کی خلاف ورزی کرتے ہیں)۔ مگر تم یہ حکایات ان کو سناتے رہو‘ شاید کچھ غور و فکر سے کام لیں‘‘
پس س شرف و بزرگی اور سارے فخر و امتیازات اس شخص کے لیے ہیں جو اللہ کی نظر میں بڑا ہے‘ اور اللہ کے نزدیک بڑا وہی ہے‘ جو اس کی راہ ہدایت کو اختیار کرے‘ اسی سے ڈرے‘ اور جس نے اللہ کی دی ہوئی ساری قوتوں اور قابلیتوں کو اسی کی راہ میں لگا دیا ہو۔ یہی فی الحقیقت معراج انسانی اور انسان کے لیے فلاح و سلامتی کی راہ ہے۔
قرآن کریم نے اسی بات کو اس طرح بیان کیا ہے:
ان الحکم الا للہ امر الا تعبدوا الا ایاہ ذالک الدین القیم ولکن الناس لا یعلمون۔ (یوسف:۴۰)
’’حکم دینے کے سارے اختیارات تو اللہ ہی کے لیے ہیں۔ بندوں کو تو اس نے یہ حکم دیا ہے کہ اس کے سوا کسی اور کی بندگی نہ کرو۔ کیونکہ بندوں کے لیے صحیح طریق زندگی یہی ہے مگر بہت سے لوگ اس بات کو نہیں جانتے (اور فلاح و سلامتی کی اس راہ کو چھوڑ کر دوسرے راستوں پر چل رہے ہیں‘‘)
من اسلم وجھہ للہ و ھو محسن فلہ اجرہ عنہ ربہ ولا خوف علیھم ولا ھم یحزنون۔ (البقرہ: ۱۱۲)
’’جو شخص اپنے آپ کو سر تاپا اللہ کی اطاعت میں دے دے اور پھر اس میں احساس کی روش اختیار کرے یعنی اس اخلاص و جانفشانی کے ساتھ خدا کی اطاعت کرے‘ گویا کہ اللہ سامنے موجود ہر آن اسے دیکھ رہا ہے‘ اس کا اجر اس کے رب کے پاس ہے اور ایسے لوگوں کے لیے کسی خوف یا رنج کا کوئی اندیشہ نہیں‘‘

شیئر کریں