Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

اسلامی نظامِ تعلیم
قدیم نظامِ تعلیم
جدید نظامِ تعلیم
ایک انقلابی قدم کی ضرورت
مقصد کا تعین
دین ودنیا کی تفریق مٹا دی جائے
تشکیلِ سیرت
عملی نقشہ
ابتدائی تعلیم
ثانوی تعلیم
اعلیٰ تعلیم
اختصاصی تعلیم
لازمی تدابیر
عورتوں کی تعلیم
رسم الخط
انگریزی کا مقام

اسلامی نظامِ تعلیم

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

رسم الخط

ہمارے ملک میں یہ عجیب صورت حال ہے کہ ایک طرف تو قومی اتحاد کی ضرورت کا بار بار اظہار کیا جاتا ہے اور دوسری طرف طے شدہ مسائل کو نئے سرے سے نزاعی بنانے پر ہی پر اکتفا نہیں کیا جاتا بلکہ ایسے ایسے نزاعی مسائل بھی پیدا کیے جاتے ہیں جن کے متعلق کبھی یہ تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا کہ ان کے بارے میں بھی ہمارے ہاں کوئی اختلاف موجود ہے۔ اسی قبیل سے یہ جدید مبحث ہے جو اردو اور بنگالی کے لیے رومن رسم الخط اختیار کرنے کے سلسلے میں چھیڑ دیا گیا ہے۔
جہاں تک بنگالی زبان کا تعلق ہے میرے لیے اس کے متعلق کچھ کہنا مشکل ہے۔ اس بارے میں اہل بنگال ہی کچھ کہہ سکتے ہیں۔ مگر یہ واقعہ ہے کہ اہل بنگال پچھلی صدی تک عربی رسم الخط میں ہی بنگلہ زبان لکھتے رہے، کتابیں تصنیف کرتے رہے اور اسی رسم الخط سے مانوس رہے۔ یہ دراصل انگریزوں اور ہندوئوں کا ساز باز تھا۔ جس نے عربی رسم الخط کی جگہ ہندو رسم الخط بنگالی میں رائج کرایا۔ ان کی پالیسی یہ تھی کہ مسلمانوں کو ان کی تاریخ اور ان کے مذہبی لٹریچر سے بیگانہ کیا جائے اور ان کو ہندوئوں کے زیر اثر لایا جائے۔ اس غرض کے لیے انہوں نے ابتدائی مدارس کے قیام کے لیے سرکاری امداد (گرانٹ) دینے میں یہ شرط عاید کی کہ یہ امداد صرف اسی گائوں کے پرائمری اسکول کو دی جائے گی جو عربی رسم الخط پڑھانے والا مکتب بند کر دے گا۔ اسی طرح بنگالہ زبان کا موجودہ رسم الخط مسلمانوں پر زبردستی ٹھونسا گیا اور مشرقی پاکستان کے مسلمان تقریباً ایک صدی تک اس ظلم کا شکار رہنے کے بعد اب اس رسم الخط سے اس قدر مانوس ہو چکے ہیں کہ شاید وہ مشکل ہی سے اس کی تبدیلی پر راضی ہو سکیں۔ تاہم اس معاملے میں کچھ کہنا کسی غیر بنگالی کے لیے مناسب نہیں۔ یہ فیصلہ کرنا ہمارے بنگالی بھائیوں ہی کا کام ہے کہ وہ کس رسم الخط کو پسند کرتے ہیں۔
جہاں تک اردو کا تعلق ہے اس کا رسم الخط اگر عربی میں تبدیل کیا جائے تو چنداں قابل اعتراض نہیں ہے۔ نئے ٹائپ کو ترقی دے کر اس حد تک موزوں بنایا جا سکتا ہے کہ اردو پڑھنے والے جلدی اور بآسانی اس سے مانوس ہو جائیں۔ لیکن رومن رسم الخط اختیار کرنا ممکن ہے کہ ہماری فوج والوں کے لیے قابل قبول ہو کیونکہ انگریزی حکومت اسے پہلے ہی ان کو اس سے مانوس کر چکی ہے، مگر ہماری قوم کے لیے متعدد حیثیات سے ایک نہایت مہلک قدم ہے جس کے نتائج بہت دور رس ہوں گے۔
اس کا پہلا نتیجہ تو یہ ہو گا کہ ہمارا آج تک کا اردو لٹریچر ہماری نئی نسلوں کے لیے بالکل بے کار ہو جائے گا۔ یا تو ہمیں بے شمار دولت اور محنت اور وقت صَرف کر کے اپنے بزرگوں کی ساری میراث کو جو اردو، فارسی اور عربی زبانوں میں ہے۔ رومن رسم الخط میں از سرِ نو چھاپنا پڑے گا، یا پھر ہماری نئی نسلیں اپنے ماضی سے بالکل بیگانہ ہو کر ایک دُم کٹی قوم کی حیثیت سے اٹھیں گی جن کی کوئی روایات نہ ہوں گی، جن کی کوئی تہذیب نہ ہو گی، جن کے پاس کوئی قابلِ فخر چیز نہیں ہو گی جس کی طرف وہ پلٹ کر دیکھیں۔ اس طرح ہم اپنے صدیوں کے سرمایہ علم وتہذیب سے عاری ہو کر بالکل نو دولتے بن کر رہ جائیں گے۔ یہ بُرے نتائج ٹرکی دیکھ چکا ہے۔ ٹرکی قوم کے علماء اور اہل قلم نے صدہا برس کی محنتوں سے جو علمی ذخیرہ چھوڑا تھا وہ آج ان لائبریریوں میں آثار قدیمہ کے طور پر پڑا ہوا ہے اور نئی نسلوں کے لیے اس کا سمجھنا اور اس سے فائدہ اٹھانا تو درکنار اسے پڑھنا بھی ممکن نہیں رہا ہے۔ قریب کے زمانے میں جب وہاں مذہبی تعلیم کی ضرورت از سر نو محسوس کی گئی اور اماموں اور خطیبوں کی تیاری کے لیے مدارس قائم کیے گئے تو ترک نوجوانوں کو پرانی ترکی زبان جو ۳۰،۳۵ سال پہلے تک ملک میں رائج تھی بالکل ایک غیر ملکی زبان کی طرح از سرِ نو سیکھنی پڑی۔ یہ تجربہ آخر ہمارے ملک میں دہرانے کی کیا حاجت ہے؟ جو قوم ابھی غلامی سے آزاد ہونے کے بعد ایک مدت دراز تک نئے تعمیری کام کرنے کی محتاج ہے آخر اس کو اس وقت اس تجربے کا کیوں تختۂ مشق بنایا جائے؟
اس کا دوسرا عظیم الشان نقصان یہ ہو گا کہ ہماری علمی ترقی کی رفتار یک لخت رک جائے گی اور رسم الخط کی کشمکش میں اچھا خاصا زمانہ صرف ہو جائے گا۔ ہمارے باشندے نسلاً بعد نسل ایک رسم الخط سے مانوس چلے آ رہے ہیں۔ یہ کسی طر ح ممکن نہ ہو گا کہ حکومت ایک حکم دے دے اور بس وہ یکایک نئے رسم الخط کے عادی ہو جائیں۔ ایک مدت تک وہ نئے رسم الخط سے مانوس نہیں ہوں گے اور پرانا رسم الخط جس سے وہ مانوس ہیں خواہ مخواہ زبردستی متروک بن جائے گا اور اور اس طرح جو وقت تعلیم اور خواندگی کی ترقی میں صَرف ہونا چاہیے محض ایک رسم الخط کی فضول کشمکش میں ضائع ہو گا۔ نئے لوگوں کو خواندہ بنانے کے بجائے یہ حرکت کرکے تو ہم پڑھے، لکھے لوگوں کو بھی ایک مدت کے لیے اَن پڑھ بنا دیں گے۔ ہمارے اہل قلم اور مصنفین بھی کئی سال تک کوئی علمی کام نہ کر سکیں گے کیونکہ نئے رسم الخط پر اس قدر قدرت حاصل کرنے میں انہیں کئی برس لگیں گے کہ وہ اس میں روانی کے ساتھ لکھ سکیں۔
اس کا تیسرا نقصان یہ ہے کہ ہم اپنے گردوپیش سے بیگانہ ہو جائیں گے۔ انڈونیشیا اور افغانستان سے لے کر مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ اور الغرب کی عام مسلمان قومیں عربی رسم الخط میں لکھتی پڑھتی ہیں۔ ہمارا اردو رسم الخط ان کے لیے ایک مانوس اور معروف رسم الخط ہے جس کی وجہ سے ہمارا اور ان کا تہذیبی رشتہ بہت مضبوط رہتا ہے۔ رومن رسم الخط اختیار کرنے سے ہم ان کے لیے اسی طرح اجنبی ہو جائیں گے جس طرح سے ترک ہو گئے ہیں۔ ترکوں نے رومن رسم الخط اختیار کرکے ہمسایہ مسلمان قوموں سے اپنا رشتہ کمزور کر لیا اور مغربی قوموں سے ان کا رشتہ نہ جڑ سکا۔ تاہم ان کا کوئی جغرافیائی اتصال تو مغربی قوموں سے ہے۔ مگر ہم مسلمان قوموں میں رہتے ہوئے جب رومن رسم الخط اختیار کریں گے تو ہماری حیثیت مغربی آبادکاروں کے ایک جزیرے کی سی ہو کر رہ جائے گی۔
ان نقصانات کے مقابلہ میں آخر کیا فوائد ہیں جو رومن رسم الخط اختیار کرنے میں نظر آتے ہیں کہ ان کی خاطر ان نقصانات کو انگیز کر لیا جائے؟ اگر صرف یہ مقصود ہے کہ بنگلہ اور اردو دونوں ایک رسم الخط ہو جائے تو یہ عربی رسم الخط اختیار کرنے سے اچھی طرح حاصل ہو سکتا ہے۔ کیونکہ مشرقی پاکستان کے مسلمانوں کو قرآن کی خاطر یہ رسم الخط تو بہرحال سیکھنا ہی پڑتا ہے۔ اگر طباعت کی آسانیوں کی خاطر اس کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے تو یہ مقصد بھی خط نسخ سے بآسانی حاصل ہو سکتا ہے۔ ایران، مصر، شام وغیرہ میں خط نسخ کی طباعت انتہائی ترقی پر پہنچ چکی ہے اور کوئی وجہ نہیں کہ ہمارے ہاں وہ کامیاب نہ ہو سکے۔ اس کے ماسوا اگر کوئی فوائد ہیں تو وہ سامنے لائے جائیں‘ ورنہ بہتر ہے کہ یہ بحث لپیٹ کر رکھ دی جائے۔ میں یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ اگر ملک میں کوئی استصوابِ عام کرایا جائے تو اردو خواں لوگوں کی آبادی میں ایک فی ہزار بھی مشکل سے ملیں گے جو رومن رسم الخط کے حق میں رائے دیں۔ یہ تبدیلی عوام کی مرضی سے کبھی نہیں ہو سکتی۔ ہاں زبردستی کی جا سکتی ہے جواپنے اچھے اثرات کبھی نہیں چھوڑ کر جا سکتی۔

شیئر کریں