Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

عرض ناشر
دعوت اسلامی اور اس کے طریق کار
ہماری دعوت کیا ہے؟
دعوت اسلامی کے تین نکات
بندگی رب کا مفہوم:
منافقت کی حقیقت:
تناقض کی حقیقت:
امامت میں تغیر کی ضرورت:
امامت میں انقلاب کیسے ہوتا ہے؟
مخالفت اور اس کے اسباب
ہمارا طریق کار
علماء اور مشائخ کی آڑ
زہد کا طعنہ:
رفقاء سے خطاب
مولانا امین احسن اصلاحی
اسلام کے اساسی معتقدات اور ان کا مفہوم
ایمان باللہ:
ایمان بالرسات :
ایمان بالکتب:
حق و باطل کے معرکے میں ہمارا فرض
مسلمانوں کی اقسام
تحریک اسلامی کا قیام اور اس کی غرض
کامیابی کا معیار:
نصرت حق کب آتی ہے؟
میاں طفیل محمد
گزری ہوئی زندگی کا محاسبہ:
خدا کے دین کا صحیح تصور:
نماز کا عملی مقصود
نماز کا سب سے پہلا کلمہ:
تکبیر تحریمہ:
تعویذ:
سورۂ فاتحہ:
سورۂ اخلاص:
رکوع‘ قومہ اور سجدہ:
التحیات:
درود شریف پڑھنے کا تقاضا:
دعاء قنوت کی روشنی میں جائزہ لیجئے:
دعاء قنوت:
آخری دعا اور سلام:
اقامت صلوٰۃ حقیقت
اذان کا مقصد اور اس کی حقیقت:
دین پوری زندگی پر حاوی ہے:
آج دنیا میں کروڑوں مسلمان موجود ہیں مگر نظام اسلام کا وجود نہیں!
دین میں دعوت اسلامی کی اہمیت:
دعوت کی راہ کا پہلا قدم:
دعوت کی راہ کا دوسرا قدم:
اس راہ کا تیسرا قدم:
عبادت کا اصل مفہوم اور اس کی روح:
روحانیت کیا ہے؟
دین اسلام صرف مسلمانوں کا دین نہیں یہ پوری نوع انسانی کا دین ہے:
دین اسلام کو صرف مان لینا کافی نہیں ہے‘ اس کی تبلیغ اور اقامت بھی لازم ہے:
غیر مسلموں کے لیے اسلام کا پیغام:
اور اس میں خواتین کا حصہ

دعوت اسلامی اور اس کے مطالبات

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

رفقاء سے خطاب

اب میں آپ لوگوں سے اجازت چاہوں گا کہ تھوڑی دیر کے لیے عام خطاب کو چھوڑ کر خاص طور پر کچھ باتیں اپنے رفقاء سے عرض کروں:
رفقاء محترم! سب سے پہلے میں اسی بات کو دہرانا ضروری سمجھتا ہوں‘ جسے ہمیشہ اور ہر موقع پر دھراتا رہتا ہوں کہ اپنی اس عظیم الشان ذمہ داری کو محسوس کیجئے جس کو آپ نے شعوری طور پر اپنے خدا سے عہد و میثاق مضبوط کرکے اپنے اوپر خود عائد کر لیا ہے۔ آپ کے اس عہد کا تقاضا صری یہی نہیں ہے کہ آپ قانون الٰہی کے زیادہ سے زیادہ پابند ہوں اور آپ کے عقیدے اور قول و عمل میں کامل مطابقت ہو اور آپ کی زندگی کا کوئی گوشہ ایسا نہ رہ جائے جس میں آپ کے افکار و اعمال اس اسلام سے مختلف ہوں جس پر آپ ایمان لائے ہیں‘ بلکہ اس کے ساتھ آپ کے اسی عہد کا تقاضا اور نہایت شدید تقاضا یہ بھی ہے کہ جس اسلام پر آپ ایمان لائے ہیں اور جسے آپ اپنے بادشاہ کا دین سمجھتے ہیں اور جسے آپ تمام نوع انسانی کے لیے حق جانتے ہیں اور واحد ذریعہ فلاح بھی سمجھتے ہیں اس کو تمام دوسرے دینوں اور مسلکوں اور نظاموں کے مقابلے میں سربلند کرنے کے لیے اور نوع انسانی کو ادیان باطلہ کی فساد انگیز تباہ کاریوں سے بچا کر دین حق کی سعادتوں سے بہرہ ور کرنے کے لیے آپ میں کم از کم اتنی بے چینی پائی جائے جتنی ادیان باطلہ کے پیرو اپنے اپنے جھوٹے اور غارت گردینوں کی حمایت و برتری کے لیے دکھا رہے ہیں۔ آپ کی آنکھوں کے سامنے ان لوگوں کی مثالیں موجود ہیں جو سخت سے سخت خطرات‘ شدید سے شدید نقصانات‘ جان و مال کے زیان‘ ملکوں کی تباہی‘ اور اپنی اور اپنی اولاد اور اپنے عزیزوں اور جگر گوشوں کی قربانی صرف اس لیے گوارا کر رہے ہیں کہ جس طریق زندگی کو وہ صحیح سمجھتے ہیں اور جس نظام میں اپنے لیے فلاح کا امکان انہیں نظر آتا ہے اسے نہ صرف اپنے ملک پر بلکہ ساری دنیا پر غالب کرکے چھوڑیں۔ ان کے صبر اور ان کی قربانیوں اور محنتوں اور ان کے تحمل مصائب اور اپنے مقصد کے ساتھ ان کے عشق کا موازنہ آپ اپنے عمل سے کرکے دیکھئے اور محسوس کیجئے کہ آپ اس معاملہ میں ان کے ساتھ کیا نسبت رکھتے ہیں۔ اگر فی الواقع آپ کبھی ان کے مقابلے میں کامیاب ہوسکتے ہیں تو صرف اسی وقت جبکہ ان حیثیات میں آپ ان سے بڑھ جائیں‘ ورنہ آپ کے مالی ایثار‘ آپ کے وقت اور محنت کے ایثار‘ اور اپنے مقصد کے ساتھ آپ کی محبت اور اس کے لیے آپ کی قربانی کا جو حال اس وقت ہے‘ اس کو دیکھتے ہوئے تو آپ یہ حق بھی نہیں رکھتے کہ اپنے دل میں اس تمنا کو پرورش کریں کہ آپ کے ہاتھوں یہ جھنڈا کبھی بلند ہو۔
دوسری چیز جس کی طرف مجھے آپ کو توجہ دلانے کی بار بار ضرورت محسوس ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ آپ لوگ دین کے اصولی اور بنیادی امور کی اہمیت کو سمجھیں اور فروع کے ساتھ جو اہتمام اب تک کرتے رہے ہیں اور جس اہتمام کی بیماری آپ کے سارے مذہبی ماحول کو لگی ہوئی ہے‘ اس سے بچنے کی کوشش کریں۔ میں دیکھتا ہوں کہ لوگوں میں ابھی تک ان جزئیات کے ساتھ اچھا خاصہ انہماک بلکہ غلو پایا جاتا ہے جن پر ایک مدت سے فرقہ بندیاں اور گروہی کشمکشیں ہوتی رہی ہیں‘ اور یہ کیفیت بسا اوقات اتنی بڑھ جاتی ہے کہ ہماری تفہیم سے اس طریقے کو چھوڑنے کے بجائے ہمارے بعض احباب الٹا ہمیں کو ان بحثوں میں الجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ خوب اچھی طرح سمجھ لیجئے کہ جن جزئیات پر آپ لوگ بحثیں کرتے ہیں وہ خواہ کتنی ہی اہمیت رکھتی ہوں مگر بہرحال یہ وہ چیزیں نہیں ہیں جن کو قائم کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبروں کو مبعوث کیا ہو اور اپنی کتابوں کو نازل کیا ہو۔ انبیاء کی بعثت اور کتب الٰہی کی تنزیل کا مقصد ان جزئیات کو قائم کرنا نہیں ہے بلکہ دین حق کو قائم کرنا ہے۔ ان کا اصل مقصد یہ رہا ہے کہ خلق خدا اپنے مالک حقیقی کے سوا کسی کے تابع فرمان نہ رہے۔ قانون صرف خدا کا قانون ہو‘ تقویٰ صرف خدا سے ہوا‘ امر صرف خدا کا مانا جائے‘ حق اور باطل کا فرق اور زندگی میں راہ راست کی ہدایت صرف وہی مسلم ہو جسے خدا نے واضح کیا ہے اور دنیا میں ان خرابیوں کا استحصال کیا جائے جو اللہ کو ناپسند ہیں اور ان خیرات و حسنات کو قائم کیا جائے جو اللہ کو محبوب ہیں۔ یہ ہے دین اور اسی کی اقامت ہمارا مقصد ہے اور مسلمان ہونے کی حیثیت سے اسی کام پر مامور ہیں۔ اس کام کی اہمیت اگر آپ پوری طرح محسوس کرلیں اور اگر آپ کو اس بات کا بھی احساس ہو کہ اس کام کے معطل ہو جانے اور باطل نظاموں کے دنیا پر غالب ہو جانے سے دنیا کی موجودہ حالت کس قدر شدت سے غضب الٰہی کی مستحق ہو چکی ہے‘ اور اگر آپ یہ بھی جان لیں کہ اس حالت میں ہمارے لیے غضب الٰہی کی مستحق ہو چکی ہے‘ اور اگر آپ یہ بھی جان لیں کہ اس حالت میں ہمارے لیے غضب الٰہی سے بچنے اور رضائے الٰہی سے سرفراز ہونے کی کوئی صورت اس کے سوا نہیں ہے کہ ہم اپنی تمام قوت خواہ وہ مال کی ہو یا جان کی‘ دماغ کی ہو یا زبان کی‘ صرف اقامت دین کی سعی میں صرف کردیں تو آپ سے کبھی ان فضول بحثوں اور ان لایعنی افکار کا صدور نہ ہوسکے جن میں اب تک آپ میں بہت سے لوگ مشغول ہیں۔ میرے نزدیک یہ تمام مشاغل صرف اس ایک چیز کا نتیجہ ہیں کہ لوگوں نے ابھی تک اس بات کو پوری طرح سمجھا نہیں ہے کہ دین حقیقت میں کس چیز کا نام ہے اور اس کے واقعی مطالبات اپنے پیروئوں سے کیا ہیں۔
ایک اور خامی جو بعض لوگوں میں پائی جاتی ہے اور جو اکثر ہمارے لیے سبب پریشانی بنتی رہتی ہے‘ وہ یہ ہے کہ یہ حضرات اصول اور مقصد اور نظریے کی حد تک تو ہمارے مسلک کو سمجھ گئے ہیں لیکن طریق کار کو اچھی طرح نہیں سمجھے۔ اس لیے بار بار ان کی توجہات دوسرے مختلف طریقوں کی طرف پھر جاتی ہیں اور وہ کسی نہ کسی طرح کھنچ تان کرکے بطور خود ہمارے نصب الین اور دوسروں کے طریق کار کی ایک معجون مرکب بنانے کی کوشش کرتے ہیں اور جب انہیں اس سے روکا جاتا ہے تو وہ یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ ہم خواہ مخواہ چلتے ہوئے زود اثر طریق کار کو محض اس تعصب کی بنا پر اختیار نہیں کرنا چاہتے کہ وہ ہمارا نہیں بلکہ دوسروں کا ایجاد کردہ طریقہ ہے۔ بعض حضرات نے تو ستم ہی کر دیا کہ جب ہماری طرف سے ان کو ٹوکا گیا تو انہوں نے ہمیں یہ اطمینان دلانے کی کوشش کی کہ نام آپ ہی کا لیا جائے گا‘ دوسروں کا نہ لیا جائے گا۔ گویا ان کے نزدیک ہماری تگ و دو صرف اپنا رجسٹرڈ ٹریڈ مارک چلانے کے لیے ہے‘ اور لطف یہ ہے کہ یہ سمجھتے ہوئے بھی ہمارے ساتھ اس کام میں شریک ہیں۔ بعض مقامات پر لوگ اس وبا سے خاص طور پر بہت زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ لیکن جہاں تاثر اتنا زیادہ نہیں ہے‘ وہاں بھی مختلف طریقوں سے اس بات کا اظہار ہوتا رہتا ہے کہ کوئی تیز رفتار طریق کار اختیار کرکے جلدی سے کچھ چلتا پھرتا کام دنیا کے سامنے پیش کر دیا جائے۔ یہ سب ’’عمل بلا فکر‘‘ کی اس پرانی بیماری کے نتائج ہیں جو مسلمانوں میں بہت دنوں سے پرورش پا رہی ہے اور ’’فکر بلا عمل‘‘ سے کچھ کم خطرناک نہیں ہے۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اگر ان مذہبی اور سیاسی تحریکوں میں سے کسی میں بھی فی الواقع کوئی جان ہوتی جو اس وقت مسلمانوں میں چل رہی ہیں تو شاید ہم اس تحریک کی ابتداء میں ابھی کچھ تامل سے کام لیتے اور اپنی پوری قوت ان نسخوں کو آزمالینے میں صرف کر دیتے۔ مگر جو تھوڑی بہت نظر و بصیرت اللہ تعالیٰ نے ہمیں عطا کی ہے‘ اس کی بنا پر ہم خوب اچھی طرح یہ سمجھ چکے ہیں کہ وقت کی چلتی ہوئی تحریکوں اور ان کی قیادتوں میں سے ایک بھی مسلمانوں کے مرض کا صحیح علاج نہیں ہے‘ اور نہ اسلام کے اصل منشاء کو پورا کرنے والی ہے۔ محض جزوی طور پر مسلمانوں کے امراض کی ناکافی اور سطحی تشخیص کی گئی ہے اور اسلام کے اصل تقاضوں کا بھی صحیح طور پر ادراک نہیں کیا گیا ہے۔ پھر یہ بھی اچھی طرح نہیں سمجھا گیا کہ کفر و فسق کا یہ غلبہ اور دین کی یہ بے بسی اور مغلوبی جو آج موجود ہے‘ فی الحقیقت کن اسباب کا نتیجہ ہے۔ اور اب اس حالت کو بدلنے کے لیے کس ترتیب و تدریج سے کن کن میدانوں میں کیا کیا کام کرنا ہے۔ ان سب چیزوں کو سوچے اور سمجھے بغیر جو سطحی اور جزئی تحریکیں جاری کی گئیں اور ان کو چلانے کے لیے جو زور اثر اور فی الفور نتیجہ منظر عام پر لے آنے والے طریقے اختیار کیے گئے‘ وہ سب ہمارے نزدیک چاہے غلط نہ ہوں‘ چاہے ان کی مذمت ہم نہ کریں‘ چاہے ان کی اور ان کے پیچھے کام کرنے والے اخلاص کی ہم دل سے قدر کریں مگر بہرحال ہم ان کو لاحاصل سمجھتے ہیں اور ہمیں پوری طرح یقین ہے کہ اس قسم کی تحریکیں اگر صدیوں تک بھی پوری کامیابی اور ہنگامہ خیزی کے ساتھ چلتی رہیں تب بھی نظام زندگی میں کوئی حقیقی انقلاب رونما نہیں ہوسکتا۔ حقیقی انقلاب اگر کسی تحریک سے رونما ہوسکتا ہے تو وہ صرف ہماری تحریک ہے اور اس کے لیے فطرتاً یہی ایک طریق کار ہے جو ہم نے خوب سوچ سمجھ کر اور اس دین کے مزاج اور اس کی تاریخ کا گہرا جائزہ لے کر اختیار کیا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ ہمارا طریق کار نہایت صبر آزما ہے‘ سست رفتار ہے‘ جلدی سے کوئی محسوس نتیجہ اس سے رونما نہیں ہوسکتا اور اس میں برسوں لگاتار ایسی محنت کرنی پڑتی ہے جس کے اثرات اور جس کی عملی نمود کو بسا اوقات خود محنت کرنے والا بھی محسوس نہیں کرسکتا۔ لیکن اس راہ میں کامیابی کا راستہ یہی ہے اور اس کے سوا کوئی دوسرا طریق کار اس مقصد کے لیے ممکن نہیں ہے۔ جن لوگوں کو ہمارے مسلک اور طریق کار یا ان دونوں میں سے کسی ایک پر بھی اطمینان حاصل نہ ہو‘ ان کے لیے یہ راست تو کھلا ہوا ہے کہ ہم سے باہر جاکر اپنی صوابدید سے جس طرح چاہیں کام کریں لیکن یہ اختیار کسی طرح نہیں دیا جاسکتا کہ بطور خود وہ ان دونوں میں یا ان میں سے کسی ایک چیز میں جو ترمیم چاہیں‘ کرلیں۔ ہمارے ساتھ جس کو چلنا چاہئے اور جو شخص کچھ بھی میلان دوسری تحریکوں اور جماعتوں کی طرف رکھتا ہو‘ اسے پہلے ان راستوں کو آزما کر دیکھ لینا چاہئے‘ پھر اگر اس کا ذہن اسی فیصلے پر پہنچے جس پر ہم پہنچے ہوئے ہیں تو وہ اطمینان قلب کے ساتھ ہمارے ساتھ آجائے۔
سطحیت اور مظاہرہ پسندی اور جلد بازی کی جو کمزوری مسلمانوں میں بالعموم پیدا ہو گئی ہے۔ اس کا ایک ثبوت مجھے حال میں یہ ملا ہے کہ عوام میں تعلیم بالغاں کے ذریعے کام کرنے کا جو طریقہ چند ماہ پیشتر میں نے پیش کیا تھا‘ اس نے تو بہت کم لوگوں کو اپیل کیا مگر گروہ بنا بنا کر بستیوں میں گشت لگانے اور فوری نتیجہ دکھانے والے طریق کار کے لیے (خواہ اس کا اثر کتنا ہی ناپائیدار ہو) مختلف مقامات سے ہمارے احباب کے تقاضے برابر چلے آرہے ہیں اور کسی فہمائش پر بھی ان کا سلسلہ ٹوٹنے میں نہیں آتا۔ حالانکہ ایک طرف یہ طریق کار ہے کہ ایک سال یا اس سے زیادہ مدت تک ناخواندہ عوام میں سے چند آدمیوں کو پیہم تعلیم و تربیت دے کر خوب پختہ کرلیا جائے اور ان کے عقائد‘ اخلاق‘ اعمال‘ مقصد زندگی‘ معیار قدر و قیمت‘ ہر چیز کو پوری طرح بدل ڈالا جائے اور پھر ان کو مستقل کارکن بنا کر‘ مزدوروں‘ کسانوں اور دوسرے عامی طبقوں میں کام کرنے کے لیے استعمال کیا جائے‘ اور دوسری طرف یہ طریق کار ہے کہ ایک قلیل مدت میں ہزار ہا آدمیوں کو بیک وقت چند ابتدائی امور دین کی حد تک مخاطب کیا جائے اور فوری طور پر ان میں ایک حرکت پیدا کرکے چھوڑ دیا جائے‘ چاہے دوسرے چکر کے وقت پہلی حرکت کا کوئی اثر ڈھونڈے بھی نہ مل سکے۔ ان دونوں طریقوں میں سے جب میں دیکھتا ہوں کہ لوگ پختہ نتائج پیدا کرنے والے دیر طلب اور محنت طلب اور صبر آزما طریقے کو سنتے ہیں اور اس کی طرف کوئی توجہ نہیں کرتے اور دوسرے طریقے کی طرف بار بار دوڑ چلنے کی کوشش کرتے ہیں تو میرے سامنے مسلمانوں کی وہ کمزوریاں بالکل بے نقاب ہو جاتی ہیں جن کی وجہ سے اب تک وہ خام کاریوں ہی میں اپنی قوتیں اور محنتیں اور اپنے مال اور اوقات ضائع کرتے رہے ہیں۔ میں اس سلسلے میں زیادہ سے زیادہ اتنا ہی کہہ سکتا ہوں کہ جب تک اس تحریک کی باگیں میرے ہاتھ میں ہیں‘ میں اپنے رفقاء کو صحیح اور حقیقی نتیجہ خیز کاموں ہی پر لگانے کی کوشش کروں گا۔ اور بے حاصل کوششوں میں جانتے بوجھتے ان کو مشغول نہ ہونے دوں گا۔
