Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

دیباچۂ طبع اوّل
دیباچۂ طبع ششم
عقل کا فیصلہ
کوتہ نظری
ہدایت و ضلالت کا راز
اسلام ایک علمی و عقلی مذہب
اسلام میں عبادت کا تصور
جہاد فی سبیل اللہ
آزادی کا اسلامی تصوُّر
رواداری
اسلامی قومیت کا حقیقی مفہوم
استدراک
امربالمعروف و نہی عن المنکر
نُزولِ عذاب الٰہی کا قانون
ایک مسیحی بزرگ کے چند اعتراضات
کیا نجات کے لیے صرف کلمۂ توحید کافی ہے؟
کیا رسالت پر ایمان لانا ضروری ہے؟
ایمان بالرّسالت
قرآن پر سب سے بڈا بہتان
نبوت محمدی کا عقلی ثبوت
اتباع اور اطاعت رسول
رسول کی حیثیت شخصی وحیثیت نبوی
رسالت اور اس کے احکام
حدیث اور قرآن
مسلکِ اعتدال
استدراک
حدیث کے متعلق چند سوالات
قرآن اور سنت رسولؐ
ایک حدیث پر اعتراض اور اس کا جواب

تفہیمات (حصہ اول)

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

رسول کی حیثیت شخصی وحیثیت نبوی

اس کتاب کے دو مضامین ’’آزادی کا اسلامی تصور‘‘ اور ’’اتباع و اطاعت رسولؐ ‘‘کا عربی ترجمہ د مشق کے رسالے المسلمون میں شائع ہوا تھا۔ اس پر شام کے اہل علم حضرات نے مصنف کو توجہ دلائی کہ ان دونوں مضامین میں کچھ تعارض محسوس ہوتا ہے جسے رفع کرنے کی ضرورت ہے۔ نیز د مشق کے ایک صاحب نے مقدم الذکر مضمون پر حسب ذیل اعتراض بھی کیا:
’’کیا محمد علیہ الصلوٰۃ و السلام باعتبار انسان ہمارے اندر ایک عام فرد کی حیثیت رکھتے ہیں؟ اور باعتبار انسان ان کے اندر بھی ایسی ذاتی خواہشات پائی جاتی ہیں جن کی بنا پر وہ لوگوں پر اپنی ذاتی عظمت کا سکہ جمائیں اور اپنے شخصی اقتدار کے پنجے میں جکڑیں؟ اگر یہ صورت ہے تو آپ کا بحیثیت نبی معصوم ہونا اور بحیثیت انسان محفوظ ہونا چہ معنی دارد؟ آپ کی اس زندگی کی تفصیلات کیا فائدہ رکھتی ہیں جب کہ آپ محض انسان تھے اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو منصب نبوت پر سرفراز نہیں فرمایا تھا؟ اور کیا رسول ہونے کے بعد آپ کی یہ حیثیتیں حیثیت بشری اور حیثیت نبوی یکجا ہوگئی ہیں یا الگ الگ ہیں؟ اور کیا ان دونوں حیثیتوں کو ایک دوسرے سے جدا کیا جاسکتا ہے؟ تاکہ محمد الرسول کی اطاعت کی جائے اور محمد الانسان کی مخالفت میں ہم آزاد ہوں؟ کیا اس تفریق کے لیے کوئی قاعدہ کلیہ بھی موجود ہے جس کی روشنی میں ہم آپ کے انسانی کلام … جس سے اختلاف کا ہمیں حق ہے… اور نبوی کلام… جو واجب الاطاعت ہے… کے درمیان خط امتیاز کھینچ سکیں؟
کیا نبی کی ذاتی رائے سے اختلاف کرنے میں کوئی چیز مانع نہیں ہے؟ کیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کے اندر یہ روح پھونکتے تھے کہ بحیثیت انسان آپ کی اطاعت واجب نہیں ہے، بلکہ اپنی ذاتی رائے سے اختلاف کرنے میں ان کی ہمت افزائی کرتے تھے؟ نیز کیا یہ درست ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسی حجت اور دلیل کی بنا پر آپ سے بحیثیت انسان اختلاف کیا تھا… ؟‘‘
