Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

دعوت اسلامی اور اس کا طریق کار
اجتماعات کا مقصد:
دعوت اسلامی کے تین نکات :
بندگی رب کا حقیقی مفہوم:
منافقت کی حقیقت
تناقض کی حقیقت:
امامت میں انقلاب کیسے آتا ہے؟
مخالفت اور اس کے اسباب :
ہمارا طریقِ کار
علماء اور مشائخ کی آڑ :
زہد کا طعنہ:
رفقاء جماعت سے خطاب :

دعوت اسلامی اور اس کا طریق کار

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

رفقاء جماعت سے خطاب :

اب میں آپ لوگوں سے اجازت چاہوں گا کہ تھوڑی دیر کے لیے عام خطاب کو چھوڑ کر خاص طور پر کچھ باتیں اپنے رفقاء سے عرض کروں:۔
رفقاء محترم!سب سے پہلے آپ سے خطاب کرتے ہوئے میں اسی بات کو دہرانا ضروری سمجھتا ہوں جسے ہر اجتماع کے موقعہ پر دہراتا رہا ہوں کہ اپنی اس عظیم الشان ذمہ داری کو محسوس کیجیے جس کو آپ نے شعوری طور پر اپنے خدا سے عہدو میثاق مضبوط کر کے اپنے اوپر خود عائد کرلیا ہے۔آپ کے اس عہد کا تقاضا صرف یہی نہیں ہے کہ آپ قانون الٰہی کے زیادہ سے زیادہ پابندہوں اور آپ کے عقیدے اور قول وعمل میں کامل مطابقت ہو اور آپ کی زندگی کا کوئی گوشہ ایسا نہ رہ جائے جس میں آپ کے افکارواعمال اس اسلام سے مختلف ہوں، جس پر آپ ایمان لائے ہیں،بلکہ اس کے ساتھ آپ کے اسی عہد کا تقاضا اور نہایت شدید تقاضا یہ بھی ہے کہ جس اسلام پر آپ ایمان لائے ہیں اور جسے آپ اپنے بادشاہ کا دین سمجھتے ہیں اور جسے آپ تمام نوع انسانی کے لیے حق جانتے ہیں اور واحد ذریعہ فلاح بھی سمجھتے ہیں اس کوتمام دوسرے دینوں اور مسلکوں اور نظاموں کے مقابلے میں سر بلند کرنے کے لیے ، اورنوع انسانی کو ادیان باطلہ کی فساد انگیز تباہ کاریوں سے بچا کر دین حق کی سعادتوں سے بہرہ ور کرنے کے لیے آپ میں کم از کم اتنی بے چینی پائی جائے جتنی آج ادیانِ باطلہ کے پیرو اپنے اپنے جھوٹے اور غازتگر دینوں کی حمایت وبرتری کے لیے دکھا رہے ہیں۔آپ کی آنکھوں کے سامنے ان لوگوں کی مثالیں موجود ہیں جو سخت سے سخت خطرات، شدید سے شدید نقصانات، جان ومال کے زیاں، ملکوں کی تباہی اور اپنی اولاد اور اپنے عزیزوں اور جگر گوشوں کی قربانی صرف اس لیے گوارا کر رہے ہیں کہ جس طریقِ زندگی کو وہ صحیح سمجھتے ہیں اور جس نظام میں اپنے لیے فلاح کا امکان انہیں نظر آتا ہے اسے نہ صرف اپنے ملک پر بلکہ ساری دنیا پر غالب کر کے چھوڑیں۔ ان کے صبر اور ان کی قربانیوں اور محنتوں اور ان کے تحمل مصائب اور اپنے مقصد کے ساتھ ان کے عشق کا موازنہ آپ اپنے عمل سے کر کے دیکھیے اور محسوس کیجیے کہ آپ اس معاملے میں ا ن کے ساتھ کیا نسبت رکھتے ہیں۔اگر فی الواقع آپ کبھی ان کے مقابلے میں کامیاب ہو سکتے ہیں تو صرف اسی وقت جب کہ ان حیثیات میں آپ ان سے بڑھ جائیں، ورنہ آپ کے مالی ایثار، آپ کے وقت اور محنت کے ایثار، اور اپنے مقصد کے ساتھ آپ کی محبت اور اس کے لیے آپ کی قربانی کا جو حال اس وقت ہے اس کو دیکھتے ہوئے تو آپ یہ حق بھی نہیں رکھتے کہ اپنے دل میں اس تمنا کو پرورش کریں کہ آپ کے ہاتھوں یہ جھنڈا کبھی بلند ہو۔