اپنی تقریر کو ختم کرنے سے پہلے ایک آخری بات کی طرف میں آپ لوگوں کی توجہ دلانا ضروری سمجھتا ہوں۔ ہمارے احباب میں ایک اچھا خاصا گروہ پایا جاتا ہے جس نے تبلیغ و اصلاح کے کام میں تشدد اور سخت گیری کا رنگ اختیار کرلیا ہے جو سوالات ان کی طرف سے اکثر میرے پاس آتے رہتے ہیں‘ ان سے میں محسوس کرتا ہوں کہ ان کے اندر بگڑے ہوئے لوگوں کو سنوارنے کی بیتابی اتنی زیادہ نہیں ہے جتنی انہیں اپنے سے کاٹ پھینکنے کی بیتابی ہے۔ دینی حرارت نے ان میں ہمدردی اور خیر خواہی کا جذبہ اتنا نہیں ابھارا جتنا نفرت اور غصے کا جذبہ ابھار دیا ہے۔ اسی وجہ سے وہ اکثر یہ تو پوچھتے ہیں کہ جو لوگ ایسے اور ایسے ہیں ان سے ہم تعلقات کیوں نہ منقطع کرلیں اور ان کے ساتھ نمازیں کیوں پڑھیں اور ان کو کافر و مشرک کیوں نہ کہیں۔ لیکن یہ پوچھنے کا ان کو بہت کم خیال آتا ہے کہ ہم اپنے ان بھٹکے ہوئے بھائیوں کو سیدھی راہ پر کیسے لائیں‘ ان کی غفلت و بے خبری کو کس طرح دور کریں۔ ان کی کج روی کو راست سے کیسے بدلیں اور ان کو نور ہدایت سے مستفید ہونے پر کیونکر آمادہ کریں۔ مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جن لوگوں نے اللہ کے فضل سے اور اپنی خوش قسمتی سے حق کو پا لیا ہے ان کے اندر اس وجدان حق نے شکر کے بجائے کبر کا جذبہ پیدا کر دیا ہے اور اسی کا اظہار ان شکلوں میں ہو رہا ہے۔ خدا نہ کرے کہ میرا یہ گمان صحیح ہو لیکن میں اسے صاف صاف اس لیے بیان کر رہا ہوں کہ ہمارے رفیقوں میں ہر شخص پوری خدا ترسی کے ساتھ اپنے نفس کا جائزہ لے کر تحقیق کرنے کی کوشش کرے کہ کہیں شیطان نے یہ مرض تو ان کو نہیں لگا دیا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ بگڑی ہوئی سوسائٹی کے درمیان علم صحیح اور عمل صالح رکھنے والوں کی مثال ایسی ہے جیسے ایک وبائے عام میں مبتلا ہو جانے والی بستی کے درمیان چند تندرست لوگ موجود ہوں جو کچھ طب کا علم بھی رکھتے ہوں اور کچھ دوائوں کا ذخیرہ بھی ان کے پاس ہو‘ مجھے بتائیے کہ اس وبا زدہ بستی میں ایسے چند لوگوں کا حقیقی فرض کیا ہے؟ کیا یہ کہ مریضوں سے اور ان کی لگی ہوئی آلائشوں سے نفرت کریں یا انہیں اپنے سے دور بھگائیں اور انہیں چھوڑ کر نکل جانے کی کوشش کریں یا یہ کہ اپنے آپ کو خطرے میں ڈال کر ان کا علاج اور ان کی تیمارداری کرنے کی فکر کریں اور اس سعی میں اگر کچھ نجاستیں ان کے جسم و لباس کو لگ بھی جائیں تو انہیں برداشت کرلیں۔ شاید میں پورے وثوق کے ساتھ یہ دعویٰ کر سکتا ہوں کہ اگر یہ لوگ پہلی صورت اختیار کریں تو خدا کے ہاں الٹے مجرم قرار پائیں گے۔ اور ان کی اپنی تندرستی اور ان کا علم طب سے واقف ہونا اور ان کے پاس دوائوں کا ذخیرہ موجود ہونا نافع ہونے کے بجائے الٹا ان کے جرم کو اور زیادہ سخت بنا دے گا۔ اسی پر آپ قیاس کرلیں کہ جن لوگوں کو دینی تندرستی حاصل ہے اور جو دین کا علم اور اصلاح کے ذرائع بھی رکھتے ہیں۔ ان کے لیے کون سا طریقہ رضائے الٰہی کے مطابق ہے۔
واخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔

شیئر کریں