ذیل کا مضمون انھی اعتراضات کے جواب میں لکھا گیا تھا:
المسلمون جلد ششم ، شمارہ ۶،۷ اور ۸ میں میرے جو مضامین ’’آزادی کا اسلامی تصور‘‘ اور ’’اتباع و اطاعت رسول‘‘ کے عنوان سے شائع ہوئے ہیں، ان کے متعلق مجھے توجہ دلائی گئی ہے کہ ان میں تناقض محسوس ہوتا ہے، جسے رفع کرنے کی ضرورت ہے۔ یعنی پہلے مضمون میں تو کہا گیا ہے کہ نبی کی حیثیت شخصی اور حیثیت نبوی الگ الگ ہیں اور اسلام کی دعوت صرف حیثیت نبوی کی اطاعت کی طرف ہے نہ کہ حیثیت شخصی کی اطاعت کی طرف۔ لیکن دوسرے مضمون میں اس بات سے انکار کیا گیا ہے کہ نبی کی یہ دو حیثیتیں الگ الگ ہیں اور پورے اصرار کے ساتھ کہا گیا ہے کہ نبی کی ایک ہی حیثیت تھی اور وہ تھی صرف نبی ہونے کی حیثیت۔ ان دونوں باتوں میں توفیق و تطبیق کی کیا صورت ہے‘ علاوہ بریں میرے پہلے مضمون ’’آزادی کا اسلامی تصور‘‘ پر دمشق سے ایک صاحب نے کچھ سوالات کیے ہیں، جو المسلمون کے شمارہ۷ میں درج ہوئے ہیں۔
یہ دونو ں اعتراضات چونکہ ایک دوسرے سے قریبی تعلق رکھتے ہیں، اس لیے ایک ہی مختصر مضمون میں ان کا جواب دے رہا ہوں:
دراصل اس مسئلے کے دو پہلو ہیں۔ ایک نظری، اس اعتبار سے کہ حقیقت نفس الامری کیا ہے؟ دوسرے عملی، اس لحاظ سے کہ جہاں تک نبی کی ذات سے ہدایت اخذ کرنے کا تعلق ہے، آیا وہ ہمارے لیے پورا کا پورا نبی اور صرف نبی ہے یا ہم اس کی شخصیت کو دو حصوں میں تقسیم کرکے صرف اس کی حیثیت نبوی کا اتباع اور اسی کی اطاعت کریں گے اور حیثیت شخصی کو چھوڑ دیں گے؟
اب پہلے نظری پہلو کو لیجیے۔ قرآن مجید اس معاملے میں بالکل واضح ہے کہ انبیا علیہم السلام کی حیثیت شخصی اور حیثیت نبوی میں فرق ہے۔ وہ انسانوں کو اپنا بندہ بنانے کے لیے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا بندہ بنانے کے لیے بھیجے جاتے ہیں مَا کَانَ لِبَشَرٍ اَنْ یُّوْتِیَہُ اللّٰہُ الْکِتٰبَ وَالْحُکْمَ وَالنَّبوَّۃَ ثُمَّ یَقُوْلُ لِلنَّاسِ کُوْنُوْا عِبَادًا لِیّ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ وَلٰکِنْ کُوْنُوْا رَبَّا نِیِّیْنَ، آل عمران79:3 کسی انسان کا یہ کام نہیں ہے کہ اللہ تو اس کو کتاب اور حکم اور نبوت عطا فرمائے اور وہ لوگوں سے کہے کہ اللہ کے بجائے تم میرے بندے بن جائو۔ وہ تو یہی کہے گا کہ سچے ربانی بنو۔
ان کے سپرد دو فریضے ایک ساتھ کیے جاتے تھے۔ ایک یہ کہ لوگوں کو ہر غیر اللہ کی بندگی سے نکالیں، جس میں دوسری سب مخلوقات کے ساتھ ان کی اپنی ذات بھی شامل تھی۔ دوسرے یہ کہ ان کو صرف ایک اللہ کی بندگی میں داخل کریں۔
وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِيْ كُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللہَ وَاجْتَـنِبُوا الطَّاغُوْتَ۝۰ۚ النحل36:16
ہم نے ہر قوم میں ایک رسول بھیجا (یہ پیغام دے کر)کہ اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے الگ رہو۔
قُلْ يٰٓاَھْلَ الْكِتٰبِ تَعَالَوْا اِلٰى كَلِمَۃٍ سَوَاۗءٍؚبَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ اَلَّا نَعْبُدَ اِلَّا اللہَ وَلَا نُشْرِكَ بِہٖ شَـيْـــًٔـا وَّلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللہِ۝۰ۭ آل عمران64:3
اے نبی کہو کہ اے اہل کتاب! آئو ایک ایسی بات کی طرف جو ہمارے اور تمھارے درمیان یکساں ہے یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کریں، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں اور ہم میں سے کوئی اللہ کے سوا کسی کو اپنا رب نہ بنا لے۔
دین میں ان کی بے چون و چرا اطاعت کا جو حکم دیا گیا، وہ ان کے ذاتی استحقاق کی بنا پر نہیں بلکہ صرف اس بنا پر تھا کہ رسول ہی وہ شخص ہے جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر اپنی مرضی ظاہر فرماتا اور اپنے احکام بھیجتا ہے۔ اسی وجہ سے رسول کی اطاعت عین اللہ کی اطاعت قرار دی گئی ہے۔
وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِيُطَاعَ بِـاِذْنِ اللہِ۝۰ۭ النساء 64:4
ہم نے جو رسول بھی بھیجا ہے اسی لیے بھیجا ہے کہ اللہ کے اذن سے اس کی اطاعت کی جائے۔
اور مَنْ يُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللہَ۝۰ۚ النساء 80:4
جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی۔
اس کے ساتھ یہ امر بھی قرآن اور بکثرت احادیث سے ثابت ہے کہ جو بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کے حکم سے نہیں بلکہ اپنی رائے سے کی یا کہی ہے اس میں بے چون و چرا اطاعت کا وہ مطالبہ آپ نے کبھی نہیں کیا جو امر الٰہی کے تحت کوئی کام کرنے یا کوئی بات کہنے کی صورت میں کیا ہے۔ اس کی بہت سی مثالیں میں نے اپنے مضمون’’ آزادی کا اسلامی تصور‘‘ میں پیش کی ہیں۔ خصوصاً حضرت زید کا حضورؐ کے منع فرمانے کے باوجود سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کو طلاق دینا اور اللہ اور اس کے رسول کا ان پر کوئی نکیر نہ کرنا تو اس کی صریح مثال ہے، جس کی کوئی توجیہ اس کے سوا نہیں کی جاسکتی جو میں نے اپنے اس مضمون میں کی ہے۔ اور تابیر نخل والے معاملے میں خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس مسئلے کو بالفاظ صریح فرما چکے ہیں۔