دُوسری چیز جس کی طرف مجھے آپ کو توجہ دلانے کی بار بار ضرورت محسوس ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ آپ لوگ دین کے اصولی اور بنیادی امور کی اہمیت کو سمجھیں اور فروع کے ساتھ جو اہتما م اب تک کرتے رہے ہیں اور جس اہتمام کی بیماری آپ کے سارے مذہبی ماحول کو لگی ہوئی ہے اس سے بچنے کی کوشش کریں۔میں دیکھتا ہوں کہ میری اور جماعت کے چند دوسرے صاحب علم ونظر رفقاء کی کوششوں کے باوجود ہمار ی جماعت میں ابھی تک ان جزئیات کے ساتھ اچھا خاصہ انہماک بلکہ غلو پایا جاتاہے جن پر ایک مدت سے فرقہ بندیاں اور گروہی کشمکشیںہوتی رہی ہیں، اوریہ کیفیت بسا اوقات اتنی بڑھ جاتی ہے کہ ہماری تفہیم سے اس طریقے کو چھوڑنے کے بجائے ہمارے بعض رفقاء الٹا ہمیں کو ان بحثوں میں اُلجھانے کی کوشش کرتے ہیں وہ کتنی ہی اہمیت رکھتی ہوں مگر بہر حال یہ وہ چیزیں نہیں ہیں جن کو قائم کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبروں کو مبعوث کیا ہو اور اپنی کتابوں کو نازل کیاہو۔انبیاء کی بعثت اورکتب الٰہی کی تنزیل کا مقصد یہ رہا ہے کہ خلق خدا اپنے مالک حقیقی کے سوا کسی کے تابع فرمان نہ رہے ،قانون صرف خدا کا قانون ہو،تقویٰ صرف خدا سے ہو،امر صرف خدا کامانا جائے ،حق اورباطل کافرق اور زندگی میں راہِ راست کی ہدایت صرف وہی مسّلم ہو جسے خدا نے واضح کیا ہے اوردنیا میں ان خرابیوں کا استیصال کیا جائے جواللہ کو نہ پسند ہیں اور ان خیرات وحسنات کو قائم کیا جائے جو اللہ کو محبوب ہیں۔ یہ ہے دین اور اسی کی اقامت ہمارا مقصد ہے اور مسلمان ہونے کی حیثیت سے اسی کام پر ہم مامور ہیں۔ اس کام کی اہمیت اگر آپ پوری طرح محسوس کر لیں اور اگر آپ کو اس بات کا بھی احساس ہو کہ اس کام کے معطل ہو جانے اور باطل نظاموں کے دنیا پر غالب ہو جانے سے دنیا کی موجودہ حالت کس قدر شدت سے غضب الٰہی سے بچنے اور رضائے الٰہی سے سرفراز ہونے کی کوئی صورت اس کے سوا نہیں ہے کہ ہم اپنی تمام قوت خواہ وہ مال کی ہو یا جان کی، دماغ کی ہو یا زبان کی صرف اقامت دین کی سعی میں صرف کر دیں تو آپ تو آپ سے کبھی ان فضول بحثوں اور ان لا یعنی افکار کا صدورنہ ہو سکے جن میں اب تک آپ میں سے بہت سے لوگ مشغول ہیں میرے نزدیک یہ تمام مشاغل صرف اس ایک چیز کا نتیجہ ہیں کہ لوگوںنے ابھی تک اس بات کو پوری طرح سمجھا نہیں ہے کہ دین حقیقت میں کس چیز کا نام ہے اور اس کے واقعی مطالبات اپنے پیروئوں سے کیا ہیں۔
ایک اور خامی جو ہمارے بعض رفقاء میں پائی جاتی ہے اور جو اکثر ہمارے لئے سبب پر یشانی بنتی رہتی ہے وہ یہ ہے کہ یہ حضرات اصول اور نظریئے کی حد تک تو اس جماعت کے مسلک کو سمجھ گئے ہیں لیکن طریق کار کو اچھی طرح نہیں سمجھے اس لئے بار بار ان کی توجہات دُوسری مختلف جماعتوں کے طریقوں کی طرف پھر جاتی ہیں اور وہ کسی نہ کسی طرح کھینچ تان کر کے بطور خود ہمارے نصب العین اور دوسروں کے طریق کار کی ایک معجون مرکب بنانے کی کوشش کرتے ہیں اور جب انہیں اس سے روکا جاتا ہے تو وہ سمجھنے لگتے ہیں کہ ہم خواہ مخواہ ایک اچھے چلتے ہوئے زور اثر طریق کار کو محض اس تعصب کی بنا پر اختیار نہیں کرنا چاہتے کہ وہ ہمارا نہیں بلکہ دوسروں کا ایجاد کردہ طریقہ ہے بعض حضرات نے تو ستم ہی کر دیا کہ جب ہماری طرف سے ان کو ٹوکا گیا تو انہوں نے ہمیں یہ اطمینان دلانے کی کوشش کی کہ نام آپ ہی کالیا جائے گا دوسروں کا نہ لیا جائے گا گویا ان کے نزدیک ہماری ساری تگ و دو صرف اپنا رجسٹرڈ ٹریڈ مارک چلانے کے لئے ہے اور لطف یہ ہے کہ یہ سمجھتے ہوئے بھی وہ ہمارے ساتھ اس جماعت میں شریک ہیں ہماری جماعت کی بعض مقامی شاخیں اس دبا سے خاص طور پر بہت زیادہ متاثر ہوئی ہیں لیکن جہاں تاثر اتنا زیادہ نہیں ہے وہاں بھی مختلف طریقوں سے اس بات کا اظہار ہوتا رہتا ہے کہ کوئی تیز رفتار طریقِ کار اختیار کر کے جلدی سے کچھ چلتا پھرتا کام دنیا کے سامنے پیش کر دیا جائے یہ سب عمل بلا فکر کی اس پرانی بیماری کے نتائج ہیں جو مسلمانوں میں بہت دنوں سے پرورش پا رہی ہے اور فکر بلا عمل سے کچھ کم خطرناک نہیں ہے میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اگر ان مذہبی اور سیاسی تحریکوں میں سے کسی میں بھی فی الواقع کوئی جان ہوتی جو اس وقت مسلمانوں میں چل رہی ہیں تو شاید ہم اس جماعت کی تاسیس میں ابھی کچھ تامل سے کام لیتے اور اپنی پوری قوت ان نسخوں کو آزما لینے میں صرف کر دیتے مگر جو تھوڑی بہت نظر و بصیرت اللہ تعالٰی نے ہمیں عطا کی ہے اس کی بنا پر ہم خوب اچھی طرح یہ سمجھ چکے ہیں کہ وقت کی چلتی ہوئی تحریکوں اور ان کی قیادتوں میں سے ایک بھی مسلمانوں کے مرض کا صحیح علاج نہیں ہے اور نہ اسلام کے اصل منشاء کو پورا کرنے والی ہے محض جزوی طور پر مسلمانوں کے امراض کی نا کافی اور سطحی تشخیص کی گئی ہے اور اسلام کے اصل تقاضوں کا بھی صحیح طور پر ادراک نہیں کیا گیا ہے پھر یہ بھی اچھی طرح نہیں سمجھا گیا کہ کفرو فسق کا یہ غلبہ اور دین کی یہ بے بسی اور مغلوبی جو آج موجود ہے فی الحقیقت کن اسباب کا نتیجہ ہے اور اب اس حالت کو بدلنے کے لئے کس ترتیب و تدریج سے کن کن میدانوں میں کیا کیا کام کرنا ہے ان سب چیزوں کو سوچے اور سمجھے بغیر جو سطحی اور جزئی تحریکیں جاری کی گئیں اور ان کو چلانے کے لئے جو زود اثر اور فی الفور نتیجہ منظر عام پر لے آنے والے طریقے اختیار کئے گئے وہ سب ہمارے نزدیک چاہے غلط نہ ہوں چاہے ان کی مذمت ہم نہ کریں چاہے ان کی اور ان کے پیچھے کام کرنے والے اخلاص کی ہم دل سے قدر کریں مگر ہم ان کو لا حاصل سمجھتے ہیں اور ہمیں پوری طرح یقین ہے کہ اس قسم کی تحریکیں اگر صدیوں تک بھی پوری کامیابی اور ہنگامہ خیزی کے ساتھ چلتی رہی ہیں تب بھی نظام زندگی میں کوئی حقیقی انقلاب رونما نہیں ہو سکتا حقیقی انقلاب اگر کسی تحریک سے رونما ہو سکتا ہے تو وہ صرف ہماری یہ تحریک ہے اور ان کے لئے فطرتاً یہی ایک طریق کار ہے جو ہم نے خوب سوچ سمجھ کر اور اس دین کے مزاج اور اس کی تاریخ کا گہرا جائزہ لے کر اختیار کیا ہے اس میں شک نہیں کہ ہمارا طریق کار نہایت صبر آزما ہے سست رفتار ہے جلدی سے کوئی محسوس نتیجہ اس سے رونما نہیں ہو