اِنَّمَا اَنَا بَشَرٌ اِذَاَ اَمَرْ تُکُمْ بِشَیٔئٍ مِنْ دِیْنْکُمْ فَخُذُوْا بِہٖ وَاِذَا اَمَرْتُکُمْ بِشَیٍٔ مِّنْ رَّأیٖیٔ فَاِنَّمَا اَنَا بَشَرٌ… اِنَّمَا ظَننْتُ ظَنًّا فَلاَ تُوأٰخِذُوْنِیْ بِالظّٰنِّ وَلٰکِنْ اِذَا حَدَّ ثْتُکُمْ مِنَّ اللّٰہِ شَیْئًا فَخُذُوْا بِہٖ فَاِنّیْ لَمْ اَکْذِبْ عَلَی اللّٰہ… اَنْتُمْ اَعْلَمْ بِاَمْرِ دُیْنَکُمْ (صحیح مسلم، کِتَابُ الْفَضَائِل، بَابُ وُجُوْبِ اِمْتِثَالِ مَا قَالَہٗ شَرْعًا دُوْنَ مَا ذَکَرَہٗ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ مَّعَایِشِ الدُّیْنَا عَلیٰ سَبِیْلِ الرَّایِٔ)
میں بھی ایک انسان ہی ہوں، جب میں تم کو تمھارے دین کے متعلق کوئی حکم دوں تو اسے مانو اور جب میں اپنی رائے سے کچھ کہوں، تو بس میں بھی ایک انسان ہی ہوں… میں نے اندازے سے ایک بات کہی تھی۔ تم میری ان باتوں کو نہ لو، جو گمان اور رائے پر مبنی ہوں۔ ہاں جب میں خدا کی طرف سے کچھ بیان کروں تو اس کو لے لو، اس لیے کہ میں نے خدا پر کبھی جھوٹ نہیں باندھا… تمھیں اپنے دنیوی معاملات کا زیادہ علم ہے۔
یہ تو ہے نظری اور اصولی فرق۔ اب اس کے عملی پہلو کو لیجیے:
دراصل یہ ایک بڑا نازک اور پیچیدہ معاملہ تھا کہ ایک بشر کو اللہ تعالیٰ اپنا واحد نمایندہ بنا کر انسانوں کے درمیان اس دوہری خدمت پر مامور فرمائے کہ ایک طرف تو وہ بشر اپنے ابنائے نوع کواپنی شخصیت سمیت تمام مخلوقات کی بندگی سے آزاد کرے اور خود اس آزادی کی انھیں تربیت دے، اور دوسری طرف وہی بشر ان سے اللہ کی مکمل، بے چون و چرا اطاعت کرائے اور اس اطاعت کا مرجع بھی تمام عملی اغراض کے لیے اس بشر کی اپنی ہی ذات من حیث الرسول ہو۔ یہ دو متضاد کام ایک ہی شخصیت کو بیک وقت کرنے تھے اور ان کے حدود ایک دوسرے کے ساتھ اتنے گتھے ہوئے تھے کہ خود اللہ اور اس کے رسول کے سوا کوئی دوسرا ان کے درمیان خط امتیاز نہ کھینچ سکتا تھا۔
اس معاملے کی نزاکت اور پیچیدگی اور بڑھ جاتی ہے جب ہم تین باتوں پر غور کرتے ہیں۔
اوّل یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جس وقت احکام الٰہی کے تحت اپنی اطاعت کراتے تھے اس وقت تو ظاہر ہی ہے کہ آپ ایک وظیفۂ رسالت انجام دیتے تھے، مگر جس وقت آپ اپنے انتہائی اطاعت گزار متبعین کو خود اپنی ذات کی ذہنی غلامی سے آزاد کرکے حریت فکر و رائے کی تربیت دیتے تھے، جب آپ ان کواپنی شخصی آرا کے مقابلے میں اختلاف کی ہمت دلا کر تمام انسانوں کے سامنے استقلالِ فکر برتنا سکھاتے تھے، اور جب آپ اپنی حیثیت شخصی اور حیثیت نبوی میں خود ایک خط امتیاز کھینچ کر بتاتے تھے کہ یہاں تم آزاد ہو اور یہاں