سکتا اور اس میں برسوں تک لگاتارا یسی محنت کرنی پڑتی ہے جس کے اثرات اور جس کی عملی نمود کو بسا اوقات خود محنت کرنے والا بھی محسوس نہیں کر سکتا لیکن اس راہ میں کامیابی کا راستہ یہی ہے اور اس کے سوا کوئی دوسرا طریق کار اس مقصد کے لئے ممکن نہیں ہے جن لوگوں کو ہمارے مسلک اور طریق کار یا ان دونو ں میں سے کسی ایک پر بھی اطمینان حاصل نہ ہوں ان کے لئے یہ راستہ تو کھلا ہوا ہے کہ جماعت سے باہر جا کر اپنی صوابدید سے جس طرح چاہیں کام کریں لیکن یہ اختیار انہیں کسی طرح نہیں دیا جا سکتا کہ بطور خود وہ ان دونوں میں یا ان میں سے کسی ایک چیز میں جو ترمیم چاہیںکرلیں۔ ہمارے ساتھ جس کو چلنا ہے اسے پورے اطمینان کے ساتھ ہمارے مسلک اور طریق کار کو ٹھیک سمجھ کر چلنا چاہئے اور جو شخص کچھ بھی میلان دوسری تحریکوں اور جماعتوں کی طرف رکھتا ہوا اسے پہلے ان راستوں کو آزما کر دیکھ لینا چاہئے پھر اگر اس کا ذہن اسی فیصلے پر پہنچے جس پر ہم پہنچے ہوئے ہیں تو وہ اطمینانِ قلب کے ساتھ ہمارے ساتھ آجائے۔
سطحیت اور مظاہرہ پسندی اور جلد بازی کی جو کمزوری مسلمانوں میں بالعموم پیدا ہو گئی ہے اس کا ایک ثبوت مجھے حال میں یہ ملا ہے کہ عوام میں تعلیم بالغان کے ذریعے سے کام کرنے کا جو طریقہ چند ماہ پیشتر میں نے پیش کیا تھا اس نے بہت کم لوگوں کو اپیل کیا مگر گروہ بنا بنا کر بستیوں میں گشت لگانے اور فوری نتیجہ دکھانے والے طریق کار کے لئے (خواہ اس کا اثر کتنا ہی ناپائیدار ہو) مختلف مقامات سے ہمارے رفقاء کے تقاضے برابر چلے آرہے ہیں اور کسی فہمائش پر بھی ان کا سلسلہ ٹوٹنے میں نہیں آتا حالانکہ ایک طرف یہ طریق کار ہے کہ ایک سال یا اس سے زیادہ مدت تک ناخواندہ عوام میں سے چند آدمیوں کو پیہم تعلیم و تربیت دے کر پختہ کر لیا جائے اور ان کے عقائد،اخلاق، اعمال ، مقصد زندگی ، معیار قدرو قیمت ، ہر چیز کو پوری طرح بدل ڈالا جائے اور پھر ان کو اپنی جماعت کا مستقل کارکن بنا کر مزدوروں کسانوں اور دوسرے عام طبقوں میں کام کرنے کے لئے استعمال کیا جائے اور دوسری طرف یہ طریق کار ہے کہ ایک قلیل مدت میں ہزار ہا آدمیوں کو بیک وقت چند ابتدائی امور دین کی حد تک مخاطب کیا جائے اور فوری طور پر ان میں ایک حرکت پیدا کر کے چھوڑدیا جائے چاہے دوسرے چکر کے وقت پہلی حرکت کا کوئی اثر ڈھونڈے بھی نہ مل سکے ان دونوں طریقوں میں سے جب میں دیکھتا ہوں کہ لوگ پختہ نتائج پیدا کرنے والے دیر طلب، محنت طلب اور صبر آزما طریقے کو سنتے ہیں اور اس کی طرف کوئی توجہ نہیں کرتے اور دوسرے طریقے کی طرف بار بار دوڑ چلنے کی کوشش کرتے ہیں تو میرے سامنے مسلمانوں کی وہ کمزوریاں بالکل بے نقاب ہو جاتی ہیں جن کی وجہ سے اب تک وہ خام کاریوں ہی میں اپنی قوتیں اور محنتیں اور اپنے مال اور اوقات ضائع کرتے رہے ہیں میں اس سلسلے میں زیادہ سے زیادہ اتنا ہی کہہ سکتا ہوں کہ جب تک اس جماعت کی باگیں میرے ہاتھ میں ہیں میں اپنے رفقاء کو صحیح اور حقیقی نتیجہ خیز کاموں ہی پر لگانے کی کوشش کروں گا اور بے حاصل کوششوں میں جانتے بوجھتے ان کو مشغول نہ ہونے دوں گا۔