تمھارے لیے سمع و طاعت کے سوا چارہ نہیں ہے، اس وقت بھی دراصل آپ وظیفۂ رسالت ہی کا ایک حصہ ادا فرماتے تھے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں پہنچ کر ہمارے لیے آپ کی حیثیت شخصی اور حیثیت نبوی کے فرق کوسمجھنا اورعملاً ان دونوں حیثیتوں میں فرق کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ یہاں یہ دونوں حیثیتیں ایک دوسرے سے اس طرح ملی جلی نظر آتی ہیں کہ ان کے درمیان صرف نظری فرق رہ جاتا ہے، عملاً اپنی شخصی حیثیت میں بھی کام کرتے وقت آپ نبوت ہی کا ایک کام کرتے پائے جاتے ہیں۔
ثانیاً، جو معاملات بظاہر بالکل شخصی معاملات ہیں، مثلاً ایک انسان کا کھانا پینا، کپڑے پہننا، نکاح کرنا، بیوی بچوں کے ساتھ رہنا، گھر کاکام کاج کرنا، غسل اور طہارت اوررفع حاجت وغیرہ، وہ بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں خالص نجی نوعیت کے معاملات نہیں ہیں، بلکہ انھی میں شرعی حدود اور طریقوں اور آداب کی تعلیم بھی ساتھ ساتھ شامل ہے اور آدمی کے لیے خود یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوتا ہے کہ ان میں کہاں حیثیت رسالت ختم ہوتی ہے اور حیثیت شخصی شروع ہو جاتی ہے۔
ثالثاً، قرآن مجید ہمیں بتاتا ہے کہ نبی کی ذات بحیثیت مجموعی ایک اُسوہ ہے جس کا ہر پہلو اور ہر رُخ ہمیں ہدایت کی روشنی دیتا ہے اور اس ذات کا کوئی فعل اور قول بھی ہوائے نفس یا ضلالت و غوایت سے ذرّہ برابر بھی آلودہ نہیں ہے۔
لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيْ رَسُوْلِ اللہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ الاحزاب21:33
تمھارے لیے اللہ کے رسول میں بہترین اُسوہ ہے۔
يٰٓاَيُّہَا النَّبِيُّ اِنَّآ اَرْسَلْنٰكَ شَاہِدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِيْرًاo وَّدَاعِيًا اِلَى اللہِ بِـاِذْنِہٖ وَسِرَاجًا مُّنِيْرًاo الاحزاب45-46:33
اے نبی ہم نے تمھیں (لوگوں کے لیے) گواہ اور بشارت دینے والا اور ڈرانے والا اور اللہ کے اذن سے اللہ کی طرف بلانے والا اور ایک روشن چراغ بنایا ہے۔
مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَمَا غَوٰىo وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْہَوٰىo اِنْ ہُوَاِلَّا وَحْيٌ يُّوْحٰىo
النجم 2-4:53