اپنی تقریر کو ختم کرنے سے پہلے ایک آخری بات کی طرف میں آپ لوگوں کو توجہ دلانا ضروری سمجھتا ہوں ہمارے حلقہ رفقاء میں ایک اچھا خاصا گروہ ایسا پایا جاتا ہے جس نے تبلیغ و اصلاح کے کام میں تشدد اور سخت گیری کا رنگ اختیار کر لیا ہے جو سوالات ان کی طرف سے اکثر میرے پاس آتے رہتے ہیں ان سے میں ایسا محسوس کرتا ہوں کہ ان کے اندر بگڑے ہوئے لوگوں کو سنوارنے کی بے تابی اتنی زیادہ نہیں ہے جتنی انہیں اپنے سے کاٹ پھینکنے کی بے تابی ہے دینی حرارت نے ان میں ہمدردی اور خیر خواہی کا جذبہ اتنا نہیں ابھار ا جتنا نفرت اور غصے کا جذبہ ابھار دیا ہے اسی وجہ سے وہ اکثر یہ تو پوچھتے ہیں کہ جو لوگ ایسے اور ایسے ہیں ان سے ہم تعلقات کیوں نہ منقطع کر لیں اور ان کے ساتھ نمازیں کیوں پڑھیں اور ان کو کافرو مشرک کیوں نہ کہیں لیکن یہ پوچھنے کا ان کو بہت کم خیال آتا ہے کہ ہم اپنے ان بھٹکے ہوئے بھائیوں کو سیدھی راہ پر کیسے لائیں ان کی غفلت وبے خبری کو کس طرح دور کریں ان کی کجروی کو راست روی سے کیسے بدلیں اور ان کو نور ہدایت سے مستفید ہونے پر کیونکر آمادہ کریں مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جن لوگوں نے اللہ کے فضل سے اور اپنی خوش قسمتی سے حق کو پالیا ہے ان کے اندر اس وجدان حق نے شکر کی بجائے کبر کا جذبہ پیدا کر دیا ہے اور اسی کا اظہار ان شکلوں میں ہو رہا ہے خدانہ کرے کہ میرا یہ گمان صحیح ہو لیکن میں اسے صاف صاف اس لئے بیان کر رہا ہوں کہ ہمارے رفیقوں میں سے ہر شخص پوری خدا ترسی کے ساتھ اپنے نفس کا جائزہ لے کر تحقیق کرنے کی کوشش کرے کہ کہیں شیطان نے یہ مرض تو ان کو نہیں لگا دیا ہے واقعہ یہ ہے کہ بگڑی ہوئی سوسائٹی کے درمیان علم صحیح اور عملِ صالح رکھنے والوں کی مثال ایسی ہے جیسے ایک وبائے عام میں مبتلا ہو جانے والی بستی کے درمیان چند تندرست لوگ موجود ہوں جو کچھ طب کا علم بھی رکھتے ہوں اور کچھ دوائوں کا ذخیرہ بھی ان کے پاس ہو مجھے بتایئے کہ اس وباء ز دہ بستی میں ایسے چند لوگوں کا حقیقی فرض کیا ہے؟ کیا یہ مریضوں سے اور ان کی لگی ہوئی آلائشوں سے نفرت کریں یا انہیں اپنے سے دور بھگائیں اور انہیں چھوڑ کر نکل جانے کی کوشش کریں یا یہ کہ اپنے آپ کو خطرے میں ڈال کر ان کا علاج اور ان کی تیمار داری کرنے کی فکر کریں اور اس سعی میں اگر کچھ نجاستیں ان کے جسم و لباس کو لگ بھی جائیں تو انہیں برداشت کر لیں شاید میں پورے وثوق کے ساتھ یہ دعویٰ کر سکتا ہوں کہ اگر یہ لوگ پہلی صورت اختیار کریں تو خدا کے ہاں الٹے مجرم قرار پائیں گے اور ان کی اپنی تندرستی اور ان کا علم طب سے واقف ہونا اور ان کے پاس دوائوں کا ذخیرہ موجود ہونا نافع ہونے کے بجائے الٹا ان کے جرم کو اور زیادہ سخت بنا دے گا اسی پر آپ قیاس کر لیں کہ جن لوگوں کو دینی تندرستی حاصل ہے اور جو دین کا علم اور اصلاح کے ذرائع بھی رکھتے ہیں ان کے لئے کون سا طریقہ رضائے الٰہی کے مطابق ہے۔
وَاٰخِرُدَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ ھ

شیئر کریں