ان وجوہ سے نہ توعملاً ہمارے لیے یہ ممکن ہے اور نہ شرعاً ہم اس کے مجاز ہیں کہ بطور خود نبی کی حیثیت شخصی اور حیثیت نبوی میں فرق کریں اور آپ ہی آپ اس کے حدود متعین کرلیں، اور خود ہی یہ بھی طے کرلیں کہ فلاں امور آپ کی حیثیت نبوی کے تحت تھے جن میں ہم آپ کی اطاعت کریں گے اور فلاں شخصی حیثیت میں تھے، جن میں ہم آپ کی اتباع اور اطاعت سے آزاد ہیں۔ اس فرق کے معلوم ہونے کا ذریعہ یا تو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی تصریح ہوسکتی ہے، یا پھر وہ اصول شریعت جو آپ ہی کی دی ہوئی تعلیمات سے مستنبط ہوں۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اس کی بہت سی مثالیں ملتی ہیں کہ صحابہ کرام اپنی ذاتی رائے ظاہر کرنے سے پہلے آپ سے دریافت کرلیتے تھے کہ آپ کا ارشاد یا عمل حکم الٰہی کی بنا پر ہے یا اپنی ذاتی رائے پر، اور جب معلوم ہو جاتا تھا کہ وہ آپ کی ذاتی رائے سے ہے، تب وہ اپنی بات عرض کرتے تھے۔ چنانچہ غزوۂ بدر میں حضرت حباب بن المنذر نے اپنی رائے پیش کرنے سے پہلے پوچھ لیا کہ اس مقام کا انتخاب وحی کے ذریعے سے کیا گیا ہے جس سے آگے بڑھنا یا پیچھے ہٹنا ہمارے لیے جائز نہیں ہے، یا یہ محض ایک تدبیر جنگ کے طور پر ہے؟ اسی طرح غزوۂ خندق میں حضرت سعد بن معاذ نے بنی غطفان سے صلح کی تجویز پر اظہار رائے کرنے سے پہلے دریافت کرلیا ’’اے اللہ کے رسول! کیا یہ ارادہ وحی کی بنا پر فرمایا گیا ہے کہ اس میں ہمارے لیے مجال کلام نہیں ہے، یا حضور صرف اپنی رائے سے ایسا کرنا چاہتے ہیں؟‘‘
اور بعض اوقات نبی صلی اللہ علیہ وسلم خود ہی یہ ظاہر فرما دیتے تھے کہ فلاں بات آپ اللہ کی طرف سے ایک حکم دینی کے طور پر نہیں فرما رہے ہیں بلکہ اپنی شخصی رائے ظاہر فرما رہے ہیں، جیسا کہ اوپر تابیر نخل کے معاملے میں حضورؐ کے ارشادات گزر چکے ہیں۔
اور بعض اوقات معاملے کی نوعیت ہی ایسی ہوتی تھی جس سے خود بخود یہ ظاہر ہوتا تھا کہ حضورؐ کا ارشاد اپنی شخصی حیثیت میں ہے۔ مثلاً حضرت زیدؓ سے آپؐ کا فرمانا کہ اَمْسِكْ عَلَيْكَ زَوْجَكَ وَاتَّقِ اللہَ الاحزاب37:33 ’’اپنی بیوی کوطلاق نہ دو اور، اللہ سے ڈرو‘‘ اس ارشاد کے متعلق یہ بات ظاہر تھی کہ یہ ایک مومن کو نبی کا حکم شرعی نہیں ہے بلکہ ایک خاندان کے فرد کو بزرگِ خاندان کا مشورہ ہے۔ اسی وجہ سے حضرت زیدؓ نے حضورؐ کے ارشاد کے باوجود حضرت زینبؓ کو طلاق دی اور اللہ اور اس کے رسول کے اس پر کوئی نکیر نہ کرنے سے یہ ثابت ہوگیا کہ حضرت زیدؓ نے آپ کے فرمان کی نوعیت ٹھیک مشخص کی تھی۔
یہ تو وہ مثالیں ہیں جو حضورؐ کی حیات طیبہ میں پیش آئی تھیں۔ ان کے علاوہ متعدد معاملات ایسے ہیں جن میں اب بھی اصول شریعت کی روشنی میں اس فرق کو معلوم کیا جاسکتا ہے۔ مثلاً حضورؐ کے لباس اور آپؐ کے کھانے کے معاملے کو لیجیے۔ اس کا ایک پہلو تو یہ تھا کہ آپ ایک خاص وضع اور قطع کا لباس پہنتے تھے جو عرب میں اس وقت پہنا جاتا تھا اور جس کے انتخاب میں آپ کے شخصی ذوق کا دخل بھی تھا۔ اسی طرح آپ وہی کھانے کھاتے تھے جیسے آپ کے عہد میں اہل عرب کے گھروں میں پکتے تھے اور ان کے انتخاب میں بھی آپ کے اپنے ذوق کا دخل ہوتا تھا۔ دوسرا یہ پہلو تھا کہ اسی کھانے اور پہننے میں آپ اپنے عمل اور قول سے شریعت کے حدود اور اسلامی آداب کی تعلیم دیتے تھے۔ اب یہ بات خود حضورؐ ہی کے سکھائے ہوئے اصول شریعت سے ہم کو معلوم ہوتی ہے کہ ان میں سے پہلی چیز آپ کی شخصی حیثیت سے تعلق رکھتی تھی۔ اور دوسری چیز حیثیت نبویہ سے، اس لیے کہ شریعت نے جس کی تعلیم دینے کے لیے آپ اللہ کی طرف سے مامور کیے گئے تھے، انسانی زندگی کے اس معاملے کو اپنے دائرے میں نہیں لیا ہے کہ لوگ اپنے لباس کس تراش خراش اور وضع قطع پر سلوائیں، اور اپنے کھانے کس طرح پکائیں، البتہ اس نے یہ چیز اپنے دائرۂ عمل میں لی ہے کہ کھانے اور پہننے کے معاملے میں حرام اور حلال، جائز اور ناجائز کے حدود معین کرلے اور لوگوں کو ان آداب کی تعلیم دے جو اہل ایمان کے اخلاق و تہذیب سے مناسبت رکھتے ہیں۔
یہ فرق خواہ ہم کو حضورؐ کی تصریح سے معلوم ہو یا آپ کے سکھائے ہوئے اصول شریعت سے، بہرحال اس کے علم کا ذریعہ نبی کی تعلیم ہی ہے۔ گویا ہم آپ کی حیثیت شخصیہ کے کام کو متعین کرنے کے لیے بھی آپ کی حیثیت نبویہ ہی کی طرف رجوع کریں گے۔ حیثیت شخصیہ سے براہ راست ہمارا کوئی معاملہ نہیں ہے جو آپ کی حیثیت نبویہ کو نظر انداز کرکے ہم کرسکتے ہوں۔ یہی وہ چیز ہے جس پر میں نے اپنے دوسرے مضمون ’’اتباع و اطاعت رسول‘‘ میں منکرین سنت کو متنبہ کیا ہے۔ ان کی بنیادی غلطی یہ ہے کہ وہ محمد بن عبداللہ باعتبار رسول اور محمد بن عبداللہ بااعتبار انسان میں خود تفرق کرکے ان دونوں حیثیتوں کے کاموں میں ایک خط امتیاز کھینچ دیتے ہیں اور آپ کی زندگی کے جس دائرے کو وہ خود آپ کی حیثیت رسالت سے الگ سمجھ بیٹھے ہیں، اس کے اتباع و اطاعت سے خود ہی انھوں نے آزادی اختیار کرلی ہے۔ حالانکہ حضورؐ کی شخصی اور نبوی حیثیتوں میں حقیقت کے اعتبار سے جو بھی فرق ہے وہ عنداللہ و عند الرسول ہے اور ہمیں اس سے صرف اس لیے آگاہ کیا گیا ہے کہ ہم کہیں عقیدے کی گمراہی میں مبتلا ہو کر محمد بن عبداللہ کو اللہ کے بجائے مطاع حقیقی نہ سمجھ بیٹھیں۔ لیکن امت کے لیے تو عملاً آپ کی ایک ہی حیثیت ہے اور وہ ہے رسول ہونے کی حیثیت، حتیٰ کہ محمد بن عبداللہ کے مقابلے میں اگر ہم کو آزادی حاصل بھی ہوتی ہے، تووہ محمد رسول اللہ کے عطا کرنے سے ہوتی ہے اور محمد رسول اللہ ہی اس کے حدود متعین کرتے ہیں اور اس آزادی کے استعمال کی تربیت بھی ہم کو محمد رسول اللہ ہی نے دی ہے۔
ان توضیحات کے بعد اگر میرے دونوں مضمونوں کو ملاحظہ کیا جائے تو کوئی غلط فہمی باقی نہیں رہ سکتی۔ (ترجمان القرآن۔ دسمبر ۱۹۵۹ئ)

شیئر کریں